مجھ سے چند صاحبان یہ کہتے ہیں کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے باعزت زندگی گزارنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔ کیوں کہ اگر ہم احساس کی زندگی گزارنا چاہیں گے تو مصیبت کا شکار ہوں گے اور حکومت کی نظر میں باغی شمار ہوجائیں گے۔ ان کی ان باتوں کا جواب دے دیا گیا ہے لیکن لوگ باتوں کو تسلیم نہیں کرتے، وہ کسی ذمہ دار ہی کی بات مانیں گے۔ مہربانی فرماکر اس سلسلے میں اپنے خیالات ظاہر فرمائیں۔
اس طرح کی باتیں بہت سے لوگ بغرض تفریح بھی کیا کرتے ہیں۔ ان کو اپنے اس دل چسپ مشغلے میں مصروف رہنے دیجیے۔ ان کے سامنے اپنا دکھڑا بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کچھ لوگ واقعی سنجیدگی کے ساتھ مسلمانان ہند کے حال و مستقبل پر غور کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ جماعت اسلامی کے مسلک و طریق کو معلوم کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کہیے کہ یہ مسئلہ سرسری طور سے گزر جانے کے قابل نہیں ہے۔ اس کو کم از کم اتنی تو اہمیت دیجیے کہ اس پر تھوڑا وقت صرف کرنے کو آپ ضیاع وقت نہ سمجھیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اس وقت جو مسائل درپیش ہیں وہ کوئی معمولی قسم کے مسائل نہیں ہیں یہ ان کے مستقبل کے لیے درحقیقت فیصلہ کن مسائل ہیں اور ان کے صحیح حل ہی پر ان کے اور ان کے ساتھ اسلام کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ایسی صورت میں کہیں چوراہے پر کھڑے ہوکر یا کسی گپ شپ کی مجلس میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اس پر سرسری گفتگو کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کی کسی درجہ میں بھی فکر رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ ان مسائل پر پوری سنجیدگی اور اہمیت کے ساتھ غور کریں اور اس مسئلے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور صرف کریں۔
اگر اس گفتگو کے بعد آپ ان میں کچھ وقت صرف کرنے کی آمادگی پائیں تو ان کو مشورہ دیں کہ اس مسئلے کے بارے میں ہماری رائے معلوم کرنے کے لیے ہمارے لٹریچر میں سے کم از کم جماعت کے ’’لائحہ عمل‘‘ کا ذرا اطمینان کے ساتھ مطالعہ کریں۔ ان کو اس کے مطالعے سے پوری تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت مسلمانان ہند کے لیے کیا خطرات درپیش ہیں اور ہمارے نزدیک ان کا صحیح اسلامی حل کیا ہے۔ جو لوگ اس سلسلے میں آپ سے استفسارات کر رہے ہیں ان کے لیے صحیح جواب میرے نزدیک یہی ہے لیکن اگر بدقسمتی سے ان کی دل چسپی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بس اتنی ہی ہو کہ وہ اس چھوٹے سے پمفلٹ کے مطالعے کی’’دردسری‘‘ بھی نہ اٹھاسکیں اور محض زبانی بات چیت ہی کے شوق کا اظہار کریں تو ان سے بالاختصار عرض کریں کہ:
ہم آپ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ ’’آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں رہی‘‘ یہ آخر کس بنا پر فرض کر لیا گیا ہے؟ جہاں تک حالات کی ناموافقت کا تعلق ہے یہ مسلّم ہے۔ لیکن حالات کو موافق بنانا ناممکن بات تو نہیں۔ مسلمان اس سے زیادہ ناموافق حالات سے بارہا دوچار ہوئے ہیں لیکن انھوں نے اپنے عزم و ہمت سے حالات کو سازگار بنایا اور اب بھی وہ یہ کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اب تک جو غلطیاں کرتے رہے ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیں اور آئندہ اسلام کی ہدایات کے مطابق اپنے عمل کی طرح ڈالیں۔ یہ خطرات جو ہر چہار طرف سے آپ کو گھیرے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ خواہ خود آپ کی گذشتہ قوم پرستانہ سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیے جائیں یا دوسری قوموں کی جارحانہ قوم پرستی کا بہرصورت ان کا ازالہ ممکن ہے۔ اور اس کی صورت صرف ایک ہی ہو سکتی ہے کہ آپ آئندہ سے اپنے کو عرفی معنی میں قوم سمجھنا چھوڑ دیں اور جیسا کہ اسلام تقاضا کرتا ہے ایک اصولی پارٹی کی شکل میں دنیا میں آئیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ جارحانہ قوم پرستی جس سے آپ اس وقت شکوہ سنج ہیں وہ خود بخود آپ کے مقابلے میں مرجھا کر رہ جائے گی۔ جس قوم پرستی کی بنیاد وطن یا نسل و نسب پر ہوتی ہے، جب اس کا مقابلہ ایسی ہی قوم پرستی سے ہوتا ہے تو وہ فطرتًا زور پکڑتی ہے۔ لیکن وہ ایسی قومیت کے مقابلے میں بالکل بے بس ہے جس کی بنیاد ان مادّی رشتوں کے بجائے عقلی اور فطری اصولوں پر قائم ہو۔ مادی اور حسی رشتوں میں یقینًا بڑا زور ہے اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ اس وقت عام طور سے دنیا انھیں رشتوں میں جکڑی ہوئی ہے لیکن پھر بھی انسان ایک عاقل مخلوق ہے، وہ مادی اور حسی رشتوں سے اپنا دامن چھڑا بھی سکتا ہے اور کوئی اصول جو اسے پسند آ جائے اس کے لیے وہ جان پر بھی کھیل سکتا ہے۔ پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہر ملک میں آپ اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ تحریکات میں اشتراکیت ایک ایسی تحریک ہے جو غلط ہو یا صحیح بہرحال اس کی بنیاد وطن اور نسل وغیرہ کے بجائے چند خاص افکار پر قائم ہے اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وطن اور نسل کے رشتے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے اور جن لوگوں کو وہ افکار اپیل کرتے ہیں وہ ان حد بندیوں کو توڑ کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تو کیا یہی بات اسلام کے بارے میں صحیح نہیں ہو سکتی؟ اگر آپ بھی خدا نخواستہ اسلام کو ایک فرسودہ نظام سمجھتے ہوں جو اس ترقی یافتہ دور کے لیے ناکارہ اور ناموزوں ہے تب تو خیر آپ مایوس ہو جائیں اور اس صورت میں ہماری اور آپ کی گفتگو بھی بے کار ہے لیکن اگر آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے اور وہی موجودہ انسانی مشکلات کا واحد حل ہے تو پھر اس سے کیوں مایوس ہوں کہ آپ کی قومیت جو اسلام پر قائم ہوگی وہ انھیں معاندانہ قومیتوں میں سے اپنے لیے سپاہی اور خدمتگار فراہم کر لے گی اور بحثیت مجموعی ان کے زور و اثر کو کم زور یا ختم ہی کرکے چھوڑے گی۔ اسلام کو ایک فطری اور خدا کا بھیجا ہوا آخری اور کامل مذہب سمجھنے کے علاوہ ہم عام انسانی فطرت سے بھی کوئی بدگمانی نہیں رکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسان میں بناؤ اور بگاڑ دونوں کی صلاحیتیں ہیں لیکن اس کی فطرت کا اصلی لگاؤ خیر اور حق سے ہے اور وہ اس کو بہرحال عزیز رکھتا ہے۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان قوم پرستی اور فرقہ پرستی ترک کرکے صحیح مذہب اسلام پر قائم ہو جائیں تو یہی نہیں کہ وہ یہاں زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ آقا اور مخدوم بن کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے گذشتہ طرز عمل نے غیر مسلموں کو مسلمانوں اور خود اسلام کی طرف سے سخت بدگمان اور متنفر بنا دیا ہے اور ان کا یہ تنفر اور بدگمانی ہماری راہ میں ایک زبردست رکاوٹ ہے۔ لیکن اگر ہم خلوص اور عزم کے ساتھ اس کام کے لیے تیار ہوجائیں تو اس کے اثرات مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
مگر اس کا کیا علاج کہ مسلمان اس زمانے میں اس درجہ مایوس، دل شکستہ اور مرعوب ہو گئے ہیں کہ اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور ہمارے نزدیک ان کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ یاس و امیدی اور مرعوبیت جس کسی قوم پر مسلط ہو جاتی ہے تو اس کا کوئی علاج موت کے سوا نہیں ہو سکتا۔ لا قدّر اللہ (اللہ ایسا نہ کرے)
۲۔ ہمارے نزدیک مسلمان ہند کے لیے اس وقت جو صحیح لائحہ عمل ہو سکتا ہے وہ یہی ہے جو مختصرًا اوپر بیان کر دیا گیا ہے اگر آپ اس کو صحیح سمجھتے ہوں تو اس کے مطابق اپنی حد تک آپ کو کام شروع کر دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ حکومت اس وقت مسلمانوں سے بدگمان ہے اور وہ جو کچھ بھی کریں گے وہ اشتباہ کی نظر سے دیکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے وہ باغی سمجھ لیے جائیں گے، تو اول تو میں حکومت کے بارے میں اتنی بدگمانی صحیح نہیں سمجھتا کہ وہ آپ کے کاموں کی نوعیت کو یکسر نظر انداز کرکے محض مسلمان ہونے ہی کی بنا پر آپ کو ’باغی‘قرار دے دے۔ جس طرح کے کام کا آپ کو مشورہ دیا جا رہا ہے وہ کام تو ایسا ہے کہ اگر حکومت سمجھ بوجھ سے کام لے تو اسے اس طرح کا کام کرنے والوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے ورنہ کم از کم اس میں رخنہ اندازی کرنے سے تو بہرحال اسے اجتناب کرنا چاہیے اور ہمیں توقع بھی رکھنی چاہیے کہ وہ ایسا ہی کرے گی۔ ظاہر ہے کہ آپ نظم حکومت میں کوئی اختلال پیدا نہیں کر رہے ہیں اور نہ فرقہ وارانہ یا طبقاتی جنگ کا کوئی پروپگنڈا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ تو جو کچھ چاہتے ہیں، اس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ آپ خود بھی اسلام کے نظریہ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے خواہشمند ہیں اور دوسری خلق خدا کو بھی خدا کی بخشی ہوئی اس نعمت میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ پھر جب حکومت نے آزادی رائے ضمیر اور اس کے مطابق اظہار رائے کے حق کو اصولًا تسلیم کر لیا ہے اور اس کے بموجب ایسی جماعتوں کو بھی یہ حق عملًا دے رکھا ہے جن کے اصول و نظریات فتنہ و فساد کا بھی باعث بن سکتے ہیں تو وہ اس حق سے ہم ہی کو کیوں محروم رکھے گی۔ بہر حال ہمیں حکومت کے بارے میں خواہ مخواہ بدگمانی سے کام لینے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر خدانخواستہ یہ بدگمانی صحیح ہو یا عملًا اس کا ظہور ہی ہونے لگے تو سوال یہ ہے کہ پھر کیا ایسی صورت میں ہمیں اسلام کا نام لینا ترک کر دینا چاہیے؟ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی مسلمان جو مسلمان بن کر زندہ رہنا اور اسلام ہی پر اپنا خاتمہ پسند کرتا ہے وہ اس سوال کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے۔
۳۔ آخر میں ایک بات میں اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معلوم نہیں ان حضرات کے نزدیک وہ کون سی ’’احساس کی زندگی‘‘ ہے۔ جس کے یہ متمنی ہیں۔ اور اس سے اس وقت محروم ہو کر دکھ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر اس سے اس قسم کی ’’زندگی‘‘ مراد ہے جو ابھی تقسیم ہند سے پہلے وہ گزار رہے تھے تو میں صفائی کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ ’’احساس‘‘ کی زندگی نہیں سخت بے حسی کی زندگی تھی جس میں انھوں نے یہ بھی یاد نہیں رکھا کہ وہ کیا ہیں اور کیا کر رہے ہیں اور یقینًا اب ان کے بدلے ہوئے حالات میں وہ زندگی دوبارہ اختیار نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر اس سے وہ زندگی مراد ہے جس کو ایک مومن کا ضمیر احساس کی زندگی سمجھتا ہے تو اس کے اختیار کرنے میں کوئی خطرہ نہیں۔ مردان حق حق کی راہ میں واقعی مصیبتوں کو بھی مصیبت نہیں سمجھتے۔ چہ جائے کہ وہ ابھی پیش بھی نہ آئی ہوں اور ان کے پیش آنے کا احتمال ہو۔ جو لوگ اس راہ کی مصیبتوں کو اہمیت دیتے ہیں ان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مصیبتوں سے بچنا ہی درحقیقت مصیبتوں میں پڑنا ہے۔ ۱
’’ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں اسلامی جدوجہد سے بیٹھ رہنے کی اجازت دیجیے اور فتنے میں نہ ڈالئے۔ جان لو کہ وہ فتنے میں پڑ گئے۔ اور بے شک دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے‘‘ (سورہ توبہ)
’’آپ کہہ دیجیے تم کو فرار ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم موت یا قتل سے بھاگے۔تم چند دنوں سے زیادہ زندگی سے فائدہ نہ اٹھا سکو گے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تم کو کسی مصیبت میں ڈالنا چاہے یا تم پر مہربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اللہ کے اس ارادے سے تمھیں کون بچا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے سوا اپنے لیے کوئی کارساز اور مددگار نہ پا سکیں گے۔‘‘ (سورہ احزاب)
(الانصاف: ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2024