قوموں اور سماجی گروہوں کی تمکین و ترقی میں ایک اہم کردار معاشی قوت کا بھی ہوتا ہے۔ ہم اس سے پہلے یہ واضح کر چکے ہیں کہ انسانی گروہوں کی ترقی اور ان کے امپاورمنٹ میں سب سے اہم اور کلیدی کردار ان کے فکر و نظریے، مقصد کے شعور اور مقصد سے وابستگی کا ہوتا ہے۔ اس کو نظر انداز کرکے تعلیم، معیشت یا سیاست میں ترقی ہی کو اصل امپاورمنٹ سمجھ لینے سے وہ کبھی ترقی نہیں کرتے۔ لیکن تعلیمی، معاشی، سیاسی و سماجی تمکین کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ شرط یہ ہے کہ مقصد و نصب العین کو نظر انداز نہ کیا جائے اور ان محاذوں پر تمکین و ترقی کی کوششوں کو بھی مقصد و نصب العین کے تابع رکھا جائے۔
تمکین و ترقی اور معاشی قوت
علم کی طرح (جس پر گذشتہ شمارے میں گفتگو کی گئی تھی) قوموں کی طاقت و قوت اور اثر انگیزی میں ان کی اقتصادی ترقی کی اہمیت کو بھی اسلام کے کلاسیکی لٹریچر میں ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے۔ دنیا سے بے رغبتی کے بارے میں اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کے سلسلے میں جو ہدایات، نصوص میں اور اسلامی لٹریچر میں ملتی ہیں اُن سے بعض حلقوں نے یہ غلط فہمی ضرور پیدا کی ہے کہ معاشی ترقی کی تگ و دو کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ انسان کو بس اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی فکر کرنی چاہیے اور بنیادی ضرورتیں پوری ہوجائیں تو ان پر قانع رہنا چاہیے۔ ان تصورات کا فروغ، دورِ زوال میں اس وقت ہوا جب اسلام کی انقلابی سوچ کی جگہ غالی صوفیانہ افکار نے لینی شروع کی۔ ہم آگےاس سلسلے میں صحیح اسلامی تصور کی وضاحت کریں گے۔
اسلامی عمرانیات کا سب سے اہم نام ابن خلدون ؒ کا ہے۔ ابن خلدون کے افکار سے اس سیریز میں ہم کثرت سے استفادے کی کوشش کررہے ہیں۔ ابن خلدونؒ کے یہاں یہ تصور بہت واضح ہے کہ قوموں اور انسانی گروہوں کی نیز تہذیبوں کی ترقی میں معاشی سرگرمی اور اقتصادی محاذ پر ان کی کام یابیوں کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ ابن خلدون ؒ کے ‘سیاسی حکمت کے اصولوں’[ کلمات حکمیۃ سیاسیۃ ] کا حوالہ ہم اس سلسلہ مضامین میں اس سے پہلے دے چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوموں کی طاقت و قوت عوام (الرجال) سے وابستہ ہوتی ہے۔ عوام کی طاقت کےظہور پذیر ہونے کے لیے ان کی معاشی آسودگی (المال) ضروری ہے اور اس کے لیے معاشی سرگرمی اور ڈیولپمنٹ (العمارہ)ناگزیر ہے۔ [1]ابن خلدون نے اپنے زمانے کے اس عام خیال کی تردید کی کہ معاشی قوت یا دولت اصلاً سونا چاندی کے ذخیروں کا نام ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ سونا چاندی محض مبادلے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہے۔ اصل معاشی قوت صنعت، تجارت اور زراعت کے میدانوں میں کیا جانے والا پیداواری عمل ہے یا جدید اصطلاح میں ویلیو ایڈیشن (value addition) اصل معاشی قوت ہے۔ [2] مقدمہ ابن خلدون کی پہلی جلد کی پانچویں فصل معاشی امور کو تفصیل سے زیر بحث لاتی ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے تفصیل سے تمدنی ترقی اور معاشی و اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق کو واضح کیا ہے۔ [3]
امام غزالیؒ کو ایک صوفی اور ترک دنیا کا حامی سمجھا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے احیا ءعلوم الدین میں ایک پورا سیکشن (کتاب) اسی عنوان پر باندھا ہے۔ ‘کتاب آداب الکسب والمعاش’[4]۔ اس سیکشن کا پہلا باب ہے‘فی فضل الکسب والحث علیہ’ (کمانے کے فضائل اور اس کی ترغیب)[5]۔
معاشی ترقی کے موضوع پر قریبی زمانے میں سب سے گراں قدر اور وسیع کام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ہے۔ شاہ صاحب کےشہرہ آفاق ارتفاقات کے تصور میں معاشی ترقی کی کلیدی اہمیت ہے۔ شاہ صاحب حکمتِ معاش کو ارتفاقِ ثانی کا دوسرا اہم مرحلہ قرار دیتے ہیں [6]جس کے بغیر ارتفاقِ ثالث یعنی سیاسی قوت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ترک دنیا کے حامیوں کے خیالات پر نقد کرتے ہوئے شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:
“اچھی طرح جان لو کہ ارتفاق ثانی ( معاشی ترقی) اور ارتفاق ثالث (سیاسی قوت کا حصول) کا ضائع کرنا ہر گز اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث نہیں ہے۔ انبیا میں سے کسی نے بھی اس کی تعلیم نہیں دی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی تعلیم تو ارتفاقات کی درستی اور ان کو اعتدال پر لانے کی تعلیم ہے۔ یعنی ارتفاقات کو نہ تو (ایک انتہا پر جاکر)شاہان عجم کی طرح عیش و عشرت کی حالت پر پہنچایا جائے اور نہ (دوسری انتہا پر جاکر) پہاڑوں کی چوٹیوں میں رہنے والوں (غیر متمدن قبائل) کی حالت تک لے جایا جائے جو وحشی جانوروں سے مشابہ ہیں”[7]
شاہ صاحب کے نزدیک معاشی ترقی کی اتنی اہمیت ہے کہ وہ سماج کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں کہ وہ صنعت کے لیے ترغیب کا ماحول پیدا کرے، پختہ صنعتوں کے فروغ کے لیے ضروری تدابیر کرے اور وسائل فراہم کرے۔وہ تاجروں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرے اور باہر سے آنے والے تاجروں کا استقبال کرے اور ان کی خدمت کرے۔[8]
معاشی قوت: جدید تصورات
جدید تصورات میں بھی قوموں اور انسانی گروہوں کی اثر انگیزی اور سماجی قوت میں ان کی اقتصادی حالت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ گذشتہ ماہ الوین ٹافلر کا حوالہ ہم دے چکے ہیں کہ اس کے نزدیک معاشی قوت، علمی قوت کے بعد دوسری بڑی اور اہم ترین قوت ہے۔ [9]
جدیدیت کے اہم نظریہ سازوں میں شمار ہونے والے انگریز فلسفی،تھامس ہابس (Thomas Hobbes 1588-1679) نے طاقت کی تعریف ہی یہ بیان کی تھی کہ “طاقت انسان کے وہ موجودہ وسائل ہیں جن سے مستقبل کی مفید چیزوں کا حصول ممکن ہوسکے۔”[10]۔حالیہ دنوں میں ایک تصور’ضد طاقت‘ Counterpower بہت مشہور ہوا۔ ‘ضد طاقت’کا مطلب انسانی گروہوں اور فرقوں کی وہ طاقت ہے جو دیگر طاقتور گروہوں اور حکومتوں کی طاقت کے مقابلے میں توازن پیدا کرتی ہے اور ان کی جانب سے زیادتیوں کی روک تھام کو یقینی بناتی ہے۔ ماہرین سیاسیات یہ مانتے ہیں کہ کوئی گروہ اگر ناانصافیوں یا ظلم و زیادتی کا شکار بن رہا ہے تو اس کا اصل سبب اس کے اندر ضد طاقت کی عدم موجودگی ہے۔[11]
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
ضد طاقت کن چیزوں سے مل کر بنتی ہے؟ ضد طاقت کی تین بڑی قسمیں ہیں۔ جسمانی ضد طاقت (Physical Counterpower)جس کا محل بعض مخصوص صورتیں ہوتی ہیں، نظریاتی ضد طاقت (Idea Counterpower)اور معاشی ضد طاقت (Economic Counterpower)[12)۔
معاشی قوت، انسانی گروہوں کو موجود وسائل پر کنٹرول عطا کرتی ہے اور نئے وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ معاشی قوت کے نتیجے میں روزگار پیدا کرنے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ سماج کے لیے نافع بن جاتے ہیں اور ‹دینے› کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ معاشی قوت، ان کی قوت مساومت (Bargaining Power) بڑھادیتی ہے۔ وہ باقی سماج سے بہتر سہولیات حاصل کرنے اور اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں۔اس طرح معاشی قوت مجموعی طور پر سماجی و سیاسی اثر و رسوخ بڑھاتی ہے۔ [13]
