پچھلے مضمون میں زندگی کی ابتدا سے متعلق ڈاروینی نقطۂ نظر بیان کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی تفصیلی گفتگو آئی کہ زندگی کی ابتدا کے مختلف سائنسی نظریات کون سے ہیں۔ اس سے یہ وضاحت ہوئی کہ زندگی کی ابتدا سے متعلق سائنسی نظریات مختلف فیہ ہیں اور ابھی تک سائنسی حلقے میں کسی ایک نظریے پر قابل لحاظ اتفاق نہیں ہوا۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سائنسی حلقہ مکمل طور پر کسی بھی ایک نظریے پر کامل اتفاق نہیں رکھتا، بلکہ کسی بھی نظریے پر اختلافِ نظر ایک عمومی بات ہے۔ گو کہ بعض نظریات پر کامل اتفاق ہے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ جیسے آئنسٹائن کے نظریہ اضافت پر سائنس کا بڑا حلقہ اتفاق کرتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ زندگی کی ابتدا سے بحث فلسفیانہ نقطۂ نظر سے بھی ہے۔ اسی لیے زندگی کی تعریف و توجیہ سائنس کی بنیادوں پر یکسر مختلف نظر آئے گی، جب کہ فلسفہ کی استخراجی منطق زندگی کی تعریف بالکل ایک منفرد انداز میں کرتی ہے۔ اسی لیے پچھلی سطور میں زندگی اور اس کی ابتدا کا سائنسی اور ڈاروینی نقطۂ نظر بیان کیا گیا تھا اور فلسفیانہ زندگی کی بحث کو نہیں چھیڑا گیا تھا۔
بعض سائنس داں اور محققین جاندار اور بے جان کی تفریق کے قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاندار اور بے جان کی یہ تفریق سطحی ہے۔ اور چوں کہ جاندار اور بے جان جیسی اصطلاحات کی یہ تفریق سطحی ہے اس لیے زندگی کی ابتدا اور اس کے لیے درکار عناصر وغیرہ پر بحث بے کار ہے۔ ان کے نزدیک ایسے خود کار نظام جو محض چانس کی بنیاد پر وجود میں آئے اور پھر فطری انتخاب کے ذریعے چن لیے گئے اور پھر ان میں ترتیب و ترسیل کے پیچیدہ شبکے وجود میں آتے چلے گئے، ان پیچیدہ شبکوں کو آج جاندار سے تعبیر کر دیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا بیانیہ سائنسی محققین کے ذریعے دیے گئے سادہ ترین (اور معصوم ترین) بیانیوں میں سے ایک ہے، اس پر سائنسی اعتبار سے زبردست تنقید بھی ہوئی ہے۔ مثلاً:
1۔ غالب امکان کی بنیاد پر آر این اے ورلڈ اور سادہ تحولاتی شبکہ (simple metabolic network) سب سے پہلے وجود میں آئے۔ لیکن حسابی ماڈل دونوں قسم کے وجود میں آنے کی تشفی بخش توجیہ نہیں کرتے۔ (اس پر مستزاد یہ کہ حسابی ماڈل کی بھی اپنی محدودیت ہے۔)
2۔ ابتدائی حیاتیاتی سالمات کی تشکیل کے لیے کم از کم آٹھ کیمیائی تعاملات اور ان کیمیائی تعاملات کے لیے درکار خاص حالتوں کا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ حالتیں/ تعاملات درج ذیل ہیں:
۱۔غیرتکسیدی حالت، ۲۔ اساسی pH، ۳۔ انجمادی درجۂ حرارت ، ۴۔ صاف اور تازہ پانی ، ۵۔خشک/ خشک تر / دائروی ماحول (یعنی پانی/ خشکی/ پانی/ خشکی) ۶۔اعلیٰ درجےکی توانائی جس سے دو عناصر مل کر مرکب بنا سکیں۔ ۷۔ درجۂ حرارت کو بڑھانے اور گھٹانے کا مستقل اوردائروی عمل، ۸۔ ماورائے خارجہ سے زندگی کے لیے درکار ابتدائی سالموں کا دخول۔(۱)
ان آٹھ حالتوں/ تعاملوں کی مخصوص یا بے ربط (random) ترتیب سے ابتدائی حیاتیاتی سالمات کا وجود ہو سکتا ہے۔ اور یہی وجود بالآخر سادہ تحولاتی شبکہ یا سادہ ابتدائی حیاتیاتی مرکبات کے ذریعے ارتقا کا ضامن بنتے ہیں۔ جدید ڈارونیت ، جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، حیات کی بالکل مختلف تعریف بیان کرتی ہے۔ اس کے نزدیک ان حالات میں جو بھی مرکبات تیار ہوئے ان میں وہی باقی رہ پائے جو بہتر تھے یا اپنی مخصوص کیمیائی ساخت کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہ گئے اور باقی ہزاروں قسم کے مرکبات تھے جو تباہ ہو گئے۔
لیکن مندرجہ بالا 8 حالتوں/ تعاملات میں ہر ایک حالت/ تعامل پر متبادل نقطہ نظر موجود ہے۔ مثلاً غیر تکسیدی حالت کیا اتنے عرصے تک باقی رہی ہوگی کہ تعاملات کے لیے درکار وقت کافی و شافی ہو۔
اگر یہ حالت برقرار تھی تو اس کے بالواسطہ ثبوت کیا ہیں۔ کیا عناصر کی بنیادی تشکیل ہی اس کا ثبوت ہیں۔ لیکن یہ تشکیل تو آج کے تجربات سے ثابت کی گئی ہے۔ جس میں ایک محقق مخصوص حالتوں کو ایک مربوط انداز میں ، مخصوص اوزان اور مخصوص تعاملاتی خصائص کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ اور جیسے ہی یہ مخصوص انداز اور کیمیائی تعاملات کا ماحول اور تکسیدی حالتیں بدل دی جاتی ہیں بالکل غیر معروف قسم کے کیمیائی مرکبات تیار ہوتے ہیں۔
