خلق کی گواہی

ایک سماج میں جو افراد باہم مل جل کر رہتے ہیں، روزمرہ کی زندگی میں ان کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کسی شخص کے بارے میں اتنی بڑی جمعیت کی جو رائے ہوگی، وہ معتبر سمجھی جائے گی۔ اگر سماج کے زیادہ ترلوگ اسے نیک کہیں تو بہ حیثیت مجموعی اُسے نیک ہی ہونا چاہئے۔ ایک موقعے پر اللہ کے رسول ﷺ کچھ صحابہؓ  کے ساتھ ایک جگہ تشریف فرما تھے۔ وہاں سے ایک جنازہ گزرا۔ صحابہ ؓ نے میت کے اچھے اوصاف کا ذکر کیا ،اس کی تعریف کی ۔ آپﷺ  نے فرمایا وَجَبَتْ ﴿واجب ہوگئی﴾ کچھ دیر کے بعد ایک اور جنازہ گزرا صحابہؓ  نے اس کی خرابیاں بیان کیں۔ آپﷺ  نے فرمایا: وَجَبَتْ ﴿واجب ہوگئی﴾۔صحابہؓ  نے دریافت کیا اللہ کے رسولﷺ  !کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپﷺ  نے جواب دیا کہ تم نے پہلے شخص کی خوبیاں بیان کیں تو اس پر جنت واجب ہوگئی اور دوسرے شخص کی برائی بیان کی تو اس پر جہنم واجب ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے یہ بھی فرمایا:’’ انتم شھدائ اللّٰہ فی الارض‘‘ ﴿تم روے زمین پر اللہ کے گواہ ہو﴾ ﴿بخاری، مسند احمد﴾

افراد کے بارے میں خلق خدا کی زبانیں صرف دُنیا میںہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی گواہی دیں گی۔ اس لیے جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے لیے خیر اور بھلائی کی شہادت دی جائے تو اس کو اپنے اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حسن اخلاق انسان کی شخصیت کا بیش قیمت جوہر ہے۔ اس سے زندگی میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ خوشی اور مسرت کی لہریں اٹھتی ہیں۔ سماج میںامن وامان قائم ہوتا ہے۔ ہرفرد خود کو دوسروں سے مامون ومحفوظ پاتاہے۔ اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹ، مکروفریب ، دھوکا ،مکاری اور چالبازی کامعاملہ نہیں ہوگا۔ اس کی عیب جوئی اور پردہ دری نہیں کی جائے گی۔ حسن اخلاق کاایک جزوی فائدہ یہ ہے کہ اس سے قیامت کے دن اللہ کے رسولﷺ  کی صحبت اور قرب حاصل ہوگا۔

ان من احبّکم الی واقربِکُم منی مجلساً یوم القیامۃ احاسنکم اخلاقاً واِن ابغضکم الیٰ وابعدَکم منی مجلساً الثرثارون المتشدقون المتفیہقون۔‘‘﴿ترمذی﴾

’’قیامت کے دن تم میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ قریب ، خوش اخلاق لوگ ہوں گے، اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دُور وہ لوگ ہوں گے جو زیادہ باتیں بنانے والے، نخرے کرنے والے اور بال کی کھال اُدھیڑنے والے ہوں۔‘‘

حسن اخلاق بہت بڑی نعمت ہے یہ نعمت جس شخص کو مل گئی اس کو بیش بہار خز انہ مل گیا:

وانکم لن تسعوا الناس باموالکم ولکن یسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق ۔

 ’’لوگوں کو اپنی دولت سے نہیںمسخر کیا جاسکتا ہے۔ البتہ حسن اخلاق اور چہرے کی بشاشت سے ان کے دلوں کو خریدا جاسکتا ہے۔‘‘

بدخلق اور سنگ دل انسان مال دولت کے چاہے جتنے بڑے خزانے پر بیٹھا ہوا ہو، لیکن وہ لوگوں کے دلوں کا مالک نہیں بن سکتا، حسن اخلاق اور محبت کے سکے سے ہی دلوں کی خریداری ممکن ہے۔ سچائی ، ایمانداری، امانت ودیانت، اخلاص، وفاداری، بے لوث محبت ، مروت، ہمدردی، غم گساری،نرم لہجہ، چہرے کی بشاشت، خاکساری اور بے نفسی جیسی صفات اچھے اخلاق کے اہم اجزا ہیں۔ اِن سے محرومی بہت بڑی دولت سے محرومی ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ خیانت، عیب جوئی، بدگمانی، وعدہ خلافی، نفاق، بزدلی، چغلی، فتنہ پروری، ظلم وزیادتی، ترش روئی اور سنگ دلی، برے اخلاق کی علامتیں ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں، جو انسان کو ہلاک وبرباد کرنے والی ہیں۔ یہ خصلتیں جس شخص کے اندر پیدا ہوجائیں، اس کو بربادی کے گھاٹ تک پہنچا دیتی ہیں۔ ان ناپسندیداخلاق کے ساتھ نماز روزہ اور حج وزکاۃ جیسی عبادتیں بھی انسان کے کام نہیں آتیں۔

ارشاد نبویﷺ  ہے:

أتدون من المفلس ؟ قالوا المفلس فینا من لادرھم لہ ولامَتَاع فقال صلی اللہ علیہ وسلم : ان المفلس من امتی من یاتی یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام وزکاۃ ویاتی وقد شتم ھٰذا قذف ھٰذا واکل مال ھٰذا، وسَفَک دم ھٰذا وضرب ھٰذا، فیعطی ھٰذا من حسناتہ وھٰذا من حسناتہ فاِن فَنَیت حسناتہ قبل ان یقضی ما علیہ اُخَذ من خطایاھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔‘‘          ﴿مسلم﴾

’’ آپﷺ نے صحابہ سے سوال کیا کہ ’’تمھیں معلوم ہے کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ  نے ارشاد فرمایا: ’’میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ ، نماز اور زکاۃ جیسی عبادتیں لے کر آئے گا، اس کے ساتھ ساتھ کسی کو گالی دی ہوگی۔ کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کامال ہڑپ کیاہوگا ۔ کسی کاناحق خون بہایا ہوگا۔ کسی کو مارا ہوگا۔ اس لیے اس کی نیکیوں اور ثواب کو مظلومین کو دے دیاجائے گا۔ اگر نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلومین کے مطالبات باقی رہے توان کے گناہوں کو اس کے اوپر ڈال دیاجائے گا اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

سماج میں بہت سے افراد ایسے پائے جاتے ہیں، جو اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود کو بڑا نیکوکار، اور جنت کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ دوسرے انسانوں کے ساتھ بدگمانی کرتے ہیں۔ حالانکہ بدگمانی سے سختی کے ساتھ روکاگیا ہے۔

 یاایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن اِن بعض الظن اثم۔

 اے ایمان والو! بہت گمان سے بچو۔ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

یہ لوگ دوسروں کی ذاتیات اور پوشیدہ امور کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ ان کی عیوب کے ٹوہ میں رہتے ہیں۔ غیبت کرتے ہیں اور ان پر تہمت لگاتے ہیں۔ جب کہ ان کاموں سے سختی سے منع کیا گیاہے:

ولاتجسسوا ولایغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یکل لحم اخیہ میتاً فکرھتموہ۔

تجسس نہ کرو ، ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا، پس تم ناپسند کروگے۔

جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ اس سے منع کیاگیا ہے ارشاد نبوی ﷺ ہے:

اِن الکذب یھدی اِلی الفجور واِن الفجور یھدی اِلی النار وان الرجل لیکذب حتی یکتب عند اللّٰہ کذاباً ۔﴿متفق علیہ﴾

جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے یہاں جھوٹا لکھ دیاجاتاہے۔

ْْْْیہ لوگ اللہ کے بندوں کی پردہ دری کرتے ہیں اور ان کے عیوب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔جو شخص کسی مسلمان کی پردہ دری کرتا ہے ، اللہ اس کے عیوب کو لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے اور اللہ جس کے عیوب کو ظاہر کردے اُسے رسوا کردیتاہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ  سے روایت ہے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ  نے ارشاد فرمایا جو بندہ کسی بندے کی دنیا میں ستر پوشی کرتا ہے تو اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔﴿مسلم﴾

کچھ لوگ برائی کے خوگر ہوتے ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں برائی اور گندگی کی تلاش میں رہتے ہیں، حالانکہ دل کی سلامتی اور پاکیزگی ہی وہ صفت ہے ، جو انسان کو جنت میں لے جانے والی ہے۔ دل کی سلامتی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک صحابی کو رسول اللہﷺ  نے جنت کی بشارت دی۔ ایک دوسرے صحابی نے ان سے ان کے اعمال کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے جواب میں کہا: ’’میرے پاس نمازوں اور روزوں کا ذخیرہ نہیں ہے۔ البتہ ایک چیز کااہتمام کرتا ہوں، وہ یہ کہ جب میں رات میں بستر پر جاتا ہوں،تواس حال میں سوتا ہوں کہ میرے دل میں کسی کے متعلق کینہ نہیںہوتا۔ ﴿مسنداحمد﴾

حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کا دل کینے، بغض اور بدگمانی سے محفوظ رہتا ہے، وہ خوش وخرم رہتا ہے اور جس شخص کے دل میں کینہ اور حسد ہوتا ہے ، وہ اطمینان وسکون کی زندگی سے محروم رہتا ہے۔ خوف، الجھن ، بے چینی اورپریشانی کی زندگی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ اندیشوں اور گھبراہٹ میں مبتلا ہوتا ہے۔ کیونکہ دوسروں کے عیوب تلاش کرنا اس کا اہم مشغلہ بن جاتا ہے اور جو شخص دوسروں کے عیوب میں سرگرداں رہتا ہے، وہ ہمیشہ خوف ،وہم اور اندیشوں میں مبتلا رہتا ہے۔

عقل مند وہ شخص ہے جو خود اپنامحاسبہ کرے۔ دوسروں کے سامنے اپنی پارسائی نہ بیان کرتا پھرے۔ بلکہ آخرت کے دن سے ڈرے اور ہمیشہ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کی فکر کرتا رہے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223