مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے آل انڈیا اجتماع ارکان منعقدہ وادی ہدیٰ حیدرآباد ۱۱؍تا۱۴؍دسمبر۲۰۱۵ء میں جوافتتاحی خطاب فرمایا، اسے عمومی افادیت کے پیش نظر ذیل میں شائع کیا جارہا ہے ۔ (ادارہ)
نومبر ۲۰۱۰ء کے اوائل میں مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی کے احاطے(کیمپس) میں ارکان جماعت کا اجتماع منعقد ہوا تھا۔ اب پانچ برس بعد ہم دسمبر ۲۰۱۵ء کے وسط میں وادیٔ ہدی حیدرآباد میں پھر جمع ہیں۔ میں اس موقع پر جماعت کے ارکان، تازہ دم نوجوان رفقاء، محترم خواتین، بہنوں اور بیٹیوں کا دل سے خیر مقدم کرتاہوں۔ آپ حضرات قریب کے علاقوں سے بھی آئے ہیں اور ملک کے دور دراز علاقوں سے بھی سفر کی زحمت برداشت کی ہے۔ سفر کی یہ صعوبت اور تکلیف اقامت دین کی سعی وجہد کا حصہ ہے۔اللہ تعالی اسے قبول فرمائے۔ اللہ کے دین کی راہ میں جو قدم بھی اٹھتاہے، جو بھوک پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے، جو تکان لاحق ہوتی ہے، تھوڑایا بہت جو مال صرف ہوتاہے اور جس وادی سے راہ رواں حق کا گزر ہوتا ہےاوران کے جن اقدامات سے مخالفینِ دین تکلیف اور اضطراب محسوس کرتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ان اعمال صالحہ کا روز قیامت بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (التوبۃ: ۱۲۰) رفقائے محترم! ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اپنے نصب العین اور مقصد حیات کو تازہ کرنے کے لیے، اپنی خدمات اور کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے، اپنی کم زوریوں کا احتساب کرنے کے لیے، مستقبل کے نقشئہ کارکو سمجھنے کے لیے، اپنے اتحاد و یگانگت کاثبوت دینے کے لیے، اپنے تعلقات کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے، نیا جوش اور جذبہ اور عزم و حوصلہ حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالی ہم سب کی مدد فرمائے۔
اجتماع کے مختلف پروگراموں کے ذریعے، جماعت اس ملک کی اور اس کے مختلف طبقات کی بھلائی اور رشد وہدایت کے لیے جوکوشش کر رہی ہے وہ ان شاء اللہ آپ کے علم میں آئے گی، خدمت خلق کی جو وسیع خدمات وہ انجام دے رہی ہے اُن سے آپ کو واقفیت حاصل ہوگی۔ امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے اور اس کے اندر خیر امت ہونے کا جذبہ پیدا کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی جوجد وجہد کر رہی ہے اس کا بھی بیان آپ کے سامنے ہوگا۔ ان سب باتوں سے، امید ہے، آپ کو حوصلہ ملے گا اور آپ دنیا کی بھلائی اور آخرت کی فوز وفلاح کی راہ میں زیادہ سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے۔
اقامتِ دین
قرآن مجید بتاتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے جس دین کا راستہ ہمیں دکھایا ہے اسی کی اس نے اپنے پیغمبروں کوتاکید کی تھی ۔ اسی کا اس نے حضرت نوح کو حکم دیا، اسی کی وحی رسول اللہ ﷺ کوکی گئی۔ اسی کی حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ کوہدایت کی گئی۔ (الشوریٰ:۱۳) یہ حکم اقامت دین کا تھا۔ اسی نصب العین کے ساتھ جماعت اسلامی سرگرم عمل ہے۔ اس سلسلے میں چند امور پرتوجہ ضروری ہے:
ا۔ اللہ تعالی کے جتنے پیغمبر دنیا میں آئے ان سب کا دین اصولی طور پر ایک ہی تھا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالی کی عبادت واطاعت کی جائے اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اس سے انحراف نہ ہو۔
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۔(الاعراف:۵۹) اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِيْعُوْنِ۔ (نوح:۳) پیغمبروں کی دعوت یہی ہوتی تھی۔ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۱۰۷ۙ فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۱۰۸ۚ (الشعراء:۱۰۷۔۱۰۸) البتہ ان کی شریعتیں حالات کے لحاظ سے مختلف تھیں۔ آخری شریعت حضرت محمد ﷺکو عطا کی گئی اور اس کی پابندی کا آپ کو حکم دیا گیا۔ ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۸(الجاثیۃ:۱۸) (بنی اسرائیل کے بعد) ہم نے آپ کو اللہ کے دین کی شریعت دی ہے۔آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جونہیں جانتے)
