رسول اللہﷺ کی آمد کا مقصد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ رسالت کاسلسلہ آپﷺ کی ذات پر ختم ہوتاہے۔ آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ سارے عالم کے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔ وہ شخص بڑا بدنصیب ہے، جو اس عقیدے سے منحرف ہوتاہے یا اس پر ایمان نہیں رکھتا۔ ہر سال ساری دنیا میں بڑے جوش اور عقیدت و محبت کے ساتھ ماہ ربیع الاول میں عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کیاجاتاہے۔ اہل ایمان جشن آمد رسولﷺ کا اہتمام کرتے ہیں۔ سیرت النبیﷺ کو سننے اور سنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر جلسوں کا اہتمام کیاجاتاہے۔ ہر مسلما ان اپنی سمجھ بوجھ اور استعداد کے مطابق نبی کریمﷺ سے اپنی وابستگی اورعقیدت کا اظہار کرتا ہے۔نبی کریمﷺ سے عشق ومحبت کااظہار یقینا جذبہ ٔ ایمانی کی نشانی ہے اور مسلمان ہونے کا فطری تقاضا بھی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اس چیز پرغور کریں کہ آخر خالق کائنات نے دنیا میں انسانوں کی تخلیق کرکے انھی میں سے بعض انسانوں کو نبی اور رسول کیوں بنایا اور ان انبیا ئ ورسل نے دنیا میں کیا کام انجام دیے؟ اور انبیائ علیہم السلام کے بعد اب مسلمانوں کی کیا ذمے داری ہے؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ  ﴿الحدید:۲۵﴾

’’ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلائل دے کر جس مقصد کے لیے بھیجاہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔”

اس آیت پر غور کریں تو یہ بات بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ رسولوں کی آمد کا مقصد دنیا میں عدل و قسط کو قائم کرنا ہے، ظلم و زیادتی اور استحصال کو ختم کرنا ہے، دنیا سے ناانصافی کا ازالہ ہے اور تمام انسانوں کو حق اور انصاف کے تحت زندگی گزارنے کا طریقہ بتانا ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ظلم واستحصال، جبرو استبداد کے خاتمے اور امن و انصاف کے قیام اور عدل و قسط کی برقراری کے لیے جو اصول و ضوابط کارگر اور معاون و مددگار ہوسکتے ہیں، وہ اللہ کی بھیجی ہوئی کتابیں ہیں اور انبیائ علیہم السلام کی حکمتوں اور دانشمندیوں سے بھرپور ہدایات ہیں۔

دنیا میں امن اورسکون محض خواہش اور تمنا سے قائم نہیں ہوسکتا۔ دنیا سے ظلم واستحصال اور جبر کاخاتمہ انسانی دماغ اور انسانی عقل کی بنیادپر بھی نہیں ہوسکتا۔ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط انسانوں کے سوچے ہوئے منصوبے دنیا میں امن اور سکون کی فضا قائم نہیںکرسکتے۔ اگر انسان یہ چاہتاہے کہ اسے امن، چین اور سکون میسر آئے اور ظلم وزیادتی کاخاتمہ ہو، جبرو استحصال اور نابرابری دور ہوتو پھر اس کاایک ہی حل ہے وہ یہ ہے کہ خالق کائنات کی ہدایات کی کامل پیروی کی جائے اور انبیائ علیہم السلام کی سیرتوں پر عمل کیاجائے۔

ہُوَ الَّذِیْٓ أَرْسَلَ رَسُولَہ‘‘ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ‘‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ ﴿الصف:۹﴾

’’وہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ضابطۂ ہدیات اور دین حق دے کر اس غرض کے لیے بھیجاہے کہ وہ ہردین کے مقابلے میں اسے غالب کردے۔‘‘

اس آیت میں مزید واضح انداز میںاللہ تعالیٰ نے بتادیاکہ نبی کریمﷺ کی بعث کامقصد دین حق کا قیام اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظریات اور اصولوں کاخاتمہ ہے۔

آج دنیا میں کہیں بھی پورے طورپر اسلامی نظام نہیں ہے۔عقائدو نظریات کی حکومتیں جابجا ہیں۔ اسلام کانام لینے والوںکو دہشت گرد کے القاب سے یاد کیاجاتاہے۔ باطل قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ اسلام بہ حیثیت ایک مکمل نظام کہیں پر بھی نافذ یاجاری نہ ہو۔ انھیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ مسلمان اسلامی عقائد کو ظاہری شکل میں قبول کریں ،ان پر عمل بھی کریں، اسلامی عبادات، نجی معاملات اور رسوم ، رواج کی حد تک پابندی پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ اس بات کو قبول کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، زندگی کے تمام شعبوں میں وہ رہ نمائی کرتاہے، سیاست، مملکت اور عدالت کے سلسلے میں وہ ایک مستقل نظریہ اور اصول رکھتا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب سے متجاوز ہے، مسلمان قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ ۰۶ سے زائد ان کی چھوٹی بڑی مملکتیں قائم ہیں لیکن نظام اسلامی کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں آباد ہیں وہاں وہ خود مسائل اور حوادث کا شکار ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جو ساری دنیا میں مسلمانوںکی نظرآتی ہے۔ مسلمانوں اور مسلم مملکتوںکو سوچنا چاہیے کہ وہ جس نبی کریمﷺ کی امت ہیں اور جس نبیﷺ کی آمد کا جشن وہ ہر سال مناتے ہیں اور جس نبیﷺ سے محبت اور عقیدت کاوہ اظہار کرتے ہیں، کیا انھوں نے اس نبیﷺ کے دین کو قائم کرنے کی بات کبھی سوچی؟ کیا اسلامی نظام حیات کے قیام کی انھوںنے کوشش کی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نبیﷺ کے امتی ہونے کا مطلب کیا ہے؟ مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مسلمانوں کی ذمے داری بتاتے ہوئے فرمایاتھا:

