اللہ علیم و خبیر ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے دین پر چلنے والے سخت آزمائشوں میں گرفتار ہوتے رہیں گے۔ کفر کا راستہ اختیار کرنے والے اسلام کے راستے پر چلنے والوں کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ ہمیشہ ان کے خلاف چالیں چلتے، مکر و فریب کے جال بُنتے اور انھیں خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالی نے اپنے عظیم کلام قرآن مجید میں اہلِ اسلام کو اس خوف اور دباؤ سے بچانے اور عزم و حوصلے کو جوان رکھنے کا بھرپور انتظام کیا ہے۔
زمانہ گواہ ہے کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کا راستہ شدید ترین آزمائشوں سے گھرا ہوتا ہے۔ کم زور دل والے اس راہ پر چل ہی نہیں سکتے۔
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
(عامر عثمانی)
یہ راستہ دل کی مضبوطی مانگتا ہے۔ یہ مضبوطی قرآن مجید سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن دلوں کو قوت و ثبات عطا کرنے والی کتاب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو بڑے اہتمام سے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا، مقصد یہ تھا اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھ ایمان والوں کے دلوں کو مضبوطی عطا ہو۔ كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ (ہم نے ایسا ہی کیا تا کہ اس کے ذریعے سے ہم تمھارے دل کو مضبوط کریں) [الفرقان: 32] ۔ یہ قرآن کی بہت اہم خوبی ہے۔ قرآن مایوسی کے دلدل اور اندیشوں کے جنگل سے نکال کر ایمان والوں کو طاقت ور امید اور تازہ دم حوصلہ عطا کرتا ہے۔مسلم امت اگر قرآن مجید سے غور و فکر اور ایمان و یقین کا گہرا تعلق قائم کرلے تو اس کے اندر کبھی کم زوری نہ آئے۔
اصل طاقت عزم وارادے کی ہوتی ہے۔ عزم و ارادہ ہی مادی قوتوں کو کار گر بناتا ہے۔ مادی کم زوری سے کہیں زیادہ خطرناک نفسی کم زوری ہوتی ہے۔ حریف کو بہت بڑا اور ناقابل تسخیر سمجھنے اور خود کو بہت کم زور اور بے بس و عاجز مان لینے کے بعد ہزیمت یقینی اور ذلت مقدر ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید ایمان والوں کواس نہایت مہلک نفسی مرض سے باہر نکالتا ہے۔
دورِ اول کے ایمان والوں کی ایک نمایاں خوبی یہ نظر آتی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی قوت کی پروا نہیں کرتے تھے۔
کسی قیصر کسی کسری کو خاطر میں نہیں لاتے
غلامانِ محمد کی ادا سب سے نرالی ہے
(حفیظ میرٹھی)
یہ نرالی ادا انھیں قرآن مجید سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ قرآن مجید میں عزم و ہمت سے معمور نمونے دیکھتے۔ بہت سے نمونوں میں ایک نمونہ فرعون کے جادو گروں کا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلے کے بعد جادو گروں پر ہدایت کا راستہ روشن ہوگیا اور وہ ایمان لے آئے۔ فرعون نے انھیں دل دہلادینے والی سخت وارننگ دی، لیکن وہ اس کی دبنگی اور دھمکی کو بالکل خاطر میں نہ لائے۔ قرآن میں یہ واقعہ تین مقامات پرآیا ہے اور ہر مقام پر اسے پڑھتے ہوئے حوصلوں کو نئی توانائی ملتی ہے۔ ہم یہاں صرف ایک مقام کی آیتیں درج کریں گے:
قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَی۔ قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَی مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَی۔
(فرعون نے کہا : تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمھارا گرو ہے جس نے تمھیں جادوگری سکھائی تھی اچھا، اب میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں پھر تمھیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے۔ جادوگروں نے جواب دیا : قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی تجھے ترجیح دیں، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۔ ) [طه: 71–73]
قرآن کے زیر سایہ تربیت پانے والے اہل ایمان کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے، صحابہ کرام کے سلسلے میں قرآن مجید کی یہ شہادت آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی ہے:
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔
(اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، “تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو”، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے )[آل عمران: 173]
مکر و فریب کے سلسلے میں اللہ کی سنت
قرآن مجید کا ایک انداز یہ ہے کہ وہ دشمنوں کی چالوں اور سازشوں سے پرہ اٹھاتا ہے، ان سے آگاہ اور خبردار کرتا ہے، لیکن ان سے ڈراتا نہیں ہے بلکہ ان کے مقابلے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔
قرآن مجید جگہ جگہ ایمان والوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ اللہ کے سامنے کسی کا مکر و فریب اور کسی کی سازش چلنے والی نہیں ہے۔ اس بات کو قرآن میں ایک عظیم آفاقی اصول کی حیثیت سے اور اتنی تاکید کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ یہ بات اہل ایمان کے دل و دماغ میں ایک عقیدے کی طرح نقش ہوجاتی ہے۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (اور انھوں نے خفیہ تدبیریں کیں جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے)[آل عمران: 54]
أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ (اگر یہ بات ہے) تو کفر کرنے والوں پر ان کی چال الٹی ہی پڑے گی)[الطور: 42]
إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا۔ وَأَكِيدُ كَيْدًا ( یہ لوگ چالیں چل رہے ہیں۔ اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں) [الطارق: 15، 16]
وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ ( انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں) [إبراهيم: 46]
ذَلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ (یہ معاملہ تو تمھارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کم زور کرنے والا ہے)[الأنفال: 18]
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُمْ مَكْرٌ فِي آيَاتِنَا قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ (لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو : اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمھاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں ۔)[يونس: 21]
فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا تو انھوں نے کہا : و لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیاں کو جیتا چھوڑ دو۔مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی) [غافر: 25]
یہ اور اس مفہوم کی بہت سی دوسری آیتوں میں ہم ایک خاص بات یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لیے مکر اورکیدکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ سرسری نگاہ میں یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ انھی جگہوں پر استعمال کیے گئے جہاں سرکشوں اور باغیوں کے مکر اور کید کا ذکر ہے، تو اس کی حکمت بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ دراصل اللہ تعالی ان سرکشوں اور باغیوں کے مکر اور کید کو اس طرح سے ناکام بناتا ہے کہ انھوں نے سوچا بھی نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ان کے مکر اور کید کے مقابلے میں اپنے مکر اور کید کا ذکر کرکے یہ پیغام دیتا ہے کہ ان کا ہر مکر اور ہر کید بہت بڑے مکر اور کید کا سامنا کرے گا اور اس سے ٹکراکر پاش پاش ہوجائے گا۔
یہ تعبیر سرکشوں کے حوصلے پست کرنے والی اور مومنوں کے حوصلے بڑھانے والی ہوتی ہے۔ یہ تعبیر احساس دلاتی ہے کہ اللہ تعالی سرکشوں کی چالوں سے ذرا بھی غافل نہیں ہے۔ مکر اور کید خفیہ اعمال ہوتے ہیں جو پراسرار طریقے سے انجام دیے جاتے ہیں۔ ایسے کاموں کے سلسلے میں اللہ تعالی اپنے لیے مکر اور کید کے الفاظ استعمال کرکے یہ بتاتا ہے کہ ان کے خفیہ کاموں پر اس کی گہری نظر ہے اور وہ ایسے طریقے سے ان کا قلع قمع کردینے والا ہے کہ انھوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
تاریخ کی گواہی
قرآن مجید گزری ہوئی قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس پہلو کو خاص طور سے ابھارتا ہے کہ وہ بڑی چالیں چلنے اور خطرناک سازشیں کرنے والے زور آور لوگ تھے، لیکن ان کی طاقت دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے مکر و فریب کے سارے قلعے دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوگئے۔
سورہ فیل پڑھیے۔ پہلی آیت میں ہاتھی والوں کا ذکر ایک بڑی زور آور فوج کی تصویر پیش کرتا ہے۔اگلی آیتوں میں اس زور آور فوج کا عبرت ناک انجام سامنے آتا ہے ۔ چشم زدن میں ہاتھیوں والی فوج کو کھانے کے بُھس کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جاتاہے۔ دیو ہیکل ہاتھی سے کٹے ہوئے بھوسے کی طرح ہوجانے کا واقعہ اپنے اندر بڑا سبق رکھتا۔
سورہ فجر کی ابتدائی آیتوں پر نظر ڈالیے۔ ستونوں والی عاد کی قوم، چٹانیں تراشنے والی ثمود کی قوم، میخوں والا فرعون کا لشکر، ایک طرف ان سرکش قوموں کی قوت وشوکت کو دکھایا جاتا ہے پھر ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برستا ہوانظر آتا ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کے خلاف ثمود کی قوم کے نو شر پسند ٹولوں کی سازش اور اس سازش کا انجام درج ذیل آیتوں میں پڑھیے۔
