امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں موجود سنت کو اور امام مالکؒ نے مدینہ میں موجود سنت کو اور امام شافعیؒ نے مکہ میں موجود سنت کو مدون کرنے کا کام انجام دیا اور یہی وجہ ہے کہ سند سے قطع نظر امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں رائج ابن مسعودؓ کے تشہد کو اور امام مالکؒ نے مدینہ میں موجود حضرت عمرؓ کے تشہد کو اور امام شافعیؒ نے مکہ میں معروف ابن عباسؓ کے تشہد کو اختیار کیا ، حالانکہ سندی حیثیت سے ان میں قوی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کاتشہد ہے ۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ اسلامی ہدایات اور تعلیمات محض حدیث کی معروف کتابوں سے ثابت ہوتی ہیں ، جن میں زیادہ تعداد ’’خبر واحد‘‘ کی ہے بلکہ یہ تعلیمات زیادہ تر سنت اور عمل تواتر سے ثابت ہیں، مکہ ، کوفہ اور مدینہ کے ہزاروں لوگوں نے سیکڑوں صحابہ کرامؓ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور پھراماموں کے دور میں اسے مرتب انداز میں کتابوں کے سفینے میں محفوظ کردیا گیا ۔
سنت اور عملی تواتر کی وجہ سے حدیث کو قبول نہ کرنا
جیسا کہ گزر چکا ہے کہ اگر کوئی حدیث سنت کے خلاف ہوتی تو امام مالکؒ اور دوسر ے فقہا ءؒ اور محدثینؒ اسے قبول نہ کرتے بلکہ اس کے بالمقابل سنت پر عمل کو ترجیح دیتے اور انہوں نے اس طریقے کو صحابہ کرامؓ سے سیکھاتھا اور سنت کی اسی اہمیت کے پیش نظر امام ترمذیؒ حدیث نقل کرنے کے بعد یہ ضرور لکھتے ہیں کہ اس کے مطابق فلاں فلاں کا عمل ہے ، بلکہ و ہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میری اس کتاب میں صرف دوحدیث ایسی ہیںجن پر کسی کا عمل نہیں ہے ، ایک کسی عذر کے بغیر گھر پہ رہتے ہوئے دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کی حدیث اور دوسری شرابی کو چوتھی مرتبہ قتل کردینے کی حدیث ۔ اورامام ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ ایک شافعی فقیہ کبھی کبھی امام شافعیؒ کے مسلک کے خلاف فتویٰ دے دیا کرتے تھے او ر جب ان پراعتراض ہوتا تو کہتے کہ حدیث پر عمل کرنا امام شافعیؒ کے فتوے پر عمل کرنے سے بہتر ہے ، علامہ ذہبی ان پر نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جس حدیث کو انہوںنے اختیار کیا ہے اسے امام ابوحنیفہؒ اور شافعیؒ جیسے دوسرے اماموں نے قبول کیا ہو ، مثلاً امام مالکؒ ، سفیانؓ یااوزاعیؒ وغیرہ اور وہ حدیث ثابت اور کسی علت سے محفوظ ہو اور امام ابوحنیفہؒ و شافعیؒ کی دلیل کوئی صحیح حدیث نہ ہو جو اس کے برخلاف ہو ، لیکن اگر کوئی ایسی صحیح حدیث کو اختیارکرتا ہے جسے تما م ائمہ اجتہاد نے رد کردیاہو تو یہ درست نہیں ہے ، جیسے وہ حدیث جس میں کہاگیا ہے کہ اگر کوئی چوتھی بار شراب پینے میں پکڑا جائے تو اسے قتل کردو ،اور جیسے وہ حدیث جس میں کہاگیاہے کہ اللہ اس چور پر لعنت کرے جو انڈا چور ی کرتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیاجا تا ہے‘‘ ۔( سیراعلام النبلاء:۱۶/۴۰۴،دوسری حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے ۔)
غرضیکہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کے باوجود سلف یہ دیکھتے تھے کہ صحابہؓ و تابعینؒ کا اس پر عمل ہے یا نہیں ؟ اگر عمل نہیں ہے تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ حدیث منسوخ ہے یا راوی کے فہم کا قصور ہے ، ابن ابی زید قیروانی نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ العمل اثبت (عمل حدیث سے زیادہ مضبو ط اور قوی ہے ) اور بہت سے تابعین کے بارے میں انہوں نے لکھاہے کہ ان کے پاس دوسروں کے ذریعے سے کوئی حدیث پہنچتی تو کہتے کہ ہمیں بھی ان حدیثوں کا علم ہے لیکن اس پر عمل نہیں رہا ۔ (الجامع لابن ابی زید القیروانی:۱۱۷۔)