عالمی سطح پر اس وقت معاشی طاقتوں کا اثر و رسوخ غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ متعدد مطالعات سے یہ ثابت ہے کہ حکومتوں کی پالیسیاں اور سماج کا مجموعی رخ متعین کرنے میں بزنس اور مالیہ کی طاقت بڑا اہم اور فیصلہ کن رول ادا کررہی ہے۔ یہ طاقت اس وقت ساری دنیا میں نہایت منفی طریقے سے مفادات حاصلہ کے لیے استعمال ہورہی ہے جس کے نتیجے میں دولت کا ارتکاز تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دنیا میں فتنہ و فساد کا سبب بن رہا ہے۔ [14]
معاشی قوت کی اہمیت واضح کرنے کے لیے، عالمی سطح پر چین اور جاپان کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جاپان فوجی لحاظ سے نہ صرف یہ کہ کوئی طاقتور ملک نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں ایک دوسرے ملک (امریکہ) پر منحصر ہے لیکن معاشی قوت کی وجہ سے وہ عالمی سطح پر غیر معمولی اثر و رسوخ کا مالک ہے۔ اس وقت چین کی طاقت کا اصل راز بھی معاشی قوت ہے۔ [15]
فرقوں اور اقلیتوں کی قوت و تمکین اور ان کے اثر و رسوخ کے سلسلے میں، ہمارے یہاں امریکی یہودیوں کی مثال کا کافی چلن رہاہے۔ امریکی یہودی، نہ صرف امریکہ کی بلکہ عالمی تجارت پر غیر معمولی تسلط کے حامل ہیں۔ دنیا کے دو سو امیر ترین لوگوں میں 38یہودی ہیں۔ امریکہ کے سو امیر ترین تاجروں میں 30یہودی ہیں۔ [16]یہ دولت مند یہودی مختلف رفاہی منصوبوں کو مال فراہم کرتے ہیں۔ لابی انگ تنظیموں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ میڈیا پر تسلط رکھتے ہیں۔ اور اپنی معاشی قوت کے ذریعے امریکہ کی سیاست اور اس کی پالیسیوں کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ [17]
مسلمانان ہند کی صورت حال
اس جائزے سے مسلمانان ہند کی کم زوری کا ایک اہم سبب معلوم ہوتا ہے۔ ان کی معاشی پسماندگی نہ صرف ان کی کم زوری کا بلکہ ان کی موجودہ ستم پذیری (vulnerability)کا بھی ایک اہم سبب ہے۔سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی معاشی صورت حال سے متعلق تفصیلی اعداد و شمار فراہم کیے تھے۔ حالیہ متعدد رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سچر کی رپورٹ کے بعدکوئی بہتری نہیں آئی ہے۔
نیشنل فیملی سروے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی بیس فیصد خوشحال ترین آبادی (top quintile) میں مسلمانوں کا تناسب قومی تناسب سے کافی کم ہے۔ ان کی آبادی باقی چار نچلے زمروں میں منقسم ہے۔اور مڈل کلاس میں (Fourth Quintile) ان کا تناسب قومی تناسب سے زیادہ ہے۔ [18] لیبر فورس سروے کے مطابق مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح قومی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ [19]روزگار اور نفع بخش کاموں میں شمولیت کی شرح (Work Participation Rate)تمام مذہبی گروپوں میں سب سے کم مسلمانوں میں ہے۔ مسلمانوں کی شرح (33.5%)ہندوؤں کی شرح (40.5%)کے مقابلے میں 7 فیصد کم ہے[20]۔مسلمانوں کا تناسب باقاعدہ تنخواہ دار ملازمین میں بھی دیگر مذہبی گروہوں سے کم ہے اور ذاتی کاروبار کرنے والوں (self employed)میں بھی کم ہے۔ البتہ بے قاعدہ مزدوروں (casual labourers) میں ان کا تناسب دیگر مذہبی گروہوں سے زیادہ ہے۔ [21] اکنامک ٹائمس کے چند سال پرانے سروے کے مطابق 100 بڑی کمپنیوں میں سینیر پوزیشن پر مسلمانوں کا تناسب محض 2.6 فیصد ہے۔ [22]
تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ صورت حال موجودہ سیاسی احوال میں خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ گیلوپ کے ایک سروے کے مطابق،2016 کے بعد سے مسلمان اپنی معاشی حالت تیزی سے گرتی ہوئی محسوس کررہے ہیں۔ 2016 میں اُن مسلمانوں کا تناسب جو یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کا معیار زندگی اور معاشی حالت زوال پذیر ہے، محض چھ فیصد تھا جو 2021 میں بڑھ کر 51 فیصد ہوگیا ہے جب کہ ہندوؤں میں یہ تناسب دس فیصد تھا جو اب 39 فیصد ہوگیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی پسماندگی کا فرق بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔[23]
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کی معاشی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ معاشی ترقی اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کی اہم ترجیح ہے۔ جو زور اور توجہ تعلیم کے فروغ پر دی جانی چاہیے، ویسی ہی توجہ معاشی ترقی پر بھی دینے کی ضرورت ہے۔
مقصد و نصب العین اور معاشی ترقی
اس سلسلہ مضامین میں ہم یہ بات واضح کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی کسی بھی میدان میں ترقی اس بات سے گہرائی کے ساتھ وابستہ ہے کہ ان کے اندر اپنے مقصدِ حیات کا شعور پیدا ہو اور اُن کی اسٹریٹجک سمت (strategic direction)، اُن کے معتقدات سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارے خیال میں مقصد و نصب العین کی یہ مرکزی اہمیت معاشی ترقی کے معاملے میں بھی ہے۔ اگر خیر امت کی حیثیت اورامر بالعروف و نہی عن المنکر اور قیام عدل و قسط کا مقصد و نصب العین، امت کے حواس پر چھا جائے تو معاشی جدوجہد، معاشی ترقی اور تجارتی و اقتصادی ادارے بھی محض دنیا طلبی کے ذرائع نہیں رہیں گے بلکہ ایک مقدس مقصد و مشن کا حصہ بن جائیں گے۔ مقصد و مشن، اقتصادی ترقی کے لیے طاقتور محرک بھی فراہم کرتا ہے اور معاشی جدوجہد کا رخ اور سمت بھی درست کرتا ہے۔اور یہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جو مسلمانوں کی معاشی ترقی کی کوشش کو مادہ پرستانہ اور خود غرضانہ معاشی جدوجہد سے ممیز کرتا ہے۔
رویہ شناس معاشیات (behavioural economics)اس وقت علم معاشیات کی ایک اہم شاخ بن کر ابھر رہی ہے۔ علم معاشیات، علم نفسیات، علم الاعصاب (neurology)وغیرہ کے امتزاج سے ابھرنے والے اس علم میں لوگوں کے معاشی رویوں کا نفسیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے اور اُن نفسیاتی عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے جو لوگوں کے معاشی فیصلوں اور اُن کی معاشی ترقی یا تنزل کا سبب بنتے ہیں۔ جدید مغربی معاشیات نے جومعاشی نفسیات تشکیل دی ہے اُس کے اہم عناصر انفرادیت پسندی (individualism)اور زیادہ سے زیادہ خوشی کا حصول (maximisation of pleasure)ہیں۔ اسے لذتیت یا لذت پرستی (hedonism)کی نفسیات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نفسیات اسلام کے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔اسلامی روایات میں دولت اور عیش پرستی کی جو مذمت آئی ہے وہ اصلاً اس لذتیت (hedonism)ہی کی مذمت ہے۔قر آنی اصطلاح “ترف ”یا “اتراف”[24]کے معنی مفسرین نے عیش و عشرت میں فراخی اور آسودہ حالی اور کثرت تعیشات کی وجہ سے پیدا ہرنے والی بدمستی بیان کیے ہیں۔[25]اسے نہ صرف یہ کہ ترقی کا محرک نہیں سمجھا گیا بلکہ زوال کے اسباب میں شامل کیا گیا ہے۔وَ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَاۤ اُتْرِفُوْا فِیْهِ وَ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۔ “جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا وہ اسی عیش میں پڑے رہے جس میں وہ تھے اور وہ مجرم تھے”۔ [ہود 116] لذتیت کی ہمت شکنی کرتے ہوئے اسلام نے معاشی سوچ کی ری فریمنگ (reframing)کی ہے اور حصول دولت کو اعلی مقاصد کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ حصول دولت اور افزائش مال کی ترغیب بھی دی ہے اور تعیش پسندی، بخل، مال سے بے جا محبت، اور مال کی محبت میں بلند تر مقاصد حیات سے غفلت کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی ہے۔
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: “اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو تی، اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔”[26]اس حدیث میں مال کو ایک پسندیدہ نعمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مال حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کو بھی پسند کیا گیا ہے لیکن یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مال حاصل کیا جائے لیکن اس کا فیاضانہ استعمال انسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جائے۔ ایک اور صحیح حدیث میں آپؐ نے اس شخص کی کیفیت کو سب سے افضل قرار دیا ہے جسے مال بھی ملا اور (مال کے درست استعمال کا شعور اور) علم بھی عطا ہوا اور وہ خدا ترسی سے اور صلہ رحمی و حقوق کی ادایگی کے ساتھ مال خرچ کرتا رہا۔ ( رزقَه اللَّهُ مَالًا وعلماً فهوَ یتَّقِی فِیهِ رَبَّهُ وَیصِلُ رَحِمَهُ وَیعْمَلُ لِلَّهِ فِیهِ بِحَقِّهِ فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ)۔[27]
اس طرح،قرآن و حدیث اور اسلامی روایات میں مال کے مقصد کا واضح تصور پایا جاتا ہے۔ یہ مقصد صاحب مال کی سوچ کو انفرادیت پسندی اور لذتیت سے اوپر اٹھا تا ہے۔ مال صرف صاحبِ مال کی ذات کا نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک فرد کا عیش و آرام نہیں ہے۔ بلکہ ہر انسان کے مال کے بلند تر، تمدنی، تہذیبی، سماجی و رفاہی بلکہ دینی مقاصد بھی ہیں۔ اس لیے اس کی حفاظت اور نمو ہونی چاہیےاور اسے مفید بنانے سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔حفظِ مال کو اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا گیا ہے[28]۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خاص طور پر مال کی حفاظت اور اس کے سلسلے میں ذمہ دارانہ رویے کا حکم دیا ہے۔ وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا (اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو، البتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انھیں نیک ہدایت کرو)۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
“مال کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے اس وجہ سے اس کے اندر انفرادی حق کے ساتھ خاندانی اور اجتماعی بہبود کا بھی ایک پہلو ہے۔ اس پہلو سے اس کی بربادی میں ایک ہی کا نقصان نہیں ہے بلکہ پورے خاندان اور بالآخر پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ یہ چیز مقتضی ہے کہ کوئی ایسی شکل اختیار نہ کی جائے جو کسی مال کی بربادی کا باعث ہو۔”[29]
اللہ تعالیٰ نے مال کو خلافت کے ساتھ بھی وابستہ کیا ہے۔ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ(ایمان لاو اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس میں اس نے تم کو امین بنایا ہے۔ پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور خرچ کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے) [الحديد: 7]۔ یہاں مال کی اصل حیثیت یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ اللہ کی امانت ہے۔ انسان اللہ کا خلیفہ ہے اور اللہ کے دیے ہوئے مال کو اصلاً اللہ کے کام کے لیے خرچ ہونا چاہیے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ کی تشریح میں لکھا ہے:
“یعنی اس مال کے متعلق تمھیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تم نہ تو اس کے خالق ہو نہ مالک بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمھیں اس میں خلیفہ بنایا ہے کہ تم اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر اس میں تصرف کرو اور اس کے حضور میں اس کی پائی پائی کی جواب دہی کے لیے تیار رہو۔ مطلب یہ ہوا کہ جب تم اس مال کے خالق و مالک نہیں بلکہ صرف اس کے امین ہو تو جب اس مال کے خرچ کرنے کا مطالبہ اسی کی طرف سے ہو رہا ہے جس نے تم کو اس کا امین بنایا ہے تو اس سے بخالت کرنے کے کیا معنی؟ ”[30]
اسلامی روایات میں یہ تصور ہمیشہ بہت واضح رہا ہے۔ حافظ ابو بکر بن ابی دنیاؒ (جو ابن ابی دنیا کے نام سے معروف ہیں) تیسری صدی ہجری کے ایک مشہور محدث( امام بخاری ؒکے شاگرد اور امام ابن ماجہ ؒکے استاد )گزرے ہیں۔ ان کی ایک مشہور کتاب “اصلاح المال”[31] ہے جس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے دور اول میں مال کے مقاصد کے سلسلے میں کس قدر واضح تصور موجود تھا۔ ابن ابی دنیاؒ، اس کتاب میں تفصیل سے مال کے فضائل گناتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ مال کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ دین کا خادم ہے۔ المال خادماً والدين مخدوماً (مال خادم ہے اور دین اس کا مخدوم ہے) سفیان ثوری ؒکا قول نقل کرتے ہیں کہ : الْمَالُ فِي هَذَا الزَّمَانِ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ ( اس زمانے میں مال مومن کا ہتھیار ہے)[32]
گویا مال کو اہل ایمان کے بلند تر مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھا گیا ہے۔مال کن مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے؟ قرآن و حدیث اور اسلامی روایات میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔)[القصص 77]
اس میں دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کرنے کا حکم ہے۔ اور مال کا مقصد یہ قرار دیا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کے ساتھ احسان کیا جائے، یعنی ان کی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان ہو۔ گویا اجتماعی تکافل کی طرف اشارہ ہے اور مال کو فساد کا ذریعہ بنانے سے منع کیا جارہا ہے۔ مال فساد کا ذریعہ اس وقت بنتا ہے جب وہ اللہ کے باغیوں کے ہاتھ میں جاکر ظلم و ناانصافی کے فروغ کے لیے استعمال ہوتا ہے یا انفرادیت پسندی اور لذتیت سے تحریک پاکر، وسائل کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا ذریعہ بنتا ہے۔
ابن ابی دنیا، سعید بن مسیبؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ: “لا خير فيمن لا يريد جمع المال مِن حِلِّه، يكُفُّ به وجهَه عن الناس، ويصِلُ به رحِمَه، ويُعطي منه حقَّه”[33].( اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو حلال ذرائع سے مال جمع نہ کرے، اس سے خود فائدہ نہ اٹھائے، اس سے صلہ رحمی نہ کرے اور دوسروں کو ان کا حق فراہم نہ کرے) گویا مال کے مقاصد میں رشتے داروں اور اعزہ و اقارب کی ضروریات کی تکمیل بھی شامل ہے۔
تکافل اجتماعی، صلہ رحمی اور صاحب مال کے علاوہ وسیع تر سماج کی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ، مال کے کچھ اور دینی مقاصد بھی ہیں۔ اس کی بڑی عمدہ وضاحت ایک صحیح حدیث قدسی سے ہوتی ہے۔ إنَّ اللهَ قال: إنا أنزلْنا المالَ لإقامِ الصلاةِ وإيتاءِ الزكاةِ[34] ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہم نے مال، اقامت صلوۃ اور ایتائے زکٰوۃ کے لیے نازل کیا ہے۔ ) اس کی تشریح میں یہ بات کہی گئی ہے کہ یہاں مرادشعائر دین کا قیام اور اظہار دین (یعنی مکمل اقامت دین) ہے جس کے مظاہر اسلام کے دو عظیم شعائر ہیں۔[35] گویامال کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے اقامت دین ہو اور اللہ کے حقوق (اقامت صلوۃ ) اور بندوں کے حقوق (ایتائے زکٰوۃ) دونوں کی ادائیگی کا اہتمام ہو۔
یہی اسلام کی معاشی نفسیات کی اصل خصوصیت ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ دولت ترقی کرے۔ پرائیوٹ پراپرٹی کی اور انٹرپرنر شپ کی حوصلہ افزائی بھی ہو لیکن یہ جذبہ بھی پیدا کیا جائے کہ جو مال حاصل ہورہا ہے وہ امانت ہے۔ اس میں سے کھانا پینا اورخوش حال زندگی گزارنا ممنوع نہیں ہے، لیکن مال کی بے جا حرص جسے قرآن نے تکاثر کہا ہے جائز نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انسان مال کو اللہ کی امانت سمجھے۔ خود کو اس مال کا ٹرسٹی محسوس کرے اور مال میں اللہ کے دیگر بندوں اور سماج کے حق کو خوش دلی سے قبول کرے اور سب سے بڑھ کر مال کو اور معاشی قوت کو اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت دین اور قیام عدل و قسط کے ان عظیم مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھے جو امت کا اصل مقصد ہے۔
اسلام کس قسم کی معاشی نفیسات تشکیل دیتا ہے اس کی نہایت عمدہ وضاحت امام غزالیؒ کے یہاں ملتی ہے۔ وہ معاشی جدوجہد میں نیت کو یعنی اس جدوجہد کے مقصد کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کے نزدیک پسندیدہ معاشی سرگرمی اور ناپسندیدہ معاشی سرگرمی میں اصل فرق نیت ہی کا فرق ہے۔ تاجر کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجارت یا صنعت میں مشغول ہوتے ہوئے، نیت فرض کفایہ کی ادائیگی کی ہونی چاہیے۔ (ان یقصد القیام فی صنعته او تجارته بفرض من فروض الکفایات)[36]۔ گویا صنعت و تجارت فرض کفایہ ہے۔ آگے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجارت اور صنعت نظام تمدن کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اگر سب لوگ ایک ہی پیشہ یا صنعت اختیار کریں تو لوگوں کی ضرورت مکمل نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر صنعت انسانی ضرورت ہے اس لیے فرض کفایہ ہے۔ [37]امام صاحبؒ نے حدیث کے طور پر معروف قول اختلاف امتی رحمۃ [38](میری امت کا اختلاف رحمت ہے) کامطلب بھی عام مروج معنوں سے ہٹ کریہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد صنعتوں، تجارتوں اور پیشوں کا تنوع ہے جس سے تمدن ترقی کرتا ہے۔ گویا مسلم امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ متنوع صنعتوں اور تجارتوں میں کمال پیدا کرے اور تمدن کی ترقی میں کردار ادا کرے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ارتفاق ثانی کے تحت “حکمت معاشیہ ”کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی تین شرطیں ہیں۔ دیانت داری اور سمت صالح، دیانت داری کا مطلب یہ ہے کہ معاشی تگ و دو میں اصل رہ نما قدر اسلام کے اصول ہوں، سمت صالح کا مطلب یہ ہے کہ تجارت و صنعت کے مقاصد اور ان کی سمت درست ہو۔ دوسری چیز مصلحت عامہ کا لحاظ ہے کہ تاجر یا صنعت کار کے پیش نظر صرف اپنا ذاتی مفاد یا ذاتی فائدہ نہ ہو بلکہ پوری امت کا مفاد اور تمدن کے صالح مقاصد پیش نظر ہوں اور تیسری چیز تجرباتی علوم اور فہم و دانش کا استعمال ہے یعنی مذکورہ مقاصد کے لیے تاجر یا صنعت کار علم و دانش اور اپنے زمانے کے علوم و فنون کے بھرپور استعمال کے ذریعے، زیادہ سے زیادہ مفید چیزیں لے کر آئے اور اپنے تجربے اور علم سے پورے سماج کے لیے نفع بخش بنے۔ [39]
شاہ صاحبؒ کے معاشی تصورات میں ان کے ‘تعاون باہمی’ کے تصور کی بڑی اہمیت ہے۔ اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کے نزدیک یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو تجارت و صنعت میں آگے بڑھانے میں مدد کریں۔ [40]یہ یقینی بنانا پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ امت میں کوئی فرد بھی کسی معقول وجہ کے بغیر بے روزگار نہ رہے۔ اس کے لیے لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور معاشی محاذ پر بھی ایک جسد واحد بن کر کام کریں کہ ایک عضو کو تکلیف پہنچے (یعنی معاشی مشکل درپیش ہو) تو سارا بدن درد محسوس کرے۔ [41]
ان مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مال کے جو مقاصد متعین کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ مال کی حفاظت اور اس کی نمو (حفظ أموال الأمة والأفراد) : مال محفوظ رہے۔ یہ اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ اس کی غیر نفع بخش ذخیرہ اندوزی نہ ہو بلکہ اسے بازار میں مشغول کیا جائے تاکہ وہ سماج کی ضرورتوں کی تکمیل اور روزگار کی افزائش کا ذریعہ بنے۔ اسی مقصد کی خاطر ذخیرہ اندوزی سے منع کیا گیا اور زکٰوۃ کا ادارہ قائم کیا گیا جو سرمایہ کاری اور تمویل کے لیے مالداروں کو مجبور کرتا ہے۔
٢۔ تکافل اجتماعی اور اتفاق باہمی( تحقيق التضامن و التكافل الاجتماعي): مال کا مقصد صرف صاحب مال کی خواہشات کی تکمیل نہیں ہے بلکہ معاشرے کی ضرورتوں کی تکمیل ہے۔ قرآن میں انفاق اور صلہ رحمی پر جو زور دیا گیا ہے اور زکوۃ جیسے ادارے قائم کیے گئے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ مال کے مقاصد کا ایک اہم پہلو اجتماعی ہے۔ اہل ایمان کے مال کو سماج کی وسیع تر ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ بننا چاہیے۔
۳۔ عدل و قسط (العدالة الاجتماعية): ہم اس سلسلہ مضامین میں تفصیل سے واضح کرچکے ہیں کہ قیام عدل و قسط اسلامی شریعت کا اہم مقصد ہے۔ مال کا مقصد بھی یہ ہے کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ مال کی مناسب تقسیم کے ذریعے معاشی عدل کے تقاضوں کی بھی تکمیل ہو اور عدل کے دوسرے پہلووں کے قیام و استحکام کے لیے بھی مالی وسائل استعمال ہوں۔