۲۔ اقامت دین کا مطلب ہے دین پر پوری طرح عمل کرنا، اس کے احکام کو نافذ کرنا، اس میں کسی کمی کو آنے نہ دینا،اس اہتمام کے بغیر دین کی پیروی کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اہل کتاب سے کہا گیا: لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ (المائدہ ۶۸) (تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے جب تک کہ تم توریت اور انجیل کو اور جو کچھ تم پرتمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہ کر و)اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ کی کتاب پر عمل ہو اس کے احکام کی پابندی ہو اور اسے سماج میں نافذکرنے کی جد و جہد کی جائے۔
۳۔ اللہ کا دین سب کے لیےہےاللہ تعالی تمام انسانوں کا خالق، مالک اور معبود حقیقی ہے۔ اس کا نازل کردہ دین کسی مخصوص گروہ یا طبقے کا نہیں ،بلکہ تمام انسانوں کا دین ہے اور وہ زندگی کے تمام مسائل میں ہماری ہدایت اور رہ نمائی کرتا ہے۔ہمارا ایمان و یقین ہے کہ اسی سے انسان کے انفرادی اور اجتماعی مسائل حل ہوسکتے ہیں ، اسی سے آخرت کی فلاح وابستہ ہے،اسی سے فرد کو پر سکون زندگی ملے گی اور آخرت میں بھی وہ سرخ رو ہوگا۔ اس پہلو سے یہ ایک عالم گیر دین ہے۔ انسان بہ حیثیت انسان اس کا مخاطب ہے، چاہے دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتا بستا ہو،کسی بھی سرزمین میںاس نے سکونت اختیار کی ہو اور کسی بھی قوم اور نسل سے اس کا تعلق ہو۔اس طرح اسلام انسان کو ایک وسیع نقطۂ نظر عطا کرتا ہے اور اسے فکر و نظر کی تنگ نائی سے نکال کر پوری نوع انسانی کی فلاح کے لیے سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔
ہمیں خوشی اوراطمینان ہے کہ ہم نے پیغمبرانہ نصب العین اختیار کیا ہے، ہم اس راہ پر چل رہے ہیں جس پر پیغمبروں کے نقوش قدم جگمکا رہے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے اندر پیغمبرانہ اوصاف بھی پائے جائیں۔ وہی ذوقِ عبادت اور وہی کیفیتِ انابت ہو، وہی سیرت و اخلاق ہو،وہی طہارتِ قلب و نظر ہو، اور وہی جذبہ اور یکسوئی ہو،جو اللہ کے پیغمبروں میں ہوتی ہے۔ وہی جوش اور ولولہ ہو، وہی تگ ودو ہو، وہی جرأت وہمت ہو ، باد مخالف سے لڑنے کاوہی جذبہ ہو جو پیغبروں میں پایاجاتا ہے۔قرآن مجید نے اولوالعزم پیغمبروں کے صبر و ثبات اور استقامت کی تاریخ تفصیل سے بیان کی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے کہا گیا’ فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(الاحقاف:۳۵)(پس آپ صبر کیجئے اوراپنے موقف پر جمے رہیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا اور ثابت قدم رہے)
اسلامی دعوت کا طریقہ کار
اسلام کو دور حاضر کے ضابطہ حیات کے بالمقابل ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے تو اس کی مختلف اسباب سے مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ سیاست میں مذہب کی مداخلت ہے ،جونا قابل قبول ہے، کبھی کہاجاتا ہے کہ اس کے لیے جبر اور تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، جو آزادیٔ فکر و عمل کے خلاف ہے۔ اس کے لیے ان تنظیموں کا حوالہ دیا جاتا ہے جو اسلام کی سر بلندی کا نام لے رہی ہیں اور جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خوں ریزی وسفاکی کے خلافِ انسانیت طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جو لوگ اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں وہ یہی راستہ اختیار کریں گے۔