عمل کی وجہ سے ضعیف حدیث کی تقویت
بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ مسلم سماج کاحصہ رہی ہیں بلکہ اس سے مسلمانوں کی شناخت وابستہ ہے ، لیکن جب اس سے متعلق حدیث تلاش کی جاتی ہے تو وہ ضعیف ہوتی ہے یا سر ے سے کوئی حدیث ہی نہیں ہوتی ہے ، جیسے بیٹھ کر پیشاب کرنے ، عیدین کے موقع پر غسل کرنے ، نوزائیدہ بچے کے کان میںاذان دینے وغیرہ سے متعلق احادیث صحیح نہیں ہیںاور پیشاب کے بعد پانی یا ڈھیلا استعمال کر نے اور مردے کو قبر میں قبلہ رخ لٹانے سے متعلق سرے سے کوئی حدیث نہیں ۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوںکے بارے میں یہ کہہ کرانکارنہیں کیا جاسکتا کہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں کیونکہ صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میںکسی عمل کا رائج ہونا خود ایک قوی دلیل ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی سند کی ضرورت نہیں ، علامہ ابن قیم ایک ضعیف حدیث پر کلا م کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’یہ حدیث اگرچہ ثابت نہیں ہے لیکن تمام شہروں اور زمانوں میں کسی نکیر کے بغیر تسلسل کے ساتھ اس پر عمل اس کے لائق عمل ہونے کے لیے کافی ہے ‘‘۔ (التحفۃ المرضیۃ مع الاجوبۃ الفاضلۃ:۲۳۲۔)
اور علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں :
’’مقبول حدیث وہ ہے جسے علماء نے قبول کیا ہو اگر چہ اس کی کوئی صحیح سند موجود نہ ہو ‘‘۔(التحفۃ المرضیۃ :۲۲۹۔)
اور ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں :
’’بہت سے اہل علم نے صراحت کی ہے کہ اہل علم کا کسی حدیث کاقائل ہونا اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ، گرچہ اس کی کوئی قابل اعتماد سند موجود نہ ہو ‘‘۔ (حوالہ مذکور:۲۲۹۔)
جنازہ کو قبرمیں قبلہ رخ لٹانے کے متعلق علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے زمانے سے لے کر آج تک اسی کے مطابق مسلمانوں کا عمل رہا ہے ،(احکام الجنائزللالبانی :۱۹۲۔) اور علامہ شوکانیؒکہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں یہ ایسا معروف و مشہور ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔(السیل الجرار:۱/۳۶۲۔)
سند کی ضرورت کب؟
حقیقت تو یہ ہے کہ سند کی ضرورت اس لیے تھی کہ جو چیز دین میں شامل نہیں ہے اسے حدیثوں کے نام سے دین میں شامل نہ کیاجائے اور سند اس لیے نہیں ہے کہ جس چیز کا دین ہونا یقینی ہواسے سند کے ذریعہ سے خارج کر دیاجائے ، علامہ کشمیریؒ نے بجاطور پر لکھا ہے کہ :
’’جان لو کہ سندوں کی مضبوطی سے دھوکہ کھانے اور تعامل کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ، حالانکہ سند توصرف دین کی حفاظت کے لیے تھی کہ جو چیز دین میں داخل نہیں ہے وہ دین میں شامل نہ ہونے پائے لیکن لوگ ان سندوں ہی کو پکڑے رہے یہاں تک کہ ان کے نزدیک تعامل کی اہمیت گھٹ گئی ، حالانکہ میرے نزدیک وہی فیصلہ کن چیز ہے ‘‘۔(فیض الباری:۲/۲۶۸۔)
عام طور پر مشہوریہ ہے کہ ضعیف حدیث ناقابل عمل ہوتی ہے مگر جامع ترمذی کا پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ امام ترمذیؒ ایک حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن پھر خود ہی لکھتے ہیں کہ اس کے مطابق فلاں فلاں کا عمل ہے ، جیسے وہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں :
’’جوکوئی کسی عذر کے بغیر دونمازوں کوایک ساتھ پڑھتا ہے تووہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے‘‘ ۔