اس طرح پی ایچ (pH، یعنی ہائیڈروجن آئن کا تناسب) کے متعلق بحثیں ہیں۔ انجمادی درجۂ حرارت کے بالواسطہ ثبوت تو اب کافی ہیں لیکن انجمادی درجۂ حرارت اور پھر اونچے درجۂ حرارت کا دور پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ پا رہا ، کیوں کہ گرم، ٹھنڈے اور بہت زیادہ ٹھنڈے درجۂ حرارت کی دائروی ترتیب سے تجربہ گاہ میں ابتدائی سالمات تیار کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ترتیب ابتدائی زمین کے ماحول میں کیسے واقع ہوئی ہوگی اس پر تحقیق گنجلک ہو چکی ہے۔
انسانی جسم میں موجود لحمیات (پروٹین) جو کہ امونیائی ترشوں سے بنے ہوتے ہیں، ان میں کم از کم 12 امونیائی ترشےوہ ہیںجو انسانی جسم میں پائی جانے والی پروٹین میں بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ ترشے ماورائے خارجہ اجسام میں بھی پائے گئے ہیں (۲)۔ اسی لیے بعض محققین کا کہنا ہے کہ کیمیائی ارتقا میں ماورائے خارجہ اجسام کے ذریعے ابتدائی حیاتیاتی سالمات کے دخول سے انکار کرنا ایک غیر سائنسی بات ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر جدید تخلیقیت کے مویدین(neo-creationists) حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک ماورائے خارجہ قوت نے ابتدائی حیاتیاتی سالمات کو زمین میں داخل کیا اور اس کے بعد ایک منضبط ارتقا (guided evolution) یعنی ارتقا بدست خدا کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
ایک اور دل چسپ بحث عناصر کے ظہورِ ترتیب اور ان سے ابتدائی حیاتیاتی سالمے اور بالآخر ایک پروٹوسیل کی تشکیل ہے۔ وہ بحث ابتدائی سوپ میں حیاتیاتی عناصر کی مقدار سے متعلق ہے۔ یعنی ان عناصر کا چانس کی بنیاد پر تشکیل پانا اگر مان بھی لیا جائے تو حسابی اعتبار سے یہ مقدار اتنی نہیں ہے کہ سالمیانے (polymerization) کا عمل انجام پا سکے۔ مثلاً دو امونیائی ترشوں کے ایک ساتھ جڑنے کے عمل کے لیے جو کیمیائی فضا درکار ہوتی ہے وہ حرحرکیاتی (thermodynamics) سائنس کے اعتبار سےناموافق ہے۔(۳)
چنانچہ ماقبل حیاتیاتی کیمیا کے بڑے مسئلوں میں سے یہ بھی ایک ناقابلِ حل معمہ ہے۔ حالاں کہ اب مزید تحقیقات اس ضمن میں بھی آ رہی ہیں۔ لیکن ان کا فیصل ہونا باقی ہے۔ اسی طرح سے آر این اے ورلڈ سے پرے دیکھنے کے نقطہ نظر کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ یعنی یہ بات اب زیادہ روشن ہو رہی ہے کہ محض جینیاتی مادے جیسے آر این اے پر ہی زندگی کی ابتدا اور اس کی افزائش منحصر نہیں ہے بلکہ نامیاتی مرکبات جیسے نشاستے (کاربوہائیڈریٹ)، پروٹین (لحمیات)، عمل انگیز (catalytic)مادے وغیرہ بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے بغیر حیات کی ابتدا ممکن نہیں۔ لیکن ان کی تشکیل عام طور پر آر این اے کی تشکیل سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس طرح آر این اے ورلڈ کے تناقضےکے ساتھ اب ان مرکبات کی تشکیل کے سلسلے میں مزید تحقیقاتی پیچیدگیاں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ مثلاً ساختی اعتبار سے کاربوہائیڈریٹ سادہ نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی ترتیب اور ان کی تشکیل بہت سارے ایسے مخصوص ماحول کا تقاضاکرتی ہیں، جو ابتدائی کرۂ ارض پر موجود ہی نہیں تھے۔
عام طور پر ماقبل حیاتیاتی کیمیا کے تین ستون مانے جاتے ہیں۔
۱۔ فارموس تعامل کے ذریعے نشاستوں کی تشکیل
۲۔ نیو کلیائی سالمات (آر این اے، ڈی این اے) کی بنیادی اکائیوں کی تشکیل ہائیڈروجن سیانائیڈ کے ذریعے۔
۳۔ یورے اور ملر کے تجربے کے ذریعے امونیائی ترشوں کی تشکیل۔(۴)
کچھ محققین اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان تین ستونوں کے ماورا بھی زندگی کی ابتدا اور ابتدائی حیاتیاتی مادوں کی تشکیل کے لیے غور و فکر ہونا چاہیے۔ اور یہ کہ محققین ِ ماقبل حیاتیاتی کیمیا ان تین ستونوں تک ہی سوچنے کے عادی( conditioned)ہو چکے ہیں۔(۵)
اس ضمن میں کلیمنز رچرٹ کا (جس کا تذکرہ پہلے بھی مضمون میں ہو چکا ہے) اعتراف جو ماقبل حیاتیاتی کیمیا میں انسانی محققین کی دخل اندازی کے متعلق ہے، بہت اہم ہے۔یہ اعتراف دراصل کیمیائی ارتقا کی سب سے پہلی سیڑھی (یعنی ابتدائی کیمیائی مادوں کی تشکیل پھر ان ابتدائی کیمیائی مادوں سے حیاتیاتی سالمات کی ترکیب پھر اس ترکیب سے ابتدائی سیل کا وجود) سے متعلق ہے۔
وہ کہتے ہیں:
Experimentalists in the field of prebiotic chemistry strive to re-enact what may have happened when life arose from inanimate material. How often human intervention was needed to obtain a specific result in their studies is worth reportng.
