اسلام میں عورتوں کی گواہی کاتصور

اسلام میں حقوق انسانی کا تصور روز اوّل سے موجود ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے نافذ کردہ اصول کو سامنے رکھ کر انسان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے جو کام کیے وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ان حقوق میں تحفظ جان، تحفظ عزت، تحفظ ملکیت ، مساوات، آزادی ، حقوق نسواں ، حصول انصاف ، شہادت، اظہار رائے اور آزادی ،عقیدہ جیسے بے شمار حقوق کے علاوہ ایک نوزائیدہ بچے کی مدت رضاعت سے لے کر عورت کے حق مہر تک وہ تمام حقوق شامل ہیں، جن کو اللہ کے حکم سے اس کے رسول ﷺنے مقرر کردیا ہے۔

اللہ اور اس کے رسول ﷺنے انسان کے قانون سازی کے اختیار پر عائد کی جانے والی حدود کے لیے ’’حدوداللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ حدود فرد واحد کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ حقوق و فرائض کے سلسلے میں اس دین کی مفصل ہدایات پر ذرا ایک نظرڈالیں تو معلوم ہوگاکہ اللہ رب العزت نے کس طرح انسانی حقوق کی ادائی کے لیے واضح احکام دیے ہیں۔ اسلام میں عورتوں کی گواہی کے تصوّر پر کچھ گفتگو کریںگے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ منْ رِّجَالِکُمْ فَاِن لَّمْ یَکُونَا رَجُلَیْْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآئ أَن تَضِلَّ اْحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدَاہُمَا الأُخْریٰ   ﴿البقرہ: ۲۸۲﴾

’’اور اپنے میں سے دو مرد کو گواہ رکھ لو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم پسند کرلو، تاکہ ایک کی بھول چوک دوسری یاد دلادے۔‘‘

اسلام ایک پاک و صاف دین ہے۔ یہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کو بالکل پسند نہیںکرتا اور ساتھ ہی ساتھ برے کاموں سے بچنے کی تدابیر بھی بتاتاہے۔ اسلام میں جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات وخیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں دیون ﴿قرضوں﴾ کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ کیوں کہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اسی طرح ہر شخص صدقہ لیناپسند بھی نہیں کرتا۔ پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لیے قرض ہی باقی رہ جاتاہے۔ اسی لیے احادیث میں قرض دینے کابڑا ثواب بیان کیاگیاہے۔ تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے، اس میں بے احتیاطی یا تساہل جھگڑوں کاباعث بھی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں۔ تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کاباعث نہ بنے۔ اس کے لیے ایک حکم یہ دیاگیاکہ مدت کا تعین کرلو، دوسرا یہ کہ اسے لکھ کر اور تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دوعورتوں کو گواہ بنالو۔

گواہ کے شرائط

علماے امت نے احادیث اور قیاس کی روشنی میں گواہ کی کچھ شرطیں بتائی ہیں۔وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱-شاہد ﴿گواہ﴾ آزاد ہو، غلام نہ ہو۔   ۲-بالغ ہو۔

۳- مسلمان ہو، جیساکہ من رجالکم سے سمجھاجاتاہے۔ کافر نہ ہو، البتہ کافر مستامن کی گواہی کافرمستامن پر درست ہوسکتی ہے نہ کہ مسلمان پر۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا تینوں شرطیں انھی باتوں کی گواہی میں معتبرہیں جو دین سے متعلق ہیں اور معاملات میں تو صرف اہل عقل و تمیز کاقول معتبر ہوگاخواہ آزاد ہو یا غلام، کافر جوان ہو یا عقل و تمیز والا لڑکا اس لیے کہ معاملات کثیرالوقوع ہیں۔ چناں چہ ہدایہ کی کتاب الکرایہ میں لکھاہے:

’’ویقبل فی المعاملات قول الفاسق ولایقبل فی الدیانات الاقول العدل ووجہ الفرق ان المعاملات یکثر وجودھا فیما بین الناس فلوشرطنا شرطا زائدا یودی الٰی الحرج فیقبل قول الواحد فیہا عدلا کان او فاسقا کافراً کان او مسلماً عبداً کان اوحراً ذکراً کان او انثیٰ دفعا للحرج‘‘

معاملات کی مثال شرائ، اذن تجارت اور وکیل بنانا وغیرہ اور دیانات کی مثال نجاست آب کی خبر دینا یا اور کوئی حل و حرمت کے متعلق خبر دینا۔

۴- عادل ہو فاسق نہ ہو    ۵- جس چیز کی گواہی دے رہاہو اس کو خوب جانتاہو۔

۶- اس گواہی سے اس کا کوئی نفع نہ ہو۔   ۷- اس سے اس کی کوئی مضرت دفع نہ ہو۔

۸- غلط اور نسیان میںمشہور نہ ہو۔   ۹- بے مروت اور لالچی نہ ہو۔   ۰۱- باہم کوئی عداوت نہ ہو۔

مذکورہ صفات کے دو مردمیسر نہ ہوں تو اس کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کاانتخاب کیاجاسکتا ہے۔ کیوں کہ ہوسکتاہے کہ جب معاملہ پیش آئے اس وقت دو مرد بطور گواہ موجود نہ ہوں یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مرد اور بقیہ عورتیں ہی موجود ہوں۔ اسی وجہ سے یہ حکم دیاگیاکہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتو ںکاانتخاب کرو۔ اس امر سے یہ معلوم ہواکہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے اور مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا، جیساکہ بکارت، ولادت اور عورتوں کے خاص عیوب وغیرہ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرناجائز ہے یا ناجائز؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرناجائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھالے۔ فقہاے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں۔

حکمت وعلت

ان تضل احمدھما فتذکراحمدھما علیٰ الاخریٰ یہ آیت ایک مرد کے مقابلے میں دوعورتوںکو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔

۱- مولانامودودیؒ نے آیت مذکورہ کاترجمہ اس طرح کیاہے:

’’تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے‘‘ ﴿تفہیم القرآن، جلداول، ص:۰۲۲﴾

۲- سید قطب شہیدؒ کا ترجمہ یہ ہے:

’’دوعورتیں اس لیے کہ ایک سے غلطی ہوجائے تو دوسری اسے یاد دلادے‘‘ ﴿ فی ظلال القرآن جلد اول، ص:۷۷۷، مترجم: مولاناسیدحامدعلیؒ﴾

۳- مولانا محمد جوناگڑھی، احسن البیان میں اس آیت کا ترجمہ کرتے ہیں:

’’تاکہ ایک کی بھول چوک دوسری یاد دلادے‘‘ ﴿احسن البیان، ص:۱۲۴﴾

۴- مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

’’تاکہ ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری یاد دلادے گی۔‘‘ ﴿تدبرقرآن، جلداول﴾

۵- جناب حافظ ندر احمد صاحب ترجمہ کرتے ہیں:

’’تاکہ ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلادے۔‘‘ ﴿آسان اردوترجمہ قرآن، ص:۱۱۵﴾

۶- علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

’’تاکہ ان دونوں عورتوںمیں سے ایک بھی بھول جائے تو انہیں دوسری یاد دلادے۔‘‘

﴿تفسیرعثمانی، ص:۵۹﴾

۷- مولانافتح محمد خاں جالندھری :

’’اگر ان دو میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری ﴿ان دو میں سے﴾ ایک کو اسے یاد دلادے گی۔‘‘ ﴿ص:۴۱﴾

۸- مولانا مفتی محمد شفیعؒ عثمانی دیوبندیلکھتے ہیں:

’’تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو دوسری۔‘‘ ﴿معارف القرآن، جلداول، ص:۲۲۶﴾

۹- مولاناشمس پیرزادہؒ دعوۃ القرآن میں لکھتے ہیں:

’’دوعورتیں اس لیے کہ اگر ایک غلطی کرے تو دوسری اسے یاد دلادے۔‘‘ ﴿دعوۃ القرآن، جلداول، ص:۱۶۶﴾

الغرض اردو کے اکثر مترجمین و مفسرین نے عام طورپر بھول جانے کا ترجمہ کیا ہے، معدودے چند ہی مفسر ایسے ہیں جنہوںنے اس کاترجمہ غلطی کرنے سے کیاہے۔ مگر ضل یضل کے اصل معنی بہکنا، غلطی کرنا، ضائع کرنا، گمراہ ہونا وغیرہ کے کے ہیں اور یہ ترجمہ انسب معلوم ہوتا ہے۔ عورت عقل اور یاد داشت میں مرد سے کمزور ہے۔ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’‘اے عورتو! صدقہ اور بکثرت استغفار کرتی رہو میں نے دیکھاہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جائوگی۔‘‘ ایک عورت نے پوچھا۔ ’’حضورﷺ! یہ کیوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم لعنت زیادہ بھیجاکرتی ہو اور اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھاکہ باوجود عقل و دین کی کمی کے مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو‘‘ اس نے پھر پوچھا۔ ’’حضورﷺ ! ہم میں دین کی اور عقل کی کمی کیسے؟‘‘ فرمایا: ‘‘عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں ان پر نہ نماز ہے نہ روزہ۔‘‘

اس میں عورت کے استخفاف اور فروتنی کااظہار نہیںبلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔ دو عورتوں کی شرط اس لیے ہے کہ اگر ایک سے کسی لغزش کاصدور ہوگا تو دوسری کی تذکیر و تنبیہ سے اس کا سدباب ہوسکے گا۔ یہ فرق عورت کی تحقیرکے پہلو سے نہیں ہے بلکہ اس کی مزاجی خصوصیات اور اس کے حالات و مشاغل کے لحاظ سے یہ ذمے داری اس ﴿عورت﴾ کے لیے ایک بھاری ذمے داری ہے۔ اس وجہ سے شریعت نے اس کے اٹھانے میں اس کے لیے سہارے کابھی انتظام فرمادیاہے اور قرآن کے بیان کے مطابق گواہی کے سلسلے میں عورتوں سے غلطی ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ کیوں کہ ان کاتعلق گھریلو مشاغل سے زیادہ رہتا ہے۔ تجارتی ، کاروباری اور دنیوی امور سے ان کا تعلق کم ہوتا ہے۔ اس لیے دنیوی اور کاروباری معاملات میں دقیقہ رسی کی ان میں کمی ہوتی ہے اور اس بیان پر ان کے مغالطہ میں پڑنے کا زیادہ امکان ہوتاہے۔ غلطی ہونے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عورت معاملے کے موضوع سے پوری طرح باخبر نہیں ہوتی، وہ اس کی تمام باریکیوں اور تقاضوں کااحاطہ نہیںکرپاتی اور شہادت کاموقع آنے پر وہ شہادت کی باریکیوں سے بخوبی عہدہ برآنہیں ہوپاتی۔

غلطی ہونے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورت کی فطرت میں انفعالیت کامادہ زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ مادیت کاعضوی اور حیاتیاتی رول چاہتاہے کہ عورت اپنے بچے کے مفادپر بہت جلد لبیک کہنے والی اور شدید انفعالیت کی حامل ہو، تاکہ وہ بچے کے مفاد کی طرف پوری تیزی کے ساتھ متوجہ ہوسکے اور اس کے لیے اسے لمبے چوڑے غوروفکر کی، جس میں وقت لگتاہے، ضرورت نہ ہو۔ یہ جذباتیت و انفعالیت عورت اور بچے پر خدا تعالیٰ کاخصوصی فضل و کرم ہے۔ عورت کی اس فطرت کو تقسیم بھی نہیں کیاجاسکتا کہ ایک معاملے میں اس کی فطرت کچھ ہو اور دوسرے میں کچھ۔ کیوں کہ عورت کی شخصیت ایک ہی ہے اور انفعالیت اس کی فطرت اور طبیعت ہے۔ بشرطے کہ وہ صحیح اور متوازن عورت ہو۔ جب کہ اس طرح کے معاملات کے منعقد ہونے کے سلسلے میں گواہی دینے کے لیے انفعالیت سے پوری طرح پاک ہونے او رکسی تأثر اور جذباتیت کے بغیر واقعات سے واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ ﴿فی ظلال القرآن، جلداول، ص۷۸۳﴾

جدید علم نفسیات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ عورتیں جذباتیت اور انفعالیت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں علماے نفسیات کی کتابوں کے جو اقتباسات نقل کیے ہیں ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

“In women decepation is almost psychological” (Havelock Elliss: Man ‘ woman. P.146)

‘‘عورتوں کامغالطہ میں پڑنا قریب قریب نفسیاتی بات ہے۔‘‘

“We are again forced to admit that a woman is not a postion to judge objectivelv being influened by her emotion” (Baver, opcit.I.P.289)

ایک اعتراض اور اس کا ازالہ

اسلام دشمن عناصر، خصوصاً ہمارے ملک ہندستان میں غیرمسلم حضرات اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گواہی میں مرد سے نصف تسلیم کیاہے۔ جب کہ عورتیں مرد کے مقابلے میں زیادہ باشعور اور ان کی یاد داشت زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اس معاملے میںسب سے پہلے معترض کو یہ سوچناچاہیے کہ سب سے پہلے اس معاملے میں ہم اعتراض کرتے ہیں ہمارا مذہب کیا کہتاہے؟ اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی متحد تنظیم مسلم پرسنل لاپر بھی اس طرح کے اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اگر ہم ہندو مذہب کی قانون کی کتاب ’’منواسمرتی‘‘ کامطالعہ کریں تو بخوبی واقفیت ہوجائے گی کہ عورت کسی قیمت پر گواہ نہیں بنائی جاسکتی۔ چنانچہ منواسمرتی کے اشلوک ۷۷:۸ ، ص:۳۷۶ میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’ایک آدمی ﴿جو حریص نہ ہو﴾ گواہ بن سکتا ہے۔ مگر بہت سی عورتیں پاکبازہونے کے باجوود بھی گواہ نہیں بن سکتیں، کیوں کہ عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں، وہ جذباتیت اور انفعالیت کاشکارہوتی ہیں۔ اور اگر مرد چور ہو ﴿یعنی وہ چوری کرتا ہو﴾ تو بھی وہ گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘   ﴿منوا سمرتی ادھیائے۸، اشلوک ۷۷، ص:۳۷۶﴾۔

پروفیسر عمر حیات خان غوری اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اگر اسلام نے عورت کو گواہ کے قابل تسلیم کیاہے اور اس کو نصف گواہ کی اہمیت دی ہے تو کیا آزاد اور سیکولر ہندستان میں اس کی یہ فیاضی بھی جرم قرار پائے گی اور پھر جرم قرار دینے والے بھی وہ لوگ ہوں جن کا موقف یہ ہو کہ عورت کسی بھی حال میں گواہی دینے قابل ہی نہیں ہوتی۔ خدا جانے یہ ڈھٹائی کی انتہا ہے، کثرت کا نشہ ہے یا اپنے آپ سے ناواقفیت۔ بہرحال کچھ بھی ہو، البتہ یہ بات تو ضرور ہے کہ یہ اعتراض بھی مغربی مستشرقین کادہرایاہوا ہے، جسے ہندستان میں درآمد کرلیاگیا ہے اور آپ اپنے آئینہ میں جھانکے بغیر اس ٹیپ کو بجایاجاتا رہتا ہے۔ اس لیے یہ اعتراض اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کاکوئی جواب دیاجائے۔‘

’’اسلام نے اس بات کاپورا اہتمام کیا ہے کہ اس معاشرے میں مردوں اور رعورتوں کا آزادانہ اختلاط پیدا نہ ہوسکے اس لیے کہ یہ اختلاط لاتعداد سماجی مسائل اور اخلاقی و جنسی جرائم کادروازہ کھول دیتاہے۔ اسی مصلحت کے تحت اس نے اس بات کو پسند نہیں کیاکہ عورت اپنے گھر کے کاروبار اور بچوں کو چھوڑکر عدالتوں کے چکر لگاتی پھرے اور دن دن بھر وہاں بیٹھ کر انتظار کرتی رہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو اپنے کسی قریبی عزیز یا شوہر ہی کے معاملے میں گواہی دینا پڑے۔ گواہی کی ضرورت کسی غیرمرد کے مقدمے میں بھی آسکتی ہے۔ ایسی صورت میں عورت کو غیرمردوں کے ساتھ بھی سفر کرناپڑسکتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی مصلحتوں کے پیش نظر اسلام نیاس بات کو پسند نہیں کیاکہ عورت عدالتوں میں گواہیاں دیتی پھرے۔ لیکن اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اس لیے اس کی نظروہاں تک پہنچ جاتی ہے جہاں عام طورپر لوگ نہیں پہنچ پاتے۔ بعض وقت ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی مقدمے کی نوعیت ایسی ہو جس میں گواہ صرف عورت ہی ہو۔ اس مصلحت کے پیش نظر اسلام نے عورت کی گواہی کاانکار تو نہیں کیا تو مگر یہ قیدضرور لگادی کہ گواہی دینے کے لیے کوئی عورت غیرمردوں کے ساتھ کبھی بھی تنہا نہ جاسکے۔ اس کا واحد وار فطری طریقہ یہی ہوسکتاتھاکہ عورت کی گواہی کو نصف قرار دے دیاجائے۔ کیوں کہ نصف گواہی کوئی عدالت تسلیم نہیں کرتی اس لیے جس کسی کو بھی کسی عورت کی گواہی کے لیے لے جانا پڑے اسے لازماً بقیہ گواہی کے لیے کسی دوسری عورت کو بھی ساتھ رکھنا پڑجائے۔ اور اس طرح ایک بہ جائے دو عورتیں ایک ساتھ رہ سکیں تاکہ ان کی عصمت و عفت پر نہ تو کوئی حرف آسکے اور نہ وہ مشکوک ہوسکیں۔ پھر اسلام چوں سچی گواہی دینے کی ہدایت کرتاہے اس لیے عین ممکن ہے کہ کبھی کوئی عورت ایسی سچی گواہی دے جائے جو اس کے فریق کے مفاد کے خلاف اور ممکن ہے غصہ ، چڑ اور جھنجھلاہٹ میں انتقام کے طورپر وہ اس پر دست اندازی کردے۔ ایسے سارے حالات کو سامنے رکھ کر اسلام نے عورت کی گواہی کونصف قرار دے کر اس پر احسان کیاہے تاکہ وہ تنہا رہنے کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہ سکے اور ایک گواہی کے لیے دوعورتوں کی زیرباری کی وجہ لوگ گواہی کے لیے ترجیح نہ دیں۔ اسلام کی یہ حکمتیں بھلا ان لوگوں کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہیں جنہوںنے عقل و خرد کو طلاق مغلظہ دے رکھی ہو اور صرف ٹیپ ریکارڈ کی مانند محض بجتے رہتے ہوں۔ یہ اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ جو ذہن ہندی ساری دنیا سے اپنا امتیاز منواچکا تھا آج آزادی کے بعد اس قسم کے لغو اعتراضات میں الجھ کر رہ گیاہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خود اپنی تصویر اس کی نظروں سے اوجھل کرکے اسے محض چند نعروںپر رکھ دیاگیا ہے۔‘‘ ﴿مسلم پرسنل لاپراعتراضات کی حقیقت تاریخ اور اسلامی نظام معاشرت کی روشنی میں، ص:۵۳۱

عورتوں کی بعض فطری کمزوریاں

۱- عورت ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی اعتبار سے مرد سے کمتر ہے۔

۲- عورتیں جنسی عوارض کی وجہ سے اکثر مریض کی سی حالت میں رہتی ہیں جب کہ مرد کے ساتھ ایسی کوئی مجبوری نہیں۔

اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اس لیے وہ ہر ایک کالحاظ کرتا اور اسی مناسبت سے اس کے اوپر ذمے داری ڈالتاہے۔ ہر وہ کام جو ایک مرد بخوبی انجام دے سکتا ہے عورت انجام نہیں دے سکتی۔ اس لیے قدرت نے دونوں کی ذمے داریوں کو الگ الگ بانٹ دیاہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ دونوں نوع انسانی کے دو مساوی حصّے ہیں۔ لیکن عدالتی معاملہ ایک الگ معاملہ ہے یہ عورتوں کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ کورٹ کچہری کا چکر لگاتی رہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں:

’’سائنس کے مشاہدات اور تجربات سے یہ بات ثابت کیاجاسکتا ہے کہ عورت اور مرد اپنی جسمانی استعداد اور قوت کے لحاظ سے مساوی (Equipotentail)ہیں۔ مگر صرف یہ امر کہ ان دونوں میں اس قسم کی مساوات پائی جاتی ہیں۔ اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ فطرت کامقصود بھی دونوں سے ایک ہی طرح کے کام لینا ہے۔ ایسی رائے قائم کرنا اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک یہ ثابت نہ کردیاجائے کہ دونوں کے نظام جسمانی بھی یکساں ہیں۔ دونوں پر فطرت نے ایک ہی جیسی خدمات کابار ڈالا ہے اور دونوں کی نفسی کیفیات بھی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔‘‘

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ آگے لکھتے ہیں:

’’اکابرفن حیاتیات و عضویات کے مشاہدے سے معلوم ہوتاہے کہ ایام ماہواری (M.C.Priad)میں عورت کے اندر حسب ذیل تغیرات ہوتے ہیں:

جسم میں حرارت کو روکنے کی قوت کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے حرارت زیادہ خارج ہوتی ہے اور درجہ حرارت گرجاتا ہے۔

نبض سست ہوجاتی ہے، خون کا دبائو کم ہوجاتاہے، خلایائے دم کی تعداد میں فرق واقع ہوجاتا ہے۔

دوران افرازی غدو (Endocrines)گلے کی گلٹیوں (Tonsils)اور غدوالمفادی (Lybphatic Glands)میںتغیر واقع ہوجاتا ہے۔

پروٹینی تحّول(Protein Metabolism)میں کمی آتی ہے۔

فاسفیٹس اور کلورائیڈس کے اخراج میں کمی اور ہوائی تحول (Gaseous Metabolism)میں انحطاط رونما ہوتا ہے۔

ہضم میں اختلال واقع ہوتاہے اور غذا کے پروٹینی اجزا اور چربی کے جزو بدن بننے میں کمی آجاتی ہے۔

تنفس کی قابلیت میں کمی اور گویائی کے اعضا میںخاص تغیرات واقع ہوتے ہیں۔

عضلات میں سستی اور احساسات میں بلادت آجاتی ہے۔

ذہانت اور خیالات کو مرکوز کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔

یہ تغیرات ایک تندرست عورت کو بیماری کی حالت سے اس قدر قریب کردیتے ہیں کہ درحقیقت اس وقت صحت اور مرض کے درمیان کوئی واضح خط کھینچنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ ﴿پردہ، ص:۱۳۰﴾

ایسے حالات میں جب کہ وہ ذہنی کشمکش میں ہوتی ہے وہ گواہی کے قابل نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کے باوجود بھی ان سے گواہی لی جائے تو وہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے اور ایسے حالات میں غلطی کا سرزد ہونا یقینی ہے۔ اس لیے اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ ’’دومردوں کو گواہ بنالو اگر دو مرد نہ ہوں تو استثنائی صورت میں ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنالیاجاسکتا ہے تاکہ کوئی دشواری اور حرج نہ ہو۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223