اسلامی تحریک کا مطلب ہے’’فرض منصبی کی محبت سے سرشار ہوکر اسے انجام دینے کے لیے میدان عمل میں اتر جانا۔‘‘ اسلامی تحریک کا ہر فرد محبت سے سرشار ہوتا ہے۔ اس کا دل اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے آباد ہوتا ہے۔ یہ محبت اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ہے۔ وہ اللہ سے قریب کرنے والے راستے پر بے تحاشا دوڑتا ہے۔ اسلامی تحریک کے فرد کو کتنا متحرک ہونا چاہیے اس کی بہت دلآویز تصویر قرآن مجید پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بندہ مومن بہت تیز دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ تیز دوڑ کو بتانے والے تمام بہترین الفاظ کا قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی رو سے بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہل ایمان کا فرض منصبی ہے۔ اور یہ فریضہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے انجام دینے والوں میں گہری اور سچی دوستی ہو، اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیعُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ۔(التوبۃ:71)
’’اورمومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں مخلص اور گہرے دوست ہوتے ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکات دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، انہیں اللہ اپنی رحمت میں رکھے گا، اللہ قوت اور حکمت والا ہے‘‘
اللہ کے دین کی نصرت کے عظیم جذبے اور مبارک کام میں جتنے لوگ شریک ہوجائیں، ان سب کے درمیان محبت ضرور ہونی چاہیے۔ یہ محبت اللہ واسطے کی ہونی چاہیے، اور حرکت سے بھرپور ہونی چاہیے۔ آپس کی محبت کے بغیر اسلامی تحریک کوئی بڑی پیش رفت نہیں کرسکتی ہے۔
دوستی سنت رسول ﷺ کے سائے میں
رسول پاک ﷺ کی حدیثوں میں اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مومنوں کے مومنوں پر حقوق گنائے گئے ہیں، اور آپس کی محبت بڑھانے کے لیے انمول تدبیریں بتائی گئی ہیں۔
انکشاف والی بات یہ ہے کہ کلام نبوت میں بھی اور سیرت پاک میں بھی ساکن اور خاموش محبت کے بجائے ماحول میں دوڑتی پھرتی اور بولتی مسکراتی محبت نظر آتی ہے۔ اس محبت کے سائے میں سلام سلام کی سوغاتیں تقسیم ہوتی ہیں، ایک دوسرے کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعائیں ہوتی ہیں، رو برو ہونے پر مسکراہٹیں بکھرتی ہیں، بیمار ہونے پر عیادتیں ہوتی ہیں، طعام کی دعوتیں ہوتی ہیں، تکلف اور تکلیف سے خالی پرخلوص تحفے تحائف ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے یہاں خوب آنا جانا ہوتا ہے اور ساتھ مل کر مہم در مہم نکلنا ہوتا ہے۔ جب بھی آپ رسالت کے آئینے میں اہل ایمان کی محبت کو دیکھیں گے آپ کو نغمگی سے بھرپور دل آویز حرکت نظر آئے گی۔
تصور کی نگاہ سے کلام نبوت میں مذکور یہ دل کش منظر دیکھیںکہ ایک شخص اللہ کی خاطر دوسری بستی میں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے نکلا، اللہ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو ٹھہرادیا، جب وہ وہاں سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے؟ کہا: ایک شخص سے ملنے جارہا ہوں، پوچھا: کوئی رشتے داری ہے؟ کہا: نہیں، پوچھا: اس کے کسی احسان کا تقاضا پورا کرنے جارہے ہو؟ کہا: نہیں، پوچھا پھر کیوں اس کے پاس جارہے ہو، کہا: میں اللہ کی خاطر اس سے محبت کرتا ہوں، اور اسی لیے اس سے ملنے جارہا ہوں۔ تب فرشتے نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اس شخص سے محبت کرتے ہو، اس کے صلے میں اللہ تم سے محبت کرتا ہے۔ (مسند احمد)