ان بے بنیاد اعتراضات یا خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ جو اسلامی تحریکات رائے عامہ کے ذریعہ اسلامی تبدیلی لانے کی کوشش کر تی ہیں۔ ان کی ہر کوشش کو ناکام کرنے کی تدابیریہی معترضین کرتے رہے ہیں، اس کی مثال مصراور الجزائر کی ہے۔
ہم یہ بات پورے زور اور قوت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کے لیے کسی ناروا تشدد اور جبر و اکراہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسے ہم ناجائز اور غلط سمجھتے ہیں اور اس سے برا ء ت کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ بات موجودہ حالات کے پس منظر میں یاکسی جبراوردباؤکے تحت کہی جارہی ہے، بلکہ یہی قرآن کی تعلیم ہے۔ چنانچہ اقامت دین کے ضمن میں کہا گیا : کَبُرَ عَلٰی الْمُشْرِکِیْنَ مَاتَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ (الشوریٰ:۱۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ اقامت دین کے لیے دعوت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہ دعوتِ توحید ان لوگوں کو گراں گزررہی ہے جن کے فکر و نظر کی بنیاد شرک پر ہے، جو ایک خدا کے قائل نہیں ہیں۔
جماعت کا طریقہ کار
جماعت اسلامی ہند نے شروع ہی سے اپنے دستور میں یہ وضاحت کردی ہے کہ قرآن و سنت اس کی اساسِ کار ہوں گے۔ وہ اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع اور طریقے استعمال نہ کرے گی جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کش مکش اور فساد فی الارض روٗنما ہو۔
جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پر امن طریقے اختیار کرے گی،یعنی وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی ۔وہ اسلامی نظام حیات کے تعارف کا فریضہ ، قانون کے دائرے میں رہ کر انجام دے گی اور رائے عامہ کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی لائے گی۔جماعت اپنی اس پالیسی کی مختلف مواقع پر اپنے بیانات قرار دادوں میں وضاحت کرتی رہی ہے اور اپنی پوری تاریخ میں اس پر کاربند رہی ہے۔ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ کسی بھی موقع پر اس نے اس سے انحراف کیا ہو۔
جماعت اسلامی ایک دینی تحریک ہے۔ وہ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اپنے تمام کاموں میں پابند ہے جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے ۔ اللہ تعالی سے تعلق، خوف آخرت، خلق خدا سے ہم دردی، کم زوروں کی دست گیری،احترام آدمیت ،صداقت و راست بازی، دیانت و امانت، عفت وعصمت، ظلم سے اجتناب ،جیسی قدروں کا وہ اپنے ہر فرد کو پابند بناتی ہے۔ اس میں کوتاہی ہوتواس کا سخت احتساب کرتی ہے۔ کوئی بھی تحریک اپنے افراد کا اس طرح جائزہ نہیں لیتی۔یہ جماعت کا امتیاز ہے۔ اس لیے جماعت کے بارے میں یہ سوچنا صحیح نہ ہوگا کہ وہ کسی بھی مقصدسے اور کسی بھی مرحلہ میں اخلاقی قدروں کو پامال کرے گی۔
اہل وطن اوراسلام کا پیغام
اس ملک کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی اسلام کو مسلمانوں کا مذہب سمجھتی ہے۔ وہ اس کے پیغام سے بے خبر ہے، چنانچہ اس میں کوئی کشش نہیں محسوس کرتی ، بلکہ اس کی طرف توجہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھتی ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بتائیں کہ اسلام اللہ کا دین ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہے۔محمد ﷺ کی رسالت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجیدسسکتی بلکتی نوع انسانی کے لیے نسخۂ شفاہے اور اس میں ہر فکری اور عملی کج روی کا علاج ہے۔ یہ ہر فرد اور ہر قوم کے لیے ہے۔ اس لیے اسلام کومحض مسلمانوں کا پیدا ئشی مذہب نہ سمجھا جائے اور اس کی ہدایت و راہ نمائی سے صرف نظر نہ کیا جائے۔
