عصر حاضر میں جرائم نے ایک عالم گیر وبا کی صورت اختیار کرلی ہے۔ دنیا کا کوئی خطّہ ان سے محفوظ نہیں ہے۔ تمام ممالک، خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں، یا ترقی پذیر، یا پس ماندہ، ان کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کا دائرہ سماج کے تمام طبقات تک وسیع ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں، بچے ہوں یا جوان، ادھیڑ عمر کے لوگ ہوں یا بوڑھے، مال دار ہوں یا غریب، کارخانے دار ہوں یا مزدور، ملازمت پیشہ ہوں یا بے روزگار، سیاست داں ہوںیا قانون نافذ کرنے والے، سب ان میں ملوّث بھی ہیں اور ان کا شکار بھی۔ ان جرائم کی نوعیتیں بھی مختلف ہیں۔ ان میں جنسی جرائم بھی ہیں اور عورتوں اور بچوں سے متعلق دیگر جرائم بھی، معاشی جرائم بھی ہیں اور اخلاقی جرائم بھی، سیاسی جرائم بھی ہیں اور جنگی جرائم بھی،دنیا کے کسی ملک کے ’کرائم ریکارڈ‘ کے اداروں کی سروے رپورٹوں کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرلیا جائے، یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب نظر آئے گی۔ خود ہمارا ملکِ عزیز بھی اس معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں ہے، بلکہ اس کا شمار دنیا کے ان چند گنے چنے ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں جرائم کا گراف کافی اونچا ہے۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجئے، وہ قتل، چوری، ڈکیتی، اغوا، اسمگلنگ، لوٹ کھسوٹ، زنا بالجبر، اقدام زنا، جنسی تشدد، دست درازی، جہیز کے لیے زدو کوب، رحم مادر میں بچیوں کا قتل، بچوں کی خرید و فروخت اور جبری مزدوری، رشوت، شراب نوشی اور منشیات کا استعمال، غرض مختلف جرائم کے واقعات اور ان کی رپورٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جرائم میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ چند سال قبل ان کا جو تناسب تھا، اب ان میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ مجرمین جرم کے نئے نئے طریقے ایجاد کررہے ہیں۔ یہ صورت حال سماج کے ہرسنجیدہ اور باشعور شہری کے لیے پریشان کن اور باعثِ تشویش ہے۔ سماجی کارکنان ہوں یا دانش وران، قانون داں ہوں یا سیاست داں، سب فکر مند ہیں کہ کس طرح سماج کو جرائم سے پاک کیا جائے اور اسے امن وامان کا گہوارہ بنایا جائے۔ لیکن اس کے باوجود جرائم ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے اور ان سے ملک و معاشرہ کی بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں ـمرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اسلام کے تعزیری قوانین آزمودہ ہیں
یہ صورت حال ، جس میں تمام دانش وران اور اربابِ حلّ و عقد جرائم کے انسداد کی تدابیر ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں، تقاضا کرتی ہے کہ اسلام کے تعزیری قوانین کا مطالعہ کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ انسداد جرائم میں کس حد تک معاون ہیں۔ اسلام کے علمبرداروں اور اس کی ترجمانی کرنے والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کی معنویت آشکارا کریں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کودور کریں۔
اسلام کے تعزیری قوانین کے مطالعہ و جائزہ کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے، کیوںکہ یہ قوانین آزمودہ ہیں۔ تاریخ کے ایک عرصہ میں یہ ایک خطۂ زمین میں نافذ رہے ہیں اور سماج میں ان کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے گئے ہیں۔ جس زمانے میں یہ قوانین نافذ کیے گئے اس زمانے میں سرزمینِ عرب فتنہ و فساد کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، عصمت دری، شراب نوشی اور دیگر سماجی برائیاں، جن کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں، عام تھیں، ان قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں یہ برائیاں تقریباً ختم ہوگئیں اور پورے خطے میں امن وامان کا دور دورہ ہوگیا۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ ، جو۹ھ میں مشرّف بہ اسلام ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں مخطب کرکے فرمایا:
