قرآن پاک کو جس طرح ہمارے نظام تعلیم کامحور ہونا چاہیے،اسی طرح ہمارے نظام تربیت یا نظام تزکیہ کا بھی محور ہونا چاہیے۔ہمارے اداروں میںزیرتعلیم طلبہ کی تعلیم جس طرح قرآن پاک کی روشنی میں ہونی چاہیے،اسی طرح ان کی ذہن سازی اورکردار سازی بھی قرآن پاک کی ہی روشنی میں ہونی چاہیے۔
ہمارے ہادی ورہبر نبی اکرم ﷺ نے اپنے جاں نثاروں کو جس طرح قرآنی علوم سے مالامال کیا تھا،اسی طرح انہیں قرآنی اخلاق اور قرآنی کردار سے بھی آراستہ کیا تھا۔قرآنی اخلاق اورقرآنی کردار سے آراستہ ہوئے بغیرقرآن پاک کے علمی خزانوں تک رسائی نا ممکن ہے۔ان دونوں چیزوں کے درمیان وہی تعلق ہوتا ہے، جو تعلق جسم وجان میںہوتا ہے۔
جب تک ان دونوں پہلووں کو ہم سامنے نہیں رکھیں گے،ہمارے اداروںمیں جان نہیں آسکتی،ان اداروں میںاچھی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ سکتیں،اور یہ ملت قحط الرجال کی ذلت سے نجات نہیں پاسکتی ۔
قرآنی آیات سے دل ودماغ کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔اس روشنی سے اخلاق وکردار میں رعنائی اور پاکیزگی آتی ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی دل ودماغ کی روشنی میں اضافہ کرتی ہے۔پھر یہ روشنی اخلاق و کردار کو مزید بلندی ورعنائی عطاکرتی ہے۔اس طرح ایک دوسرے کی مدد سے علم وکردارمیں ترقی ہوتی رہتی ہے۔یہاں تک کہ ایک بہترین قرآنی انسان، اور ایک بہترین قرآنی امت تیار ہوجاتی ہے۔
ہمارے دینی اداروں کا یہ نہایت المناک پہلو ہے کہ ان اداروں میںطلبہ کی اخلاقی تربیت اور روحانی تزکیہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ طلبہ ادارے کے قوانین اور ضابطوں کا احترام کریں،وہ کبھی کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ادارے کا نظام متاثر ہو، یا اس کی نیک نامی پر کوئی آنچ آئے۔ وہ اساتذہ اور ذمے داروں کابھر پور احترام کریں،اور ان کے اشاروں پر گردش کریں۔
کہیں کہیں تربیت کے نام پر نماز کے بعدمسجدوں میں طلبہ کی حاضری ہوجاتی ہے،یا انہیں نماز باجماعت اداکرنے،اور نماز کے بعد کچھ اوراد و اذکار کا اہتمام کرنے کی تلقین کردی جاتی ہے، اور بس۔ظاہر ہے اس کو تربیت کا نام دینا لفظ تربیت کا مذاق اڑانا ہے۔
ضروری ہے کہ ہمارے نظام تربیت کا محور قرآن پاک ہو۔
ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو قرآنی اخلاق کا حامل بنائیں۔
نیکیوں کا شوق پیدا کیا جائے
قرآن پاک میں صرف پنج وقتہ نمازوں کی تاکید نہیںہے،ان پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد یا قیام لیل کی بار بار تاکید آئی ہے۔قیام لیل کو خدائے رحمان ورحیم کے محبوب بندوں کا عمل بتایا گیا ہے۔اسے صالحین اور متقین کا شعار بتایا گیا ہے۔رات کی ان نمازوں سے ہی دن کی نمازوں میں جان آتی ہے۔ضرورت ہے کہ دن کی پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ طلبہ کوقیام لیل کا عادی بنایا جائے۔اور ان نمازوں کی جو اسپرٹ ہے، اس اسپرٹ کے ساتھ ان نمازوں کو ادا کرنے کی تربیت دی جائے۔
قرآن پاک میں اہل ایمان کی جو اور دوسری صفات بیان کی گئی ہیں،وہ تمام صفات ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
قرآن پاک میںنمازوںکا اہتمام کرنے والوں کی یہ صفت بتائی گئی ہے، کہ آخرت اور حساب آخرت کے تصور سے لرزتے رہتے ہیں:
والذین ہم من عذاب ربہم مشفقون۔ان عذاب ربہم غیر مأمون۔ (سورہ معارج:۲۷۔۲۸)
(نمازیوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے کانپتے رہتے ہیں!ان کے رب کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے مطمئن نہ رہا جائے۔)
جنت میں اہل جنت کے درمیان اپنی دنیوی زندگی کے تذکرے ہوں گے۔قرآن پاک میں ان کی یہ گفتگو اس طرح نقل کی گئی ہے :
وأقبل بعضہم علی بعض یتساء لون۔قالوا انا کنا قبل فی أھلنا مشفقین ۔فمن اللہ علینا ووقانا عذاب السموم۔انا کنا من قبل ندعوہ انہ ہو البر الرحیم۔(سورہ طور:۲۵۔ ۲۸)
(وہ اہل جنت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے،اور ایک دوسرے کے احوال پوچھیں گے۔وہ کہیں گے ہم اپنے بال بچوں میں تھے تو کانپتے رہتے تھے۔اللہ نے ہم پر بڑا فضل فرمایا،اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالیا۔اس سے پہلے ہم اسی کو پکارتے تھے۔بلاشبہہ وہ بڑا ہی شفیق اور بہت ہی مہربان ہے۔)
ہمارے نظام تربیت کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ وہ طلبہ کے اندر حساب آخرت اور عذاب آخرت کا خوف پیدا کرے۔وہ انہیں اس دھوکے سے نکالے کہ ہر کلمہ پڑھنے والے کے لیے جنت کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔
جنت کا وعدہ بس ان لوگوں کے لیے ہے جو زندگی کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔جو اپنی پوری زندگی خوف و خشیت کے ساتھ گزاردیں۔جواپنی پوری زندگی سے یہ ثابت کردیںکہ وہ صحیح معنوں میں اپنے رب کے فرماں بردار،اوراس کے دین کے علم بردار ہیں۔
قرآن پاک میں مومنین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں:
ویسارعون فی الخیرات۔ (سورہ آل عمران: ۱۱۴)
(اور وہ نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔)
ہمارے طلبہ کی ذہن سازی اس طور سے ہونی چاہیے کہ نیکیاں کرناان کی طبیعت پر بار نہ گزرے۔بلکہ نیکیاں کرنے میںانہیں لذت ملنے لگے۔کسی برائی کی طرف جانا ان کے لیے سب سے مشکل کام ہوجائے،اور نیکیوں کی طرف دوڑناان کے لیے بہت آسان ہوجائے۔
منکر سے روکنے کی جرأت پیدا کی جائے
قرآن پاک میں اہل ایمان کی بہت ہی خاص صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے،اور منکر سے روکتے ہیں:
یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ (سورہ آل عمران: ۱۱۴)
ایک دوسرے مقام پراہل ایمان کو سب سے اچھی امت کہا گیا ہے۔اور اس کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہیں، اورایمانی کیفیات سے سرشار رہتے ہیں:
کنتم خیر امۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ ۔ (سورہ آل عمران: ۱۱۰)
(تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لیے برپا کیے گئے۔تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو،اور منکر سے روکتے ہو، اور ایمان باللہ کی کیفیات سے سرشاررہتے ہو۔)
قرآن پاک کی منشا یہ ہے کہ ایک مومن اس حیثیت سے پہچانا جائے کہ اس کا جذبۂ ایمانی کبھی سرد نہیں پڑتا، وہ منکر سے کبھی مصالحت نہیں کرسکتا۔وہ ہمیشہ اس سے برسر جنگ رہے گا۔وہ جہاں کہیںبھی رہے گا معروف کا چرچا کرے گا،اور معروف کے پرچم لہرائے گا۔
امت مسلمہ کی یہ شان ، اوریہ پہچان اگر زمانۂ طالب علمی میںطلبہ کے ذہن میں راسخ نہیں ہوئی تو وہ کب راسخ ہوگی؟
ضروری ہے کہ مدرسہ کے اندر اس طرح کا ماحول ہوکہ طلبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے خوگر ہوسکیں۔طلبہ کو اس طرح کی آزادی حاصل ہو کہ مدرسہ میں جہاں کہیں منکر دیکھیں اس کے خلاف آواز اٹھائیں، اور اس کے ازالے کی کوشش کریں،چاہے وہ منکرطلبہ کے درمیان ہو، یا طلبہ کے بجائے اساتذہ یا ذمے داران مدرسہ کے درمیان ہو۔
اگر طلبہ منکر ات کے خلاف آواز اٹھائیں، تو ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور ذمے داروں کواس پر خوش ہونا چاہیے،اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔اسے کبھی اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
ہمیں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا یہ تاریخی جملہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے:
رحم اللہ امرء اً أہدی الی عیوبی۔
(اللہ کی رحمتیں ہوں اس شخص پرجو ہمیں ہمارے عیوب کا تحفہ پیش کرے !
( سنن أبی داود۔تحقیق ارنؤط۔ باب فی النصیحۃ: ۷۔ ۲۷۹، وسنن الدارمی:حدیث نمبر ۶۷۵)
ہمارے تعلیمی اداروں کے ہر ناظم، ہر مہتمم، اور ہر استاذ کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطابؓ کا یہ چمکتا ہواتاریخی جملہ نقش کرلینا چاہیے۔اور طلبہ کی طرف سے اپنے عیوب کا تحفہ اسی فراخ دلی سے قبول کرنا چاہیے۔بلکہ جو طالب علم اس طرح کی ایمانی اور اخلاقی جرأت کا ثبوت دے، برسرعام اسے انعامات سے نوازکر اس کی عزت افزائی اورحوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اسی طور سے ہمارے اداروں کے اندر باعزت، باکردار اور خود دار نسلیں تیار ہوسکتی ہیں، ایسی نسلیںجو ہر طرح کے حالات میں مسلم ملت کی باعزت قیادت کر سکیں۔
اگر طلبہ کے اندرحق گوئی اور حق پسندی کی یہ فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اور اس سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ،تو ایک طرف مدارس کا ماحول نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ ہو جائے گا،دوسری طرف ایسی نسلیں تیار ہوں گی جن کے اندر اپنے دین سے محبت ہوگی،اور وہ جہاں کہیں رہیں گی،برائیوں کو ختم کرنے اور نیکیوں کے باغ لگانے کے لیے کوشاں ہوں گی۔
بد قسمتی سے آج ہماری ملت میںایسے علماء کا فقدان ہے،جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیں،اور کسی بھی صورت میں منکرسے ہاتھ نہ ملائیں۔اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں مدارس کے اندر اس طور سے ان کی تربیت نہیں ہوتی۔
قرآن مجید، زندگی اور توانائی کا مخزن ہے
یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ہم اپنے تعلیمی اور تربیتی نظام کو کتاب الہی سے نہیں جوڑیں گے،اور جب تک ہم کتاب الہی کو اپنی تعلیمی اور تربیتی جدو جہد کا محور نہیں بنائیں گے، اس وقت تک ہم زندگی کی توانائیوں اور زندگی کے ولولوں سے محروم رہیں گے۔ہم کبھی ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام نہیں پیدا کرسکیں گے، نہ اپنے تعلیمی اداروں سے زندہ نسلیں، اور زندہ قومیں تیار کرسکیں گے۔
ہم اپنے نظام تعلیم وتربیت کوجب قرآن پاک سے جوڑیں گے اسی وقت تعلیم وتربیت کی برکتوں سے بہرہ اندوز ہوسکیں گے۔
ہماری ملت کے رہ نماؤں اور تعلیمی اداروں کے ذمے داروں کوایک اور پہلوسے بھی غور کرنا چاہیے۔
ملک کے اندرہمارے جتنے بھی دینی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ملک کی مسلم آبادی کا پانچ فیصدبھی نہیں ہوتے۔ملت کی بھاری اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یا تو علم کی وادی میں قدم ہی نہیں رکھتے، یا رکھتے ہیں تووہ ان اسکولوں اور کالجوں کی طرف جاتے ہیں جو انہیں تعلیم تو دیتے ہیں، مگر ایسے ماحول میں دیتے ہیںجس میںان کے دل ودماغ بدل کر رہ جاتے ہیں۔
وہ نوجوان عصری تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں،مگر دینی لحاظ سے وہ بڑے خستہ حال ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ دین سے وابستہ نہیں رہتے، بلکہ ان کے اندر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جودین کا مذاق اڑاتے، اور ہرطرح سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں!
اس کا ہمیں شکوہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ایسی صورت حال ہو توہمیں شکوہ کرنے کے بجائے مرزا غالب کے اس شعر سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے:
ہاں وہ نہیں خدا پرست ،جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
جس گلی میں جانے سے ہمارے دین ودل کو خطرہ لاحق ہو، اس گلی میں ہم جائیں ہی کیوں؟ لیکن اگر اس گلی میں جانا ہماری مجبوری ہو،تواس گلی کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے دین و دل کی حفاظت کا ہمیں خودانتظام کرنا ہوگا۔
ہم ان سیکولر، یا اسلام دشمن اداروں میں جانے سے ملت کے ان بے شمار بچوں اور ان بے شمار نوجوانوں کو روک تو نہیں سکتے،لیکن ان کے دین وایمان کی حفاظت کرنا،اور اس حفاظت کے انتظامات کرنا ہمارا فرض ہے۔
اگر یہ بات صحیح ہے کہ علمائے امت انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث اور ان کے جانشین ہیں،توان کی ذمے داری خالی اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو سنبھالنا،اور ان کے دین وایمان کی حفاظت کرنا نہیں ہے۔
ان کی ذمے داری ملت کے ایک ایک فرد کی حفاظت کرنا،اور اس کی اصلاح و تربیت کے لیے فکرمند ہونا ہے۔انہیں بچوں کی بھی حفاظت کرنی ہے، اور بچوںکے سرپرستوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔وہ اللہ تعالی کے حضوراپنی ملت کے بے شمار نونہالوں ، اور ان کے غافل سرپرستوںکی جواب دہی سے بچ نہیں سکتے۔
اس لحاظ سے غور کیا جائے، تو یہ اتنی بڑی ذمے داری ہے جوکسی بھی عالم دین اور کسی بھی قائد ملت کو لرزہ بر اندام کردینے کے لیے کافی ہے۔
ہمارے علمائے کرام اور ہمارے قائدین ملت کو شاید اس پہلو سے غور کرنے کا خیال نہیں آیا، ورنہ انہیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائیاں کرنے ، اور بہت سے غیر مفید کاموں میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے کا موقع نہ ملتا۔
یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لیے جب تک تمام علماء کرام، تمام قائدین ملت، اور تمام تعلیمی ادارے یک جان دو قالب ہوکراجتماعی جدو جہد میںنہ لگ جائیں ،اس وقت تک اس مقصد میں کامیابی نا ممکن ہے۔
یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہے کہ متحد ہوکر اجتماعی جدوجہدکرنا ہمارے لیے اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہم اپنے موجودہ نظام تعلیم و تربیت کو درست نہ کریں۔
ہمارے پاس قرآن پاک ہی ایک ایسی کتاب ہے جو پوری امت کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ سکتی ہے،اس کے بجھے ہوئے حوصلوں کوزندہ کر سکتی ہے ، اس کی سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرسکتی ہے۔ اس کی بکھری ہوئی جمعیت کی شیرازہ بندی کرسکتی ہے ۔اور ہمارے نظام تعلیم کی ان تمام کمیوں اور خامیوں کو دور کرسکتی ہے، جنہیں دور کرنے میں ہم برسوں سے نا کام ہیں۔
لہذا اسی قرآن پاک کو ہمارے تعلیمی اور تربیتی نظام کا محور ہونا چاہیے۔
یہ بات ہمیں بغیر کسی ترددکے تسلیم کرلینی چاہیے کہ ہمارا پورا نظام تعلیم ، جواس وقت ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں رائج ہے ، وہ ہمارے مسائل کو حل کرنے، اور ہماری علمی اور فکری کمیوں کو دور کرنے میں بری طرح ناکام ہے ۔
یہ نظام تعلیم اب تک بس اتنا ہی کرسکا ہے، اور آیندہ بھی بس اتناہی کرسکتا ہے کہ قوم کے کچھ نوجوانوں کو اس قابل بنادے کہ وہ کچھ کمانے کھانے کے لائق ہوجائیں۔وہ کسی مسجد کے امام اور مؤذن بن جائیں،یا کسی مدرسہ کے استاد یاسفیر بن جائیں،یا کسی اسکول کالج کے ٹیچر یا پرو فیسر یا کلرک بن جائیں۔یا کسی شاپنگ سینٹر کے سیلس مین بن جائیں،یا کسی تجارتی یا زراعتی یا صنعتی کاروبار میں اپنی کوئی جگہ بنا سکیں۔
اس سے آگے بڑھ کراس نظام تعلیم سے کوئی بڑی توقع نہیں قائم کی جاسکتی۔
یہ نظام تعلیم کسی مردہ قوم کے اندر زندگی کی روح نہیں پھونک سکتا !
یہ نظام تعلیم کسی بیمار قوم کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج نہیں کرسکتا!
یہ نظام تعلیم کسی پست ہمت اور شکست خوردہ قوم کے حوصلوں کو بلند نہیں کرسکتا !
یہ نظام تعلیم کسی کچلی ہوئی،یا کسی پسی ہوئی قوم کی غلامانہ ذہنیت کوختم کرکے اس کے اندرآزاد قوم کے اوصاف نہیں پیدا کرسکتا !
یہ نظام تعلیم علمی اور فکری افلاس میں مبتلاکسی قوم کوعلمی اور فکری بلندیوں تک نہیں پہنچا سکتا۔
یہ نظام تعلیم نہ دنیا میں کسی قوم کو عزت دلاسکتا،نہ آخرت کی سرخ روئی کو یقینی بنا سکتا !
اس کے برعکس قرآنی نظام تعلیم وتربیت سے جو نسلیں تیار ہوں گی، وہ موجودہ نظام تعلیم کی نسلوں سے بالکل مختلف ہوں گی۔
ان کے ذہنوں میں کشادگی، مزاج میں سادگی،علم میں گہرائی اور فکر میں بلندی ہوگی۔
ان کے اندراپنے رب سے بے پناہ محبت ہوگی،اس کی کتاب سے، اور اس کتاب کو لانے والے رسول سے بے پناہ محبت ہوگی۔
ا ن کے اندر اللہ کے بندوں کے لیے بے انتہاخیر خواہی ہوگی، ان کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے بے پناہ تڑپ ہوگی۔
ان کے اندراپنی پوری قوم کا درد ہوگا، قوم کا ہی نہیں، ساری انسانیت کا درد ہوگا۔ انہیں تاریکیوں سے نکالنے، تباہیوں سے بچانے ، اور کتاب الہی کی برکتوں سے فیض یاب کرنے کے لیے شدیدبے چینی ہوگی۔
ان کے اندر دن بدن آگے بڑھنے ،علم و تحقیق کے میدان میں ترقی کرنے ،سائنس اور ٹکنالوجی کی نئی نئی وادیاں طے کرنے،اور خلافت الہی کی ذمے داریوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کا حوصلہ اور ولولہ ہوگا۔
ان کے اندر مقصد زندگی کا صحیح شعور ہوگا، اس مقصدکو حاصل کرنے کا سلیقہ،اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دینے کا جذبہ ہوگا۔
قرآنی نظام تعلیم وتربیت کی برکت سے جب ہمارے تعلیمی اداروں سے اس طرح کی باکردار،بلند ہمت،خیر پسند، اور ہر طرح کی صلاحیتوں سے مالامال نسلیں نکلنی شروع ہوجائیں گی، تو وہی دن ہماری عزت وشوکت، اورہماری سرخ روئی اور سربلندی کا دن ہوگا۔
اس دن ہمارے لیے یہ ممکن ہوگاکہ ہم اپنے دینی اداروں میں پڑھنے والے ڈھائی فیصد مسلم طلبہ کے بجائے اپنی پوری ملت کوسنبھال سکیں ، خواہ وہ لوگ کسی بھی وادی اور کسی بھی جزیرے میں ہوں، اور خواہ وہ کسی بھی کالج اور کسی بھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں!
اسی دن ہمارے لیے یہ بھی ممکن ہو گا کہ ہم اس زمین پرخیر امت کا منصب سنبھال سکیں، اورملت اسلامیہ سے آگے بڑھ کر، اس زمین پر بسنے والی ساری انسانیت کے دکھوں کا علاج کرسکیں،اور ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔
اس لیے کہ اس دن ہماری ملت ایسی قد آورشخصیات سے مالامال ہوگی،جو زمانے کے ہر چیلنج کا سامنا کرسکیں گی۔
ایسے حوصلہ منداور باصلاحیت علماء سے مالامال ہوگی جوہر محاذ پر شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرسکیں گے، اور نازک سے نازک حالات میںملت کی کامیاب قیادت ، اور اپنے دین کی صحیح نمایندگی کرسکیں گے۔وما علینا الا البلاغ۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020