اس ملک میں ان لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو اسلام سے نفرت اور عداوت نہیں رکھتے، بلکہ خلوص سے اسلام کوسمجھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔یہاں وہ لوگ بھی ہیں جو مختلف اسباب سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں ،بلکہ اسے ملک کے لیے نقصان دہ تصور کرتے ہیں۔وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں کے وجود ہی سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ان سب کی طرف حکمت کے ساتھ ہماری توجہ ہونی چاہیے ۔جماعت کو برادران وطن کے ہر طرح کے افراد اور مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے ربط قائم کرنا ہوگا اور ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنی ہوگی۔ جماعت کا یہ امتیاز ہے کہ وہ کسی بھی طبقے کو اپنا حریف نہیں تصور کرتی۔وہ کسی کی حمایت یا مخالفت کے لیے نہیں کھڑی ہے۔ وہ کسی سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہے تو اصول و نظریات کی بنیاد پر کرتی ہے ۔ اس کے پیچھے گروہی یا شخصی تعصبات یا مفادات نہیں ہوتے ۔
امت مسلمہ کا منصب
جماعت اسلامی کا خطاب امت مسلمہ سے بھی ہے۔ جماعت اسی امت سے اٹھی ہے۔ اس کی بنیاد اس کے اندر ہے ۔ الحمداللہ اساساتِ دین پر پوری امت کا اتفاق ہے۔امت اصولی طور پر اقامتِ دین کے جامع تصور سے انکار نہیں کرتی ۔اسی امت سے بالعموم جماعت کو افراد ملتے رہے ہیں اور اسی کے درمیان سے اسے اپنی خدمات کے لیے اسباب و وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ اس امت کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے ہماری توجہ اس کی طرف نسبتََا زیادہ ہے۔ ہم اس کے رنج و راحت اور خوشی اور غم میں شریک ہیں ۔ اس کی دینی و اخلاقی حالت کو بہتر بنانے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی ممکنہ تدبیر اختیار کرتے ہیں۔ یہ سب اس اخوت کا لازمی تقاضا ہے جو اللہ تعالی نے اس امت کے افراد کے درمیان رکھی ہے۔
البتہ ملکی مسائل سے جماعت غیر متعلق نہیں رہ سکتی۔ غربت، جہالت،دوا علاج کا مشکل ہونا، فضاکی آلودگی،کم زور طبقات اور خواتین کے ساتھ زیادتی، انسانی حقوق کی پامالی، جبر و تشدد ،عدم مساوات جیسے مسائل سے ہم صرف نظر نہیں کرسکتے۔یہ ملک سے بہی خواہی اور ہمدردی کالازمی تقاضا ہے۔ اس سے اسلام کے تعارف کا بھی موقع ملے گا۔
خدمت خلق
اسلام نے خدمت خلق کی مختلف پہلوئوں سے ترغیب دی ہے اور اسے اہل ایمان کا وصف خاص بتایا ہے کہ وہ کم زوروں، ناداروں،مسکینوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کی خدمت کرتے ہیں۔ جماعت خدمت خلق کے کام دینی فریضہ سمجھ کر انجا م دیتی ہے اور انسا نو ں کے دکھ درد میں کام آتی ہے۔ قرآن مجید کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے غافل اور آخرت فراموش انسان تو یتیموں اور مسکینوں کو دھکے دے کر دور کر سکتا ہے ،لیکن اللہ کے نیک بندوں سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہی بات ان آیات میں کہی گئی ہے اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ (الماعون:۱۔۳) (کیا دیکھا تونے اس شخص کو جو روز حساب کی تکذیب کرتا ہے۔ یہی ہے جو یتیم کو دھکا دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے پر لوگوں کو آمادہ نہیں کرتا ۔)جماعت دعوت و تبلیغ، اصلاح امت، خدمت خلق اور انسانی حقوق کی حفاظت کا جو بھی کام کرتی ہے ،اسے اسلام کے تعارف کاذریعہ ہونا چاہیے۔ یہ بات کھل کر سامنے آنی چاہیے کہ جماعت کی حیثیت کسی فلاحی انجمن (N.G.O)کی نہیں ہے، بلکہ وہ جو کچھ کر رہی ہے وہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے اور رضائے الٰہی کے لیے کر رہی ہے۔
ہمہ گیرتبدیلی
جماعت اس ملک میں اسلام کی بنیاد پر فرد اور سماج میں جو تبدیلی چاہتی ہے وہ ہمہ گیر تبدیلی ہے ۔ اس کا تعلق عقیدہ و فکر، اخلاق، تہذیب، معاشرت و سیاست،ہرشعبہ حیات سے ہے۔ ہمیں اسلام کے جامع تعارف کا کام کرنا ہے، ملک کے لیے اس کی ضرورت اور افادیت کو ثابت کرنا ہے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن اسے ہر حال میں جاری رکھنا ہوگا۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ ملک میں جمہوری فضا ہو،اظہار خیال کی آزاد ی ہو، ملک مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ تعصب سے پاک ہواورایک دوسرے کے خیالات کو سننے اور سمجھنے کا جذبہ پایا جائے۔
جماعت اسلامی براہ راست الیکشن میں یا انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتی ،البتہ وہ ان کوششوں کی تائید کرتی ہے جو جمہوریت کی بقا کے لیے کی جائیں۔ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ملک میں ہر ایک کو اس کے دستوری حقوق حاصل ہوں، فسطائیت کا فروغ نہ ہو اور ایک خاص کلچر کو زبردستی مسلط نہ کیا جائے۔ہمارا ملک جمہوری ملک ہے۔ اس میں ازروئے دستور ہر فرد اور جماعت کو اپنے خیالات کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاریخی پس منظر کے اعتبار سے جمہوریت انسانوں کے اقتدار اعلیٰ کا نام ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی کی حاکمیت اور فرماں روائی کے تصور کو( دلائل کے ساتھ) ملک کے سامنے رکھنے کا آپ حق رکھتے ہیں۔اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنی کوشش کو تیزسے تیزتر کرنا چاہیے ۔ کہا جاتا ہے کہ ملکی آئین کی اساس سیکولرزم پر ہے۔ وہ کسی مذہبی نظامِ حکومت کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس رکاوٹ کو دور کرنے کی تدبیر کرنی ہوگی۔ بہرِ حال سیکولرزم کی یہ تشریح جمہوریت اور آزادیٔ فکر و عمل کے منافی ہے۔یہ ایک دستوری مسئلہ ہے۔ اس پرملکی سطح پر بحث ہونی چاہیے۔
اقلیتوں کے تہذیبی حقوق
حقیقی جمہوریت میں اقلیتوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ ان کے حقوق متعین ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے دستور نے بھی اقلیتوں کے متعین حقوق تسلیم کیے ہیں، لیکن یہ حقوق عملاانہیں حاصل نہیں ہیں۔ ان حقوق کے لیے ہم اپنی سی جد و جہد کررہے ہیں۔لیکن اس کوشش میں اور تیزی آنی چاہیے۔تاکہ کوئی اقلیت اپنے دستوری حقوق سے محروم نہ رہے۔دستور کے تحت مسلمانوں کو عقیدہ اور مذہب کی آزادی حاصل ہے۔اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ان کا پرسنل لا محفوظ ہوگا اور ان کے تمام عائلی مسائل مسلم پرسنل لا کے مطابق طے ہوںگے ، انہیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کا حق ہوگا۔ ان کے اوقاف کی حفاظت ہوگی۔لیکن ان حقوق میں مسلسل مداخلت ہوتی رہتی ہے اور ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جو دستوری ضمانت کے خلاف ہیں۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس حق پرکسی جانب سے دست درازی نہ ہواور اسلام کے جس حصہ پر عمل کی ہمیں آزادی حاصل ہے اس پر آنچ نہ آنے پائے۔
فسطائی طاقتیں اس ملک میں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت میں جس طرح وہ سرگرم ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ ان کا جو جارحانہ رویہ ہے ،وہ سخت تشویش ناک ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان کے دین اور تہذیب سے دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔اُن کی جانب سے سوریہ نمسکار، وندے ماترم، یوگا، گائے کا گوشت اورلوجہاد(LOVE JIHAD) جیسے مسائل اُٹھائے گئے ہیں،یہاں تک کہاجارہا ہے کہ ہم بھارت کو اسلام مکت دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ تہذیبی جارحیت ہے اور ملک کو فرقہ وارانہ کشمکش کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ جماعت اسلامی نے فسطائیت کو ایک بڑا خطرہ سمجھا ہے اور اس کا مقابلہ اپنے طور پر کرتی رہی ہے۔ ان کوششوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ملک کے بہت سے سنجیدہ افراد اور جماعتیں اس صورت حال پر تشویش محسوس کر رہی ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ان کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2016