۴۔ تمدن کی تعمیر و ترقی اور خلافت ارضی کے فریضے کی ادائیگی (عمارۃ الارض وتحقیق الاستخلاف فیھا): یہ بھی مال کا مقصد ہے کہ وہ تمدنی ترقی کا ذریعہ بنے۔ اور خلافت کے فریضے کی تکمیل کے لیے جدوجہد میں کام آئے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑے انقلابی تصورات ہیں۔ یہ تصورات ایک بالکل جداگانہ نفسیات تشکیل دیتے ہیں۔ اس نفیسات میں معاشی جدوجہد کا محرک پوری قوت سے کارفرما ہوتا ہے لیکن نہ مال سے بے جا محبت ہوتی ہے اور نہ اسراف و تعیش پسندی کی وہ لعنت پائی جاتی ہے جو مالداری کے ساتھ عموماً وابستہ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں کاروبار و تجارت بھی ایک مشن اور انقلابی جدوجہد کا حصہ بن جاتے ہیں۔آدمی صنعت و تجارت میں بھی مشنری جذبے سے کام کرنے لگتا ہے۔ یہ لذت پرست اور انفرادیت پسند محرک سے کہیں زیادہ قوی محرک ہے۔ اسی محرک نے اسلام کے دور اول میں صنعت و تجارت کے تیز رفتار فروغ کی راہ ہم وار کی۔
اسلامی تاریخ میں اسی نفسیات نے فیاضی اور اجتماعی تکافل کو معاشرے کی ایک نہایت اہم قدر بنادیا تھا۔ تاجر و سرمایہ دار بے پناہ دولت کماتے تھے لیکن جو جتنا بڑا تاجر ہوتا وہ اتنا ہی فیاض ہوتا اور زیادہ سے زیادہ علمی، رفاہی، اور دینی خدمات کا سرپرست ہوتا۔ سماج کے خوشحال طبقات کے درمیان، معیار زندگی اور ذاتی زندگی کی چمک دمک کے بجائے، رفاہی و دینی و علمی خدمات کی تمویل اور فیاضی، عزت اور مقام ومرتبے(status)کی علامت ہوتی۔[42] اس بامقصد معاشی جدوجہد کا نہایت خوب صورت ماڈل اسلامی تاریخ میں وقف کا ادارہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں زمین داروں اور تاجروں نے بڑے بڑے وقف قائم کیے۔ حتی کہ خواتین تک نے اپنی بچت اور اضافی آمدنی کو وقف قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ان اوقاف کی اسٹڈی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اصحاب مال کے پیش نظر مال کے مقصد کا تصور بہت واضح تھا۔ وہ اپنے مال کو اعلی تمدنی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ غریبوں کی فلاح و بہبود، بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری اور کفالت عامہ کے دیگر مقاصد کے لیے اوقاف قائم کیے گئے۔تعلیم کے فروغ، طلبہ کے وظائف، بڑے مدرسوں اور دانش گاہوں کے قیام، علمی و سائنسی تحقیقات اور رصد گاہوں اور تجربہ گاہوں کے قیام کے لیے اوقاف موجود ہیں۔دین کی اشاعت، دعوت و تبلیغ، جہاد، مساجد کا انتظام، علما، مشائخ اور مبلغین کی کفالت وغیرہ کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کی گئیں۔ عثمانی سلطنت میں ایسے وقف بھی موجود تھے جو جانوروں اور پرندوں کی بہبود اور ان کی غذا کے انتظام کے لیے قائم کیے گئے تھے۔ حتی کہ استنبول میں ایسے وقف بھی موجود ہیں جو شہر کی صفائی و پاکیزگی، سڑکوں پر روشنی کے انتظام، باغوں اور عوامی تفریح گاہوں کے انتظام، فواروں اور شہر کی خوب صورتی کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔[43] وقف کی بعض تفصیلات تو انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ مثلاً حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے تغذیے کے لیے وقف، ہسپتالوں میں شریک مریضوں (جو معاشی سرگرمی انجام دینے سے قاصر تھے) کی گھریلو ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وقف، ان غلاموں اور نوکروں لیے وقف جن کے ہاتھوں سے سامان لاتے لے جاتے وقت ٹوٹ پھوٹ جاتا اور انھیں اپنے آقاؤں کی سرزنش کا خوف ہوتا[44]۔
یہ حیران کن تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ اسلامی ادوار میں دولت مند افراد صرف عام قسم کی خیر خیرات تک محدود نہیں رہتے تھے بلکہ اپنے گھر کی طرح سماج کی ضرورتوں سے واقف رہتے۔ باریک سے باریک ضرورت سمجھتے اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھتے تھے۔اوقاف کا دائرہ کتنا وسیع تھا اس کا اندازہ ترکی کے اوقاف پر لکھنے والے ایک مصنف کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے:
“عثمانی سلطنت میں یہ بات عین ممکن تھی کہ کوئی فرد وقف کے گھر میں پیدا ہو، وقف کے جھولے میں شیر خواری گزارے، زندگی بھر وقف سے کھائے اور پیے، وقف کے مدرسے میں پڑھے، وقف سے حاصل کتابیں پڑھے، وقف سے تنخواہ پائے، وقف کے ہسپتال میں علاج کرائے، اور مرنے کے بعد وقف کے تابوت میں اٹھے اور وقف کے قبرستان میں دفن ہو۔”[45]
مطلوب کام: صحیح تصور کی آبیاری
سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مال و دولت اور معاشی ترقی کے سلسلے میں تصورات کی اصلاح ہو اور اسلامی تعلیمات کے مطابق صحیح تصور کی آبیاری ہو۔ہمارے خیال میں، فقر و فاقے کی ستائش اور طلب دنیا کی مذمت سے متعلق نصوص کی غلط تفہیم اور غالی صوفیانہ روایات نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے پر اثر ڈالا ہے۔ اس کے نتیجے میں دین دار مسلمانوں کی ایک تعداد مال و دولت کے حصول کی کوشش کو محض دنیا داری بلکہ مادہ پرستی سمجھتی ہے اور دنیا دار مسلمانوں کی اکثریت دولت کماتی ہے تو اُسی نفسیات اور جذبے سے کماتی ہے جو معاصر مادہ پرست معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس سلسلے میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی معاشی نفسیات، اسلامی جذبات و محرکات اور اسلامی مقاصد کو عام کرنے کی مہم چلائی جائے۔
اسلامی تعلیمات میں معاشی ترقی اور حصول دولت کی کوششوں کی نہ صرف اجازت ہے، بلکہ ہمت افزائی بھی موجود ہے۔ مال کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل قرار دیا ہے اور اس کی تلاش و جستجو کا حکم دیا ہے: فَإِذَا قُضِیتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّہ(پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو)۔[الجمعہ : ۱۰] دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کرنے کی اور اس حصے کو آخرت کی کام یابی کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے یہ بات بھی فرمائی ہے کہ آرام و سہولت کے وسائل آخرت میں بھی اہل ایمان کے لیے ہیں اور دنیا میں بھی اُن پر اُن کا حق ہے۔ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ (اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انھی کے لیے ہوں گی) ۔ [الاعراف:۳۲]انفاق و صدقات کی فضیلت اور زکوة کی فرضیت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان عظیم نیکیوں کا اجر حاصل کرنے کے لیے مال بھی کمایا جائے۔
تجارت، انویسٹمنٹ اور مال کی افزائش کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ امام ترمذی ؒ کی نقل کردہ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “ألا من ولى یتیما له مال فلیتجر فیه ولا یتركه حتى تأكله الصدقة”[46] (اگرکوئی کسی یتیم کا ولی ہے اور اس کا مال اس کی تولیت میں ہے تواسے چاہیے کہ اس مال کو تجارت میں لگائے تاکہ زکوة اُس مال کو ختم نہ کردے۔)اسی سےمماثل حضرت عمر ؓ کا قول بھی روایات میں ملتا ہے۔اتجروا بأموال الیتامى لا تأكلها الزكاة [47] زکوة جو آمدنی پر نہیں بلکہ اثاثوں پر عائد ہوتی ہے، وہ بھی مجبور کرتی ہے کہ آدمی مال کو مصروف رکھے اور پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرے، ورنہ کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے مال میں جو کمی آتی ہے اس پر مستزاد، محض زکوة سے مال ہر ستائیس سال میں نصف ہوجاتا ہے۔