یا عدی، ان طالت بک حیاۃ لترینّ الظعینۃ ترتحل من الحیرۃ حتی تطوف بالکعبۃ، لاتخاف احداً الا اللہ۔
﴿صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام،۳۵۹۵﴾
﴿اے عدی، اگر تم کچھ عرصہ مزید زندہ رہے تو ضرور دیکھ لوگے کہ ایک عورت حیرہ سے سفر کرکے مکہ پہنچے گی اور خانۂ کعبہ کا طواف کرے گی، پورے سفر میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہوگا﴾
حضرت عدیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس پیشین گوئی کو پورا ہوتے ہوئے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔﴿بخاری ، حوالہ سابق﴾
مصالحِ انسانی کی حفاظت- اسلامی شریعت کا مقصود
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں زندگی گزارنے کے سلسلہ میں جو احکام دیے ہیں، ان سے انہی کی بھلائی مقصود ہے، ورنہ اس کی ذات بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ ان احکام پر پوری دل جمعی اور اطمینان قلب کے ساتھ عمل کرنے کے لیے ان کی حکمتوں اوران کے دنیوی و اخروی فائدوں کے بیان کو علمائ نے پسندیدہ قرار دیا ہے، انھیں مصالح کا نام دیا ہے اور ان کی حفاظت کو شریعت کا مقصود بتایا ہے۔ امام ابوحامد الغزالی ﴿م۵۰۵ھ/ ۱۱۱۱ء﴾ فرماتے ہیں:
’’مصلحت سے ہماری مراد مقصودِ شریعت کی حفاظت ہے اور مخلوق کے معاملے میں شریعت کا مقصود یہ ہے کہ ان پانچ چیزوں کی حفاظت کی جائے: ﴿۱﴾ دین ﴿۲﴾ جان ﴿۳﴾ عقل ﴿۴﴾ نسل ﴿۵﴾ مال۔ ہر وہ چیز جو ان پانچ بنیادی چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہو وہ مصلحۃ ہے اور ہر وہ چیز جو ان بنیادوں کے فوت ہونے کا سبب بنے وہ مفسدۃ ہے اور اس کا ازالہ کرنا مصلحۃ ہے۔‘‘﴿ابوحامد الغزالی، المستصفیٰ من علم الاصول، المطبعۃ الامیریۃ، بولاق مصر، ۱۳۲۲،۱/۲۸۶۔۲۸۷﴾
اسلام کے تعزیری قوانین مصالح انسانی کی حفاظت کے لیے ہیں
اسلام نے مذکورہ بالا مصالح انسانی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے مختلف قوانین وضع کیے ہیں۔ وہ انسانوں کو عقیدہ کی پوری آزادی دیتا ہے اور انھیں دائرۂ ایمان میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا، لیکن وہ کسی شخص کو اس بات کی چھوٹ نہیں دیتا کہ وہ انسانی مصالح کو پامال کرے، انسانوں کی جانوں کے درپے ہو، ان کے مالوں میں لوٹ کھسوٹ کرے، ان کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہو، یا ایسے کام کرے جن سے نسل انسانی کے تسلسل میں رکاوٹ آئے، یا عقل انسانی میں فتور پیداہو۔ ان مصالح میں سے کسی مصلحت پر دست درازی کو وہ سنگین جرم قرار دیتا ہے اور اس پر سزا عائد کرتا ہے۔ اس موضوع پر امام غزالیؒ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے پانچوں مقاصدِ شریعت کاتذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’ان پانچوں اصولوں کی حفاظت ’ضروریات‘ ﴿انتہائی ناگزیر چیزوں﴾ کے درجے میں ہے، اس لیے کہ یہ انسانی مصالح کااعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے اس منکر دین کو ،جو دوسروں کو گم راہ کرنے کے درپے ہو، قتل کرنے اور اس بدعتی کو، جو دوسروں کو اپنے خود ساختہ عقیدہ کی طرف دعوت دے، سزا دینے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح شریعت نے قصاص کو واجب کیا ہے، تاکہ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ شراب نوشی پر سزا لازم کی ہے، تاکہ عقلیں محفوظ رہیں، جن کی وجہ سے انسانوں کو احکام کامکلّف کیا گیا ہے۔ زنا پر حد واجب کی ہے، تاکہ نسل اور نسب محفوظ رہیں۔ چوروں اور لٹیروں کی سرزنش کا حکم دیا ہے، تاکہ اموال محفوظ رہیں، جو انسانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں اور جن کے وہ محتاج ہیں۔ ان پانچوں بنیادی اصول کی پامالی کی ممانعت اور اس پر تنبیہ و سرزنش دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ ‘‘ ﴿المستصفیٰ،۱/۲۸۷۔۲۸۸﴾
