اخلاق کے معنی لوگوں پر احسان کرنے، دوسروں کی تکالیف کو دورکرنے اور اُن کے لیے مشقت اٹھانے کے ہیں۔ اخلاق خلق کی جمع ہے۔ جس کے معنیٰ سیرت اور باطن کے ہیں۔ اس کو ہم سرشت سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ علما نے اخلاق کو سعادت و کمال تک پہنچنے کا ذریعہ قراردیاہے۔ اخلاق کامقصد انسان کو کردار میں غلطی سے بچانا اور کمال کی راہیں روشن کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی سعادت مند معاشرہ وجود میں آتاہے۔
فلسفۂ اخلاق
جرمن فلسفی کانت کی نظر میں وہ فعل اخلاقی ہے، جو نیک نیتی سے انجام دیاگیاہو۔ لہٰذا اگر کسی نے سزا کے ڈر سے کوئی کام بخوبی انجام دیا ہو تو اسے اچھا کام نہیں کہہ سکتے۔ کانت کی نظر میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے، وہ فریضے کی انجام دہی کی نیت اور قانون کی پیروی ہے۔ صرف وہ کام جو فریضے کی ادائی کے لیے انجام دیاگیاہے، وہی اخلاقی حیثیت کاحامل ہے۔ مثال کے طورپر اگر کسی کو لوگوں کی مدد کرنے میں سکون محسوس ہوتاہے اور وہ اسی وجہ سے لوگوں کی مدد کرتاہے تو اس کا یہ عمل اخلاقی نہیں کہلائے گا۔
اسلام میں نیت کو عمل پر مقدم رکھاگیاہے۔کانت کے نظریے پر مختلف جہات سے اعتراض کیاجاسکتاہے۔ کیونکہ اسلام عمل کے خارجی اثرات سے چشم پوشی نہیں کرتا اور نہ اسلامی قانون لوگوں کی نیت کی کیفیت سے بے نیاز ہے۔ چنانچہ اسلام میں سزائوں کے نظام میں قتل عمد ﴿بالارادہ قتل﴾ کو قصاص کاموجب قراردیاگیاہے۔ لیکن خطایا قتل غیرعمد میں قصاص نہیں ہے، بلکہ دیت ہے۔ اسی طرح عقود و معاملات میں ارادے کو اصل قراردیاگیاہے۔ اگر کوئی زور زبردستی کے تحت معاملہ کربیٹھے تو معاملہ باطل ہوگا۔ اسی طرح اخلاص صرف فرد کے حقوق سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ معاشرے اور خدا کے بارے میں فرائض بھی معین کرتاہے۔ نیت کے بارے میں وہ حدیث بہت اہم ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘’بے شک سارے اعمال اپنی نیتوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ نیت کرے۔ مثلاً جس نے اللہ اور رسولﷺکی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف ہوئی اور جس نے اس لیے ہجرت کی کہ کچھ دنیا حاصل کرے یا کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی، جس طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘ ﴿بخاری ومسلم﴾ فرد واحد یا اجتماعیت کے اعمال میں نیت بہت اہم ہوگی اور اس بات کا فیصلہ خود دنیا میں بھی بعض اوقات اس کے نتائج کی روشنی میں ہوجاتاہے۔
فرانسیسی ماہر قانون ‘ریپر’لکھتے ہیں کہ اخلاق کو قوانین کا صرف ایک سرچشمہ نہیں سمجھناچاہیے، بلکہ اخلاق قوانین کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ اسلامی علما ودانشور بھی اس رستے کے قائل ہیں اور تمام الٰہی اور شرعی قوانین کو اخلاقی قدر کاحامل سمجھتے ہیں۔ اس طرح اخلاقی اصول قوانین کے اہداف میں سے ہیں اور ان علوم ﴿علم اخلاق وعلم قانون﴾ کامقصد ایسامعاشرہ وجود میں لانا ہے جو سعادت عدل و انصاف اور سلامتی پر مبنی ہو۔
قوانین اور اخلاق کے مابین ربط
قوانین واخلاق انسان کے اختیاری رفتار وگفتار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہی معاشرے میں نظم و نسق برقرار رکھتے ہیں اور ان کاہدف انسان کی ہدایت و سعادت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ پس اگر قوانین کے اہداف اخلاق کے اہداف پر استوار ہوں تو اقدار کاپابند معاشرہ وجودمیں آسکتاہے جو دیگر تمام معاشروں سے ممتازہوگا۔ لہٰذا اسلامی احکام کا سرچشمہ ارادہ الٰہی ہے اور ذات اقدس خداوندی جو خود عدل وانصاف کے مطابق اخلاقی صفات سے آراستہ ہے۔ وہ قوانین وضع کرتے وقت بھلا کس طرح قوانین و اخلاق کے رابطے کو نظرانداز کرسکتاہے۔ بنابریں ان قوانین کو ہم انسان کی خیروصلاح کا ضامن اس کی معنوی شخصیت کامحافظ اور اس کی عظمت و سعادت کا موجب قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن کی بیان کردہ صفات
قرآن کریم میں سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں مومنین کی صفات بتائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ oالَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُونَ o وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَo اِلَّا عَلَیٓ أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَo فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئ ذَلِکَ فَأُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ o وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ o أُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْوَارِثُون ﴿المومنون: ۱-۱۰﴾
