ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے افکار کا اصولی ومنہجی مطالعہ

(1)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اکیسویں صدی کے ان ممتاز مفکروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے فکر اسلامی کے ارتقا اور تحریک اسلامی کی فکری قیادت میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ موصوف کا معروف اور پیشہ ورانہ میدان تو اسلامی معاشیات رہا لیکن فکر اسلامی کے عمومی مباحث میں بھی ان کی خدمات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ آزادانہ غور و فکر اور کھلی تنقیدی فضا کے علم بردار تھے۔ انھوں نے فکر اسلامی سے جڑے کئی بنیادی اور اہم موضوعات پر فکر انگیز کتابیں اور مقالات لکھے۔ فکر اسلامی سے متعلق ان کی باقاعدہ خدمات پچاس سال سے زائد عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ گو کہ انھوں نے فکر اسلامی کے کئی اہم مباحث کی گفتگو میں حصہ لیا لیکن ان کی توجہ زیادہ تر کسی متعین موضوع پر تفصیلی گفتگو کرنے اور تحقیقی رائے پیش کرنے کے بجائے زیادہ تر فکر اسلامی کے لیے مطلوب اصولی اور عمومی منہج اور فریم ورک تشکیل دینے اور اس طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں رہی۔ چناں چہ ہم بھی اس مقالے میں نجات صاحب کے افکار کا اصولی اور منہجی مطالعہ کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ نجات صاحب کی تحریروں میں فکر اسلامی میں ہونے والی کوششوں کے لیے اصولی اور منہجی طور پر کس طرح کی رہ نمائی مل سکتی ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے تقریبا پچاس برسوں پر مشتمل فکر اسلامی سے متعلق کاموں کا جائزہ لے کر ان اصولی اور منہجی خصوصیات کو پیش کیا جائے جو نجات صاحب کی فکر کا اس پہلو سے خلاصہ اور ریفرینس پوائنٹ ہوسکتی ہیں۔ ان کی تمام تحریروں کا احاطہ تو ممکن نہیں تھا لیکن ہم نے ۱۹۷۰ سے لے کر آخری وقت تک کی اکثر تحریروں کو سامنے رکھ کر نجات صاحب کے افکار کے چند اہم اصولی و منہجی خطوط کو اس مقالے کا موضوع بنانے کی کوشش کی ہے۔

۱۔ غیر حتمیت، اختلاف اور تواضع

روشن خیالی اور جدیدیت کے سائے میں ابھرنے والی سیکولر مغربی طرز فکر کی اہم خصوصیات میں حتمیت، قطعیت (certainty and precision) اور حد درجہ خود پسندی (dogmatism) تھی۔ علمی میدان میں سیکولرزم کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ عقل کو بہت اہمیت دیتا تھا یا عقل ہی کو سب کچھ سمجھتا تھا بلکہ اس کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ عقل کے کسی ایک مخصوص نتیجہ فکر کو ہی قطعی اور حتمی سمجھتا تھا اور سائنس کی کسی ایک مخصوص تشریح کو ہی قطعی اور حتمی سائنس سمجھتا تھا اور اس میں کسی دوسرے نقطہ نظر اور نتیجہ فکر کو بالکل جگہ دینے کو تیار نہیں تھا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو طلال اسد کی علمی سیکولرزم پر تنقید ان کی کتاب سیکولر فارمیشن میں) گرچہ کہ علم و فلسفے میں مستقل بحث و مباحثے اور مزید علمی و سائنسی دریافتوں کی وجہ سے بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی شروع ہوتے ،مغربی فکر میں بڑی حد تک حتمیت اور قطعیت کا وہ زور ٹوٹ گیا (دوسرے بہت سے مفکرین کی طرح نجات صاحب نے بھی اس صورت حال کو پوری طرح محسوس کر لیا تھا۔ ملاحظہ ہو معاصر اسلامی فکر: ۲۱)۔ دور جدید کے مسلم علما و مفکرین کے یہاں بھی حتمیت اور کسی درجہ کی خود پسندی غالب تھی جس کے نتیجے میں کھل کر غور و فکر کرنے، رائج رایوں سے اختلاف کرنے، ان پر تنقید کرنے اور دوسروں کی رائیں سننے کا مزاج ناپید تھا۔ نجات صاحب فکر اسلامی کے موجودہ ذخیرے پر اس پہلو سے بھر پور تنقید کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ دین اسلام اور انسانی فکر دونوں کی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ اختلاف کو نہ صرف قبول کیا جائے بلکہ اس کو سراہا جائے اور اپنے طرز فکر میں لچک اور غیر حتمیت کو پوری طرح جگہ دی جائے۔ وہ اختلاف ہونے کے امکانات کو دین کی اہم خصوصیت کے طور پر دیکھتے تھے۔ نجات صاحب نے اپنی معرکہ آراء کتاب مقاصد شریعت میں چوتھے باب کا عنوان رکھا ہے ‘مقاصد شریعت کے فہم و تطبیق میں اختلاف کا حل’ اور اس میں شریعت اور اختلاف پر سیر حاصل گفتگو کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ فہم شریعت میں اختلاف کی تین اقسام بتاتے ہیں جن میں اختلاف فطری طور پر ناگزیر ہے۔ اس کو کم کرنے کی کوشش تو ضرور کی جاسکتی ہے لیکن ختم کرنے کی سوچنا فطرت کے ہی خلاف ہوگا۔ وہ کہتے ہیں:

“ہمارے لیے تین طرح کے اختلافات زیادہ قابل توجہ ہیں: پیش آمدہ صورت حال کو سمجھنے میں اختلاف، اللہ تعالی کی ہدایات کو سمجھنے میں اختلاف اور اس بات میں اختلاف کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔”(مقاصد شریعت: ۱۲۲)

اسے معاصر فقہ میں فقہ الواقع، فقہ النص اور فقہ التنزیل سے بھی موسوم کرتے ہیں۔

وہ اختلاف سے ڈرنے کے بجائے اس کو ایک معمول کی چیز دیکھنے کے قائل تھے۔ وہ کہتے ہیں:

“بات یہ ہے کہ اختلاف سے ڈرنا اسلامی سماج میں نسبتاً بعد کی پیداوار ہے اور اس کی کم زوری کی علامت ہے۔ قرن اول میں اسے ایک قابل قبول اور معمول کی چیز سمجھا جاتا تھا۔” (مقاصد شریعت: ۱۴۱)

ساتھ ہی میں اختلاف کے ساتھ بحسن و خوبی جینے پر ابھارتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

یں اختلاف کو گوارا کرنا ہوگا اور امت میں ایک ایسی فضا بنانی ہوگی کہ مقاصد شریعت کی پہچان اور ان کی تحصیل کے طریقوں میں فرق، نیز ان کی تحصیل کے درجوں میں تفاوت کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے ساتھ حسن ظن سے کام لیں اور خوش معاملگی کے ساتھ رہیں۔”(مقاصد شریعت: ۱۶۸)

وہ مانتے تھے کہ اگر کھل کر بحث و مباحثہ کا ماحول بن جائے تو اختلاف بڑی حد تک کم ضرور کیے جا سکتے ہیں مگر اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش لا حاصل ہوگی۔ پرسنل لا میں موجود اختلافات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

“کسی حد تک اختلاف سے تو مفر نہیں، مگر جتنا اختلاف اس باب میں نظر آتا ہے وہ بہت کچھ کم ہوجاتا اگر ایک دوسرے کی رایوں سے واقف ہو کر بحث و مذاکرے کے ذریعے اختلافات میں کمی کی کوشش کی جاتی۔”(معاصر اسلامی فکر: ۳۸)

علم کی محدودیت، غیر حتمیت اور انکسار میں وہ گہرا ربط دیکھتے تھے۔ علوم کے اسلامائزیشن کی تحریک پر اپنے تنقیدی مقالہ میں وہ انکسار اور غیرحتمیت کی طرف دعوت دیتے ہوئے اسی جانب متوجہ کرتے ہیں:

“تواضع کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی محدودیت کو پہچانیں۔ غیر حتمیت اور کسی حد تک غیر قطعیت انسانی حالات کی لازمی خصوصیات ہیں۔ تواضع پر مبنی رویہ اختیار کرکے آگے کا راستہ یہ ہونا چاہیے کہ علم کے سفر اور اس کے مناسب استعمال میں ہم سب کے ساتھ شریک ہوکر آگے بڑھیں۔”

 (Islamization of Knowledge: Reflections on Priorities, 16)

اسلامی معاشیات پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے شرعی معاملات میں بھی علم کی محدودیت، غیر حتمیت اور انکسار پر زور دیتے ہوئے آپ کہتے ہیں:

“ہمیں بہت صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگ فوراً اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں بک گیا ہے اور ایسا اور ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ہر ایک کے سوچنے اور اظہار خیال کرنے کے حق کا احترام کرنا ہوگا اور تواضع کے ساتھ سننا ہوگا۔ اگر تم شروعات ہی میں یہ سمجھ لو کہ تم کو سب کچھ معلوم ہے پھر تو بات چیت ممکن ہی نہیں ہوگی۔” آگے مزید کہتے ہیں:

“ہمیں انکسار کے ساتھ یہ سمجھنا چاہیے کہ شرعی مسائل میں بھی جو چیزیں نئے حالات سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں ان کا درست جواب نہیں پتا ہے۔ جو جوابات ہم کو دیے گئے ہیں وہ حرف آخر نہیں ہیں۔ جب تک یہ انکساراور دوسروں کی رائے سننے کی قوت برداشت پیدا نہیں ہوگی حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔”

Interview with Prof. Nejatullah Siddiqi by Jawad Jafry, soundvision.com

انسان کی اپنی ناواقفیت اور کم علمی کا عدم شعور بھی حتمیت اور عدم تواضع کی ایک اہم وجہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اسلامی معاشیات میں اسلامی تحریکات اور اسلامی مفکرین کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

“عرب دنیا، برصغیر اور جنوب مشرقی ایشیا کی اسلامی جماعتوں کی قیادت کے بارے میں میں جہاں تک جانتا ہوں ایک بیماری مشترک ہے۔ اختلاف کو برداشت کرنے کا مادہ نہ کے برابر ہے۔ کوئی تنقید سننے کو تیار نہیں ہے۔ شورائی فیصلہ سازی کی روایت بھی ناپید ہے۔ سادہ لوحی اور عدم برداشت دونوں بڑے مرض ہیں لیکن دونوں کا ایک ساتھ جمع ہو جانا   حد درجہ خطرناک ہوجاتا ہے۔”

اسی میں آگے مزید وہ لکھتے ہیں:

“نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشیات اور بینکنگ نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر کم زور، بے راہ روی کا شکار بلکہ بنیادی طور پر ایک ناکام پروجیکٹ ثابت ہوئی ہے۔ ہم اپنے آپ کو صرف اس بات پر مبارکباد دے سکتے ہیں کہ ہم نے اسلامی فقہ کا سہارا لے کر سرمایہ داری کو دوبارہ ایجاد کر دیا ہے۔ کچھ برسوں پہلے مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ مسلمان بالعموم اور علما بالخصوص بینکاری کے سلسلے میں بالکل ناواقف ہیں۔ کریڈٹ کا کردار اور فریکشنل ریزرو سسٹم میں دولت کی تخلیق کا نظام ان کی سمجھ سے پرے ہے۔”

(My Life in Islamic Economics, 153)

اسلامائزیشن کی گفتگو میں ایک اور جگہ انکسار کی طرف دعوت دیتے ہیں لیکن ایک خاص سیاق میں جو کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ علوم کی تخلیق یا افزائش کسی حکومت اور ریاست کے اشاروں پر نہیں ہوتی بلکہ یہ آزاد افراد کے ہاتھوں ہوتی ہے جو اکثر اپنی مرضی سے اکٹھا ہو کر ایک ٹیم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا پھر تعلیمی ادارے لوگوں کے جمع ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ چناں چہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علم کے سفر میں محتاط بھی رہیں اور انکسار کے ساتھ آگے بڑھیں۔ گویا وہ علم کی تخلیق وافزائش کے سفر میں سیاست اور قیادت سے زیادہ توجہ اس ماحول اور اس استعداد کی طرف دلانا چاہ رہے ہیں جو اصل محرک بنتی ہے علم کی تخلیق میں۔ (IOK, 23)

عملی طور پر بھی نجات صاحب کی تحریروں میں غیر قطعیت اور انکسار کی دل چسپ مثالیں موجود ہیں۔

وحی اور انسانی علم کے درمیان دائرہ کار کو لے کر ہونے والی بحث کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب اس سوال کا کہ کیا انسان کی نفسیاتی، سماجی اور معاشی و سیاسی زندگی کے جملہ امور و متعلقات دائرہ غیب سے باہر اور انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں؟ کے جواب میں لکھتے ہیں جو دل چسپ اور غیر حتمیت کی بہترین مثال ہے:

“انسان کی نفسیاتی، سماجی اور معاشی و سیاسی زندگی کے جملہ امور و متعلقات’ نہ تو دائرہ غیب سے بالکل باہر ہو سکتے ہیں نہ وہ ‘انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں’، اس سے آگے کچھ کہنا مشکل ہے۔ متن مقالہ میں جو خواہش ظاہر کی گئی ہے یعنی یہ کہ ‘اس سوال کا واضح جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا’ بظاہر معصوم اور معقول معلوم ہوتی ہے مگر اس کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ جو انسان یہ کام کریں گے وہ زمان و مکان سے بلند نہیں ہو سکتے۔ یہ انسان کی محدودیت (limitation) ہے جس سے مفر نہیں ہے۔ احتیاط اور حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ کسی ایک زمانہ میں اس کا جو جواب درست پایا گیا اسے آنے والے تمام زمانوں کے لیے لازماً درست نہ قرار دیا جائے۔ علم کی ترقی کے ساتھ فہم قرآن کے نئے دریچے کھلنے کا سلسلہ بند نہ ہوگا۔ سوالات اٹھانے کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رہے گا، سوال اٹھانے سے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم ہر سوال کا جواب پا سکتے ہیں، یا کسی وقت جس جواب کو ہم قبول کرتے ہیں وہی جواب آئندہ بھی کافی ہوگا۔ اگر حقیقت نہ بدلتی ہو تو بھی حقیقت کا فہم ضرور بدلتا رہتا ہے۔ حقیقت کے کسی ایک فہم کو حقیقت ماننے پر اصرار بے جا ہے۔” (معاصر اسلامی فکر: ۲۲)

گویا فکر اسلامی کے لیے پہلا اصول یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اختلاف کو سراہا جائے، تنقید کو پسند کیا جائے اور قطعیت یا حتمیت سے پرہیز کرتے ہوئے تواضع اور انکسار کا مظاہرہ کیا جائے۔

۲۔ دین کی تعلیمات کی نوعیت کا صحیح فہم

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی تحریروں میں ایک اہم اصولی رہ نمائی دین کی تعلیمات کی نوعیت کے صحیح فہم کے حوالے سے ملتی ہے۔ موجودہ دور میں دین کے غلبے، دین کی اقامت، اسلامی نظام کے قیام اور دینی اصلاح کی تحریکیں بہت اٹھیں لیکن دین سے ان کی مراد کیا ہے؟ دینی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے؟ اسلامی نظام کا مطلب کیا ہے؟ دین کس حد تک اصولی رہ نمائی فراہم کرتا ہے اور کس حد تک انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ خود تفصیلات طے کرے؟ وغیرہ یہ سوالات ابھی بھی فکر اسلامی کے ذخیرہ میں تشنہ ہیں۔ نجات صاحب کی تحریروں میں اس حوالے سے بہت واضح اور دو ٹوک رہ نمائی ملتی ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“جس دین کے ہم داعی ہیں وہ معاشی اور سیاسی نظام کے بارے میں صرف اصولی اور بنیادی رہ نمائی کرتا ہے۔ وہ تفصیلی ضابطہ بندی نہیں کرتا بلکہ انسانوں کو آزاد چھوڑتا ہے کہ حالات و ضروریات کے مطابق ان بنیادی قدروں کی تحصیل عمل میں لانے کے لیے تفصیلی ڈھانچے خود تعمیر کریں۔۔ ۔۔ دین نے خالص امور دنیا میں، سائنس اور ٹکنالوجی میں، پیداوار دولت کے فنی اہتمام میں انسانی عقل و تجربہ کی مکمل آزادی تسلیم کی ہے۔۔۔ اس رہ نمائی کا دائرہ معاملات اور انسان اور انسان کی درمیان رشتوں کے پائیدار وصفی پہلو ہیں جو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ نہیں بدلتے کہ ان کا مدار انسان ہے نہ کہ احوال وظروف۔ مثلاً دیانت و راست بازی، ایفائے عہد، عدل و احسان، اخوت و مساوات، تعاون و ایثار، عصمت و عفت، شفقت و مرحمت۔۔۔ اور ان قدروں کے بنیادی تقاضے پورے کرنے والے ایسے ضوابط جو اپنی تشکیل میں ایسی لچک رکھتے ہیں کہ انسانی حالات میں تبدیلی کے ساتھ ان کی تعبیر و تشریح نئے امکانات پیدا کرسکتی ہے۔” (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۷۸)

ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ:

“اسلام کا تعارف ٹھیک سے کرایا جائے جس سے یہ بات ابھر کر سامنے آئے کہ دین سائنٹفک تحقیق و تفتیش کے دائرہ میں کوئی مداخلت نہیں کرتا، بلکہ انسانی عقل و تجربہ کو آزاد چھوڑتا ہے۔ یہ دین ان اجتماعی امور میں تفصیلی ضابطہ بندی سے گریز کرتا ہے جو بدلتے ہوئے حالات میں ضوابط کی تبدیلی چاہتے ہیں بلکہ ان امور میں اصولی رہ نمائی پر قناعت کرتا ہے اور تفصیلات کی ترتیب کے لیے انسانی عقل و تجربہ کو آزاد چھوڑتا ہے۔”(ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین: ۲۶)