سزاؤں کی قسمیں
اسلام میں مختلف جرائم پر جو سزائیں متعین کی گئی ہیں ان کی تین صورتیں ہیں:
الف- حد: اس سزا کو کہتے ہیں جس کی تعیین کتاب و سنت میں کردی گئی ہو۔ اس کا اطلاق درج ذیل سزاؤں پر ہوتاہے:
﴿۱﴾ حدِّ زنا: اگر زنا کرنے والا مرد یا عورت غیر شادی شدہ ہو تو اس کی سزا قرآن ﴿النور: ۲﴾ میں سو کوڑے بیان کی گئی ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کے لیے رجم ﴿یعنی پتھروں سے مارمار کر ہلاک کرنے﴾ کی سزا حدیث میں مذکور ہے۔
﴿۲﴾ حدّ قذف: بہتان تراشی ﴿یعنی کسی پر زنا کاالزام لگانے یا اس کے نسب کا انکار کرنے﴾ کی سزا قرآن ﴿النور: ۴﴾ میں اسّی کوڑے مذکور ہے۔
﴿۳﴾ حدِّ سرقہ: چوری کی سزا یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ یہ سزا قرآن ﴿المائدۃ:۳۸﴾ میں مقرر کی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات و جزئیات کا بیان احادیث میں ملتا ہے۔
﴿۴﴾ حدِّ حرابۃ: حرابہ کا مطلب ہے علی الاعلان طاقت کے زور پر کس کا مال چھین لینا اور اس پر قبضہ کرلینا۔ عُرف عام میں اسے ڈکیتی کہتے ہیں۔ قرآن ﴿المائدۃ:۳۳﴾ میں اس کی چار سزائیں بیان کی گئی ہیں: ﴿۱﴾ قتل ﴿۲﴾ پھانسی ﴿۳﴾ ہاتھ پیر مخالف سمتوں سے کاٹ دیا جانا ﴿۴﴾ جلاوطنی۔
﴿۵﴾ حدِّ شرب خمر: قرآن میں شراب کی صرف حرمت کا بیان ہے، اس کی حد کا تعین نہیں کیاگیا ہے۔ اسے حرام قرار دیے جانے کے بعد عہد نبوی میں شراب پینے والے کو چالیس کوڑے مارے جاتے تھے۔ بعد میں مصالح کے پیش نظر خلفائے راشدین نے اس کی تعداد بڑھاکر اسّی کردی۔
﴿۶﴾ حد الردّۃ: اسلام سے پھر جانے کو ردّہ یا ارتداد کہا جاتا ہے۔ قرآن ﴿البقرۃ: ۲۱۷﴾ میں مرتد کے تمام اعمال ضائع ہوجانے کی خبر دی گئی ہے اور اسے جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں اس کی سزا قتل مذکور ہے ۔﴿بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللّٰہ ان النفس بالنفس﴾
ب: قصاص: کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ ﴿البقرۃ: ۱۷۸﴾ اور اگر اس کا کوئی عضو تلف کردے تو بدلے میں اس کا وہ عضو بھی تلف کردیا جائے گا ۔ ﴿المائدۃ: ۴۵﴾ اسے قصاص کہا جاتا ہے۔
بعض فقہاءنے قصاص کو بھی حد میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ اس کی سزا بھی کتاب و سنت کے ذریعے متعین کردہ ہے۔
ج: تعزیر: اس سزا کو کہتے ہیں جو قرآن و سنت میں منصوص نہیں ہے اور اسے اسلامی ریاست میں قاضی جرم، مجرم اور حالات کے مطابق حسب ضرورت نافذ کرتا ہے۔ حدود و قصاص کے نفاذ کے لیے کچھ شرائط مقرر ہیں۔ بسا اوقات وہ مکمل طور پر نہیں پائی جاتیں۔ ایسی صورت میں مجرم پر حد یا قصاص تو جاری نہیں کیا جاتا، لیکن اسے آزاد بھی نہیں چھوڑدیا جاتا، بلکہ اس کے جرم کے مطابق اسے کوئی دوسری سزا دی جاتی ہے۔ یہ سزا جسمانی بھی ہوسکتی ہے، مالی بھی۔ قید و بند کی بھی ہوسکتی ہے اور شہر بدری کی بھی، یا کوئی دوسری۔ کتبِ فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
اسلامی سزاؤں کے مقاصد