’’تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بہ حیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اس تحریک سے ہے جس کے رہبر و رہ نما انبیائ علیہم السلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظام فکر اور ایک خاص طریقۂ کار ہوتاہے۔ اسلام کا نظام فکراور طریقۂ کار وہ ہے جو ہم کو انبیائ علیہم اسلام کی سیرتوں میں ملتاہے۔ ہم خواہ کسی ملک یا کسی زمانے میں ہوں اور ہمارے گردو پیش زندگی کے مسائل ومعاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں، ہمارے لیے مقصد و نصب العین وہی ہے جو انبیائ کاتھا اور اس منزل تک پہنچنے کاراستہ بھی وہی ہے جس پر انبیائ علیہم السلام ہر زمانے میں چلتے رہے ہیں:

أُوْلٰ ئِٓکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ   ﴿الانعام:۹۰﴾

’’وہی لوگ تھے جن کی اللہ نے رہ رنمائی کی تھی لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔‘‘

ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے، جس سے انھوں نے دیکھاتھا۔ ہمارا معیار قدر وہی ہوناچاہیے، جو ان کا تھا اور ہماری اجتماعی پالیسی انھی خطوط پر ہونی چاہیے، جن پر انھوںنے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو چھوڑکر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کانظریہ اور طرزعمل اختیارکریں تو گم راہ ہوجائیںگے۔ یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے معاملات دنیا پرنگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست، ایک جمہورپسند یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہائے نظر ہیں، وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں ہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریںگے، انھی کی زبان میں باتیں کریںگے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیںگے جن پر وہ فریفتہ ہیں تو اپنی وقعت کو ہم خود ہی خاک میںملادیں گے۔ شیر اگر بکری سی بولی بولنے لگے اور بزغالوں کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دستبردار ہوگیا۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کرسکتاہے کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ حیثیت تسلیم کریںگے جو شیر کی ہونی چاہیے۔ یہ تعداد کی بنا پر قومی حکومت کے مطالبے، یہ اکثریت و اقلیت کے نوحے، یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ ، پکار۔ یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت اس قدر غلط دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ دنیا ہمیں بکری سمجھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ خدا نے ہمیں اس سے اونچا منصب دیاہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔ یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کوئی خارجی شرائط درکار نہیں ہے بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر شیر نہیں جو اگر پنجرے میں بند ہوتو بکری کی طرح ممیانے لگے اور شیر وہ بھی نہیں ہے جو بکریوں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریت بھول جائے۔‘‘ ﴿تحریک آزادی ہند اور مسلمان﴾

میلاد النبیﷺ کا موقع ہر سال امت مسلمہ کو اپنی ذمے داریوں کی طرف متوجہ کرتاہے۔ دین حق اور اسلامی نظام حیات کا قیام ہی وارث نبویﷺ ہونے کا اہم تقاضا ہے۔ نظام اسلامی کے قیام کی جدوجہد مسلمانوں کااصل مقصدحیات ہے۔ مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنی ذاتی و نجی زندگی میںاسلام کی مکمل پیروی اختیار کرنی چاہیے، اپنے اجتماعی معاملات کو مکمل طورپر شریعت کی روشنی میں طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح دنیا کے سامنے اسلام کے ایک مکمل نظام ہونے کو مدلّل انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہم صرف ہندستان ہی کی بات کریں تو معلوم ہوگاکہ یہاں کے ۰۲ کروڑ مسلمان خود کو اسلامی پیکر میں ڈھال کر ہر سال ایک غیرمسلم تک اسلام کاپیغام پہنچائیںگے تو آنے والے پانچ برسوں میں ہندستان کی غالب آبادی تک اسلام کاپیغام پہنچایاجاسکے گا۔ اگر سنجیدگی اور مناسب منصوبہ بندی سے اس سلسلے میں کوششیں کی جائیں تو ہندستان کی تقدیر بدلنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔‘‘

مشمولہ: شمارہ اپریل 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau