نظریۂ ارتقا: رد و قبول اور متبادل امکانات

تصور ارتقا اور ساختیاتی پیچیدگی (5)

انواع کے ظہور اور ان کی بنیادی تعریف اور شجرۂ انواع کے متعلق تفصیلات کا ایک اہم پہلو انواع میں ساختی پیچیدگی کا ہے۔ جانداروں میں پیچیدگی (complexity) پر، اور فطری انتخاب کے برعکس ساختی پیچیدگی کے ظہور پر، سائنسی لٹریچر میں بہت سی بحثیں ملتی ہیں۔ عیسائی مویدین تخلیقی انواع میں پیچیدگی کے ظہور کو اتفاقی یا ارتقائی نہیں مانتے بلکہ اسے ڈیزائن سے تعبیر کرتے ہیں۔

کیا تصورِ ارتقا حیات کی تمام تر پیچیدگی کی وضاحت کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک پورا ڈسکورس کھڑا ہے، ارتقا اور پیچیدگی پر کئی تھیوریاں موجود ہیں۔ ایک مشہور مثال جانداروں میں آنکھ اور دیکھنے کے عمل سے متعلق ہے۔

خود ڈارون نے اپنے زمانے میں اس بات کو تسلیم کیا تھا: ’’یہ کہنا بے وقوفی ہوگی کہ انسانی آنکھ اتفاقی میوٹیشن یا فطری انتخاب کے ذریعہ ارتقا پذیر ہوئی۔‘‘(۱) دیکھنے کا عمل تدریجاً کیسے وجود پا سکتا ہے؟ کیونکہ دیکھنے کے عمل کے لیے ذمہ دار مختلف ساختیں، جیسے عدسہ (lens)، شبکیہ (retina) اور حدقہ (pupil)، بجائے خود دیکھنے کے عمل کے لیے کافی نہیں ہیں بلکہ ان کے انتہائی پیچیدہ ساختی تعاملات سے دیکھنے کا عمل انجام پاتا ہے۔ مثلاً عدسہ ارتقا پا کر شبکیہ نہیں بن سکتا، شبکیہ حدقےمیں تبدیل نہیں ہو سکتا، وغیرہ۔

چنانچہ ساخت کی یہ پیچیدگی اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے ڈیزائن کیا گیا ہو۔ اس کے جواب میں نو ڈاروینیت کے قائلین آنکھ جیسے عضو کی ابتدائی شکلوں پر فوکس کرتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے متعدد تحقیقات سامنے لا رہے ہیں۔ یہ تحقیقات بالکل قریب کے زمانے کی ہیں۔ اس سے پہلے انٹیلی جنٹ ڈیزائن کے قائلین کی ڈاروینیت کے خلاف یہ دلیل اہم ترین دلیلوں میں سے ایک مانی جاتی تھی۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسے آنکھ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس کی تعریف کیسے متعین کی جائے گی۔ مثلاً یوگلینا (euglena) نامی یک خلوی جاندار میں روشنی کے انجذاب کے لیے ایک نقطہ پایا جاتا ہے۔ اس سرخ نقطے کو محققین یوگلینا کی آنکھ قرار دیتے ہیں، کیونکہ آنکھ کے پیچیدہ ترین عمل میں آخر سب سے اہم عمل روشنی کا انجذاب ہی تو ہے۔ اس ابتدائی آنکھ کے بعد دوسری ساختی پیچیدگی کی سطح (planarium) دودے میں بتائی جاتی ہے۔ اور اس طرح مختلف جانداروں میں پیچیدگی کی سطح بڑھتی جاتی ہے۔(۳) جو بالآخر آنکھ جیسے پیچیدہ عضو کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

لیکن ساختی پیچیدگی پر تعریف کے حوالے سے بھی نیز پیچیدگی برائے بہتری کے حوالے سے بھی زبردست بحثیں چھڑی ہوئی ہیں۔مثلاً انسانی آنکھ سے اور زیادہ بہتر آنکھیں ہیں جو جانداروں کی دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بہت سارے جانداروں میں آنکھ کا 360 ڈگری گھماؤ ممکن ہے جس سے وہ چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں جبکہ انسان ایسا نہیں کر سکتا، وغیرہ۔

تو کیا ہر پیچیدگی لازماً بہتری لاتی ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ تو پھر فطری انتخاب مکمل طور پر اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ اس کے ذریعے وجود میں آئی پیچیدگی لازماً بہتر ہوگی۔ اس کا جواب ڈاروینیت کے قائلین اضافی بہتری کے ماڈل سے دیتے ہیں یعنی جانداروں میں اپنے اپنے ماحول کے اعتبار سے دیکھنے کے عمل کے لیے درکار عضو وجود میں آتے ہیں۔ اور ارتقائی بہتری ماحول سے مخصوص ہے یعنی مجرد نہیں ہے بلکہ ماحول سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس لیے آنکھ کو ایک غیر معمولی عضو ماننا ارتقائی تصور میں ممکن نہیں ہے۔ اور اگر یہ کوئی غیر معمولی عضو نہیں ہے اور اس عضو جیسی مختلف ساختیں ابتدائی جانداروں میں دیکھی جا سکتی ہیں تو یہ بات واضح اور قرینِ قیاس ہے کہ دیگر اعضا کی طرح آنکھ بھی ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے وجود پذیر ہوئی ہے۔

تصورِ ارتقا اور پیچیدگی کے ظہور کی اہم ترین جہت ایک بنیادی اصول پر ٹکی ہے وہ یہ کہ ساختی تبدیلی ماحول کی مرہونِ منت ہے۔ اور یہ ارتقائی تبدیلیوں سے وجود میں آتی ہے۔

انسانی دماغ جیسی پیچیدہ ترین شے کا وجود بھی اسی سادہ اصول کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے۔ حالانکہ انسانی دماغ اور اس کے سینکڑوں تعاملات فطری انتخاب اور تصور ارتقا کے بیانیے کے ذریعے سمجھائے نہیں جا سکتے۔

ساختی پیچیدگی کی بنیاد پر انواع کا شجرہ (tree) بھی وجود میں آیا تھا۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اب شجرے سے آگے بڑھ کر اسے جال (web) سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی انواع تدریجاً تو وجود میں آئی ہیں لیکن غیر تدریجاً اور بیک وقت انواع کے وجود میں آنے کے متبادل امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شجرۂ انواع میں ایک مصدر سے ارتقا کے تصور پر بھی اب نئے زاویے سامنے آنے لگے ہیں۔

بیک وقت انواع کا ایک خاص ساخت کے ساتھ ظہور میں آنا ارتقائی تصور کے خلاف ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ انواع کے ظہور کا پورا تصور رکازی ریکارڈ (fossil records)، یا آسان الفاظ میں مدفون نقوش، پر منحصر ہے۔ یعنی انواع کے تدریجاً ظہور پذیر ہونے کی عملی شہادت رکازی ریکارڈ سے ملتی ہے۔ رکازی ڈھانچے اور دیگر رکازیاتی علوم کی بنیاد پر شجرۂ انواع بھی بنایا جاتا ہے جو اب مکڑی کے جال میں تبدیل (metamorphose) ہو گیا ہے۔ عیسائی مویدین رکازی ثبوتوں کو ناکافی جانتے ہیں اور گم شدہ کڑی (missing link) پر زور دیتے ہیں۔ یہ گم شدہ کڑیاں بنیادی طور پر ان جانداروں کی ہیں جو بین انواعی خط پر موجود ہیں۔ خود نظریۂ ارتقا کو رکازیاتی بنیادوں پر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً موجودہ انسان اور اس کے وہ انسان نما مصدر جن کے رکازات حاصل نہیں ہو سکے۔ خود اردو اور انگریزی زبان میں نظریۂ ارتقا کا رد زیادہ تر انھیں رکازی ریکارڈ کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دیکھیے۔ (۴) یہ رد عمومی سطحی نوعیت کا مانا جاتا ہے کیونکہ یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ بہت سارے رکاز فنا ہو گئے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان رکازوں تک ہماری رسائی نہ ہوسکی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ رکازوں کی تشکیل ہی نہ ہو پائی ہو، کیونکہ رکازوں کی تشکیل ایک مخصوص ماحول ہی میں ممکن ہے۔ اس لیے رکازوں کی غیر موجودگی اس بات کا رد کرنے کے لیے کافی نہیں کہ ابتدائی سادہ جاندار سے پیچیدہ جاندار وجود میں نہیں آئے۔