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ۔ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ۔ وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ۔ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ۔ (اُس شہر میں نو جتھے تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے انھوں نے آپس میں کہا : خدا کی قسم کھا کر عہد کر لو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے، ہم بالکل سچ کہتے ہیں۔ یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔ اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ وہ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے، اس میں ایک نشان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ اور بچا لیا ہم نے اُن لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے)[النمل: 48–53]
یہ پوری روداد بہت مؤثر ہے۔ اس میں دو چھوٹی آیتوں میں لفظ‘ مکر ’ پانچ مرتبہ آیا ہے۔ یہ دونوں آیتیں طاقت ور شر پسندوں کے سازشی منصوبوں کا خوف دل سے کھرچ کر نکال دیتی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف بھی بڑی چال چلی گئی لیکن اللہ نے ان چالبازوں کو شدید گھاٹے سے دوچار کردیا۔
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ۔ قُلْنَا يَانَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی إِبْرَاهِيمَ۔ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ۔ وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ۔ (انھوں نے کہا “جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے”۔ ہم نے کہا “اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر”۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا۔ اور ہم نے اُسے اور لوطؑ کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں)[الأنبياء: 68–71]
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی سازشوں کے بڑے بڑے جال بُنے لیکن ان کا انجام بھی بہت برا ہوا۔
وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا۔ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا۔ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا۔ مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا۔ (اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔ انھوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو، اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یغُوث اور یعُوق اور نَسر کو۔ انھوں نے بہت لوگوں کو گم راہ کیا ہے، اور تو بھی اِن ظالموں کو گم راہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے۔ اپنی خطاؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے، پھر انھوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا) [نوح: 22–25]
وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارً کی تعبیر کتنی معنی خیز ہے۔ ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فریب بہت ہی بڑا تھا۔
یہ واقعات اور ان کا یہ نریٹیو اہلِ ایمان کےدلوں سے دنیوی قوتوں کا خوف نکالتا ہے اور ان کے اندر غیر معمولی نفسی قوت پیدا کرتا ہے۔
غلبہ و نصرت کا خدائی وعدہ
اللہ کی طرف سے غلبہ و نصرت کے وعدے ایمان والوں کے حوصلوں کو جلا بخشتے ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے اللہ کے وعدوں کے پورا ہونے پر انھیں کامل یقین ہوتا ہے۔اللہ کے راستے میں پیش آنے والی شدید آزمائشیں اور جانی و مالی نقصانات ان کے یقین کو کم زور نہیں ہونے دیتے ہیں۔
اللہ کا وعدہ ہے:
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے) [المائدة: 56]
اللہ نے غلبہ و نصرت کا یہ وعدہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام سے کیا، جب دونوں کو فرعون کے پاس اپنا پیغمبر بناکر بھیجا۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ۔ وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ۔ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ۔ (موسیٰؑ نے عرض کیا : میرے آقا، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ اور میرا بھائی ہارونؑ مجھے سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ فرمایا : ہم تیرے بھائی کے ذریعے سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمھارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمھارا اور تمھارے پیروؤں کا ہی ہو گا۔)[القصص: 33–35]
اللہ کا یہ وعدہ ہر دور کے پیغمبروں سے رہا ہے:
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ۔ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ۔ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ۔ (اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں۔ کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی۔ اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا ) [الصافات: 171–173]