صحابہ کرام کے اسوے سے بھی اس اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عشرہ مبشرہ میں چار صحابہ (عبد الرحمن بن عوفؓ، زبیر بن عوامؓ، عثمان بن عفانؓ اور طلحہ بن عبیداللہؓ) انتہائی دولت مند صحابہ تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ زندگی بھر بے پناہ صدقہ و خیرات اورہدایا و عطیات اور کار خیر میں دولت لٹاتے رہنے کے بعد جب رحلت فرماگئے تو ترکے میں وصیت کے بعد بچے ہوئے مال کا تخمینہ تقریبا آٹھ ہزار کروڑ روپے تھاجو ایک بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سا مال انھوں نے چھوڑا تھا۔ حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ اور حضرت عثمان بن عفانؓ کے صرف ترکوں کی تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب صحابہ آج کی قیمتوں کے حساب سے ایک سوکروڑ روپیوں سے زیادہ دولت ترکے میں چھوڑ گئے۔ یہ تمام صحابہ ؓمکے سے ہجرت کے بعد نہایت غربت اور کسمپرسی کے عالم میں مدینہ آئے تھے اورنہایت ایمانداری کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے اور اللہ کی راہ میں زندگی بھر مال لٹاتے ہوئے، دولت کے اس مقام کو پہنچے تھے۔[48]
حلال طریقوں سے دولت کمائی جائے، معاشی جدوجہد دیگر بلند تر مقاصد اور ذمے داریوں سے غافل نہ کرے اور معاشی جدوجہد کی یافت کو بھی بلند تر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، یہ مال و دولت کے سلسلے میں اسلامی تصور ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصور کو عام کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔
تعلیم اور اعلیٰ تعلیم
تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا بھی معاشی ترقی میں اہم کردار ہے۔فروغ تعلیم کی متعدد تحریکیں مسلمانوں میں برسوں سے کام کررہی ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوکر اب پندرہ سال ہورہے ہیں۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد خاص طور پر تعلیمی ترقی کے لیے سرگرمی کافی بڑھ گئی تھی۔ لیکن تازہ اعداد و شمار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوا ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے( جس کی رپورٹ گذشتہ سال شائع ہوئی تھی) کے مطابق تعلیم سے متعلق کئی اشاریوں میں مسلمان تمام مذہبی گروہوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ اسکول میں حاضر ہونے والے طلبہ کا فیصد مسلمانوں میں ہندوؤں سے پندرہ فیصد اور جین فرقہ کے لوگوں سے پچیس فیصد کم ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی حاضری کا تناسب ہندوؤں کے مقابلے تیس فیصد کم ہے اور سکھوں کا تقریباً نصف ہے۔ ان بچوں اورنوجوانوں کی شرح جنھوں نے کبھی کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لیا، آج بھی مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہے۔ [49]
اب جب کہ حکومتیں بھی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے خصوصی منصوبوں سے دست بردار ہوتی جارہی ہیں،ملت کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہماری اجتماعی جدوجہد کا یہ اہم ہدف ہونا چاہیےکہ مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال بہتر ہو۔
معاشی و مالیاتی شعور کی بیداری
مسلمانوں کی معاشی کم زوری کا ایک بڑا سبب درست معاشی و مالیاتی شعور(financial literacy) کا فقدان ہے۔ تمویل و سرمایہ کاری کی بھرپور ہمت افزائی کے باوجود اپنے اموال کو نفع بخش بنانے کا مزاج مسلمانوں میں بے حد کم ہے۔ بچت، مناسب معاشی منصوبہ بندی، اخراجات میں توازن اور سرمایہ کاری، معقول اقتصاد کی اہم خصوصیات ہیں۔ اس حوالے سے ٹھوس مطالعات تو ہمارے پاس موجود نہیں ہیں لیکن عام مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب حوالوں سے مسلمانوں میں بیداری کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ اسلامی مالیات اورحلال سرمایہ کاری کے نام پر متعدد دھوکوں نے بھی سرمایہ کاری کے سلسلے میں مسلمانوں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ مسلمانوں کی مڈل کلاس کا بڑا حصہ سرکاری و خانگی تنخواہ دار ملازمین پر مشتمل ہے۔ ان میں رسک لینے، تجارت میں نقصان برداشت کرنے اور تجارت کی غیر یقینی کیفیت سے ہم آہنگ ہونے کی کیفیت کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ معاملات کی شفافیت اور اس کو یقینی بنانے کے ذرائع کی اسلامی نصوص میں شدید تاکید کے باوجود، اس حوالے سے شعور کی کمی اور غفلت کا ہر سطح پر احساس ہوتا ہے۔
معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ان سب حوالوں سے بیداری کی تحریک چلائی جائے اور ایسے ادارے اور تحریکیں ہمارے یہاں فروغ پائیں جو ان حوالوں سے بیداری لانے اور شعور کی تربیت کی کوشش کریں، عام مسلمانوں کی مدد و رہ نمائی کریں اور مناسب اسلامی متبادلات کی تخلیق کریں اور انھیں فروغ دیں۔
اسلامی معاشی قدروں کی ترویج
شعور کی بیداری کا ایک اہم جز اسلامی معاشی و مالیاتی قدروں کی مسلم معاشرے میں ترویج بھی ہونی چاہیے۔ مسلم معاشرے میں اخلاقی لحاظ سے سب سے کم زور پہلو مالیات و معاملات ہی کا پہلو ہے۔ تجارت میں دیانت داری، معاملات میں راست بازی و شفافیت، عہد و پیمان اور معاہدوں کی سختی سے پابندی، سچائی،یہ سب نہایت اہم اسلامی قدریں ہیں۔ ان ہی قدروں نے اسلام کے دور اول میں مسلمان تاجروں کو دنیا کے کئی معاشروں میں ممتاز مقام عطا کیا تھا اور ان کی تجارت کو اسلام کے فروغ کا بھی ذریعہ بنادیا تھا۔ آج اکثر جگہوں پر مسلم کاریگروں سے یہ شکایت عام ہے کہ وہ وعدوں کی اور وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ محنت و مشقت کی کمی کا شکوہ بھی اکثر جگہوں پر سننے کو ملتا ہے۔معاہدے چاہے سرکار سے ہوں یا وینڈرز سے یا گاہکوں سے، زبانی ہوں یا تحریر ی، اسلام میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ معاہدوں کے سلسلے میں غیر سنجیدگی بھی عام ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہماری اصلاحی تحریکوں میں اور اصلاحی جلسوں و مواعظ میں یہ پہلو بری طرح نظر انداز ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ معاش و معاملات اور بیع و شراء کی اسلامی قدریں اور اسلامی احکام پر توجہ بڑھائی جائے اور ان میدانوں میں مسلم امت کے اجتماعی رویوں کو بہتر بنانے کی مسلسل سنجیدہ کوشش ہو۔ [50]