’’یقینا فلاح پائی ہے ان لوگوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیارکرتے ہیں۔ لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی مِلک یمین میں ہوں کہ ان پر ﴿محفوظ نہ رکھنے میں﴾ وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔ اپنی امانتوں اور اپنے عہدو پیمان کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘
ان ابتدائی دس آیتوں کے نزول کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مجھ پر دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اترجائے تو یقینا جنت میں جائے گا۔‘‘ ﴿احمد، ترمذی، نسائی، حاکم﴾
درج بالا آیات میں بیان کردہ صفات ایک مومن کے لیے ہدایت کامکمل نقشہ پیش کرتی ہیں۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان کے اخلاق میںنکھار پیدا ہوتاہے اور اس کے لیے فلاح حاصل کرناآسان ہوجاتاہے۔
کردار کیا ہے؟
کردار کیاہے، اس کی حیثیت کیاہے اور اس کی شناخت کس طرح کی جائے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہم اس کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: ۱-انفرادی کردار، ۲-اجتماعی کردار۔
انفرادی کردار کے چند پہلو
اظہار: لباس ، تحریر وتقریر
ذوق: کھانا پینا، گھر اور گھریلو اشیا
باطن: علم، افکارو نظریات، احساسات و جذبات
اجتماعی کردار
۱-گھریلوزندگی: بیوی بچوں سے تعلقات، ضروریات کی تکمیل، تعلیم و تربیت کا نظم، آخرت کی جواب دہی کااحساس بیدارکرنا
۲-معاشرتی زندگی: علاقے، شہر اور ملک والوں کے ساتھ تعلقات، ان کے حقوق کی ادائی اور معاہدوں کو پورا کرنا اوران کی خلاف ورزی سے احترازکرنا۔
۳-معیشت، معاشرت، تعلیم، حکومت وسیاست:تمام محاذوں پر اللہ کی مرضی کو مقدم رکھنا اور اس کے سامنے جواب دہی کااحساس ہونا۔
جب ہم فرد واحد کی شخصیت کی بات کرتے ہیں تو پہلے مرحلے میں اس کی ظاہری چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں، جن میں اس کا لباس اور اس کی گفتگو بھی شامل ہے۔ دورانِ گفتگو میں اُس کی فکر، علم، نظریہ، جذبات اور احساسات واضح ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں انسان کے کردار و اخلاق کی عکاس ہوتی ہیں۔ مزید آگے بڑھ کر جب ہم اس کے گھر کامطالعہ کرتے ہیں تو وہاں پاکی، طہارت، نفاست و نظامت اور اس کے ذوق کی نشان دہی ہوتی ہے۔ گھر اور گھر کی اشیا، ان کاسلیقہ مندی کے ساتھ استعمال، گھر کی بناوٹ اور سجاوٹ ، کن چیزوں کو استعمال کرنے سے وہ گریز کرتاہے اور کن چیزوں کو وہ استعمال میں لاتاہے، یہ بھی اس کے اخلاق وکردار کی عکاس ہیں اور وہ ساری باتیں بھی قابل لحاظ ہیں جو اس کی سماجی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔
کردار کے دو رخ
اللہ تعالیٰ نے انسانی کردار کے رُخ قرآن حکیم میں بیان کردیے ہیں۔ ایک رخ بدکردار لوگوں کااور دوسرا نیک لوگوں کا۔ بدکردار لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کہاکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی تعلیمات کو بھلاکر شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے آخرت میں شیطان اور وہ ایک دوسرے کے شریک ہوںگے اور ایک ساتھ جہنم میں جھونکے جائیںگے۔ پھر اللہ تعالیٰ متوجہ کرتاہے، سمجھاتاہے اور ڈراتا ہے :
وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ أُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونo ﴿الحشر:۱۹﴾
اوران لوگوں کی طرح نہ جائو جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلادیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔
معلوم ہواکہ بدکردار ہونے کی ابتدا یہ ہے کہ انسان کا اپنے پروردگارکے ساتھ تعلق منقطع ہوجائے۔ انسان اس اہم ترین عہد کو بھول جائے جو اس کے اور اس کے رب اعلیٰ کے درمیان ہواتھا، جس کو ہم عہدالست کے نام سے جانتے ہیں۔ رب کو بھولنے کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اُن تمام نعمتوں کو نظرانداز کردے جو اس کے رب نے اس کو عطا کی ہیں۔ رب کے بھولنے کے یہ بھی معنیٰ ہیں کہ رب کے احسانات کو نظرانداز کردیاجائے۔ ان تمام حدود کو پامال کردیاجائے جو اس کے رب نے اس کے لیے طے کی ہیں اورپھر وہ آزاد منش حیوان بن جائے یا حیوانوں سے بھی بڑھ کر۔ کیوںکہ حیوان اور تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کے حدود کی خلاف ورزی نہیںکرتے۔ لیکن یہ انسان جو رب کو بھول چکاہے، بھولنے کے نتیجے میں ان حدود کو پامال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ چوںکہ انسان نے اللہ کو بھلادیا، لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے قوم اور گروہ کو بدکرداروں سے تشبیہہ دیتے ہوئے ان کو بھلادیتاہے۔ وہیں دوسری طرف نیک لوگوں کی مثال اللہ تعالیٰ اس لیے دیتاہے تاکہ عقل رکھنے والے غورو فکر سے کام لیں۔
بدکردار لوگوں کے مقابلے میں قرآن نیک صفت انسانوں اور ان کی اجتماعیت کی بھی نشاندہی کرتا ہے:
اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَاعْتَصَمُواْ بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُواْ دِیْنَہُمْ اللّٰہِ فَأُوْلٰٓ ئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَجْراً عَظِیْماo ﴿النساء:۱۴۶﴾
’’البتہ جو لوگ تائب ہوجائیں اور اپنے طرزعمل کی اصلاح کرلیں اور اللہ کادامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرلیں، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں نیک صفت لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بتایاگیاہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں، اس کی ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے ہیں، اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو فوراً اللہ کی جانب پلٹتے ہیں، توبہ استغفار کرتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں سے اللہ رب العزت راضی ہوتاہے اور ان کو اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔ ایسا شخص، گروہ یا قوم اللہ کو پسند ہے اور وہ ان کو مومنین کے زمرے میں شامل کرتاہے۔ مومنین وہ ہیں جو اپنے رب کی رضا کے طالب ہوتے ہیں۔ اپنے ہر عمل میں محتاط اور حساس ہوتے ہیں، یہی لوگ آخرت میں زمین کے وارث ہوںگے۔ اللہ اُن سے راضی ہوگا اور آخرت کی کامیابی انھی کے لیے ہے۔ اس طرح جو بات ابھرکر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ انسان کے اچھے اعمال اس کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔ ان اعمال کے نتیجے میں اللہ فرد واحد سے بھی اور اُس گروہ اور قوم سے بھی راضی ہوجاتاہے ، جس کااخلاق اعلیٰ ہوتاہے۔ اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے ان کاکردار بھی مثالی ہوجاتاہے۔
عملی نمونے کی ضرورت
کسی بات پر عمل کرنے کے لیے پہلی ضرورت علم کی ہوتی ہے اور دوسری عمل کی۔ علم کے ذرائع محفوظ شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں یا افراد بھی اللہ کے فضل سے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ ایک آئیڈیل انسان کی ہرمحاذ پر ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ کوئی ہستی ایسی ضرور ہونی چاہیے جو علم اور عمل دونوں میں اپنی مخصوص حیثیت رکھتی ہو۔ اس ضرورت کے پیش نظر انسانوں کو بنانے والے اللہ نے خود ہی اس کامکمل انتظام بھی فرمادیاہے۔ اللہ نے نبیوں اور رسولوں کے سلسلے کو جاری کیا اور ان کو راست علم سے نوازا اور عمل کی توفیق دی تاکہ یہ شخصیات دنیا کے لیے نمونہ بن سکیں۔ نبیوں کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا جو قیامت تک انسانوں کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر محاذ پر مثال اور نمونہ رہیں گے۔
رسول اللہ بحیثیت نمونہ
انبیاے کرام اور پیغمبران اسلام کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد تکمیل اخلاق تھا۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ پہلا مقصد یہ تھا انسان صرف اللہ کی بندگی کرے اور دوسرا یہ کہ وہ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہو۔تاکہ وہ اپنے رب کو جانے، مانے، تصدیق کرے اور عمل کرے اور عمل کرتے ہوئے دنیا میں امن وسکون برقرار رکھے۔ اس سلسلے میں عملی نمونے کے لیے نبی امّی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَاِنَّکَ لعَلٰی خُلُقِ عَظِیمِ ﴿القلم:۴﴾
’’اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اس کاذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن ہے۔‘‘