حرکت سے بھرپور محبت کا یہ کیسا خوب صورت منظر ہے۔اللہ کی خاطر محبت انسان کو اس قدر متحرک کردیتی ہے کہ وہ صرف اس محبت سے بے قرار ہوکر اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے دوسری بستیوں تک جاتا ہے، اور بار بار جاتا ہے۔
دعوت وعزیمت کے راستے پر چلنے والوں کے لیے باہمی ملاقاتیں کتنی اہم اور کارآمد ہوتی ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے کریں کہ شروع اسلام میں مکہ شہر کے مشکلوں اور آزمائشوں سے بھرپور زمانے میں رسول پاک ﷺ آپس کی ملاقاتوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر روزانہ صبح اور شام نہ آتے ہوں۔ (صحیح بخاری)
رسول پاک ﷺ کا اپنے مومن دوست ابوبکر صدیقؓ کے یہاں روزانہ دو دو بار جانا اسلامی تحریک کے رفیقوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ دوستوں کی یہ ملاقاتیں مکہ میں دعوت کے پھیلنے میں بہت مددگار ہوتی تھیں۔
آپ ﷺ کی دوستانہ زیارتوں کا سلسلہ مدینہ منورہ میں بھی جاری رہا۔ حمزہ بن عبدالمطلب ؓجب مدینہ آئے تو ایک انصاری خاتون خولۃ بنت قیس سے شادی کرلی۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ ﷺ ان کے گھر حمزہ سے ملنے آیا کرتے تھے، ان کی اہلیہ ان ملاقاتوں کے دوران آپ ﷺ کی جو باتیں سنتیں وہ بعد میں بیان کرتی تھیں۔ (مسند أحمد)
اس حسین وجمیل سنت میں اسلامی تحریک کے لیے کئی ایک مفید سبق ہیں۔ جب تحریکی دوست اپنے گھروں میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، تو ان کی ایمان افروز گفتگو کا فیض گھر کے تمام لوگوں کو پہنچتا ہے۔ اپنے گھر کو تحریکی گھر بنانے کا یہ بہت کارآمد نسخہ ہے۔ ایک اور فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مردوں کی تربیتی اور دعوتی گفتگو جب گھر کی عورتیں سنتی ہیں تو وہ پھر عورتوں کے سماج میں اس گفتگو کو پہنچانے والی بن جاتی ہیں۔
ابوسلیمان دارانی ؒ کی تحریکی نصیحت
ہمارے قدیم بزرگوں کے پاکیزہ ذوق اور گہرے فہم میں دور حاضر کی اسلامی تحریکوں کے لیے سیکھنے کے بہت سے اسباق ہیں۔
زہد کی کتابوں کے عظیم مصنف شیخ ابن أبی الدنیا اپنی کتاب الاخوان میں لکھتے ہیں: ’’شیخ ابوحمزۃؒ شیبانی سے پوچھا گیا کہ اللہ واسطے کے دوست کون ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا جو اللہ کی اطاعت میں سرگرم رہتے ہیں، اور اللہ کے کام کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، چاہے ان کے گھر دور دور کیوں نہ ہوں۔ یہ بات جب مشہور زاہد شیخ ابوسلیمان دارانی ؒ (وفات 215 ھجری) کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: دیکھو ایسا ہوسکتا ہے کہ تم اللہ کی اطاعت میں سرگرم رہو، اور اللہ کے کام میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دو، تاہم تم دوست اس وقت بنو گے جب ایک دوسرے کے یہاں ملنے جاؤ گے اور ایک دوسرے کے کام آؤ گے’’۔
اس بیان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابوسلیمان ؒ یہ خوب صورت بات دور حاضر میں دین کے داعیوں اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان بیٹھ کر فرمارہے ہیں۔ آپس میں محض رسمی سا تعلق رکھتے ہوئے ایک ساتھ دینی کاموں کو کرنے میں وہ حرارت اور لذت کہاں مل سکتی ہے، جو ایک دوسرے کا دوست بن کر کرنے میں ہے۔ اور جب دوستی ہے تو اس کا اظہار صرف کسی ایک مہم، کسی ایک پروگرام اور کچھ اجتماعات تک محدود کیوں رہے۔ دوستی پھر دوستی کی طرح ہو، جس میں ایک دوسرے کے گھر جانا، اور ایک دوسرے کے کام آنا بھی شامل رہے۔