جرائم کے ارتکاب کی صورت میں سزاؤں کے بیان کے ساتھ قرآن کریم میں ان کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مقاصد بنیادی طور پر دو ہیں: ایک یہ کہ مجرم اپنے جرم کا بدلہ پائے، جو گھناؤنی حرکت اس نے کی ہے اس کا انجام جھیلے، جس حرام کام کا اس نے خواہش نفس سے مغلوب ہوکر ارتکاب کیا ہے، دوبارہ اس کے ارتکاب کی جرأت نہ کرے اور سزا کا خوف اس کے دل سے اس کا داعیہ ختم کردے، دوسرے یہ کہ یہ سزائیں دیگر افراد کے لیے عبرت کا باعث ہوں، ان کے ذہنوں میں ہر وقت یہ بات تازہ رہے کہ اگر انھوں نے ان جرائم کا ارتکاب کیا تو انھیں بھی ویسے ہی بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ شعور انھیں ارتکابِ جرم سے باز رکھے گا اور ان میں مجرمانہ ذہنیت نہیں پنپنے پائے گی۔
قرآن کریم میں چوری کی سزا ان الفاظ میں بیان کی گی ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ۔ ﴿المائدۃ: ۳۸﴾
﴿اور چور، خواہ مرد ہو یا عورت ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔﴾
اس آیت کی تشریح میں شیخ رشید رضا مصریؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں حد کی علّت بھی مذکور ہے، یعنی ان کے ہاتھ کاٹ دو، ان کے برے اور گندے کام کے بدلے، اور اس لیے تاکہ یہ سزا دوسروں کے لیے عبرت بنے۔ آیت میں نکال کا لفظ آیا ہے۔ یہ نکل سے ماخوذ ہے، جس کے معنیٰ ہیں وہ رسّی جس سے جانور کو باندھا جاتا ہے۔ نکل عن الشیئ کے معنیٰ ہیں کسی رکاوٹ کی وجہ سے کسی چیز سے پیچھے ہٹنا اور کسی کام سے باز رہنا۔ یہاں نکال سے مراد وہ چیز ہے جو لوگوں کو چوری کرنے سے باز رکھے۔ اللہ کی قسم، چور کا ہاتھ کاٹ دینے سے اس کو زندگی بھر جو رسوائی ہوتی ہے اور اس پر ذلّت و عار کا جو داغ لگ جاتا ہے وہ دوسروں کو چوری سے باز رکھنے کے لیے مناسب ترین سزا ہے، جس سے لوگوں کے اموال محفوظ رہتے ہیں، اوران کی جانوں کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ بسا اوقات اگر اصحاب اموال کو چوروں کا پتا چل جاتا ہے اور وہ ان کا مقابلہ کرتے ہیں تو انھیں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتاہے‘‘۔﴿محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مطبعۃ المنار، مصر، ۶/۳۸۰۔ لفظ نکال کی یہ تشریح امام راغب اصفہانی ؒ نے بھی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: المفردات فی غریب القرآن، دارالمعرفۃ بیروت،ص:۵۰۶﴾
حدِّ حرابہ بیان کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے:
ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ ﴿المائدہ:۳۳﴾
﴿یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیامیں ہے اور آخرت میں تو ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔﴾
لفظ ’خزی‘ کی تشریح میں شیخ رشید رضا ؒ فرماتے ہیں:
’’یعنی دنیا میں انھیں ذلّت اور رسوائی حاصل ہو اور وہ دوسرے فسادیوں کے لیے عبرت بنیں۔‘‘﴿تفسیرالمنار، ۶/۳۶۴﴾
زنا کی حد ﴿کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو سو کوڑے مارے جائیں﴾ بیان کرنے کے ساتھ قرآن کہتاہے:
وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ﴿النور: ۲﴾
﴿اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے﴾
اس سے بھی اسلامی سزاؤں کے مقصد اور حکمت کی وضاحت ہوتی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے:
’’یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریۂ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے . اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں : اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزہ چکھایا جائے جو اُس نے کسی دوسرے شخص یامعاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادۂ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنادیا جائے، تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہوجائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کرسکیں‘‘۔﴿مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی،۳/۳۴۴۔۳۴۵، حاشیہ ۴، سورۂ نور﴾