وہ اسے اصول و فروع اور دین و ثقافت کے فرق کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ گویا دینی تعلیمات کے نام پر ہمارے پاس ایک حصہ وہ ہے جو اصولی ہے اور آفاقی و ابدی ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو فروعی ہے اور اس کی اہمیت اصول کے مقابلے میں کم اہم ہے اور جس کے ایک بڑے حصے میں وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کے امکانات ہوتے ہیں لہذا انھیں زمان و مکان پر منحصر ثقافت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس جانب توجہ دلاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ:

“مسلمانوں کی اصلاح میں اصول پر فروع اور دین پر کلچر کو ترجیح حاصل رہی، مقاصد اصلاح محدود رہے اور عام بندگان خدا کو دین کی دعوت دینے اور دنیا میں دین قائم کرنے کے سیاق میں اصول و فروع، اول اور ثانوی، زیادہ اہم اور کم اہم کے درمیان تمیز کی توفیق کم ہوئی۔”(تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۸۰)

اسلام اور سیکولرزم پر گفتگو کرتے ہوئے وہ دین کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے شعبوں کے حوالے سے موجود فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اللہ کی جانب سے انسان کو بھیجی گئی ہدایت اجتماعی معاملات اور انفرادی بشمول عائلی معاملات کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتی ہے۔ حکومت کی تنظیم اور معاشی بند و بست جیسے مسائل میں آخری آسمانی ہدایت تفصیلی رہ نمائی کے بجائے صرف کچھ اقدار کی رہ نمائی کرتی ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں وحی نے ایک وسیع میدان بلکہ سماجی تنظیم کا پورا میدان ہی آزاد چھوڑ دیا ہے تاکہ عقل اور انسانی تجربے کی روشنی میں اس کو چلایا جائے۔”

(Jamaat-e-Islami in Secular India, 85)

نجات صاحب کا ماننا تھا کہ دین سماجی، سیاسی اور معاشی معاملات میں صرف اصولی اور بنیادی  رہ نمائی تک خود کو محدود رکھتا ہے اور پورا تفصیلی حصہ انسانی عقل و تجربے کے اوپر چھوڑ دیتا ہے۔ اور اصولی و بنیادی رہ نمائی کو نجات صاحب اقدار کے حوالے سے پیش کرتے ہیں البتہ اس میں بھی وہ اس بات کے قائل تھے کہ اقدار بھی اب قدر مشترک کے طور پر قبول کر لی گئی ہیں اور انسانی تجربے اور عقل نے بھی ان اقدار کی مرکزیت کو تسلیم کر لیا ہے،چناں چہ اسی کے آگے لکھتے ہیں:

“جہاں تک ان اقدار کی بات ہے جن کو انسانوں کے سماجی معاملات کی رہ نمائی کرنی ہے تو وہ اب عالمی سطح پر انسانیت کی قدر مشترک بن چکی ہیں جیسے آزادی ہو، مساوات ہو، عدل اور تعاون ہو وغیرہ۔ ان اقدار کو انسانی تجربے اور عقل نے بھی پوری طرح تسلیم کر لیا ہے۔”

(Jamaat-e-Islami in Secular India, 85)

اقدار اور اشتراک نجات صاحب کی فکر میں مرکزی عناوین کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر قدرے تفصیل سے آگے بات آئے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ نجات صاحب شروع ہی سے کھل کر یہ موقف پیش کرتے تھے کہ دین کی تعلیمات کے حوالے سے ہمارا یہ موقف واضح ہونا چاہیے کہ یہ سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات میں انسانوں کو پوری آزادی عطا کرتا ہے کہ کچھ اصولی اور بنیادی اقدار کا لحاظ کرتے ہوئے خود نظام تشکیل دیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کی گفتگو میں ایک بڑا عنصر رد عمل کا تھا یعنی مغربی نظاموں کے خلاف رد عمل جس میں سیکولرزم سب سے اہم تھا۔ نجات صاحب ردعمل کی کیفیت سے پوری طرح خود کو آزاد رکھنے میں کام یاب رہے۔ انھوں نے سیکولرزم پر گفتگو کرتے ہوئے جہاں اس کے منفی پہلؤوں پر کھل کر تنقید کی وہیں ان چیزوں کو کھل کر قبول بھی کیا جو اگرچہ سیکولرزم کے حوالے سے زیادہ عام یا مشہور ہوئیں لیکن ان کی اپنی بنیاد اور میرٹ تھی۔ نجات صاحب دین کے حوالے سے اتنے وثوق سے جو اس تعبیر پر پہنچے تھے اس کے پیچھے ہمارے خیال میں بہت بنیادی کردار وقت اور زمانے کی تبدیلی کے حوالے سے ان کے ادراک کا تھا یعنی وقت کے بدلنے کا شعور۔ اس پر ہم کچھ تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ دوسرا اہم اصول فکر اسلامی کے لیے یہ ہے کہ دین اور دینی تعلیمات کی نوعیت کا صحیح اور واضح تصور سامنے رہے۔