علامہ ابن قدامۃ شیخ محمد بن علیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ ہر جمعہ کو اپنے دوستوں کو گھر بلاتے، اہتمام سے عمدہ کھانا کھلاتے، عطر لگاتے، خوشبو کی دھونی دیتے، اور پھر سب دوست ایک ساتھ ان کے گھر سے مسجد جاتے۔‘‘
کیسا اچھا ہو اگر ہمارے تحریکی تعلقات پر بھی اس طرح کی دوستی کا رنگ ہو۔ اسلامی تحریک کے رفیقوں کو جب دعوتی اور تحریکی مہمات پر نکلنا ہو، تو وہ دوستوں کی طرح ایک دوسرے کے گھر جمع ہوں، کچھ خاطر تواضع کریں، اور آپس میں دوستانہ جذبات کا عملی اظہار کریں۔ ایسا نہ ہو کہ صرف رسمی اجتماع میں ان کی ملاقات ہو، اس رسمی ملاقات میں دوستی کی حرارت نہیں ہو، اور وہ اجتماع کے بعد ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن کر اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔
امام حسن بصریؒ، بے تکلف دوستی کے داعی
حرکت سے بھرپور دوستی کے لیے بے تکلفی شرط ہے۔ تحریکی دوستوں کے درمیان ادب کے حدود میں رہتے ہوئے خوب صورت انداز کی بے تکلفی بھی رہنی چاہیے۔ امام حسن بصری کے یہاں اس کے حسین نمونے ملتے ہیں۔ ان کا معمول یہ تھا کہ اگر ان کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا ہے، تو گویا گھر میں آنے کی عام اجازت ہے۔ ایک بار ان کے چار دوست عبدالواحد بن زیادؒ، مالک بن دینارؒ، محمد بن واسعؒ اور فرقد سبخیؒ ان کے گھر میں داخل ہوئے (یہ سب اس وقت کے بڑے اہل علم تھے)، حسن بصری اس وقت مصلے پر کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، وہیں کمرے میں ایک طرف تازہ کھجوروں کی ڈلیا رکھی تھی، محمد بن واسع نے ڈلیا اپنی طرف کھینچی اور کھجور کھانا شروع کردی، مالک بن دینار نے انہیں ٹوکا، کہ بغیر اجازت نہیں کھاتے ہیں، لیکن وہ پرواہ کیے بغیر کھاتے رہے، حسن بصری نماز سے فارغ ہوئے اور پیار بھری ڈانٹ کے ساتھ کہا: دیکھو مالک، ہم تو پہلے اسی طرح رہتے تھے، ہمارے درمیان کوئی تکلف نہیں ہوتا تھا، لیکن اب تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے گڑبڑ کرنا شروع کردیا۔
داخل کی حرکت سے خارج کی حرکت ہے
جسم کے داخل میں جب حرکت رہتی ہے، دل دھڑکتا ہے، رگوں میں خون دوڑتا ہے، توانائی کی لہریں دوڑتی ہیں،اور تمام اعضاء حرکت میں رہتے ہیں، تو جسم کی خارجی حرکت بھی بھرپور رہتی ہے۔ انسان لمبے سفر کرسکتا ہے، بھاری وزن اٹھاسکتا ہے، بڑی ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے، پرخطر مشن انجام دے سکتا ہے، پے در پے تجربات کرسکتا ہے اور انکشاف وایجاد کی وادیوں میں گھوم سکتا ہے۔ لیکن جسم کی داخلی حرکت اگر کسی ضعف کا شکار ہوجاتی ہے، تو خارجی قوت وحرکت بھی کم زور پڑنے لگتی ہے۔
اجتماعی تحریک میں بھی خارجی پیش قدمیوں کے لیے تحریک کی داخلی حرکت بہت ضروری ہوتی ہے۔ داخلی حرکت کی ایک فطری اور لطف سے بھرپور شکل یہ ہے کہ تحریکی ساتھیوں کے درمیان میل جول اور چلت پھرت والی دوستی بڑھائی جائے۔
اسلامی تحریک کے رفیقوں میں اگر ایک دوسرے کے یہاں جانے اور آپس میں ملتے رہنے کا کثرت سے اہتمام ہوتا رہے، جس طرح کا اہتمام بے تکلف جگری دوستوں میں دیکھا جاتا ہے، تو تحریک کے داخل میں ایک فطری حرکت ہمیشہ رہے گی، یہ حرکت تحریک کو شدید جمود کے مرض سے بچائے گی، اور اسے آگے بڑھنے کے لیے تازہ قوت اور توانائی دیتی رہے گی۔