اس لیے جدید ماہرین حیاتیات اور نو ڈاروینیت کے قائلین گم شدہ کڑی کے تصور کو خارج کرتے ہیں۔ یہ بہر حال ان کے بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے آسان راستہ بھی ہے۔ لیکن مختلف تحقیقات اب اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ عین ممکن ہے کہ انواع میں ساختی پیچیدگی کے ظہور پذیری کے متبادل بہر حال ہو سکتے ہیں۔

بیک وقت انواع کے ظہور کے سلسلے میں کیمبری انفجار (Cambrian explosion) کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ 541 ملین سال قبل کا عرصہ کیمبری عہد (Cambrian) کہلاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران یکایک کئی انواع کا ظہور ہوا۔ یہ ظہور رکازیاتی ریکارڈ کے ذریعے روشنی میں آیا۔ اور یہیں سے موجودہ زمانے کے بہت سارے جانداروں کا ارتقا ہوا۔ (۵)

کیمبری انفجار سے قبل زیادہ تر جاندار یا حیات سادہ خلیات کا مظہر تھیں۔ لیکن یکایک اس عرصے میں بڑی تعداد میں ان انواع کا ظہور ہوا جن کی ترقی یافتہ شکلیں آج نظر آتی ہیں۔ موجودہ دور کے بیشتر حیوانات اسی دور میں ظہور پذیر ہونے والے جانداروں کی پیچیدہ شکلیں ہیں۔ (۶)

کیمبری انفجار کی دریافت اور اس پر تحقیقات ڈارون کے زمانے سے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ خود ڈارون نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ اس طرح کی دریافت انواع کے تدریجاً وجود میں آنے والے تصور میں بنیادی اور اصولی نوعیت کے خلا ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ چنانچہ اس نے ’’انواع کے ظہور‘‘ کے چھٹے ایڈیشن میں یہ بات لکھی ہے۔ (۷)

To the question of why we do not find rich fossiliferous deposits belonging to these…periods prior to the Cambrian system, I can give no satisfactory answer.

’’میں اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکتا کہ ہمیں ماقبل کیمبرین عہد کے رکازی ریکارڈ کیوں نہیں ملتے۔‘‘ چنانچہ جدید تحقیق اب کیمبری انفجار کے نئے زاویے سامنے لا رہی ہے۔ مثلاً کہا جا رہا ہے کہ یکایک آکسیجن کی مقدار کے بڑھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔ (۸) لیکن اس کے برخلاف محققین نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ آکسیجن کی سطح تو پہلے ہی سے اتنی بڑھی ہوئی تھی۔ (۹)

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تا حال کیمبری انفجار کی کوئی مکمل توجیہ سائنسی لٹریچر میں موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بیک وقت انواع کے ظہور کا متبادل امکان اس وقت تک موجود رہے گا جب تک کہ یہ بات پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتی کہ اس مخصوص دور میں یکایک انواع ایک مخصوص سطح کی پیچیدگی کے ساتھ کیسے وجود پذیر ہو گئیں۔ مزید یہ کہ اس سے قبل کے رکازی ریکارڈ کا عدم حصول کس جانب اشارہ کر رہا ہے۔ کیا اس سے قبل انواع محض سادہ خلیات تک ہی محدود تھیں؟ اگر نہیں تو کیا درمیانی انواع کی کڑیاں فنا ہو گئیں؟ لیکن ایسا کیونکر ہوا، اس دور سے پہلے کے رکازات تو ہیں۔ لیکن اس کے بالکل قبل کے رکاز کیسے ضائع ہو جائیں گے؟ یا پھر ان تک رسائی نہیں ہو پا رہی ہے۔ کیا اس دور میں یکایک ظہور پذیر ہونے والی انواع تصور ارتقا میں استثنا کا مظہر ہیں؟ کیا یہ کسی بیرونی قوت کا کرشمہ ہے؟ کیا یہ غیبی مداخلت (intervention) کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ کیا اس طرح انواع کا ظہور کسی ڈیزائن کو دکھاتا ہے؟ کیا ایک خاص سطح کی ساخت کی انواع کا یہ ظہور اعلیٰ سطح والی انواع کے لیے بھی درست ہو سکتا ہے؟ کیا موجود انواع میں ساختی پیچیدگی یکایک وجود میں آ سکتی ہے؟ کیا شجرۂ نوع یا زیادہ صحیح الفاظ میں انواع کے جال میں ترقی یافتہ انسان کی شاخ یا سلسلہ یکایک ظہور پذیر ہو سکتا ہے؟