لہٰذا ایک متوازن ،ذہن کی پیروی کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔ ایسے ہی انسان کی پیروی کرنی بھی چاہیے جس کا دماغ صحیح ہو، جس کی فطرت صالح ہو اور جس کا مزاج معتدل ہو۔ ہمارے لیے وہ حضرات بھی قابل نمونہ ہیں جن کو اصحاب رسولﷺہونے کا شرف ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے اِس قول میں فرمائی ہے: کان خلقہ القرآن‘’قرآن ان کااخلاق تھا‘‘ ﴿امام احمد، مسلم ، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ ، دارمی﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاکے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھادیاتھا اور آپﷺکی زندگی ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اخلاق کے اعلیٰ درجے پر پہنچنے کی خواہش رکھتاہو۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیاگیا، آپﷺنے خود سب سے پہلے بڑھ کر اس پر عمل کیا، جس چیز سے روکا گیا، آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو فضیلت قرار دیاگیا، سب سے بڑھ کر آپﷺکی ذات ان سے متصف تھی اور جن صفات کو ناپسندیدہ ٹھہرایاگیا، سب سے زیادہ آپﷺان سے پاک تھے۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا، کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپﷺنے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کاانتقام نہیں لیا جو آپﷺکو پہنچائی گئی ہو الّا یہ کہ اللہ کی حُرمتوں کو توڑاگیاہو اور آپﷺنے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو اور آپﷺکا طریقہ یہ تھاکہ جب دوکاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرناہوتاتو آپ آسان تر کام پسند فرماتے تھے۔الّا یہ کہ وہ گناہ ہو اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپﷺسب سے زیادہ دور رہتے تھے‘‘ ﴿مسند احمد﴾
حضرت انسؓ کہتے ہیں:
’’میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اُف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایاکہ تو نے یہ کیوں کیا، کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایاکہ تونے یہ کیوں نہ کیا۔‘‘ ﴿بخاری و مسلم﴾
گھریلو زندگی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ آپﷺہمارے قائد، رہنما، رہبر اورنبی ہیں۔ آپﷺکی زندگی ہماری اجتماعی زندگی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ جب ہم اس لحاظ سے آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ آپﷺکی گھریلو زندگی میں امہات المومنین کے ساتھ حسن سلوک، ان کی تربیت، ان سے محبت اور ہم دردی کارویہ اختیار کرتے، بچوں سے بے انتہا محبت کرتے اور فرماتے کہ، ’’بچے جنت کے پھول ہیں۔‘‘ ہماری اجتماعی زندگی کاوہ حصہ جس کو ہم گھر کہتے ہیں، جہاں ماں، باپ، بیوی بچے، بھائی بہن اور دیگر رشتے دار ہواکرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کس طرح سے پیش آئیںاور ان کے ساتھ کون سا رویہ اور طریقہ اختیار کریں۔ اس کی جانب رسولﷺکا اسوہ ہمارے لیے رہنمائی اور رہبری کا کام کرتاہے۔ ہمیں اس جانب غفلت نہ برتتے ہوئے ،شعوری اور سنجیدہ زندگی گزارنی چاہیے تاکہ ہم قیامت میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں تو کوئی اٹھنے والا ہاتھ ایسا نہ ہو جو ہماری جانب ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کااشارہ کرے اور اللہ کاغصب ہم پر نازل ہو۔
معاشرتی زندگی
بہت سے واقعات آپﷺکی زندگی سے وابستہ ہیں، جہاں لوگوں نے آپﷺکو تکلیفیں پہنچائیں، لیکن آپ ﷺنے ان لوگوں کو معاف کردیا اور یہی تعلیم آپﷺنے اصحابؓ کوبھی دی۔ پڑوسیوں کے حقوق کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ کہتی ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘جبریل ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ ﴿پڑوسی﴾ کاحق ادا کرنے کی ہدایت کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ خیال قائم کرلیاکہ جبریل امین پڑوسی کو وارث قرار دیںگے۔‘’﴿یعنی ایک ہمسایے کو دوسرے ہمسایے کا وارث بنادیںگے﴾ ﴿بخاری ومسلم﴾
اسی طرح لوگوں کی عزت واحترام کے سلسلے میں فرمایا:
’’کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتاہے۔ آپﷺنے فرمایا: ہاں جب وہ کسی کے باپ کو گالی دیتاہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتاہے اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘ ﴿جامع ترمذی﴾
لوگوں سے ہم دردی کے تعلق سے اللہ کے رسول فرماتے ہیں:
’’جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘ ﴿جامع ترمذی﴾
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتاہے:
لَّیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَاٰتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَائ والضَّرَّائ وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ o ﴿البقرہ:۱۷۷﴾
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخراور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموںپر، مسکینوںاور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور نیک وہ لوگ ہیںکہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں ایک مہذب معاشرے کی مکمل تصویر پیش کردی گئی ہے۔
معاشرتی اور اجتماعی زندگی کے اُن پہلوئوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کا تعلق حکومت اور ریاست سے ہے۔ ان میں معیشت، معاشرت، تعلیم اور سیاست آتے ہیں۔ ان کے تعلق سے بھی ہمیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی زندگی میں مکمل ہدایات اور رہ نمائیاں ملتی ہے:
الَّذِیْنَ اِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورo ﴿حج:۴۱﴾
’’یہ وہ لوگ ہیںاگر ہم انھیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس طرح معلوم ہواکہ حکومت کے اختیارات حاصل ہونے کے بعد سب سے اہم ذمّے داری یہ ہے کہ بااقتدار لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کو نافذ کردیں :
وَلُوطاً اٰنَیْنٰہُ حُکْماً وَعِلْماً وَنَجَّیْْنٰہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَت تَّعْمَلُ الْخَبَآئِثَ اِنَّہُمْ کَانُوا قَوْمَ سَوْئ ٍ فَاسِقِیْنo ﴿الانبیاء:۷۴﴾
’’اور لوط کو ہم نے حکم اور علم بخشا اور اسے اس بستی سے بچاکر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری، فاسق قوم تھیں اور لوط کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔‘‘
اس طرح واضح ہوگیاکہ حصولِ علم کامقصد یہ ہے کہ معصیت کے کاموں سے بچاجائے اور ان کاموں سے گریز کیاجائے جن کی ممانعت کی گئی ہے۔ معاشرہ جب صالح ہوگا تو اس میںبسنے والے لوگ امن وسکون کی زندگی بسر کریںگے۔ اسلامی تعلیمات پر مبنی معاشرہ وجود میں آئے گا، اس کی خواہش فرد اور اجتماعیت دونوں کے سامنے ہونی چاہیے۔
جنت بحیثیت صلہ
اسلامی بنیادوںپر استوار معاشرے کی خواہش جب ہم اپنے دل میں رکھتے ہیں تو اس کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اختیار کرنے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ حالات سازگار نہ ہوں تو اس کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس خواہش کو رکھنے والے،اس پر عمل کرنے والے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ ہیںجن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا۔ارشاد باری ہے:
وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ أُورِثْتُمُوہَا بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَo﴿الزخرف: ۷۲﴾
’’اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیے گئے ہو تمہارے اعمال کا صلہ ہے۔‘‘
ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا جو دنیا میں اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، ساتھ ہی وہ اہل ایمان تھے اور جنھوںنے مومن و مسلم بندے بن کر زندگی گزاری تو ایسے لوگوں کے لیے بشارت ہے اور یہی لوگ جنت کے وارث ہوںگے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَاتَّقُواْ یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون ﴿البقرہ: ۲۸۱﴾
’’اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جائوگے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کاکچھ نقصان نہ ہوگا۔‘‘
وہاں جو کچھ ہم کماکر لے جائیںگے اس کاپورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ اللہ کی عدالت میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہیں ہوگی۔ قرآن کہتاہے:
فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ oاِلَّا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لَہُمْ أَجْرٌ غَیْْرُ مَمْنُونٍo ﴿انشقاق: ۲۴-۲۶﴾
’’انھیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنادو۔ ہاں ایمان والوں اور نیک اعمالوں کے لیے بے شمار اور نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010