ماقبل حیاتیاتی کیمیا کے میدان میں کام کرنے والے محققین اس بات کی جد و جہد کرتے ہیں کہ غیر جاندار مادوں میں سے حیات کا ظہور کیسے ہوا۔ اس ماحول کی تشکیل کر سکیں۔ تاہم ان نتائج کو حاصل کرنے (یا ماحول کو تشکیل دینے کے لیے) ان کے تجربات میں انسانی دخل اندازی کتنے بار کی جاتی، اس کی معلومات رہنا اہم ہے۔
نیوکلیائی بنیادی اکائیوں اور نشانیوں سے ابتدائی حیاتیاتی سالمات جیسے آر این اے کی اکائیوں کی تشکیل پر سوالیہ نشان تو بہت پہلے لگ چکا ہے، تاہم آر این اے ورلڈ کی اس بنیادی خامی کے باوجود محققین کی ایک کثیر تعداد ان بھی اس نظریے کو مانتی ہے، لیکن اسی میدان کے ماہرین کی درج ذیل رائے سے آر این اے ورلڈ کے امکان پر زبردست چوٹ پڑتی ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:
‘‘اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مخصوص حرکیاتی تعاملات اور دیگر کیمیائی مخصوص حالتوں کو ملاکر نشاستوں سے نیوکلیائی بنیادی اکائی کی تشکیل ہوجاتی ہے، تب بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ glyconic بندش کے وجود میں لانے کے لیے محقق کی اعلی سطحی کیمیائی دخل اندازی ضروری ہے (۷) اور ان دخل اندازیوں کے بغیر اس طرح کے تخلیقی تعاملات مقدار کے اعتبار سے نیوکلیائی بنیادی اکائیوں کا ایسا آمیزہ تیار کرتے ہیں جسے الگ نہیں کیا جاسکتا (۸) (بالفاظ دیگر اس طرح سے تشکیل پانے والی کوئی بھی بنیادی اکائی مزید کیمیائی ارتقا سے نہیں گزر سکتی)۔
چنانچہ جب کیمیائی ارتقا ہی ممکن نہ ہوگا تو اکائیاں کس طرح بنیادی حیاتیاتی سالمات میں تبدیل ہوں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو ابتدائی تحولاتی شبکے بننے کا عمل کس طرح انجام پائے گا؟ اور اگر یہ عمل ہی انجام نہیں پاسکا تو مزید پیچیدگی کی طرف کس طرح پیش رفت ہوسکے گی؟ اور اگر پیچیدگی کی طرف پیش رفت نہ ہوگی تو حیات کا ظہور (حیات بمعنی ڈاروینی تصور حیات) کیسے ہوگا؟ اور اگر حیات کا ظہور نہ ہوگا تو حیات میں تنوع کیسے وقوع پذیر ہوگا؟ اور تنوع ہی وقوع پذیر نہ ہوا تو پھر تنوع میں زمروں(آرڈر)کا فرق کیسے واقع ہوگا؟ اور اگر زمروںکا فرق ظاہر نہ ہوا تو انواع کی پیچیدگی چہ معنی دارد؟
اسی طرح ابتدائی حیاتیاتی سالمات کی اہم اکائی نشاستے جیسے رائبوزکی تشکیل کے متعلق بہت ساری رکاوٹیں ہیں۔
حیات کے سب سے بنیادی عناصر جیسے کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس وغیرہ ان عناصر کی ترتیب سے بننے والے کیمیائی مرکبات ، ان کیمیائی مرکبات کی خصوصی ترکیب سے وجود میں آنے والے ابتدائی حیاتیاتی سالمے کے اس مکمل بیانیے پر سینکڑوں تنقیدیں ہیں۔ یہ تنقیدیں خالص سائنسی نوعیت کی بھی ہیں اور غیر سائنسی بھی۔ غیر سائنسی تنقیدیں بنیادی طور پرمنطقی استدلال پر مبنی ہیں۔ جب کہ سائنسی تنقیدیں، گو کہ عناصر اور مرکبات اور ان کے ترتیب و تشکیل کے متبادل تعاملات سے بحث کرتی ہیں، لیکن یہ ماقبل حیاتیاتی کیمیا کے چوکھٹے (frame) ہی میں ہیں۔ قارئین درج ذیل خاکوں کی مدد سے اس پورے بیانیے کو سمجھ پائیں گے۔
موجودہ حیاتیاتی نظام جیسے بیکٹیریا، کثیر خلوی جاندار، نباتات، حیوانات غرض کسی بھی جاندار کی تحلیل کی جائے تو چند بنیادی عناصر ہاتھ آئیں گے، مثلاً انسانی جسم کی تحویل اگر کی جائے تو درج ذیل خاکہ ابھر کر آئے گا۔
انسانی جسم ïعضو ïنسیجïنسیجی خلیات ï خلیاتïخلوی اجسامï حیاتیاتی سالمات ï حیاتیاتی مرکبات ï آراین اے، ڈی این اے، نشاستہ، پروٹین وغیرہïکاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس وغیرہ
اب اسی ترتیب کو الٹ دیا جائے تو مندرجہ ذیل منظر ہوگا، اور یہی ترتیب ماقبل حیاتیاتی کیمیا سے ہوکر موجودہ حیات کے تمام مناظر کو دکھاتی ہے۔
کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، فاسفورس وغیرہïابتدائی حیاتیاتی سالماتïڈی این اے، آر این اے، نشاتہ، لحمیاتïلپڈ ویسلïپروٹو سیلïخلیہïخلوی اجسام مع خلیہï ابتدائی جاندار ï ارتقاïکثیر خلوی جاندار/پودے/حیوانات وغیرہ
مندرجہ بالاخاکے سادہ ہیں لیکن وہ عناصر سے خلوی جاندار کی ترتیب کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس پورے بیانیے پر مندرجہ ذیل سوال قائم ہوتے ہیں۔ ان کا جواب ابھی ہنوز باقی ہے۔ یہ سوالات درج ذیل ہیں:
1۔ عناصر کی ترکیب کے لیے کرۂ ارض کا ابتدائی ماحول کیا تحقیقاتی تجربہ گاہ میں تشکیل دیا جا سکتا ہے؟
ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ تاہم اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بالواسطہ طریقوں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ابتدائی ماحول کی صورت گری کی گئی ہے اور اسی کی بنیاد پر زمین پر اس وقت موجود ماحول کی نقالی کی قریب ترین کوشش کی گئی ہے۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوں کہ اس طرح کے ماحول میں حاصل شدہ نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ ان معنوں میں کے ان سے ابتدائی حیاتیاتی سالموں میں سے کچھ سالموں کی تشکیل تو ممکن ہوئی۔ اور یہ تشکیل بالواسطہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تجربہ گاہ میں تخلیق کیا گیا ابتدائی زمین کا ماحول صحیح تھا۔ لیکن کیا محض ابتدائی حیاتیاتی سالمات کی تشکیل اس بات کی ضامن ہے کہ وہ ان مخصوص کیمیائی مادوں کو ترتیب دے کر حیات کی شکل اختیار کرے۔ اس کا جواب فی الوقت کے سائنسی ماڈلس دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2۔ کیا عناصر کی قابل لحاظ حد تک تشکیل چانس پر منحصر ہو سکتی ہے؟ (مقدار کے تناظر میں)
متعدد تجربات اس ضمن میں نفی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خود ماقبل حیاتیاتی سائنسی ماہرین اس معمے کو سلجھانے میں نئے نئے تجربات و اختراعات کرتے ہیں۔ لیکن ہنوز یہ سوال حل طلب ہے۔(۹)
یہ تجربات مختلف کیمیائی تعاملات میں رد و بدل اور ابتدائی کیمیائی مرکبات کے اوزان میں کمی بیشی کر کے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح یہ ماہرین پھر اسی تنقید کی زد میں آ جاتے ہیں جس کی رو سے انسانی دخل اندازی کے ذریعے پہلے سے طے شدہ نتائج کے حصول کی کوشش کو غیر سائنسی مانا جاتا ہے۔
3۔ ابتدائی سوپ(primordial soup )کی موجودگی یا تشکیل کا کوئی خاص میکنزم ہے؟
یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ بہت سارے تخلیقیت اور جدید تخلیقیت کے ماہرین سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہیں کہ کوئی ابتدائی سوپ جیسی شے وجود میں آئی ہو۔ ملحدمحققین کے ایک گروپ کی طرح وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ابتدا میں زمین پر آتش فشانی ماحول ہی تھا۔
اور اس آتش فشانی ماحول میں گو کہ پانی موجود رہا ہو۔ لیکن کسی تعامل کے لیے درکار غیر تکسیدی گیسیں نہیں ہو سکتی تھیں۔
اس ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ اس لیے وہ سارے کیمیائی تعاملات جو ابتدائی سالمات کی تشکیل کرتے ہیں انجام نہیں پا سکے تھے۔ (۱۰)
حالاں کہ اس ابتدائی تنقید کے بعد ابتدائی حیاتیاتی سالمات کی تخلیق کے سلسلے میں متعدد ماڈلس پیش کیے جا چکے ہیں۔ (زندگی کی ابتدا کے ضمن میں ان کی تفصیل آ چکی ہے) پھر بھی اس خالص تنقید کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں آ پایا کہ وہ سوپ کیسے تشکیل پا گیا اور کس طرح ایک لمبے عرصے تک برقرار بھی رہ پایا۔
4۔ دو سالمات کو آپس میں جوڑ کر ایک dipeptide بنانے کے لیے درکار کیمیائی تعامل dehydration ہے۔ یہ تعامل حر حرکیاتی کیمیا کے اعتبار سے بعید از قیاس ہے؟
اس سوال کی رو سے دو امونیائی ترشوں کا ایک ساتھ جڑنا بعض طبیعی قوانین کے مطابق نہیں ہے۔ تا ہم اس ے لیے متبادل تجربات کیے گئے اور اس طرح کی تخلیق کو اب ممکن مانا جا رہا ہے۔
5۔ کیا ابتدائی حیاتیاتی سالمات سے جینیاتی کوڈ تخلیق پا سکتاہے؟
جینیاتی کوڈ نیو کلیائی اساس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نیو کلیائی اساس رائِبوز شکرسے مل کر بنتے ہیں۔ یہ نیو کلیائی اساس تین تین کے گروپ میں ہوتے ہیں۔ ہر تین کا ایک گروپ ایک امونیائی ترشہ بناتا ہے۔ یہ امونیائی ترشے مل کر لحمیات میں پروٹین بناتے ہیں جو ابتدائی حیاتیاتی سالمات میں سے ایک ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ کیا محض اتفاق کی بنیاد پر ایسا جینیاتی کوڈ ترتیب پا سکتا ہے۔ محققین کا بڑا گروہ اس ضمن میں الجھن کا شکار ہے۔ خلیہ میں سینکڑوں ہزاروں قسم کے پروٹین ہوتے ہیں۔ ان پروٹین کی علیحدہ علیحدہ پیچیدہ ساخت ہے۔ بہت سارے ماہرین اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پیچیدگی کی وضاحت کیامحض تصور ارتقا کر پائے گا۔ تاہم ماہرین کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ یہ پیچیدگی اگر 4 بلین سال پر پھیلا دی جائے تو حسابی ماڈل کے اعتبار سے اس امکان کا کامل انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ (ارضیات اور بدأ کائنات کے ماہرین زمین کی عمر 4 سے 4.5 بلین سال بتاتے ہیں۔ یہ وہ عمر ہے جب زمین پر کسی بھی حیات کے لیے سازگار ماحول بننا شروع ہوا)۔ یعنی ان ماہرین کے نزدیک محض تصور ارتقا سے اس پیچیدگی کی وضاحت ممکن ہے۔ کیوں کہ ارتقا ایک سلسلہ وار عمل ہے اور اس میں وقت کو بہت زیادہ دخل ہے۔ یعنی اگر کسی بھی عمل کو ایک طویل عرصہ فراہم کیا جائے اور وہ عمل یا شے ڈاروینی تصور ارتقا پر پوری اترتی ہو تو لازماً اس میں پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
6۔ ابتدائی حیاتیاتی سالمات کے سلسلے میں ایک اور مشہور اور دل چسپ سوال ‘‘مرغی پہلے یا انڈا پہلے’’ والے معمے سے ہے۔ یعنی ابتدائی حیاتیاتی سالمے وجود میں آئے پھر وہ ایک bilipid membraneمیں قید ہوئے۔ پھر وراثتی مادے کی خود کار نقل سازی عمل میں آئی۔ سوال یہ ہے کہ اس تقسیم کے لیے درکار خامرہ (enzyme) کہاں سے اور کب آئے؟ یعنی وراثتی مادہ اگر پہلے بنا تو خامرےموجود نہیں تھےخامروں کے بغیر وراثتی مادہ تقسیم نہیں ہوسکتا کیوں کہ خامرہ بنانے کے لیے معلومات جینیاتی کوڈ میں تھی تو وراثتی مادہ کی تقسیم کیسے عمل میں آئی؟ حالاں کہ اب اس تناقص کا عملی جواب دیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ ایسا حیاتیاتی سالمہ جو خود کار طریقہ سے خامرہ بھی ہو اور وراثتی مادہ بھی تو بات بن جائے گی۔ اس بنیاد پر آر این اے ورلڈ کی پوری تھیوری کھڑی ہے۔ لیکن اس پر تنقید ہے اور سائنس میں اس پر زبردست گروہ بندی بھی ہے! (اس کی تفصیلات پچھلے مضمون میں گذر چکی ہیں)۔
7۔ عناصر سے ابتدائی حیاتیاتی سالمات کی تشکیل کی ایک اہم جہت حرحرکیاتی کیمیاکے تناظر میں بھی ہے۔ ہر کیمیائی تعامل ایک مخصوص ماحول کا مرہون منت ہوتا ہے۔ ان مخصوص حالتوں میں درجۂ حرارت، عناصر کے اوزان، کثافت، سالمات کی ترتیب وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کے علاوہ ہر کیمیائی تعامل خاص حرحرکیاتی کیمیا کے اصولوں کے بھی تابع ہوتا ہے یعنی تمام کیمیائی تعاملات بہر حال ایک حرحرکیاتی چوکھٹ کے اندر ہی انجام پا سکتے ہیں۔ کیا ابتدائی زمین کا ماحول بھی انہی اصولوں کا تابع تھا؟ اگر ہاں تو پھر سارے ابتدائی حیاتیاتی سالمے جن تعاملات سے بنے ہیں وہ بھی انہی اصولوں کے تحت بنے ہوں گے۔ اور یہیں سے مسائل شروع ہوتے ہیںbioenergetics یا energetic کے بعض اصولوں کے تحت آر این اے سالمے کی تشکیل یا کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔
تو کیا حرحرکیاتی قوانین کائناتی نہیں ہیں؟ کیا یہ قوانین طویل عرصے میں تبدیل ہوئے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان قوانین کے علاوہ بھی کچھ اصول رہے ہوں۔ جنھوں نے اس ابتدائی حیاتیاتی سالموں کی تشکیل و ترتیب میں مدد کی ہو؟ ان سارے سوالوں کے جواب بہت شدو مدد سے ڈھونڈے جا رہے ہیں، تاہم کسی حتمی متفقہ نتیجہ پر اب بھی پہنچنا باقی ہے۔
ماقبل حیاتیاتی کیمیا ابتدائی حیاتیاتی مادوں کی تشکیل اور ان مادوں سے حیات کا ظہور ان تین بنیادی جہتوں میں سب سے اہم جہت ابتدائی مادوں کا ایک پروٹوسیل میں تبدیل ہو رہاہے۔ (۱۱)
مندرجہ بالا خاکے کو ماننے والے محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ خاکہ ابتدائی حیاتیاتی سالمات سے ابتدائی خلیہ کے بننے کے عمل میں موجود سائنسی پیچیدگیوں کا کافی و شافی جواب دیتا ہے۔ مثلاً اس طرح کے عمل سے energetics اور kinetics دونوں کے اصولوں پر یہ عمل پورا اترتا ہے۔
یعنی توانائی اور انجذابیت (permeability) وغیرہ کے تمام اصولوں پر یہ پورا اترتا ہے۔
حالاں کہ یہ دعویٰ بالکل صحیح نہیں ہے۔ بلکہ اس میں بعض پہلوؤں سے خاصی خامیاں ہیں۔ اس کے لیے جن محققین نے ابتدا اس طرح کے خاکہ کے لیے زمین ہموار کی ہے ان میں سے ایک سب سے بڑے نام کا اعتراف یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جو اس بیانیے پر روشنی بھی ڈالتا ہے اور اس کی اضافیت کو بھی دکھاتا ہے۔
یہ اعتراف نوبل انعام یافتہ محقق شازتک(Jack W. Szostak)نے کیا ہے۔ شازتک بنیادی طور پر سادہ حیاتیاتی سالمات سے خلیہ تخلیق کرنے کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ 26 سال پر محیط اپنے اس کیریئر میں انھوں نے بہت سی نئی جہتوں سے سائنسی دنیا کو واقف کروایا ہے، اور اس کے لیے انھوں نے 266 اعلیٰ پائے کے مقالات تحریر کیے ہیں۔(۱۲) وہ ہارورڈ یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
Although recognizing the moving gaps in our knowledge of prebiotic chemistry and the early planetary setting in which life emerged, we will ’’assume‘‘ for the purpose of this review that the requisite chemical building blocks were available in appropriate environmental setting. (۱۳)
‘‘اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ماقبل حیاتیاتی کیمیا اور ابتدائی سیاروی حالتوں کے ضمن میں ہماری معلومات میں کئی خلا ہیں، اس مقالے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ تمام کیمیائی سالمے اور ان کے لیے درکار خصوصی کیمیائی حالتیں جینیاتی سالمات اور ابتدائی خلوی جھلی بننے کے لیے موجود رہی ہوں گی۔’’
حالاں کہ فاضل محقق آر این اےورلڈ کے سب سے بڑے مؤید ہیں، اس بات کے باوجود وہ برملا اظہار کر رہے ہیں کہ ماقبل حیاتیاتی کیمیا اور سالمات کی تشکیل ابھی بھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہے ، بلکہ اسے فرض کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح ہو کہ شازتک ابتدائی حیاتیاتی سالمات سے پروٹوسیل کی تخلیق کے میدان کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی تجربہ گاہ میں جب فیٹی ایسڈ سے لپڈ بلایا تیار کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ پروٹوسیل کی تخلیق کی سب سے ابتدائی سیڑھی ہے، تو یہ تیار تو ہوئی لیکن اس قدر کمزور تھی کہ خرد بین پر موجود سلائیڈ کو ہلکا سا دھکا لگنے پر بکھر گئی۔ یعنی ساختی اعتبار سے یہ ایک نئی پیچیدگی ہے۔ اگر اس کی ساخت ایسی ہے کہ یہ کسی بھی بیرونی قوت کو سنبھال نہیں پاتی ہے تو ابتدائی زمین کے ماحول میں اتنی نازک خلوی جھلی کس طرح باقی رہ پائی ہوگی ، اور مزید ارتقا سے گزری ہوگی۔ یہاں پر فطری انتخاب بھی زیر بحث نہیں ہے کیوں کہ اگر ابتدائی زمین کے ماحول میں اس طرح کی جھلیاں بنی ہوں گی تو ان کے جاننے اور بننے کا واحد ذریعہ اس طرح کے بالواسطہ تجربات ہی ہیں۔ چناں چہ ان تجربات سے جو جھلی حاصل ہو رہی ہے وہ اتنی کمزور ہے اور مجموعی اعتبار سے ایسی ہی جھلیوں کی تشکیل ممکن ہے۔ یعنی ان میں کمزور ترین، کمزور، نسبتاً طاقت ور اور طاقت ور جھلیوں کا وجود ممکن ہی نہیں۔ اس لیے طاقت ور ترین جھلیوں کا فطری انتخاب کے ذریعے باقی رہ جانا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اس تجربےکے بعد بعض دوسرے محققین نے دوسرے قسم کے فیٹی ایسڈ لے کر جھلیوں کو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ جھلیاں energeticsکے قوانین پر پوری نہیں اتریں۔ (۱۴)
خلوی جھلی کے علاوہ دوسری اہم بات جس کا اعتراف شازتک کرتے ہیں ، وہ ابتدائی خلیہ میں جینیاتی مادے(آر این اے) کی خود کار نقل سازی کے متعلق ہے۔
لکھتے ہیں (خلاصہ) جینیاتی مادے میں دو strandہوتے ہیں۔ یہ دو خود کار نقل سازی کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنا ہم شکل جینیاتی مادہ بناتے ہیں ۔ نقالی کے اس عمل میں حرارت کے ذریعے دونوں الگ ہوتے ہیں۔ نیو کلیائی اساسی بنیادی اکائیاں قریب آتی ہیں اور نیا strandتشکیل دیتی ہیں۔یعنی حرارت کے ذریعے دونوں strandکھلتے ہیں۔ اب کھلنے والےdenaturing اور annealingمتحد ہو کر نیا سالمہ تشکیل دینے والے سالمات میں concentrationکا مسئلہ آ جانا چاہیے۔ یعنی بغیر خامروں کے یہ تعامل زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکتا۔ (16) کیوں کہ ایک خاص قسم کے سالمے دوسرے سالمات پر غالب آ جائیں گے۔ چناں چہ اس طرح کے تشکیل کے عمل میں دخل اندازی ضروری ہوگی جیسا کہ آج جدید تجربہ گاہ میں تجربے کے دوران دخل اندازی کی جاتی ہے۔ اس دخل اندازی کے بغیر جینیاتی مادوں کی نقل سازی ممکن نہیں اور اگر ممکن ہو بھی تو دیر پا نہیں رہ سکتی۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ابتدائی خلیہ کی تشکیل کے بعد اسے لازماً 3 مرحلوں سے گزرنا ہے جس کے بعد ہی وہ ڈاروینی ارتقائی پیمانے پر پورا اتر پائے گا۔ اول regeneration، دوم خود کار نقل سازی، سوم ارتقا ۔ ان تینوں مرحلوں میں ہر مرحلے کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات باقی ہیں۔ جن میں درج ذیل پہلوؤں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔کروموسوم اور فیٹی ایسڈ vesicles یعنی خلوی جھلی نما شے کی تشکیل جو اس جھلی کے ذریعے اپنے اطراف کے ماحول سے جدا ہوئی ہوگی، جس میں ابتدائی جینیاتی مادہ آر این اے قید ہو۔ اس کمپوسوم کا fissionکے ذریعے دوئی کے عمل سے گزرنا۔ مخصوص خامروں کی غیر موجودگی میں جینیاتی مادہ کا تقسیم کے عمل سے گزرنا گو کہ اس بات کو مفروضہ کے طور پرتسلیم کر لیا گیاہے کہ بعض صورتوں میں جینیاتی مادہ خودکار طریقوں سے تقسیم ہو سکتا ہے۔ خودکار طریقے پر تقسیم کے عمل کو فرض کرنے کے باوجود اس مفروضہ میں energeticsکے اعتبار سے بہت سی خامیاں ہیں۔ جس کے لیےنئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اور غالباً سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ خطِ تفریق کہاں سے کھینچا جائے جو اس سادہ کیمیائی مشینری کو حیات سے ہم کنار کرتا ہے۔ یا جہاں سے اس ابتدائی تحولاتی شبکے کو زندگی سے تعبیر کیا جائے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ زندگی کی تعریف کو مزید تحریف سے گزارا جائے۔ چناں چہ اب ارتقا کے مؤثرجریدوں میں زندگی کی تعریف کچھ یوں ملنی شروع ہوئی ہے:
Life is a chemical system which undergoes Darwinian evolution.