یہ اور اس قبیل کے تمام سوالات تشفی بخش جوابات کے منتظر ہیں اور انواع کے ظہور میں نئی جہتوں کے ضامن بھی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ساخت کی پیچیدگی کے متعلق ڈارون نے اس بات کا برسرِ عام اقرار کیا تھا، جو حیاتیاتی حلقوں میں بہت مشہور بھی ہے۔ وہ یہ کہ

If it could be demonstrated that any complex organ existed, which could not possibly have been formed by numerous, successive, slight modifications, my theory would absolutely break down.

’’اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ کوئی ایسا پیچیدہ عضو موجود ہے جو بہت سارے ترتیب وار، چھوٹے چھوٹے تغیرات سے گزرتے ہوئے نہ تشکیل پایا ہو تو میرا نظریہ غلط ثابت ہو جائے گا۔‘‘

یہ ڈارون کا غیر معمولی اعتراف تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیچیدگی کی تعریف پر ہی اتفاق نہ ہو سکا۔ مسلک تخلیق  کے قائل عیسائی مویدین کے نزدیک جو پیچیدگی ہے یا تھی وہ نو ڈاروینیت کے قائلین کے نزدیک پیچیدگی ہی نہیں ہے۔ مثلاً آنکھ اور دیکھنے کے عمل کو وہ سادہ جانداروں میں موجود روشنی کا ارتکاز کرنے والے خلیات کو بھی ابتدائی آنکھ مانتے ہیں! اور تدریجاً ان سادہ خلیات کی پیچیدگی کو جدید آنکھ سے تعبیر کرتے ہیں۔

اعلی جانداروں میں ایسے بہت سے مظاہر ہیں جو بہت پیچیدہ ہیں۔ لیکن ان کی پیچیدگی تسلیم ہی نہیں کی جاتی جیسے دماغ۔ دماغ کا ایک حصہ تو خالص طبعی ہے یعنی مغز، لیکن اس کے علاوہ اعلیٰ جانداروں میں ترسیلی شبکے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں اور وہ تدریج کے تصور کے دائرۂ کار سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔ لیکن اس کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح شعور اور اس سے جڑے وہ خاص تصورات ہیں جن کا حصہ دماغ کو مانا جاتا ہے۔ دماغ کی طبعی پیچیدگی کی وضاحت، اس کی توجیہ، مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کا موجودہ شکل میں آنا، اور اس قبیل کے بنیادی سوالوںکے جوابات تدریجاً پیچیدگی کے تصور سے دیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے آگے بڑھ کر شعور، لاشعور، اور ادراکی صلاحیت اور اس قبیل کے سینکڑوں مظاہر کا جواب ساختی پیچیدگی کے سادہ ماڈلوں کے ذریعے نہیں دیا جا سکتا۔

ہر چند کہ ارتقائی نفسیات کے ذریعے ان کے جوابات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کی بہت سی خامیاں ہیں۔

جدید ڈاروینیت کے ماہرین کہتے ہیں کہ پیچیدگی محض نظم (order) کا مسئلہ ہے۔ یعنی بظاہر بہت زیادہ پیچیدہ، یا پیچیدہ ترین مظاہر کے بھی ابتدائی نمونے آپ ارتقائی زنجیر میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اس کا اطلاق اور اس کی توسیع جذبات، احساسات، خیالات، تصورات، نیز انسانی قدروں پر بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ممتا کے جذبات ابتدائی جانداروں میں، جانوروں میں جذبۂ رحم، جانوروں میں ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک وغیرہ۔

ایک سادہ سی مثال سے اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے مختلف جاندار گھر بناتے ہیں۔ (کچھ جاندار نہیں بناتے)۔ ایک چڑیا یا گوریا ایک گھونسلہ بناتی ہے، وہ مدتوں سے ایک ہی گھونسلہ بناتی ہے۔ ایک ہی طرز کا، ایک ہی ڈیزائن کا۔ گھر بنانا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ایک انسان بھی گھر بناتا ہے۔ اس گھر کی ہزاروں اقسام اور ڈیزائن ہیں۔ گھر چڑیا یا گوریا بھی بناتی ہے اور انسان بھی۔ انسان اور چڑیا یا گوریا کے گھر میں صرف نظم کا فرق ہے۔ یعنی گھر بنانا بہر حال پیچیدہ کام ہے۔ (یا ایک طرح کی پیچیدگی ہے) لیکن دونوں میں نظم کا فرق ہونے کی وجہ سے انسان مختلف طرز، ہیئت اور رنگ و تزئین و آرائش والے گھر بناتے ہیں، جبکہ گوریا اور چڑیا ایک جیسے اور ہمیشہ ایک ہی جیسے گھر بناتی ہے۔ حالانکہ بالاصل دونوں کے گھر ایک ہی طرح کا انتخابی فائدہ (selective advantage) دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیاتی نقصان دہ اثرات سے محفوظ کرنے کا فائدہ، جو بالآخر نوع کی بقا (perpetuation) کا ذریعہ بنتا ہے۔

مندرجہ بالا مثال ایک سادہ مثال ہے۔ لیکن سائنسی لٹریچر میں آپ کو نازک ترین انسانی جذبات کی  ڈاروینی توجیہ مل جائے گی۔ مثلاً جب آپ پانی میں ڈوبتے ہوئے کسی انسان کو بچاتے ہیں تو یہ حیاتیاتی جذبۂ ایثار (biological altruism) کہلائے گا۔ (ارتقائی نفسیات پر تفصیلی بحث آگے آئے گی۔)

غرض یہ کہ ساختی پیچیدگی پر دونوں خیموں میں زبردست دلائل ہیں۔ لیکن حتمی طور پر دونوں جانب فیصلہ کن نکات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتے اور سائنسی تشکیک کو بڑھاوا دینے والے ہیں۔ ساختی پیچیدگی کی ایک اہم جہت جنسیت کا ظہور ہے۔ ابتدائی جانداروں میں غیر جنسی طریقۂ تولید کے ذریعے افزائش نسل ہوتی ہے۔ جبکہ موجودہ کثیر خلوی جانداروں میں جنسی طریقۂ تولید جاری و ساری ہے۔ نو ڈاروینیت کے قائلین اس پیچیدگی کو بھی جواز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دو جدا جدا جنسوں کے وجود میں آنے سے قبل، دوران اور بعد کے تمام مراحل کے رکازی ریکارڈ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنسی ساخت بھی پیچیدگی کے روایتی ارتقائی مرحلے سے گزری ہے۔ مثلاً دو جنسہ (hermaphrodite) کینچوا، جس میں دونوں جنسی ساختیں ایک ہی جاندار میں ہوتی ہیں، یعنی اس کے نر اور مادہ نہیں ہوتے۔

تاہم نو ڈاروینیت کے قائلین اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غیر جنسی تولید جنسی تولید کے مقابلے میں جاندار کے لیے مہنگی ثابت ہوتی ہے، اور ارتقا کے مسلمہ قانون کے مطابق ہر وہ شے جو اضافی اعتبار سے جاندار کے لیے بہتر ہو، جاندار اس سے تطابق کرتا ہے۔ پھر جنسی تولید کیوں؟ جدید دور میں اس حوالے سے متبادل نظریات کا ایک پورا لٹریچر موجود ہے۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس بات کے حتمی ثبوت اب بھی نہیں ہیں کہ ارتقائی دور کے کس پڑاؤ پر دو جنسیں جدا ہوئی ہیں؟ نو ڈاروینی لٹریچر بھی اس پر خاموش ہے۔ البتہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر بنیادی ارتقائی اصول تسلیم کرلیا جائے تو جنسیت کی جزئیات (detailing) وقت اور ٹیکنالوجی کے ارتقا کے ساتھ، مستقبل قریب میں جنس کی تفریق کا وقت اور دورانیہ وضاحت کے ساتھ معلوم کیا جا سکے گا۔