۳۔ زمانے کی تبدیلی کا گہرا شعور

تبدیلی یوں تو انسانی احوال کا لازمہ ہے۔ انسانی دنیا ہمیشہ تبدیلی سے دوچار رہی ہے۔ لیکن دور حاضر نے جس درجے کی اور جس رفتار کی تبدیلی کا سامنا کیا ہے وہ انسانی تاریخ کا بالکل انوکھا مظہر (phenomenon) ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انسانی تاریخ کے آغاز سے آج تک ہونے والی تبدیلیوں میں سے اسّی فیصد تبدیلی پچھلے دو سو سال میں واقع ہوئی ہے۔ چناں چہ جدید دور میں جس طرح کی بے چینی اور اضطراب سے تمام مذہبی روایتیں (traditions) دوچار ہیں وہ معاصر تاریخ اور سماجیات کے مطالعے میں بحث کا اہم موضوع ہیں۔ بلکہ مذہبی روایتوں میں موجود یہی بے چینی تھی جس نے شروع میں بعض ماہرین سماجیات میں یہ غلط فہمی پیدا کر دی تھی کہ ان روایات کا اب دور ختم ہو چکا اور وہیں سے روایت (tradition) بنام جدیدیت (modernity) کی جنگ شروع ہوئی جس کو تسلسل (continuity) اور عدم تسلسل (rupture) کے درمیان کی جنگ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بحث پچھلی صدی کے مقابلے میں اب کسی قدر سرد بھی پڑی ہے اور اس کا رخ بھی بالعموم پچھلی صدی کے مقابلے میں برعکس ہو چکا ہے۔ نجات صاحب کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تسلسل والے موقف کی پوری تائید کرتے تھے۔ چناں چہ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

“نشاة ثانیہ کے ابتدائی دور میں یورپ کے علمی مراکز میں فلسفہ، ریاضی، طب اور علوم طبیعی کی وہی کتابیں مستعمل تھیں جن کا ترجمہ عربی سے لاطینی میں کیا گیا تھا۔ اسلام کا نظام حکم رانی، اسلامی دنیا میں رائج انتظامی اور دفتری نظام، اس کے تنظیم معیشت کے طریقے اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جانے والے اسلامی ادارے ساری متمدن دنیا کے لیے عرصہ تک قابل تقلید نمونوں کا کام کرتے رہے۔۔۔ اسلام نے مکارم اخلاق کو طریقہ زندگی کی بنیاد قرار دے کر جو طاقتور اخلاقی رجحان عطا کیا تھا اس کے زیر اثر مسلمانوں نے انسانیت کے ماضی سے بھی حقائق کا علم حاصل کیا اور نظم و نسق کے طریقے سیکھے اور خود بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مفید طریقوں کی ایجاد اور نفع بخش حقائق کا اکتشاف عمل میں لاتے رہے۔”(تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۱۸۰)

گویا وہ مسلمانوں کی ابتدائی تہذیب کو ما قبل اسلام کی تہذیب کے تسلسل کے طور پر دیکھتے تھے اور موجودہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کے تسلسل کے طور پر۔ ساتھ ہی وہ موجودہ دور میں دوسروں کے یہاں ہونے والی دریافتوں اور ترقیوں سے استفادہ مسلمانوں کے لیے از حد ضروری سمجھتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قدر بڑی اور غیر متوقع تبدیلی نے تمام مذہبی روایتوں کو مجبور کردیا کہ وہ بڑے پیمانے پر اپنا جائزہ لیں اور وہ چیزیں جو پرانے زمانے سے متعلق اور ان پر منحصر تھیں ان کو نئے تقاضوں کے مطابق نئی چیزوں سے تبدیل کرلیں۔ کم وبیش تمام ہی مذہبی روایتوں نے بشمول اسلامی روایت یہ تبدیلی قبول کرنا شروع کی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ البتہ اہم سوال یہ ہے کہ کس حد تک وہ تبدیلیاں خود کی رضامندی کے ساتھ قبول کیں اور کس حد تک مجبوراً کرنا پڑیں۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ کس حد تک ان تبدیلیوں کو روایتوں کے اندر سے اور اسی کے فریم ورک میں قبول کیا اور کس حد تک روایت کے بالکل خلاف جا کر اور روایت سے بغاوت کرکے ان تبدیلیوں کو قبول کیا گیا۔ 

اس پورے تناظر میں نجات صاحب کی خاصیت یہ ہے کہ وہ وقت کی اس تبدیلی کو بخوبی سمجھ چکے تھے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ کم مسلم مفکرین نے اس وضاحت سے اس تبدیلی کا ادراک کیا جس طرح نجات صاحب نے کیا۔ وہ اسلامی روایت کے اندر سے اس تبدیلی کے امکانات تلاش کرنے اور تبدیلی کو روایت کا ہی ایک حصہ دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ زمان و مکان کی تبدیلی کو نجات صاحب شریعت کے فہم اور اس میں اختلاف کے سلسلے میں خاص اہمیت دیتے تھے اور اس کو فطری سمجھتے تھے۔ وہ شریعت میں اختلافات کو تین اسباب سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔ زبان کے فرق کی وجہ سے اختلافات، مکانی فرق کے نتیجے میں اختلافات اور زمانہ بدلنے سے رونما ہونے والے فرق کی وجہ سے اختلافات۔ ان کا ماننا تھا کہ آخر الذکر سب سے اہم اور توجہ طلب ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“میرا خیال ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل پر غور و فکر کے ذریعے کسی فیصلہ تک پہنچنے کے عمل میں آج ہمیں جن ممکن اختلافات سے واسطہ ہے ان میں اس قسم (زمانے کی تبدیلی سے تعالق رکھنے والے) کے اختلاف کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جس کا اس وقت ذکر ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امت کو جتنی کام یابی زبان اور مکان کے فرق پر مبنی اختلافات سے نبٹنے میں ہوئی ہے اتنی زمانہ کی تبدیلی پر مبنی اختلافات سے نبٹنے میں نہ ہو سکی۔”(مقاصد شریعت: ۱۲۹)

تبدیلی کے اس مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اس سلسلے میں دو باتیں سب سے نمایاں ہیں: پہلی بات یہ کہ زمانہ آگے بڑھنے کے ساتھ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کی رفتار یکساں نہیں رہی۔ عہد نبویؐ کے بعد کی کئی صدیوں تک حمل و نقل اور مواصلات کے ذرائع میں کوئی بڑی ترقی نہیں ہوئی۔ زراعت و صناعت کا حال بھی یہی رہا۔ توانائی (energy) جب تک صرف انسانوں کی قوت بازو، حیوانات یا ہوا اور پانی سے حاصل کی جاتی رہی، یہی حال رہا۔ عہد نبوت کے ہزار سال بعد، بھاپ کا انجن دریافت ہونے سے نقل و حمل کی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ پھر دو صدیوں کے بعد بجلی کی دریافت نے انقلابی اثرات مرتب کیے اور بیسیوں صدی میں پٹرول کے بڑے پیمانے پر استعمال اور پھر ایٹمی طاقت کی دریافت نے دنیا بدل دی۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی تاریخ کے پہلے ہزار سال اور اس کے آخر کے پانچ سو سال میں تبدیلیوں کی رفتار اتنی مختلف رہی کہ کوئی مقابلہ ممکن نہیں۔”(مقاصد شریعت: ۱۳۰)

وہ جگہ جگہ تبدیلی اور اس کے نتیجے میں مطلوبہ رویے پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ بہت واضح لفظوں میں کہتے ہیں:

“اس بات کا شعور خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ جس دنیا میں اس دین کی اقامت مطلوب ہے وہ بدلتی رہتی ہے اور کسی ایک زمانہ میں بھی اس کے مختلف ملکوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔”(تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۷۲)

وہ اس جانب بھی توجہ دلاتے تھے کہ اس قدر جوہری تبدیلی واقع ہونے کے بعد تاریخ سے ہمارا استفادہ اور ہر مسئلے کے لیے تاریخ سے استدلال نامناسب اور غیر عملی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“ایسا کرنے کے لیے سلف سے کسی نظیر کی تلاش لا حاصل ہے کیوں کہ آج ہم جس تاریخی صورت حال سے دوچار ہیں وہ اپنی کوئی نظیر رکھتی ہی نہیں۔ یہ اسلامی تاریخ میں پہلی بار پیش آئی ہے اور اس کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں حالات کے مذکورہ مطالعہ پر اطمینان ہے اور اللہ سے اپنی وفاداری اور نصب العین سے اپنی وابستگی پر اعتماد ہے تو اس اجتہاد پر اطمینان کرنا چاہیے اور یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔”(ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین: ۲۹)

ہندوستان کے مخصوص پس منظر میں بھی وہ اس پر خصوصی زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