حرکت میں برکت کی انوکھی تفہیم
حرکت کے سلسلے میں مشہور زاہد شیخ ابو علی دقاقؒ نے ایک راز پر سے پردہ اٹھایا، انہوں نے کہا: لوگ جو کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ظاہر کی حرکتیں باطن کی برکتوں سے ہم کنار کرتی ہیں’’۔ (حرکات الظواہر توجب برکات السرائر) اس انکشاف کا یہاں انطباق یہ ہے کہ جب اسلامی تحریک کے ساتھی ایک دوسرے سے ملنے جائیں گے تو ان کی یہ ظاہری حرکت ان کے دلوں میں دوستی کی جڑیں گہری کرے گی، اوردلوں کو محبت کی سچی مٹھاس سے ہم کنار کرے گی۔
تحریک کو ایک جسم تصور کرکے غور کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تحریک کی داخلی حرکت ایک طرف تحریک کی خارجی حرکت کو قوت پہنچاتی ہے، اور دوسری طرف تحریک کے اندر جو ایک اور اندرون ہے، یعنی کارکنان تحریک کی قلبی حالت تو یہ خارجی اور داخلی حرکت اس باطن کو خاص برکتوں سے معمور کرتی ہے۔ آپس میں جس قدر میل جول رہے گا، اور دین کا کام جس قدر مل جل کر کیا جائے گا اسی قدر دلوں میں ایمان زیادہ ہوگا اور محبت میں اضافہ ہوگا۔
حرکت وبرکت کا یہ دو طرفہ سفر ہوتا ہے۔ دوستی کا آغاز تحریکی تعلق سے ہوتا ہے جو دوستانہ میل جول کی شکل اختیار کرتا ہے، اور اس میل جول کے نتیجے میں قلبی تعلق استوار ہوتا ہے۔ جب قلبی تعلق قائم ہوجاتا ہے، تو برکتوں کی نئی لہریں پھر دل کے اندر سے اٹھتی ہیں، جو تحریکی دوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے بے چین رکھتی ہیں، اور تحریک کے اندر محبت کی یہ حرکت وروانی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح تحریک کو ہر میدان میں قوت کار اور سرعت رفتار عطا کرتی ہے۔
تحریک کے کارکن کا دل ہی دراصل تحریک کا اصل باطن ہے۔ وہاں اللہ سے محبت، نصب العین سے محبت اور ساتھ ہی اپنے ہم سفر ساتھیوں کے لیے محبت ہی زندگی کی ضمانت لیتی ہے۔
کچھ خاص مشورے
٭محبت کرنا دراصل محبت کے عملی اظہارکو کہتے ہیں، آپ اپنے آپ کو لاکھ مطمئن کریں کہ مجھے کاروان دعوت وعزیمت کے ہر فرد سے محبت ہے، لیکن جب تک آپ اس کا اپنے عمل سے اظہار نہ کریں، خود آپ کو بھی حقیقت حال کی خبر نہیں ہوگی۔ اس لیے لازم ہے کہ دل کے احساس اور زبان کے بیان سے آگے بڑھ کر محبت کا عملی کردار پیش کریں۔اللہ کے رسول ﷺ نے ایک طرف آپس میں محبت کی تلقین کی ہے، وہیں دوسری طرف محبت کے عملی اظہار کے بہت سے طریقے بھی بتائے ہیں۔
٭ تحریک میں شامل تمام ساتھیوں میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے، دین کی خدمت ونصرت کا جذبہ۔ اس کے علاوہ ان کے مزاج مختلف ہوسکتے ہیں، ان کی پسند اور ذوق مختلف ہوسکتے ہیں، بہت سے مسائل میں ان کی رائے ایک دوسرے سے مختلف اور کبھی بہت زیادہ مختلف ہوسکتی ہے۔اس تمام فرق اور اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی ان سب سے محبت کرنا اور محبت کا عملی اظہار کرنا ہر کسی پر واجب ہے۔ کیوں کہ ان کے درمیان جو مشترک رشتہ ہے وہ للہیت کا رشتہ ہے، اللہ کی طرف سے دیے گئے نصب العین کا رشتہ ہے، یہ بہت اعلی رشتہ ہے، اور ہر حال میں محبت کا تقاضا کرتا ہے۔