لیکن کیا جنسیت کا ظہور ایک غیر معمولی ساختیاتی پیچیدگی نہیں ہے؟ کیا جنسیت کو محض فطری انتخاب کے بیانیے سے سمجھا جا سکتا ہے؟ ایک مکمل جاندار جو یکسر مختلف عضویات (فزیالوجی) کا حامل ہے، مثلاً مادہ یا نر، وہ محض فطری انتخاب سے کیسے تشکیل پا جاتا ہے؟ کیا اعلیٰ جانداروں میں مثلاً انسانوں میں اس طرح کے رکازی شواہد ہیں جن میں نامکمل قسم کے جانداروں کا بالواسطہ ثبوت موجود ہو؟ انسانوں اور اعلیٰ جانداروں میں موجود دو جنسے در اصل جنسی نظام اور جنسیات میں گڑبری کا نتیجہ ہیں، نہ کہ اس بات کا ثبوت کہ نامکمل قسم کے اعلیٰ جاندار پائے جاتے ہیں یا تھے۔

جنسیت اور ساختی پیچیدگی کا براہ راست تعلق ہونے کے باوجود نو ڈاروینیت کے قائلین اسے ارتقائی مرحلے کا حامل سجھتے ہیں، اگرچہ جدید دور میں جنس اور جنسیت کے تعلق سے بہت سے اعتراف پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباسات ان کی صرف ایک جھلک ہیں۔ مثلاً:

Sex is the queen of problems in evolutionary biology. Perhaps no other natural phenomenon has aroused so much interest; certainly none has.

ارتقائی حیاتیات کے مشکل ترین مسئلوں میں سے ایک ’جنس‘ ہے۔ کسی اور طبعی مظہر نے اتنی دل چسپی اور الجھنیں پیدا نہیں کیں۔ ڈارون اور مینڈل کی عبقریت نے کتنے ہی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے لیکن اب تک وہ بھی اس ’جنس‘ کے معمے پر محض ایک مدھم سی روشنی ڈال پاتی ہے۔(۱۰)

اسی طرح فلپ کیچر نے (جو ارتقائی حیاتیات کے ایک نامور ماہر ہیں)، اعتراف کیا ہے کہ ’’ڈاروینیت کے قائلین کی غیر معمولی عبقری توجیہات کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنسی طریقۂ تولید کی کوئی قابل اعتنا ڈارونی توجیہ نہیں کی جا سکی ہے۔‘‘ (۱۱)

مندرجہ بالا دونوں اقتباس ارتقائی حیاتیات کے میدان میں کام کر رہے محققین کے ہیں۔ کسی تخلیقیت پسند مذہبی سائنسی ماہرین کے نہیں۔

جنسیت جیسی ساختی پیچیدگی کو، جو یکسر ایک جدا قسم کا جاندار بناتی ہے، محض فطری انتخاب کے تصور سے سمجھنا مشکل ہے۔

ساختی پیچیدگی کی بحث اب عضویات سے آگے بڑھ کر جینیاتی سطح تک جا پہنچی ہے کہ اور جین کی سطح پر اس بحث نے جوابات کے بجائے نئی قسم کے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ عمومی بحث یہ ہے کہ جانداروں میں جینیاتی اعتبار سے بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً چمپینزی کے ڈی این اے اور انسان کے ڈی این اے میں محض ۲ فی صد کا فرق ہے۔کچھ جین ایسے ہیں جو کہ ابتدائی جاندار جیسے بیکٹیریا سے لے کر انسانوں تک میں یکساں ہیں۔

