مولوی ٹی کے عبد اللہ مرحوم[ولادت: ۱۹۲۹ ضلع کالی کٹ کیرلا] پندرہ اکتوبر ۲۰۲۱ میں انتقال فرماگئے۔ اللہ ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ کرے۔ آپ مشہور عالمِ دین اور ممتاز اسلامی مفکر تھے۔ جماعت اسلامی ہند، حلقہ کیرلاکے امیر رہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ ملیالم میں شائع ہونے والے ہفت روزہ پربودھنم کے چیف ایڈیٹر رہے۔ آپ کی گفتگو اور تقریریں نہ صرف کیرلا بلکہ پورے ہندوستان میں پسند کی جاتی تھیں۔ نئے فکری مباحث آپ کا طرہ امتیاز تھے۔ ان کے ایک مضمون کا اردو ترجمہ پیش ہے۔(
قرآن شریف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔ دیگر انبیا اور ان کی قوموں سے کہیں زیادہ۔ فرعون کی حکومت کے تحت بنی اسرائیل کی پُر محن اور تکلیف دہ زندگی اور حضرت موسیٰ کے ذریعے ان کی آزادی اس تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ تحریک اسلامی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ واقعات بہت سبق آموز اور موجودہ ہندوستان کے فرقہ وارانہ حالات اور مسلم اقلیت کے مسائل سے بڑی مناسبت رکھتے ہیں، ہم حسب ذیل نکات میں اسے بیان کریں گے۔
۱۔ فرعون شام سے لیبیا تک اور بحیرہ روم سے حبشہ تک پھیلی ہوئی عظیم سلطنت کے نہ صرف جابر حکمراں تھے بلکہ خدائی کے دعوے دار بھی تھے۔ فرعون کسی ایک حکمراں کا نام نہیں بلکہ شہنشاہوں کے اس پورے خاندان کو فرعون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۲۔ فرعونوں کی حکومت کے تحت مصر میں دو قومیں آباد تھیں، اکثریت قبطیوں کی تھی وہی ملک کے جمہور تھے، اور دوسری قوم بنی اسرائیل پر مشتمل تھی جن کا آبائی وطن فلسطین تھا اور وہ یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر میں آکر آباد ہوئے تھے۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام ہے جو حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اسرائیل کا معنی خدا کا بندہ ہے۔ قرآن شریف میں سورہ یوسف میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ یوسف بچپن میں مصر لائے گئے اور جوانی میں وہاں حکومت کرنے لگے اور اس وقت انھوں نے اپنے ماں باپ اور بھائیوں کو مصر میں لا کر بسایا۔
۳۔ حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کےچرواہا بادشاہوں کو ‘عمالقہ’ کہا جاتا تھا۔ وہ بھی بنی اسرائیل کی طرح عرب سے آبسے تھے۔ اہل مصر کی پھوٹ اور باہمی جنگ سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے مصر پر قبضہ کیا۔ حضرت یوسف کے زمانے میں اس خاندان کا پندرہواں بادشاہ بر سر اقتدار تھا۔ اس نے اپنے ہم وطن بنی اسرائیل کا بڑی خوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا اوروہاں بسنے کا انتظام کیا۔ اس بادشاہ نے حضرت یوسف کی غیرمعمولی لیاقت اور مہارت دیکھ کر اپنے آپ کو نام کا بادشاہ باقی رکھا اور حکومت کی ساری ذمہ داریاں حضرت یوسف کے حوالےکردیں۔ پھر تقریباً پانچ صدیوں تک مصر میں بنی اسرائیل کو ترقی اور فروغ حاصل رہا۔ اس کا اشارہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ کی زبانی کیا گیاہے ‘یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے۔ تم کو فرماں روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔’ (المائدہ: ۲۰) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ سے قبل بنی اسرائیل حکمراں رہ چکے تھے۔
۴۔ اس عہد زریں کے بعد قبطیوں نے اپنی تحریک قومیت چلائی۔ فرقہ پرستی کی اس آندھی میں چرواہا حکم ران جڑ سے اکھاڑ دیے گئے۔ ڈھائی لاکھ افراد پر مشتمل عمالقہ سے مصر خالی کرالیا گیا۔ پھر ایک قبطی انتہا پسند خاندان وہاں حکومت کرنے لگا۔ انھوں نے دیگر قوموں کی ثقافتی شناخت اور یادگاروں کو نیست و نابود کردیا۔ وہاں سے بنی اسرائیل کی آزمائشوں بھری کہانی شروع ہوتی ہے۔
۵۔ حضرت یوسف کے زمانے میں بنی اسرائیل کے صرف 67 افراد مصر میں آکر بسے تھے۔ دیگر قبیلوں سے شادی کے نتیجے میں ان کے گھر آنے والی خواتین اس کے علاوہ تھیں۔ پھر پانچ صدیوں کے بعد مصر چھوڑ کر جاتے وقت ان کی تعداد لاکھوں میں ہوگئی تھی۔ بنی اسرائیل کے جنگ جو نوجوانوں کی مردم شماری کرنے پر ان کی تعداد 603,550 تھی۔ اس حساب سے کل بنی اسرائیل کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہوگی جو اس زمانے کی مصر کی آبادی کا 10-12 فیصد ہوسکتا ہے۔
۶۔ 67 افراد کے خاندان کا چار سے پانچ سو سال کے دوران بیس لاکھ تک بڑھ جانا محال معلوم ہوتاہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ مصر کے دیگر خاندانوں کے افراد اسلام لا کر اسرائیلی بن گئے تھے۔ لیکن دیسی ہونے کے باوجود ان پر بدیسی کا ٹھپہ لگایا گیا۔ ان کی شہریت مشکوک بنا دی گئی۔ وہ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے غیر ملکی درانداز مانے گئے۔ ان کی تہذیبی شناخت کے لیے قومی دھارا کی لہر چیلنج بن گئی۔ آخر جب حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل وطن چھوڑ گئے تو ان کے ساتھ یہ لاکھوں اہلِ وطن مسلمان بھی مصر چھوڑ کر فلسطین چلے گئے۔
۷۔ بنی اسرائیل اس زمانے کے روایتی مسلمان تھے۔ آج کل دنیا بھر میں جس طرح نام کے مسلمان ہوتے ہیں وہ بھی ایسے تھے۔ بعض غلطیوں اور گناہوں کے ہوتے ہوئے بنیادی طور پر وہ مسلمان ضرور تھے۔ قرآن شریف میں انھیں مومن اور مسلمان بتایا گیاہے۔ انھیں صبر، توکل اور دعا کی تلقین کی جاتی تھی اور موسیٰ کو ہدایت دی گئی تھی کہ اپنی قوم کو نماز کا پابند بنائے۔ (سورہ یونس 84-87) اگرچہ ان کا روایتی نام اسرائیلی تھا مگر وہ مسلمان تھے جیسا کہ مسلمانوں کو محمدی اور عربی بلایا جائے۔
۸۔ فرعون ظالم گھمنڈی اور جابر حکم راں تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ زیرک اور چالاک بھی تھا۔ اس نے اپنے سلسلۂ خاندان کی کڑی ‘سورج دیوتا’سے جوڑ رکھی تھی۔ اور اپنے خاندان اور حکومت کو تقدس کا جامہ پہنایا ہوا تھا۔غرض قومیت کے تفوق اور فرقہ وارانہ تفریق کی بنیاد پر ایک سلطنت قائم کی گئی جسے ہم فسطائیت، ہٹلرزم وغیرہ کا قدیم ماڈل فرعونزم کہہ سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کو غلامی میں جکڑنے کے ساتھ ظلم و زیادتی اور نیست و نابود کرنے تک نوبت پہنچ گئی۔
۹۔ بنی اسرائیل کی آبادی کے بڑھنے پر فرعون اور اس کے درباری تشویش کا شکار تھے۔ بنی اسرائیل کی تعداد بڑھنے سے ملک کو خطرہ ہونے کا پروپیگنڈا کرکے ان کی نسل کشی کے لیے جواز تراشا گیا۔ وہ جبری نس بندی یا جدید تعلیمی نظام کا زمانہ نہ تھا۔ اس لیے فرعون نے ایک حکم جاری کیا جس پر عمل کرنا قدرے آسان تھا کہ مصر میں پیدا ہونے والے ہر اسرائیلی بچہ کو قتل کیا جائے گا۔البتہ غلامی اور جنسی ضرورت کے لیے لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کا جنم ہوا تو قتل کیے جانے کے ڈر سے انھیں ایک ڈبے میں لٹا کر دریائے نیل میں بہا دیا گیا اور فرعون کی بیوی نے اس حسین بچے کو پاکر خود پالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دراصل اللہ کی تقدیر کا فیصلہ تھا کہ فرعون کے محل ہی میں اس کا قاتل پروان چڑھے۔