پھر کہتے ہیںکہ یہ حدیث محققین کے نزدیک ضعیف ہے ،امام احمد وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیاہے مگر اسی کے مطابق اہل علم کا عمل ہے کہ عرفہ یا سفر کے علاوہ دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں ، مشہور محدث حسین بن محسن یمانی سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوںنے اس کا بڑا تفصیلی جواب دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ ضابطہ یہی ہے کہ احکام میں صرف صحیح یاحسن حدیث ہی قبول کی جائے گی لیکن یہ ضابطہ اس وقت ہے جب کہ اسے مقبولیت حاصل نہ ہو اور اگر کسی ضعیف حدیث پر عمل ہوتو وہ حجت ہے ، چنانچہ علامہ ابراہیم شبرخیتی کہتے ہیں :
’’احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہ کیے جانے کی بات اس وقت ہے جب کہ لوگوں نے اسے قبول نہ کیاہواو ر اگر لوگوں نے اسے قبول کرلیا ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور وہ ایک ایسی دلیل ہوجائے گی جس پر احکام اور دوسرے معاملے میں عمل کیاجائے گا جیسا کہ امام شافعی نے کہا ہے ‘‘۔ (التحفۃ المرضیۃ:۲۳۳۔)
حافظ سخاوی لکھتے ہیں :
’’جب امت کسی حدیث کوقبول کرلے تو صحیح قول کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس معاملے میں متواتر کا درجہ اختیارکر لیتی ہے کہ اس کے ذریعہ کسی قطعی حکم کومنسوخ کیا جاسکتا ہے ، اسی لیے امام شافعی نے کہا کہ حدیث لاوصیۃ لوارث محدثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے لیکن اسے قبول عام حاصل ہے اور اس پر عمل کیاگیا ہے یہاں تک کہ اسے آیت وصیت کے لیے ناسخ قرار دیا گیا ہے ‘‘ ۔(حوالہ مذکور:۲۳۲۔)
ضعیف احادیث
صورت حال یہ ہے کہ بعض حدیثوں میں کہا گیا ہے کہ پانی پاک ہے ، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کر سکتی ، الا یہ کہ ناپاکی کے پڑنے کی وجہ سے اس کا رنگ ، بو ، مزا بدل جائے ، محدثین کی نگاہ میں یہ حدیث ضعیف ہے لیکن تمام لوگوںکا عمل اسی کے مطابق ہے ،’’لکنہ قول العامۃ لا اعلم بنیھم خلافا ‘‘۔ (حوالہ مذکور:۲۳۱۔)اور ایک حدیث میں ہے کہ اگر روزہ دار کو خود بخود قے ہوجائے تو اس پر قضا نہیں ہے اور اگر بالارادہ کرے تو اس پر قضا ہے ، امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں ہے ، (فتح الباری:۴/۱۵۲۔) یہی رائے امام ترمذیؒ کی بھی ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے ۔ (التحفۃ المرضیۃ:۲۳۴۔)
علامہ ابن منذرؒ کہتے ہیں کہ نکاح میں گواہ بنانے سے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ہے لیکن امام ترمذیؒ کہتے ہیںکہ نبی ﷺ کے صحابہؓ اور تابعینؒ میں سے اہل علم اسی کے قائل ہیں ۔(فقہ السنۃ:۲/۱۶۹۔)
حدیث میں ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے قصاص نہیں لے سکتا ، ’’لا یقید الابن من ابیہ‘‘ امام ترمذیؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیںکہ اس کی سند صحیح نہیں ہے ، لیکن اہل علم کا عمل اسی پر ہے ، اس لیے اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو قصاص میںاسے قتل نہیں کیاجائے گا ۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوگا ، ’’القاتل لا یرث‘‘اس کے متعلق بھی امام ترمذی کہتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں ہے اور اس سند کے علاوہ کسی اور سند سے معلوم بھی نہیں ہے لیکن اہل علم کا عمل اسی پر ہے ۔(التحفۃ المرضیۃ:۲۳۶۔)
واضح رہے کہ وراثت اور قصاص سے متعلق آیت روایت بالکل عام ہے جس کا تقاضاہے کہ قاتل کو بھی وراثت میں حصہ ملے اور باپ کو بھی بیٹے کے قتل میں بطور قصاص قتل کر دیاجائے لیکن اس کے باوجود سنت اور عمل کی بنیاد پر عموم میں تخصیص کر دی گئی ہے اور اس کی وجہ سے ضعیف حدیث میں بھی قوت آگئی ہے ۔ علامہ حسین بن محسن یمانیؒ نے اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ذکر کی ہیں ، تفصیل کے طالب مذکورہ کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور جامع ترمذی وغیرہ سے تو اس سلسلے کی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔
سنتوں میں اختلاف
کیا ایک ہی معاملہ میں مختلف اور متعدد سنتیں ہوسکتی ہیں ، علامہ نوویؒ نماز کے ایک مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’نبی ﷺ کی نماز میں مختلف حالتیں ہواکرتی تھیں، کبھی آپ ایک طریقے پر عمل کرتے اور کبھی دوسرا طریقہ اختیار کرتے ، جیسے کہ آپ ﷺ کبھی لمبی قرأت کرتے اور کبھی مختصر اور کبھی آپؐ نے وضو میں اعضاکو ایک ایک مرتبہ دھلااور کبھی دو اور تین مرتبہ اور کبھی آپؐ نے پید ل طواف کیا او ر کبھی سواری پر ، وتر کی نماز آپؐ نے کبھی رات کے شرو ع میں پڑھی اور کبھی درمیا ن میں اور کبھی رات کے آخری حصے میں ‘‘۔(المجموع:۳/۴۳۹۔)
حقیقت یہ ہے کہ امت کی سہولت کے لیے جس طرح سے قرآن مجید کے مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی گئی اور قرأتوں میں یہ اختلاف تواتر کے ذریعے ثابت ہے ، اسی طرح سے دیگر احکام میں بھی تنوع اور تعدد کی رعایت رکھی گئی تاکہ امت دشواری میں مبتلا نہ ہو اور اگر کسی معاملے کی روح اور مقصد کے اہتمام کے ساتھ اس کی ظاہری شکل و صورت میں کچھ اختلاف ہو تو وہ نقصان دہ نہیں بلکہ مطلوب ہے ۔
جس طرح اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں صحابہ کرامؓ مختلف انداز کے ساتھ قرآن پڑھا کرتے تھے ، لیکن آپؐ کے بعد بعض علاقوں میں ایک خاص قرأت رواج پاگئی اور دوسری قرأتوں سے لوگ ناواقف اور نامانوس ہوگئے ، بالکل اسی طرح سے سنتوں کے سلسلے میں بھی ہوا کہ بعض علاقوں میں بعض سنتیں مروج ہوگئی ہیں جیسے کہ مدینہ میں تشہد کے جن الفاظ کا رواج ہوا وہ اس سے قدرے مختلف ہے جو مکہ میں رائج تھا اور ان دونوں سے بھی الگ تشہد پڑھنے کا معمول کوفہ میں تھا ، علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
’’کوئی اذان میں ترجیع کرے یا نہ کرے ، اقامت کے الفاظ کو ایک مرتبہ کہے یا دو مرتبہ ، سب ٹھیک ہے اور سنت کے مطابق ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ ترجیع ضروری ہے یا مکروہ ہے تو وہ غلطی پر ہے ، اسی طرح سے جو یہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ اقامت کہنا مکروہ ہے یا دو مرتبہ کہنا مکروہ ہے ، تو وہ غلط کہتا ہے ، رہا یہ کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنا تو یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے اور ایسے ہی ہے جیسے کسی خاص قرأت اور کسی خاص تشہد کو اختیارکرنا ‘‘۔(الفتاوی الکبریٰ:۲/۱۲۸۔)
حاصل یہ ہے کہ فقہاء مجتہدین کے مسلک کی عمارت سنت اور عملی تواتر کی بنیاد پر قائم ہے ، انہوںنے اپنے اپنے علاقوں میں موجود معروف و مشہور سنتوںکو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے ’’خبر واحد‘‘ کے ذریعے ان کے کسی نقطہ نظر کی تائید ہوجاتی ہے تو یہ اس کے حسن میں اضافے کا سبب ہوگا اور اگر کسی حدیث سے اس کی تائیدنہیں ہوتی ہے تو اسے بلادلیل اور غلط کہنا درست نہیں ، اور اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ انہوں نے بہت سے مسائل میں رائے اور قیاس پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے ، لیکن ان مسائل کی تعداد عبادات ، حدود اور وراثت وغیرہ میں نہ ہونے کے برابر ہے ، البتہ معاملات اور معاشرت میں اس کی مثالیںکثرت سے مل سکتی ہیں ، کیونکہ ان سے متعلق آیات و روایات کی تعداد بہت کم ہے اور خود شریعت کا مقصود ہے کہ ان میں وسعت رکھی جائے تاکہ قیامت تک باقی رہنے والے اور ہر عہد اور ماحول کے مسائل کا حل پیش کرنے والے دین میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے ۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018