آیتِ قصاص کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَوٰۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ ﴿البقرہ:۱۷۹﴾
﴿اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل و خرد رکھنے والو۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔﴾
اسلامی تعزیرات کی حکمت و معنویت پر روشنی ڈالنے والی یہ ایک معنیٰ خیز آیت ہے۔ قصاص میں قاتل کو بھی قتل کردینے سے بہ ظاہر ایک اور جان کا ضیاع ہوتاہے، لیکن قرآن کہتا ہے کہ اس میں زندگی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:
’’یہ آیت بلاغت اور ایجاز کا نمونہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قصاص کو نافذ کیا جائے گا تو جو شخص کسی کو قتل کرنے کا خواہاں ہوگا وہ اس خوف سے رک جائے گا کہ بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ عربوں میں جب کوئی شخص کسی کو قتل کردیتاتھا تو دونوں کے قبیلے غیظ و غضب سے بپھر جاتے تھے اور ان میں باہم جنگ ہونے لگتی تھی۔ اس طرح بہت بڑی تعداد کے قتل کی نوبت آجاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب قصاص کو مشروع کیا تو تمام لوگ قانع ہوگئے اورانھوں نے باہم لڑائی جھگڑا بند کردیا۔ اس طرح انھیں زندگی مل گئی۔‘‘
ابوعبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۲/۲۵۶
اس آیت کی بلاغت پر علامہ زمخشریؒ اورامام رازی نے بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ کیجیے جاراللہ الزمخشری، الکشاف عن حقائق التنزیل، مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ، مصر، ۱/۳۳۳، فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب المعروف بالتفسیر الکبیر، المکتبۃ التوفیقیۃ مصر، ۵/۵۰-۵۱
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے ہر دور میں ان کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی اگر دنیا کے مختلف ممالک میں رو،نما ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت پورے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جن ممالک میں یہ سزائیں نافذ ہیں ان کے مقابلہ میں جن ممالک میں نافذ نہیں ہیں ان میں جرائم کا تناسب کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔
اسلامی سزاؤں پر بعض اعتراضات کا جائزہ
اسلام کے تعزیری قوانین کی حکمت و معنویت سے جو حضرات واقف نہیں ہیں وہ ان پر مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہیں۔ انھیں یہ سزائیں وحشیانہ اور سفّاکانہ دکھائی دیتی ہیں اور ان سے ان کی نظر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ یہاں ایک نظر ان کے بعض اعتراضات پر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایک اعتراض بہت زور شور سے یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام نے مختلف جرائم پر جو سزائیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی بے رحمی اور سنگ دلی کی مظہر ہیں۔ آج کا ترقی یافتہ اور متمدن دور ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ اعتراض کرنے والوں کی نظر مسئلے کے صرف ایک پہلو پر رہتی ہے۔وہ دوسرے پہلو کی طرف نہیں دیکھتے کہ یہ مجرمین معاشرہ میں کتنے فساد کا باعث بنتے ہیں اور ان کا وجود پاکیزہ سماج میں کتنا تعفّن پیدا کرتا ہے۔ جسمِ انسانی کے کسی عضو میں پھوڑا بن رہا ہو تو اس کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھوڑا پک گیا ہو تو اسے چیر پھاڑ کر گندا مواد باہر نکال دیا جاتا ہے۔ تعفّن (Septic) دوسرے عضو میں سرایت کررہا ہو یا زخم کینسر بن گیا ہو تو اس عضو کو کاٹ کر پھینک دینے ہی میں عافیت ہوتی ہے اور مریض سے ہم دردی اور بھلائی کا یہی تقاضا ہوتا ہے۔ اسی طرح جو مجرم اپنے جرم کی وجہ سے صحت مند معاشرہ کو بیمار کررہا ہو اور قوی اندیشہ ہو کہ اس کا فساد دوسرے افراد میں بھی سرایت کرجائے گا تو اس کا علاج کرنا اور اور اگر وہ لاعلاج ہو تو اسے سماج سے کاٹ کر پھینک دینا ہی تقاضائے دانش مندی اور قرین عقل ہے۔