جب فرعون کی ایذا رسانیاں اور قتل اطفال وغیرہ کا کام عروج پر تھا تو اسی مظلوم قوم کی ایک طاقت ور شخصیت کو خدا نے اپنا رسول اور نبی بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ پانچ اولوالعزم انبیا میں سے ایک ہیں۔ نبی ہونے کے ناطے موسیٰ علیہ السلام کو دو فرائض انجام دینےتھے۔ اول دعوت یعنی فرعون اور اس کے ساتھیوں کو دین حق کی دعوت دینا۔ دلوں تک اتر جانے والے الفاظ میں جنت کی بشارت اور دوزخ کا انتباہ دینا۔ رحمت الٰہی سے دونوں عالم میں ملنے والی نعمتوں سے آگاہ کرنا۔ فرعون جیسے جابر اور سخت گیر کردار والے شخص کو دعوت دینے میں جو احتیاط واہتمام کرنا چاہیے تھا اس سے خدا نے پہلے ہی باخبر کردیا تھا۔موسی علیہ السلام کو ہدایت تھی کہ اس کے سامنے نرم الفاظ استعمال کیے جائیں۔ مشتعل ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔گھمنڈ اور غرور کے بھوت کو جاگنے نہ دیا جائے۔ نسل پرستی اور فرقہ واریت کو اجاگر ہونے دیا جائے۔اس امید کے ساتھ کہ نصیحت سن کر وہ اچھا انسان بننے کے لیے آمادہ ہوجائے (طہ: ۴۴)( النازعات: ۱۷)
انسان دوست اور محبت کے پیکر کلیم اللہ کےلیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی تھی۔ اس طرح اسرائیلیوں کی نسل کشی اور ان پر ظلم کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا۔ الغرض حضرت موسیٰ کو رسول بنا کر بھیجتے ہوئے انھیں اس تیاری سے آراستہ کیا گیا تھا جو ایک اچھے داعی کے لیے ضروری ہے اور ساتھ ہی اس زمانے اورماحول کے لائق معجزے بھی دیے گئے تھے۔
حضرت موسی پر دوسرا فرض یہ عائد کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کے ظلم سے آزاد کرایا جائے۔ موسیٰ کی تبلیغ سے حقیقت آشکارا ہوجانے کے بعد بھی اگر فرعون انکار پر اڑا رہے تو موسیٰ کا اگلا ہدف یہ تھا کہ بنی اسرائیل پر ہونے والی ایذارسانیاں ختم کرنے کی کوشش کریں اور انھیں اپنے ساتھ ملک سے نکل جانےکا موقع حاصل کریں۔ ایسا نہ ہو کہ انھیں اپنے محل میں پالنے پوسنے کے عوض میں وہ تمام بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھے۔ فرعون کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کی دعوت اور بحث و مباحثے پر تحریک اسلامی کے افراد کو غور کرنا چاہیے۔
ایک قوم میں جو اپنی نسلی برتری پر غرور کرنے والوں کی ہے، اس کے دشمنوں کی قوم کے کسی فرد کو رسول بنا کر بھیجا جانا معمولی بات نہیں ہے۔ دعوتِ دین کے ساتھ قوم کی رہائی کے لیے آواز اٹھانا بھی معمولی بات نہیں ہے۔ مصر میں حضرت موسیٰ کی بعثت بنی اسرائیل کے لیے ایک تاریخی ضرورت تھی۔ تاریخ کے مطالعہ سے ہم جان سکتے ہیں کہ خدا نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے محل میں اور پھر حضرت شعیب کی صحبت میں کیسی تربیت دی۔
موسیٰ علیہ السلام پر ایک جرم کا داغ بھی تھا۔ ہوا یہ تھا کہ مدین نکل جانے سے پہلے ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کے درمیان جھگڑا ہونے پر آپ نے قبطی کو گھونسا مارا تھا تاکہ اسرائیلی اس کے ظلم سے بچ جائے۔ لیکن اس گھونسے سے اس کا دم نکل گیا اور اس کے خلاف رد عمل ہونے کے ڈر سے آپ وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔ جب رسول بننے کے بعد فرعون سے آپ کی ملاقات ہوئی تو اس نے اس جرم کو یاد دلایا۔ حضرت موسیٰ نے اس الزام سے انکار نہیں کیا اور اقرار کیا کہ وہ قتل غلطی سے ہوا تھا، انھوں نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا۔ (الشعراء: ۱۰، ۲۰) اس طرح غلطی ماننے میں آپ کی عزت نفس اور قومی نسبت رکاوٹ نہیں بنی۔