یہ مانا جاتا ہے کہ جاندار صرف وہی جین باقی رکھتے ہیں جو انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا میں یہ بات تقریباً ثابت ہو چکی ہے۔ بلکہ بیکٹیریا کا ارتقائی سلسلہ ہی غیر ضروری جین کو حذف کر کے آگے بڑھنا ہے۔

لیکن اصل مسئلہ اس وقت پیش آیا جب ایک ہی فعل کے لیے دو یا دو سے زائد جین پائے جانے لگے۔ مثلاً خون کے ذریعے آکسیجن کے ترسیل کے عمل کے لیے ہیمو گلوبن نامی مادہ ضروری ہے اور صرف ہیمو گلوبن سے یہ فعل انجام پا سکتا تھا لیکن ہیمو گلوبن کے ساتھ مایو گلوبن نامی مادے کے جین بھی تمام اعلیٰ جانداروں میں پائے جاتے ہیں۔

اب الجھن یہ ہے کہ جب ہیموگلوبن کافی و شافی تھا تو مایو گلوبن کے جین کو جینوم میں باقی رکھنے کی ارتقائی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

یہ محض ایک مثال ہے۔ پودوں کے ہزاروں انواع میں سینکڑوں قسم کی جینیاتی نقل گیری (gene duplication) پائی جاتی ہے۔ سینکڑوں جانداروں کے افعال ایسے ہیں جو ایک جین کے بجائے متعدد جین کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کی توجیہات پیش کی جا رہی ہیں لیکن وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔

سالماتی سطح پر ساختی پیچیدگی کی وضاحت اب آسان سے مشکل کی سمت سفر کر رہی ہے۔ مثلاً ڈی این اے سالمہ بجائے خود ہزاروں قسم کے معموں سے معمور ہے۔

جین کے تیزی سے بدلتے ہوئے تصور اور جین کے ذریعے ساخت کی صورت گری پر دیگر عوامل کا براہِ راست اثر جینیاتی بنیادوں پر بعض صورتوں میں نو ڈاروینیت کے دلائل کو مضبوط کرتا ہے اور بعض صورتوں میں عیسائی تخلیقیت پسند خیمے کے دلائل کو۔

لیکن بہر حال اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ محض فطری انتخاب اور بقا کا فائدہ(survival advantage) پیچیدہ ساخت کی وضاحت نہیں کر سکتا۔

آنکھ، دماغ، جنسیت، احساسات، تصورات اور دماغ سے وابستہ انتہائی پیچیدہ تصورات کی توجیہ نو ڈاروینیت اور کلاسیکل ارتقائی فریم کے استعمال کے باوجود اطمینان بخش نہیں ہے۔(جاری)

حوالہ جات

  1. Darwin Charles (1859) .Chapter VI , difficulties on Theory –The eye . on the origin of species .London : John Murray
  2. https://www.brtannica.com/science/eyespot-biology
  3. https://www.relativelyinteresting.com/irreducible-complexity -intelligent-design-evolution-and-the-eye
  4. The evolution Deceit :1997 , by Harun Yahya , Ta-Ha publishers Ltd , Turkey
  5. Maloof, A.C., Porter, S.M., *Moore, J.L., Dudás, F.Ö., Bowring, S.A., Higgins, J. A., Fike, D. A., ,and M. P. Eddy. 2010. The earliest Cambrian record of animals and ocean geochemical change. GSA Bulletin 122 (11/12):1731-1774
  6. Budd, G., & Jensen, S. (2000). A critical reappraisal of the fossil record of the bilaterian  phyla. Biological Reviews, 75(2), 253-295. doi:10.1017/S000632310000548X
  7. Darwin Charles R.(1876). The origin of species by means of natural selection(6 ed).p.286
  8. Nature 530,268-270 (18/02/2018)
  9. Ibid
  10. Bell ,G . (1982) .The Masterpiece of nature : The evolution and genetics of sexuality . University of California press , Berkeley p. 19.
  11. Bell ,G . (1982) .The Masterpiece of nature : The evolution and genetics of sexuality . University of California press , Berkeley p. 23

مشمولہ: شمارہ مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223