اس طرح سے زندگی کے گوناگوں مظاہرکو کیمیائی نظام اور ڈاروینی ارتقا کی چوکھٹ میں قید کر دیا گیا۔ اور اس طرح ان تمام خصوصیات کو جو زندگی سے وابستہ ہیں انھیں ایک تحقیقی frame میں قید کر کے ان سے پلاّ جھاڑ لیا گیا۔
اسی طرح ابتدائی خلیہ کی اصطلاح میں بھی ارتقا ہوا۔ اب نئے لٹریچر میں اسےکمپوسوم composomes یا fatty acid vesicles جیسے مترادف مگر جدا جدا الفاظ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ گو کہ بعض حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ خالص پروٹوسیل پر تجربہ گاہ میں کیے جا رہے تجربات میں حائل دشواریوں کے تناظر میں اب پروٹوسیل یا اس سے قبل کی حالتیں جیسے کمپوسوم یا ویسکل کے تشکیل پانے کے عمل کے لیے اب کمپیوٹر سیمولیشن کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یعنی سائنسی تجربات پہلے یا تو in-vivoہوتے تھے یا in-vitro اب یہ تجربات in-silico کیے جاتے ہیں۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ٹکنالوجی کی غیر معمولی قوت کی وجہ سے تمام قسم کے ممکنہ حالات جو ابتدائی زمین میں موجود رہے ہوں گے ان میں سے ممکنات کی تھیوری کے مطابق ابتدائی حیاتیاتی سالمے کا خلوی جھلی میں بند ہونا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اول تو یہ بات ہے کہ کمپیوٹر میں موجود الگورتھم بجائے خود محدود ہیں۔ دوسرے یہ کہ سیناریو ان پٹ کی بھی حدیں ہیں۔ یعنی ابتدائی زمین می موجود عناصر سے سالمات بننے اور سالمات سے ابتدائی خلیہ بننے کے لیے جو سیناریو رہے ہوں گے وہ لا محدود ہو سکتے ہیں۔ اور infinityکو کمپیوٹ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کو درج ذیل مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ گو کہ یہ مثال ابتدائی خلیہ سے کئی گنا پیچیدہ یک خلوی جاندار yeast کی ہے۔ جس میں جینیاتی اور سالماتی سطح پر خاصی پیچیدگی پائی جاتی ہے۔ پھر بھی یہ مثال کم از کم اس ابتدائی پیچیدگی کے فہم کے لیے قاری کو مہمیز کرے گی۔
(یہاں ہم یہ مثال ایک غیر تخلیقی نقطۂ نظر رکھنے والے محققین کے مقالے سے پیش کر رہے ہیں)
انٹریکشن ایک سائنسی اصطلاح ہے جس کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ خلیہ میں موجود تمام سالمات کا ایک دوسرے سے تعلق یا کیمیائی و ساختی تعلق ایک ایسٹ کے خلیے میں موجود صرف مادوں کا ایک دوسرے سے تعلق 10,79,000,000,000 طریقوں سے ہو سکتا ہے۔گو کہ اب طاقت ور ترین کمپیوٹر کے ذریعے اس طرح کے in-silico تجربات کو سائنسی حلقوں میں قبول عام حاصل ہو رہا ہے لیکن یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تجربہ گاہ میں اس طرح کے تجربات نہ کر پانا اور اس کے لیے in-silico دنیا کی طرف رخ کر نا بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عناصر سے سالمات، سالمات سے حیاتیاتی سالمات اور حیاتیاتی سالمات سے تحولاتی شبکے اور تحولاتی شبکوں سے زندگی کی شروعات کا نکتہ تجرباتی طور پر ثابت کرنا مشکل ترین کام ہے۔ پھر بھی خالص تجربہ گاہی سائنس سے حاصل شدہ نتائج جب پاپولر سائنس کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں تو مفروضات حقائق میں بدل جاتے ہیں۔ نقائص امکانیات کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اضافی نتائج مجرد استخراج کا راستہ بناتے ہیں اور پھر خالص سائنسی سوالات عوامی تصور میں غیر سائنسی جوابات کے ساتھ راسخ ہو جاتے ہیں۔ غالباً اسی کی بنیاد پر بعض تخلقیت پسند حضرات سائنسی معلومات و نظریات کو ان کے تمام تر تفصیلات اور جزئیات اور ان پر ہوئی تنقیدوں کے ساتھ نصاب میں داخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
حوالہ جات
- Norio Kitadai, Shigenori Maruyama: Origin of life: A Review ;Geoscience Frontiers , 2018 9; 119-1153
- Ibid
- Norio Kitadai, Shigenori Maruyama: Origin of life: A Review ;Geoscience Frontiers , 2018
- Saidul Islam and Matthew W. Powner: Prebiotic Systems Chemistry: Complexity Overcoming Clutter .Chem 2, 470–501, April 13, 2017
- Ibid
- Clemens Richert: Prebiotic chemistry and human intervention. Nature Communications (2018) 9:5177 | DOI: 10.1038/s41467-018-07219-5 www.nature.com/nature communications
- Vorbru¨ ggen, H., and Ruh-Pohlenz, C. (2000).Synthesisof nucleosides. In OrganicReactions, vol. 55, L.A. Paquette, ed. (JohnWiley ‘ Sons, Inc.), pp. 1–630.
- Sutherland, J.D. (2010). Ribonucleotides. Cold Spring Harb. Perspect. Biol. 2, a005439.
- Serianni, A.S., Nunez, H.A., and Barker, R.(1980). Cyanohydrin synthesis: studies with[13C] Cyanide. J. Org. Chem. 45, 3329–3341.
- David. W. Dreamer: (1997) The first Living system: A Bioenergetics Perspective .Microbiology and Molecular biology Reviews: 61; 239
- How life Began:JackSzostak pursuit to the biggedt question on earth . By Errin O‘ Donnel In Harvard Magzine July-August 2019 Pg. 40-46
- https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/?term=Jack+Szastak retrieved on 04/12/2019
- Jason P. Schrum, Ting F. Zhu, and Jack W. Szostak ;( 2010). The Origins of Cellular Life. Cold spring Harb Perspect Biol 2010;2:a002212
- Bar-Ziv R, Moses E. 1994. Instability and ’’pearling‘‘ states produced in tubular membranes by competition of curvature and tension. Phys Rev Lett 73: 1392–1395.
- Berclaz N, Muller M, Walde P, Luisi PL. 2001. Growth and transformation of vesicles studied by ferritin labeling and cryo transmission electron microscopy. J Phys Chem B 105: 1056–1064
- Jason P. Schrum, Ting F. Zhu, and Jack W. Szostak ;( 2010). The Origins of Cellular Life. Cold spring Harb Perspect Biol 2010;2:a002212
- Peter Tompa and George D rose. (2011) ;Protein Science , 20; 2074-2079
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020