“جس طرح کے نظام سے آج ہم ہندوستان میں دوچار ہیں وہ کسی نبی کے زمانہ میں نہیں پایا گیا۔ نہ ہمارے کسی فقیہ کے زمانے میں۔ اس لیے حذو النعل بالنعل قیاس و استنباط ممکن نہیں، صرف عام روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ طریقہ کہ فقہ مرتب کی روشنی میں، جو وحی الہی یا سنت نبوی نہیں، انسانی ذہن کی پیداوار ہے، ہندوستان کی شرعی حیثیت دار الحرب، دار الاسلام وغیرہ جیسی اصطلاحات کی روشنی میں متعین کیا جائے، صحیح نہیں ہو سکتا۔ نہ اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا پابند بنایا ہے۔”(ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین: ۳۱)

نجات صاحب کے نزدیک وقت کے ساتھ بدلتے عرف و عادات کا دین و شریعت میں ہونے والے اجتہاد میں پورا پورا اعتبار کیا جانا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:

“بہت سے امور میں شرعی احکام اس قوم کی عادت اور عرف پر مبنی ہوتے ہیں، جن کے درمیان نبی بھیجا جاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اور حکیمانہ بات ہے، مگر اس کا تقاضا ہے کہ جہاں عرف و عادت مختلف ہوں وہاں کے لیے اصل دین اور مقاصد شریعت کو سامنے رکھ کر اجتہادی مسائل پر سوچا جائے۔”(مقاصد شریعت: ۱۶۴)

دور جدید میں واقع ہونے والی تبدیلی کو سمجھاتے ہوئے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

“علم میں وسعت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے دولت کی پیداوار اور تقسیم کے طریقے بدل جاتے ہیں اور ساتھ ہی زندگی کے بقیہ احوال بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پرانے طریقے، نقل و حرکت اور طرز عمل از کار رفتہ ہو جاتے ہیں اور نئے احوال نئے طریقے پیش کرتے ہیں۔ اسلام ہرگز از کار رفتہ اداروں کو باقی رکھنے یا مرے ہوئے اداروں کو زندہ کرنے کا داعی نہیں ہے۔”

(Jamaat-e-Islami in Secular India. 87)

بلکہ نجات صاحب کسی پر تجدد پسندی اور مغربیت کے القاب تھوپنے کے بجائے دینی قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے تھے کہ ان کو وقت کی تبدیلی کا شعور نہیں ہوا اور وہ اس کے تقاضے پورے کرنے سے پوری طرح قاصر رہے۔ وہ کہتے ہیں:

“گر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس بارے میں دانش ور اور مسلمان یکساں طور پر تہذیب جدید سے متاثر ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نئے حالات میں پرانے پیمانے بے جوڑ معلوم ہوتے ہیں اور ہماری دینی قیادت اجتہادی فکر کے امکانات کے قصیدے تو سو سال سے پڑھ رہی ہے مگر اس راہ میں پیش قدمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پیش قدمی نہ ہو سکنے کے اسباب کیا ہیں؟ ”(معاصر اسلامی فکر: ۱۰)

اس زمانے کی تبدیلیوں نے قیادت کے تصور کو بھی بنیادی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ جمہوریت، آزادی، مساوات، علوم کی ترقی اور معلومات کا ہر ایک کے لیے کھلا ہونا جیسی تبدیلیوں نے قیادت کے اس تصور کو بہت پیچھے چھوڑ دیا جس میں ایک فرد پوری جماعت، پوری ملت اور پورے ملک کی تقدیر بدل دیتا تھا۔ نجات صاحب نے اس نکتے کو محسوس کر لیا تھا چناں چہ وہ اپنے ہی ایک قدیم مقالے کا محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“متن مقالہ میں قیادت کی تبدیلی پر بڑا زور ہے، جیسے کہ یہی فتح مبین کی کنجی ہو۔ آج یہ بھولے پن کی بات (naive)معلوم ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کا انحصار مسلم معاشرہ کے کسی گوشے میں موجود نئے لیڈروں کی قیادت و سیادت بر روئے کار آنے میں نہیں۔ اس کے لیے فرد مسلم کی سر چشمہ ہدایت سے راست وابستگی، اسی سے کسب شعور (inspiration)اور دور جدید کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ اسلامی زندگی کے ایک ایسے تصور (vision)کی ضرورت ہے جس میں مقاصد کو ذرائع پر اور اصل دین کو شرائع پر فوقیت حاصل ہو۔”(معاصر اسلامی فکر: ۱۵)        

اس طرح فکر اسلامی کا تیسرا اصول یہ ہوا کہ زمانے کی گہری واقفیت اور بالخصوص تبدیلی کا پورا شعور ہونا چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ جون 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223