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ اسلام نے جو سزائیں تجویز کی ہیں وہ بڑی اہانت آمیز اور رسوا کن ہیں۔ اگر ان سزاؤں کی معقولیت تسلیم کرلی جائے تو بھی ان کے نفاذ کے طریقوں کو کسی طرح پسندیدہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سزا کوئی بھی ہو اور کتنے ہی آسان سے آسان طریقے سے دی جائے وہ بہ ہر حال اہانت آمیز اور رسوا کن ہوتی ہے۔ اگر کسی فرد یا سماج کا مزاج نہیں بگڑا ہے تو وہ سزا کی کسی صورت کو بھی لائقِ فخر اور باعثِ عزّ و شرف نہیں سمجھ سکتا۔ دوسری بات یہ کہ اسلامی تعزیرات میں وہ صورتیں خاص طور پر اسی لیے اختیار کی گئی ہیں ، تاکہ ان کی اہانت انگیزی اور ذلت آمیزی دیکھ کر دوسرے لوگ، جن کے اندر جرم کے جراثیم پنپ رہے ہوں،ان جرائم کے ارتکاب سے باز آجائیں۔
اسلامی تعزیرات کے بارے میں ایک اعتراض یہ بھی عام ہے کہ ان سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کوئی شخص بڑے سے بڑا مجرم ہو ،لیکن اس کی جان محترم ہے اور کسی دوسرے انسان کو اس کی جان لینے کا حق نہیں ہے۔اسی دلیل کی بنیاد پر پھانسی کی سزا کو کالعدم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔یہ حضرات مجرم کے بنیادی حقوق کی تو پر زور وکالت کرتے ہیں،لیکن مظلوم اور مقتول کے انسانی حقوق ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔یقیناً انسانی جان محترم ہے،لیکن جتنی محترم قاتل کی جان ہے اتنی ہی محترم مقتول کی بھی جا ن تھی۔اگر قاتل نے اس احترام اور تقدس کو پامال کیا ہے تو اس نے اپنے زندہ رہنے کا حق بھی کھو دیا ہے۔اس معاملے میں اسلام’جیسے کو تیسا‘ کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے مقتول کے ورثائ کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ مقتول کی جان کے بدلے کچھ دیت لے کر یا اس کے بغیر قاتل کو معاف کردیں۔
سزاؤں کے نفاذ کے لیے اسلامی ریاست کا قیام ضروری ہے
اسلامی تعزیرات کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان کا نفاذ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جس خطۂ زمین میں اسلامی ریاست قائم نہ ہو وہاں کوئی دوسرا ادارہ یااجتماعیت انھیں نافذ کرنے کاحق نہیں رکھتی۔ اورچوںکہ مسلمانوں کو مخاطب کرکے انھیں ان سزاؤں کو نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں کرنا مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے۔ آیتِ سرقہ کی تشریح کرتے ہوئے امام رازیؒ نے لکھا ہے:
’’متکلمین نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ امت پر اپنے لیے ایک امام کو متعین کرنا واجب ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے چوروں اور زناکاروں پر حد جاری کرنے کو لازم کیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جواس حکم کا مخاطب ہو۔ اور امت کا اس بات پراجماع ہے کہ عوام کو مجرموں پر حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ آزاد مجرمین پرحد جاری کرنے کااختیار صرف امام کو ہے۔ پس جب امت کو اس حکم کا قطعی طورپر مکلّف کیاگیا ہے اور اس سے عہدہ برا ہونا امام کے بغیر ممکن نہیں، تو اس اصول کی رو، سے کہ جس چیز کے بغیر واجب پر عمل ممکن نہیں وہ بھی واجب ہوتی ہے، نصبِ امامت قطعی طور پر واجب ہے۔‘‘ ﴿تفسیر کبیر، حوالہ سابق، ۹﴾
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012