اشتراک و تعاون اسلام کی ایک نہایت اہم معاشی قدر ہے۔ اوپر ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اسلامی معاشی فکر میں تعاون باہمی کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ فن معاملات اور فقہ معاملات، اصول دین اور فقہ اسلامی کے مباحث میں ہمیشہ خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور اسلامی فقہ میں اشتراک باہمی کے لیے متعدد طریقوں (مشارکہ، مضاربہ،مغارسہ، مزارعہ، تکافل وغیرہ) کو ہر زمانے میں تجویز کیا جاتا رہا ہے اور ان کی ہمت افزائی کی جاتی رہی ہے۔ اس کے باوجود مل جل کر کام کرنے کا مزاج ہندوستانی مسلمانوں میں بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ شراکت داریاں ہوتی بھی ہیں تو اکثر تنازعات پر منتج ہوتی ہیں۔نسل در نسل، مشترکہ خاندانی تجارتوں کا جو رواج اپنےملک کے بعض گروہوں میں ہم دیکھتے ہیں وہ مسلمانوں میں بہت کم ہے۔ اگر وراثت میں،زرعی زمینیں، تجارتیں اور جائیدادیں ملتی ہیں تو یا تو وراثت کی تقسیم ہی نہیں ہوتی اور چند ورثا اس پر قابض ہوجاتے ہیں یا پھر تقسیم کرنے کے لیے انھیں فروخت کردیا جاتا ہے۔ یہ تصور ہی مفقود ہے کہ تقسیم کے بعد بھی شراکت داری کے اصولوں کے مطابق یہ املاک ورثا کی مشترکہ ملکیت میں رہ سکتی ہیں اور ان سے مشترکہ طور پر متناسب فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
انٹرپرینیورشپ
معاشی ترقی میں انٹرپرینیورشپ کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ مواقع کی شناخت اور ان کا بروقت موثر استعمال، رسک اور غیر یقینی صورت حال کو خوشدلی سے قبول کرنا اور اسے برداشت کرنا اور اختراع و تخلیقیت، ان تین عناصر کو انٹرپرینیورشپ کے ترکیبی عناصر مانا جاتا ہے۔[51] یہ ایک مستقل نفسیات ہے اور ان نفسیاتی خصوصیات کے بغیر صنعت و تجارت کی کام یابی ممکن نہیں ہے۔
اسلام کے عقائد و تصورات ان تینوں نفسیاتی خصوصیات کو فروغ دیتے ہیں۔ مال کو اللہ کی ملکیت سمجھنے اور خود کو اس کا امین سمجھنے کا تصور انسان کو مال کے معاملے میں حساس ضرور بناتا ہے لیکن وہ بے جا اندیشے جو انفرادیت پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قبضہ پسندی (possessiveness)سے پیدا ہوتے ہیں، ان کی بیخ کنی کرتا ہے۔ توکل کا تصور، سعی و کوشش پر ارتکاز عطا کرتا ہے، یہ یقین عطا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بھی کرے گا اچھا کرے گا اور کوشش کے باوجود اچھے نتائج برآمد نہ ہوں تو نقصان میں بھی خیر محسوس کرنے اور اس سے دل شکستہ ہوئے بغیر اگلی سعی کے لیے کمر باندھنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اس طرح توکل سے بڑھ کررسک لینے کی صلاحیت کا کوئی اور سرچشمہ نہیں ہوسکتا۔ شکر کا جذبہ مواقع پر نظر رکھنے، ان کو اللہ کی عطا سمجھنے اور ان سے بھرپور فائدہ پہنچانے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اسلامی تصورات کیسے انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیتے ہیں؟ اس پر متعدد اہل علم نے کام کیا ہے۔ افسوس کہ اس قدر طاقتور بنیادیں رکھنے کے باوجودیہ جذبہ ہمارے یہاں بہت کم ہے۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ انٹرپرینیورشپ کے فروغ کو بھی ایک تحریک بنایا جائے۔ اسلامی تصورات سے ان کے رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے، انٹرپرنر شپ کی مذکورہ تینوں خصوصیات ہمارے نوجوانوں میں عام ہوں، اس کے لیے سنجیدہ محنت کی جائے۔
اقتصادی ادارہ سازی
ان سارے کاموں کے لیے ضروری ہے کہ معاشیات و مالیات کے میدان میں ادارہ سازی پر توجہ دی جائے۔ ملک کی نمایاں مسلمان تحریکوں میں بہت کم ہیں جنھوں نے معاشی ترقی کو اپنا ایجنڈا بنایا ہے۔ ( الحمد للہ جماعت اسلامی ہند معیشت کے متعدد محاذوں پر خود بھی کام کررہی ہے اور ہم خیال اداروں کو بھی فروغ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن ان کوششوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے) مسلمانوں میں معاشی اداروں کی بھی بڑی کمی ہے۔ مائکرو فینانس کے اداروں کا فروغ شروع ہوا ہے۔ سرمایہ کاری اور شیر مارکیٹ سے متعلق رہ نمائی کے لیے بھی بعض ادارے کام کررہے ہیں۔ حال ہی میں رفاہ چیمبر کے نام سے تجارتی رہ نمائی اور کنسلٹنسی، تال میل اور نیٹ ورکنگ کی کوشش بھی شروع ہوئی ہے۔ لیکن ابھی بھی مالیاتی خواندگی کو فروغ دینے، عام مسلمانوں میں بچت، معاشی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں رہ نمائی کرنے، تجارتوں کو سپورٹ کرنے، ان کا رسک کم کرنے اور ہیجنگ hedging و تکافل باہمی، مالیاتی و معاشی لابی انگ اور ایڈوکیسی تنظیمیں، بددیانتیوں اور دجل و فریب کی روک تھام کی تحریکیں وغیرہ متعدد میدان ہیں جن میں ادارہ سازی کا ابھی تک ہمارے معاشرے میں آغاز بھی نہیں ہوسکا ہے۔ مالیاتی اخبارات و رسائل تو دور کی بات ہے، اردو اخبارات و رسائل میں تجارت و معیشت کا صفحہ بھی نہیں ہوتا اور اسٹاک مارکیٹ، بزنس اور مالیات کی خبریں ایسے غائب رہتی ہیں جیسے ان امور سے متعلق واقعات کی گویا کوئی نیوز ویلیو یا کوئی اخباری اہمیت ہی نہیں ہے۔
نظام زکوۃ، نظام وراثت، نظام وقف
نظام زکوۃ، نظام وراثت اور نظام وقف، اسلامی معاشیات کے تین امتیازی ادارے ہیں اور معاشی ترقی میں ان کی اساسی اہمیت ہے۔ نظام زکوۃ[52] اور نظام وراثت[53] پر اس سے قبل ہم تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ وقف کے کردار اور اس میں مطلوب کوششوں پر بھی کسی وقت اظہار خیا ل کریں گے۔ ان تینوں محاذوں کو بھی ہماری سعی و جہد کا اہم میدان بنانے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ کہ سب سے پہلے معاشی ترقی کو دینی تقاضا اور ملی ترجیح تسلیم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ معاشی ترقی کو ایک تحریک بنایا جائے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہےکہ معاشی ترقی کی یہ تحریک اسلامی مزاج و نفسیات اور اسلامی مقاصد کی رعایت کے ساتھ چلائی جائے۔
حواشی و حوالہ جات
[1] عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون (2006)مقدمۃ ابن خلدون (المحقق: عبد اللہ محمد الدرویش)؛ الجزء الاول؛ دار یعرب؛ دمشق؛ ص 128-132
[2] ایضاً ص 66-67
[3] ایضاً ص 65-136
[4] محمد بن محمد احمد الغزالی (2011) احیا علوم الدین؛ المجلد الثالث؛ دارالمنھاج للنشر والتوزیغ؛ جدۃ؛ ص 235
[5] ایضاً ص 239
[6] شاہ ولی اللہ المحدث الدھلوی (2012) حجۃ اللہ البالغۃ؛ المجلد الاول؛ دار ابن کثیر؛ بیروت ص144
[7] ايضا ص 351
[8] ایضاً ص 163
[9] Alvin Toffler(1990) POWERSHIFT: KNOWLEDGE, WEALTH, AND VIOLENCE AT THE EDGE OF THE 21ST CENTURY; Bantam Books; New York; Parts I and II
[10] Thomas Hobbes(2010) Leviathan–Revised Edition (Ed. By Martinich and Battiste); Broadview Press; London. Page 96
[11] Tim Gee (2011) Counterpower: Making Change Happen; New Internationalist; Oxford; UK Page 17
[12] ibid Page 18
[13] Alberto Alesina and Eliana La Ferrara (2005) «Ethnic Diversity and Economic Performance.» Journal of Economic Literature, 43 (3): 762-800
[14] اس موضوع پریہ ایک بڑی چشم کشا کتاب ہے جو سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل رہی ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے بڑے مضبوط دلائل سے ثابت کیا ہے کہ دنیا کی اکثر تباہ کن پالیسیوں کے لیے عالمی سرمایہ داروں کی مالی و معاشی طاقت ذمہ دار ہے۔
Anand Giridharadas (2018) Winners Take All: The Elite Charade of Changing the World;Alfred A. Knopf; New York.
[15] [15] Emilie Kimball et. al (2021) Global China: Assessing China›s Growing Role in the World; Brookings Institution Press,; USA. AND Guibourg Delamotte (2017)Japan’s World Power: Assessment, Outlook and Vision; Taylor & Francis; New York
[16] [16] https: //ejewishphilanthropy.com/how-the-great-jewish-families-shaped-philanthropy-some-contemporary-reflections/
[17] یہودیوں نے کس طرح اپنی معاشی قوت کو استعمال کرکے غیر معمولی اثر و رسوخ پیدا کیا ہے اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
Rebecca Kobrin and Adam Teller, editors (2015) Purchasing Power: The Economics of Modern Jewish History;University of Pennsylvania Press; Philadelphia.
[18] مالی حالت کے اعتبار سے مختلف زمروں میں مسلمانوں کے موجودہ تناسب کے لیے ملاحظہ ہو:
International Institute for Population Sciences (IIPS) and ICF (2022) National Family Health Survey (NFHS-5), 2019-2021: Volume 1; IIPS; Mumbai; page 44
[19] Annual Report Periodic Labor Force Survey June 2020; National Statistical Office, Govt of India. Page 78
[20] Ibid page 79
[21] National Statistical Office (2020) Annual Report, Periodic Labour Force Survey 2018-2019; A-457
[22] https: //economictimes.indiatimes.com/news/politics-and-nation/muslims-constitute-14-of-india-but-just-3-of-india-inc/articleshow/48849266.cms?from=mdr
[23] https: //news.gallup.com/poll/396887/economic-pain-uneven-india-muslim-hindu-populations.aspx
[24] قرآن میں یہ اصطلاح متعدد جگہوں پر استعمال ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو ہود 116، الاسراء 16،الانبیاء 13، المومنون 33
[25] الراغب الاصفھانی (1992) المفردات فی غریب القرآن (المحقق صفوان الداودی) دارالقلم؛ بیروت؛ ص 166
[26] أخرجه البخاری فی الزكاة (1472)، وفی الوصایا (2750)، وفی الخُمس (3143)، وفی الرفاق (6441)، ومسلم فی الزكاة (1035).
[27] سنن الترمذی؛ کتاب الزھد عن رسول اللہ، باب ما جاء مثل الدنیا۔۔ رواہ ابو کبشة الانماریؓ؛ صححه الالبانی فے صحیح الترمذی
[28] الشاطبي؛ الموافقات في اصول الشريعة؛ الجزء الاول؛ ویکی مصدر؛ص 63
[29] مولانا امین احسن اصلاحی (2011) تدبر قرآن؛ جلد 2؛ فاران فاونڈیشن لاہور؛ ص 254
[30] مولانا امین احسن اصلاحی (2011) تدبر قرآن؛ جلد 8؛ فاران فاونڈیشن لاہور؛ ص 203-204
[31] ‹ مجموعة رسائل ابن أبي الدنيا–ج 2 : إصلاح المال؛ موسسۃ الکتب الثقافیۃ؛ بیروت ابن ابی الدنیا(۱۹۹۳)
[32] ایضاً ص42
[33] ایضاً ص40
[34] مسند أحمد؛ مسند الانصار؛ حدیث أبي واقد الليثي 21249 صححه الالباني؛ صحيح الجامع1781
[35] شرح حديث في الموسوعة الحديثية؛ https: //dorar.net/hadith/sharh/113786
[36] ایضاً ص 323
[37] ایضاً ص 323-324
[38] واضح رہے کہ علامہ البانیؒ نے سنن بیہقی کی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔
[39] شاہ ولی اللہ محدث دہلوی () البدور البازغہ (اردو ترجمہ: ڈاکٹر قاضی مجیب الرحمن، مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ؛ (تحقیق و تعلیق: مفتی عطاء الرحمن قاسمی) جلد ہشتم حصہ دوم؛ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی۔ص 285
[40] شاہ ولی اللہ المحدث الدھلوی (2012) حجۃ اللہ البالغۃ؛ المجلد الاول؛ دار ابن کثیر؛ بیروت ص159
[41] ایضاً ج ۲ ص 223
[42] اسلامی تہذیب نے مال و دولت کے بامقاصد استعامل کا جو مزاج بنایاتھا اس کی دل چسپ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
مولانا ابو الحسن علی ندوی(1981) انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر؛ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنو۔
[43] دنیا بھر میں اسلامی اوقاف، ان کی تاریخ اور ان کے غیر معمولی کردار کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو ایک دل چسپ اسٹڈٰی
ُPascal Ghazaleh Ed. (2011) Held in Trust: Waqf in the Islamic World;American University in Cairo Press; Cairo Egypt.
[44] مصطفی السباعی (1982) اسلامی تہذیب کے چند درخشان پہلو (اردو ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی) مرکزی مکتبہ اسلامی؛ دہلی؛ ص 187-256
[45] Bo Rothstein(2021) Controlling Corruption: The Social Contract Approach; Oxford University Press; Oxford Page 39
[46] رواه الترمذی (641) وضعفه الألبانی فی ضعیف الترمذی، وقال معناه صحیح واضح
[47] رواه الدارقطنی والبیهقی وقال الالبانی : إسناده صحیح
[48] مذکورہ صحابہ کے متروکہ اثاثوں کو محسوب کرنے کے لیے طبقات ابن سعد میں مندرج تفصیلات سے مدد لی گئی ہے۔ اور درہم و دینار اور دیگر اثاثوں کو آج کی قیمتوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ دیے گئے صفحات پر ان حضرات کے ترکے کی تفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:
محمد بن سعد الزهری(تحقیق الدکتور علی محمد عمر)(2001)؛ الطبقات الکبرى؛الجزء الثالث؛ مکتبة الخانجی، القاهرہ۔
عثمان بن عفانؓ (ص: 72,72) عبد الرحمن بن عوفؓ؛ (ص127: )؛ زبیر بن العوامؓ (ص: 101-102) طلحة بن عبید اللہؓ (ص: 203)
[49] International Institute for Population Sciences (IIPS) and ICF (2022) National Family Health Survey (NFHS-5), 2019-2021: Volume 1; IIPS; Mumbai; page 259
[50] ہم نے اپنی درج ذیل کتاب میں اس موضوع کو تفصیل سے زیر بحث لایا ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی (2021) اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی ص 121-129
[51] Tom Eisenmann (2013) Entrepreneurship: A Working Definition; Harvard Business Review; January 2013
[52] سید سعادت اللہ حسینی (2018) نظام زکوة اور ہندوستان میں سماجی ترقی؛ الیکزیر پبلی کیشن؛ نئی دہلی
[53] سید سعادت اللہ حسینی (2021) اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی ص 113-120
[54] Gümüsay, Ali Aslan. “Entrepreneurship from an Islamic Perspective.” Journal of Business Ethics 130, no. 1 (August 1, 2015): 199–208
مشمولہ: شمارہ مئی 2023