بہرحال فرقہ وارانہ جنون کے خلاف سچائی کی آواز رائیگاں نہیں گئی۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں اس کا اثر بھی ہوا (طہ: ۶۲) بادشاہ کے محل کے اندر بھی یہ آواز گونج گئی (مومن: ۲۸) اس کے بعد جادو اور معجزہ کی جنگ میں ہارنے پر ساحروں نے سجدہ کیا اور اپنے ایمان کا اعلان کیا جس سے فرعون آپے سے باہر ہوگیا۔
حضرت موسیٰ کی تبلیغ دین کا اصل مقصد جانتے ہی فرعون نے ان پر کچھ الزامات لگائے۔ جو مصر کی فرقہ وارانہ فضا میں بہت اہمیت رکھتےتھے۔ اس نے کہا یہ ہمارے دیس کے اصل مالک حکم رانوں کو معزول کرکے اقتدار میں آنے کی کوشش وتدبیر ہے۔ یہ ملک کی عظیم روایات و رسومات اور ثقافتی ورثہ کو پامال کرنے کی کوشش ہے۔ (طہ: ۵۷، ۶۳، اعراف: ۱۱۰، غافر: ۲۶)
ایسے الزامات سے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ قبطیوں کے جذبۂ وطنیت کو مشتعل کرے اور موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ظلم کا نشانہ بناکرکے مصر سے بھگا دیا جائے۔ پھر اس نے موسیٰ کو قتل کی دھمکی دی (غافر: ۲۶)
ساتھ ہی فرعون نے یہ بھی سمجھ لیا کہ موسی کا لایا ہوا نظامِ دین قائم ہونے سے اس کا بدترین سماجی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ یہاں دینی بحث میں سیاسی بیانیے کی شمولیت ہوتی ہے۔
بنی اسرائیل نام کے مسلمان تھے۔ ان کا ایمان کم زور تھا۔ فرعون اور قبطیوں کا دباؤ ان کے اعتماد و یقین پر بھی بہت بری طرح اثر انداز ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ کی قیادت کا وہ کھلم کھلا اقرار نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اسی قوم کے عقل مند سمجھے جانے والے قائدین تاکید کرتے تھے کہ موسیٰ کے دین کو ماننا ہمارے لیے بڑا خطرہ مول لینا ہے۔ قرآن کا اشارہ ہے کہ فرعون کے علاوہ ان قائدین سے ڈر کر چند نوجوانوں کے سوا بنی اسرائیل کے اکثر لوگ موسیٰ کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ (یونس: ۸۳)
یہ بھی یاد رہے کہ غلامی کے دور میں بنی اسرائیل میں بہت سی کم زوریاں اور اخلاقی اور ثقافتی بگاڑ عام ہوچکا تھا۔ نماز کا اجتماعی نظام رائج نہ تھا۔ اس علاقے میں بت پرستی اور گائے کی پوجا عام تھی۔ غیرمہذبانہ تمدن میں شرک کو شرک نہیں سمجھتے تھے۔ بنی اسرائیل کے افراد کا بھی خیال تھا کہ دیگر قوموں کے لیے جس طرح اپنے مصنوعی خدا ہوتے ہیں اسی طرح انھیں بھی عبادت کرنے کے لیے ایک خدا بنا کر دیا جائے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ موسیٰ کے سامنے ان لوگوں کی یہ خواہش کھل کر سامنے آگئی۔ (اعراف: ۱۳۱)
جب حضرت موسیٰ تورات لینے کے لیے طور سینا چلے گئے تو ان چالیس دنوں کے اندر ان لوگوں نے اپنے اپنے سونے کے زیورات دے کر سامری سے ایک بچھڑا بنوایا جو آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل پورے کے پورے اس کی پوجا کرنے لگے۔ جب ہارون علیہ السلام نے اس سے منع کرنا چاہا تو انھیں قتل کرنے کی دھمکی دی۔جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو بھائی ہارون کی داڑھی پکڑ کر کھینچی اور قوم کو گم راہی کی حالت میں چھوڑ دینے کا جواب طلب کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کی غیرموجودگی میں میں قوم میں پھوٹ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ (اعراف: ۱۵۹، طہ: ۹۴)
نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے اصرار کیاکہ ہمیں خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے۔ بعد میں ان لوگوں نے توبہ کی اور ان کے مجرموں کو سزا دی گئی۔ (البقرہ: ۵۴، ۵۵) اس کے بعد وعدہ کی گئی سر زمین کی رہائی کے لیے جب جنگ کا اعلان کیا گیا تو ڈرپوک اسرائیلی قوم نے موسیٰ سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ تم اپنے رب کے ساتھ جا کر جنگ کرو اور ہمیں چھوڑ دو۔ (المائدہ: ۲۴)
یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب یہ قوم اپنی بقا اور رہائی کے لیے کوشش کررہی تھی اور آزمائشوں میں جکڑ کر سخت مشکلات میں پھنسی ہوئی تھی، اس وقت ان میں سے چند سوپر کلاس لوگ کھلم کھلا ظالموں کا ساتھ دیتے تھے۔ ان میں بدترین کردار تھا مسٹر قارون! ہمارے دس ہزار امبانی ایک قارون کی برابری نہیں کرسکتے۔ لالچی اور کنجوس سرمایہ دار قارون حضرت موسیٰ کے رشتہ داروں میں سے تھا۔ لیکن یہ دنیا پرست سیٹھ فرعون کا ساتھی تھا۔ محل میں ہامان کے قریب اس کو کرسی ملتی تھی۔ آج بھی مسلم دنیا میں ایسے مجرمانہ کرداروں کی کمی نہیں ہے۔
کتنا فرق اور کتنی شباہتیں
مذکورہ بالا اسرائیلی تاریخ کے اکثر حالات ہندوستان کے ماحول سے بہت مشابہ ہیں۔ خصوصاً مسلمانانِ ہند کی راہ کی رکاوٹیں اس سے ملتی جلتی ہیں۔ تاریخ کے طالب علم اور سماجی مشاہد کے لیے تفصیلات کی ضرورت نہ ہوگی۔ دوسری طرف دونوں قوموں کے تاریخی حالات میں فرق بھی نمایاں ہیں۔ چند اہم باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
۱۔ فرعون کی حکومت ہر حال اور کیفیت میں آمریت اور فسطائی ہوتی تھی۔ حالاں کہ ہندوستان کی حکومت میں جو بھی کمی نظر آتی ہے وہ بہرحال جمہوری نظام حکومت کے ہوتے ہوئے پیدا ہونے والی کمی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ آج فسطائیت اقتدار میں آنے کے بعد ہر میدان پر قبضہ کر رہی ہے اور سماجی نظام کو درہم برہم کرنے کی تاک میں ہے۔ پھر بھی جمہوری طاقتوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک اہم رول ادا کرسکتی ہیں لیکن آپس کی لڑائیوں اور نا اتفاقیوں سے وہ کم زور ہورہی ہیں۔
۲۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے مصر میں دعوت دین کی ذمہ داریاں کامل اور موثر طریقے سے انجام دی تھیں۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سچائی کو پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی تھی۔ ہندوستان میں طویل مدت تک دینی دعوت ذرا بھی نہیں انجام دی گئی۔ دعوت کا متبادل دعوت ہی ہے، کچھ اور نہیں ہے۔ مواقع کو نظر انداز کرکے، انسان کو اپنے رب اور خالق سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری انجام دیے بغیر حضرت موسیٰ اور ملک مصرکے ساتھ بے جا طور پر موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ کی مکی یا مدنی زندگی کا ہندوستان کے حالات سے موازنہ کرنے میں ان اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دعوتی ذمہ داریوں کو فراموش کرکے امت کے مسائل کے حل ڈھونڈنا بے نتیجہ کام ہے اور یہ اسوۂ رسول کے خلاف بھی ہے۔ اسی طرح آج کی مظلوم مسلم امت کا اس کے برعکس ماحول کی امت مسلمہ سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔
۳۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ملک مصر کو نہیں بلکہ اس کے باہر وعدہ کی ہوئی سر زمین کو چن لیا تھا۔ جب کہ ہندوستان کی مسلم اقلیت کے لیے یہی اس کا وطن بھی ہے اور وعدہ کی ہوئی سر زمین بھی۔ اس کی زندگی اور اس کی قسمت اسی زمین سے وابستہ ہے۔ جتنی بھی مشکلیں اور رکاوٹیں سامنے ہوں ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ہجرت کا انتخاب (choice) نہیں ہے۔ اسرائیلی تجربات کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اپنے مسائل کا حل اپنے اسی ملک کے ماحول میں ڈھونڈنا ہو گا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2021