ایمان والوں سے اللہ نے صاف لفظوں میں وعدہ کیا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم مضبوط جما دے گا) [محمد: 7]
ایمان والوں کے پاس اللہ کا وعدہ ہے، اس لیے انھیں اللہ پر پورا بھروسا کرنا چاہیے:
إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَی اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے) [آل عمران: 160]
اللہ کے وعدوں پر یقین رکھنے والے اپنے یقین کا اظہار انتہائی سخت اور نازک حالات میں کرتے ہیں۔یہ ایمان کی مضبوطی کا روشن ثبوت ہوتا ہے۔ سخت حالات میں آدمی کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اور یقین ڈانواں ڈول ہونے لگتا ہے، لیکن اللہ پر سچا ایمان رکھنے والوں کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔
جب طالوت کی بڑی فوج اور جالوت کی چھوٹی فوج کا آمنا سامنا ہوا تو جالوت کے مومن ساتھیوں نے زبردست ہمت کا اظہار کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جالوت کی فوج کے کم زور ایما ن والے اپنا حوصلہ بالکل ہارے ہوئے تھے۔
قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (انھوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔) [البقرة: 249]
اسی طرح جب حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا تو وہاں کے باشندوں کے خوف سے انھوں نے حکم کی تعمیل سے انکار کردیا۔ اس وقت دو باہمت مردوں نے اپنے ایمان و یقین کی بدولت بے مثال جرأت و ہمت کا اظہار کیا۔
قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (اُن ڈرنے والوں میں دو شخص ایسے بھی تھے جن کو اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا انھوں نے کہا کہ “ان جباروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اللہ پر بھروسا رکھو اگر تم مومن ہو”) [المائدة: 23]
احزاب کا موقع نہایت نازک تھا، ایسے وقت میں دو کردار سامنے آئے، ایک منافقوں اور کم زور ایمان والوں کا:
وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے) [الأحزاب: 12]
دوسرا کردار سچے ایمان والوں کا:
وَلَمَّا رَأَی الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انھوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ “یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسول کی بات بالکل سچّی تھی” اِس نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا) [الأحزاب: 22]
ایک گروہ نے اللہ کے وعدے پر بے اطمیانی ظاہر کی، دوسرے گروہ نے اللہ کے وعدے پر پورے اطمینان و یقین کا اظہار کیا۔
جیتنے کے لیے خوف سے آزادی ضروری ہے
کشمکش اور مقابلے کا یہ مسلّمہ اصول ہے۔اللہ تعالی ایمان والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ شیطان اور شیطان کے لشکر کا خوف اپنے دل سے نکالیں۔ جس قوم کے دل میں دہشت بیٹھ جاتی ہے، وہ معرکےسے پہلے ہی معرکہ ہار جاتی ہے۔ خوف کے ہوتے مقابلہ تو دور کی بات ہے، فرار کی تاب بھی نہیں رہ جاتی ہے۔
اللہ تعالی آگاہ کرتا ہے کہ شیطان اپنے لشکر کا خوف تمھارے دل میں بٹھانا چاہتا ہے، تم اس کی اس چال کا شکار نہ ہونا اور بے خوفی کے ساتھ اس کا سامنا کرنا۔
إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (اب تمھیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔ جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمھیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے)[آل عمران: 175، 176]
اللہ تعالی یہ بھی بتاتا ہے کہ شیطان کی چال بہت کم زور ہوتی ہے، اس لیے شیطان اور شیطان کے لشکر کا خوف دل سے نکال دو۔
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنھوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کم زور ہیں)[النساء: 76]
اللہ تعالی جب دین کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے تو متعدد وعدوں کے ذریعے دلوں کو ثبات اور حوصلوں کو قوت عطا کرتا ہے۔
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ۔ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۔ اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے ) [التوبة: 14، 15]
حضرت موسی علیہ السلام کا جب فرعون کے اکٹھا کیے ہوئے جادوگروں سے مقابلہ ہوتا ہے اور حضرت موسی کے دل میں خوف کا احساس جنم لیتا ہے، تو اللہ تعالی کن الفاظ سے حضرت موسی کو خوف سے باہر لاتا ہے؟ ان الفاظ پر دیر تک غور کرنا چاہیے۔
قَالُوا يَامُوسَی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَی۔ قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَی۔ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَی۔ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَی۔ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَی (جادوگر بولے: موسیٰؑ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟موسیٰؑ نے کہا ‘‘نہیں، تم ہی پھینکو’’یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسیٰؑ کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا ‘‘مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کام یاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی راہ سے آئے۔’’ )[طه: 65–69]
آخرت کی کام یابی
حق و باطل کی کشمکش میں آخرت کے انجام کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اہل ایمان کا عقیدہ ہے کہ حق و باطل کی کشمکش کا آخری فیصلہ دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ہوگا۔ جیت اور ہار کے آخری پروانے وہیں دیے جائیں گے۔
جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کی نظر میں دنیا ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ دنیا کی کام یابی کو وہ حقیقی کام یابی اور دنیا کی ناکامی کو وہ حقیقی ناکامی سمجھتے ہیں۔
لیکن آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لیے دنیا کے نتائج سے زیادہ آخرت کے نتائج کی اہمیت ہوتی ہے۔ وہ دنیا کے اچھے نتائج سے خوش ضرور ہوتے ہیں، لیکن من چاہے نتائج سامنے نہ آنے پر مایوس نہیں ہوتے اور خود کو ناکام و نامراد نہیں سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے سامنے دنیا کی مختصر زندگی سے لے کر آخرت کی طویل زندگی ہوتی ہے۔ اگر دنیا میں نہ ملے اور آخرت میں مل جائے تو وہ بھی سراسر فائدے کا سودا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا میں ہونے والا بڑے سے بڑا نقصان ان کے حوصلے پست نہیں کرتا ہے۔
قرآن کی درج ذیل تینوں آیتوں پر غور کریں۔ یہ اور اس جیسی بہت سی آیتیں کس طرح اس عقیدے کی آبیاری کرتی ہیں:
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَی الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ (ان سے کہو، “تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے اور ہم تمھارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمھارے ساتھ منتظر ہیں”)[التوبة: 52]
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ۔ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ۔ لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِلْأَبْرَارِ (دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی سرگرمیاں تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کی طرف سے یہ سامان ضیافت ہے ان کے لیے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے ) [آل عمران: 196–198]
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ۔ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اُس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور اُن پر لعنت پڑے گی اور بد ترین ٹھکانا اُن کے حصے میں آئے گا) [غافر: 51، 52]
آخرت میں ظاہر ہونے والے نتائج پر ایمان دل کو بے پناہ مضبوطی عطا کرتا ہے۔
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کےآگے خوشی کے سائے ہیں
(ماہر القادری)
خلاصہ کلام
قرآن مجید میں دلوں کو مضبوطی عطا کرنے والی بہت سی آیتیں ہیں۔ کچھ خوف اور مایوسی سے نکالتی ہیں تو کچھ عزم و یقین کو نئی توانائی عطا کرتی ہیں۔ اس مضمون میں چند عنوانات کے تحت کچھ آیتوں کو ذکر کیا گیا ہے۔ تمام آیتوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے پیش نظر ایسی امت کی تیاری ہے جو اللہ کے کلمے کی علم بردار ہو، جو اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے بے تاب ہو، جو اللہ کے دین کی سرخ روئی کے لیے برسر پیکار رہے، جو اپنے قول و عمل اور فکر و نظام سے اسلام کی گواہ ہو، غرض جو اس زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے کے مشن کو لے کر اٹھے۔
عظیم مشن کی حامل امت کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایمان و یقین اور عزم و ہمت ہے۔ ایسا عزم و یقین جو خوف اور مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دے۔ اس عزم و یقین کی تعلیم کا پورا نصاب قرآن مجید میں موجود ہے۔
اسی لیے اسلامی تحریک کے ہر فرد کو قرآن مجید کا شیدائی ہونا چاہیے۔ قرآن درس و مطالعہ کی کتاب سے آگے بڑھ کر اکتسابِ عزم و یقین کی کتاب بن جائے۔
ارضِ فلسطین میں جاری تحریکِ مزاحمت کے صبر و ثبات کا سرچشمہ بھی قرآن مجید ہے۔اپنے زمانے کی اس عظیم روشن گواہی کو اپنی فکر ی یادداشت اور عملی کردار میں محفوظ کرنا پوری امت کی ذمے داری ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2024