٭کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تحریک میں شامل افراد میں دوستی تو ہوتی ہے، لیکن وہ دوستی تحریک کے اندر ایک گروپ کی شکل اختیار کرلیتی ہے، پھر اس چھوٹے گروپ کے لوگ ہی آپس میں ملتے جلتے اور ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ دوستی کی یہ شکل فائدے مند نہ ہو کر بسا اوقات نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آپ کے مقام پر تحریک کے تمام افراد سے آپ کی دوستی ہو۔ اور آخر ایسا کیوں نہ ہو اگرتحریکی ساتھیوں سے آپ کی محبت محض اپنے جذبات کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کے لیے ہے۔
٭لازم ہے کہ دوستی کی آسان اور بے تکلف شکلوں کو اختیار کیا جائے،زیادہ خرچ والی دعوتیں، مہنگے ریسٹورنٹ کی پارٹیاں، اور قیمتی تحفے دینے کے بجائے، کم سے کم خرچ والے اور آسانی سے انجام پانے والے طریقے اختیار کیے جائیں۔ گھر میں دعوت کا اہتمام ہو تو اس بے تکلفی سے کہ مرد کی جیب پر اور گھر کی خواتین پر وہ دعوت بوجھ نہ بنے، اور وہ خود اس دعوت سے تکان کے بجائے خوشی محسوس کریں۔میری زندگی کا یادگار واقعہ ہے جب ہم دس بارہ لوگ دوران سفر پہلے سے اطلاع دیے بغیرایک تحریکی ساتھی سے ملنے اس کے گھر پر رکے، اور محض آدھے گھنٹے میں سب کے لیے کھانے کا انتظام ہوگیا، گرم گرم دال اور سادہ چاول ساتھ میں انڈے کے آملیٹ۔ اس بے تکلف اور پرخلوص کھانے میں جو لطف آیا وہ رنگین دعوتوں میں کبھی محسوس نہیں ہوسکا۔
٭دوستانہ ملاقاتوںکے وقت یہ نہ بھولیں کہ یہ عام دوستی کا نہیں تحریکی دوستی کے اظہار کا موقع ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اجتماع والی ملاقات میں للہیت، مقصدیت اور سنجیدگی کا اہتمام ہوتا ہے، اور دوستانہ ملاقات میں اس کا کوئی رنگ نظر نہیں آتا۔ وہاں صرف ہنسی مذاق ہوتا ہے۔لازم ہے کہ ایک طرف ہماری دوستانہ ملاقاتیں ہمارے تحریکی جذبے، شعور اور تعلق کو مضبوط کرنے والی ہوں۔اوردوسری طرف ہمارے اجتماعات ہماری دوستی اور محبت کو تازہ کرنے والے ہوں۔تحریکی دوستوں کی گفتگو کو پردے کے پیچھے سے اہل خانہ سنیں یا سامنے بیٹھے ہوئے بچے سنیں، یا وہاں موجود کوئی اجنبی سنے، سب اس گفتگو کی خوبیوں سے متاثر ہوں، اور اس سے فیض اٹھائیں۔حکمت مومن کی متاع گم شدہ بھی ہے، جہاںمل جائے، اٹھانے اور سینے سے لگانے میں دیر نہیں کرتا ہے، اور حکمت مومن کی شخصیت کا زیور بھی ہے، جسے وہ کبھی اپنے سے دور نہیں ہونے دیتا ہے۔
٭ملاقاتوں کی خوش گواری کا بھی خاص خیال رکھیں، کسی بحث کو کڑواہٹ سے قریب نہ ہونے دیں،اپنے ساتھی کو کسی مسئلے میں اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش میں اسے ہی کھودیں یہ دانش مندی نہیں ہے۔ایسی کوئی گفتگو نہ کریں جو آپ کے ساتھی کے مزاج کو تکدر کا شکار کردے، آپ کے کسی انداز سے اس کا دل میلا ہوجائے یا ملاقات کے بعد دیر تک وہ آپ کی کہی ہوئی بات سے بوجھل رہے۔
٭دوستی کا حق خوب خوب ادا کریں، اوردوستی کا حق ادا کرنے کا موقع بھی دیں۔ ایسا نہ ہوکہ آپ اپنے لیے کوئی ایک خاص پوزیشن طے کرلیں۔ آپ دعوت دیں، بے شک یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن جب دوسرا کوئی ساتھی دعوت دے تو اس کی دعوت کو خوش دلی سے قبول کریں، نہ کہ اس وقت بے جا تکلف یا بے نیازی کا مظاہرہ کریں۔اللہ کے رسولﷺ نے مسلم کے مسلم پر حقوق بتاتے ہوئے دعوت دینے کا ذکر نہیں کیا، لیکن دعوت قبول کرنے کا ذکرکیاہے۔ اس کی مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ دعوت دینے میں تو عام طور سے لوگوں میں تکلف نہیں پایا جاتا ہے، تاہم بہت سے لوگوں کو دعوت قبول کرنے میں تکلف محسوس ہوتا ہے، اور کچھ لوگوں کو اس میں کسر شان کا احساس بھی ہوتا ہے۔یہ درست رویہ نہیں ہے، اس سے تعلقات کی گرم جوشی متاثر ہوتی ہے، اور تعلقات کی عمر مختصر ہوجاتی ہے۔
٭محبت کے عملی اظہار میں اگر حکمت ودانائی سے کام نہیں لیا جائے تو یہی محبت ساتھیوں کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔زحمت کے اندیشے کو بہانہ بناکر سب سے الگ تھلگ ہوکر رہنا بھی مناسب بات نہیں ہے، اور زحمت سے بالکل بے پرواہ ہوکر نا وقت فون کرنا، یاملنے جانا اور دیر تک بیٹھے رہنا بھی مناسب بات نہیں ہے۔اس پر بھی ہمیشہ دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنے تحریکی ساتھیوں سے ملنا جلنا اعلی مقصد کے ہم راہ رہے، ہر ملاقات مفید اور بامقصد ہو، اور وقت کے ضیاع کا سبب نہیں بنے۔کبھی ایک مختصر ملاقات ایمان افروز اور روح پرور ثابت ہوتی ہے، اور ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہوجاتی ہے، اوراکثر لمبی ملاقاتوں کا بڑا حصہ محض وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔
٭ ہوسکتا ہے آپ کی مصروفیات بہت زیادہ ہوں، اور آپ ان گنت مسائل میں گھرے ہوئے ہوں، پھر بھی اپنے تحریکی ساتھیوں کی محبت کے عملی تقاضوں کو ضروری سمجھ کر ان کے لیے کچھ نہ کچھ موقع اور وقت نکالیں۔ جب آپ اللہ کی رضا کے لیے ایسا کریں گے، تو امید ہے کہ اللہ آپ کے وقت میں برکت عطا فرمائے گا، اور آپ کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔
٭اپنے تحریکی ساتھیوں سے دوستانہ تعلق اتنازیادہ رکھیں کہ جب آپ کے چھوٹے بھائی اور آپ کے بچے آپ کے خاص دوستوں کی فہرست بنائیں تو اس میں آپ کے تحریکی ساتھی نمایاں طور پر نظر آئیں۔آپ کی اس دوستی کا گھر کے سب لوگوں کو احساس ہو۔قوی امید ہے کہ آپ کی یہ دوستی گھر کے تمام افراد پر مثبت اثر ڈالے گی۔ تحریکی افراد کے گھروں کی خواتین میں آپسی تعلق استوار ہوگا، اور تحریکی افراد کے بچوں میں بھی باہم دوستی قائم ہوگی، یہ تعلقات پورے پورے خاندان کو تحریک سے قریب کریں گے۔اسلامی تحریک میں مثالی صورت یہی ہے کہ تحریک کے افراد میں اتنا گہرا تعلق ہو کہ تحریک ایک خاندان بن جائے، اور خاندانوںکے افراد تحریک سے اس قدر متاثر ہوجائیں کہ خاندان کے خاندان تحریکی بن جائیں۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون میں تحریکی افراد کی باہم گہری دوستی پر زور دینے کا مقصد ہرگزیہ نہیں ہے کہ وہ ایک خول میں بند ہوجائیں، بلکہ مقصدیہ ہے کہ وہ ایک مضبوط ٹیم بن کرکے پورے معاشرے پر اثر انداز ہوسکیں۔اسلامی تحریک کے افراد کے درمیان گہرے تعلقات نہیں ہوں گے، تو تحریک نہ پھیل سکے گی، اور نہ باہر کی دنیا پر زیادہ اثر انداز ہوسکے گی۔
یاد رکھیں، اللہ کے دین کی خاطر جدوجہد کرنے والوں سے محبت کرنا اللہ کو مطلوب ہے۔ حدیث پاک میں بشارت دی گئی ہے کہ اللہ کے لیے محبت کرنے والے کو ایمان کی مٹھاس مل جاتی ہے (صحیح بخاری)۔ تو جو لوگ واقعی اللہ کے دین کی نصرت کے لیے کمربستہ ہیں، تن من دھن سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں،ان سے محبت نہیں کی جائے گی تو پھر اور کس سے اللہ کے لیے محبت کی جائے گی۔
انسان کی سعادت اور ایمان کی حلاوت کا راز للہیت میں پنہاں ہوتا ہے۔ جب تحریک سے وابستگی اللہ کے لیے ہو، تحریکی ساتھیوں سے محبت اللہ کے لیے ہو، اورزندگی کی ساری دوڑ بھاگ اور تگ ودو اللہ کے لیےہو، تومنزل قریب نظر آتی ہے، اور سفرپرلطف اور خوش گوار ہوجاتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019