(آزادی سے قبل)
امت ِمسلمہ کے لئے قرآن ِمجید کے بعد سب سے اہم مصدر احادیث ِنبوی ﷺ ہیں ۔ اللہ تعالی نے قرآن ِمجید کے حوالہ سے ساری ذمہ داریاں اپنے ذمہ لے لی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالی کی جانب سے جو بھی احکامات حدیث کی شکل میں آئیں انھیں پوری امانت کے ساتھ امت کے حوالے کردیا ۔ آپ کے بعد صحابہ کرامؓ کی جماعت نے اس عظیم مشن کو آگے تک پہنچایا ۔ اسکی تکمیل کے لئے اسلاف ِکرام اور محدثین ِعظام نے اپنی زندگیوں کو اس مقصد کے لئے قربان کردیا ۔ یہاں تک کہ یہ احادیث کتاب اور مجموعوں کی شکل میں محفوظ کرلی گئیں ۔
برصغیر ہند میں حدیث ِنبوی کے حوالہ سے ایک نگاہ ڈالنے پر ابتداء میں مایوس کن نتائج کا سامنا ہوتا ہے ۔ کسی بھی علم اور فن کی ترویج کا اہم ذریعہ درس وتدریس ہے ۔ برصٖغیر میں تقریبا بارھویں صدی عیسوی تا انیسویں صدی تک حدیث کے نام پر صرف ’مشارق الانوار‘ اور ’مشکوۃ المصابیح ‘ پڑھائی جاتی تھی ۔
جناب رشید احمد ارشد صاحب برصغیر کے علما ئے کرام کی حدیث سے کم توجہی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں ’’یہاں کے علماء حدیث کی اعلی تعلیم کو غیر ضروری سمجھنے لگے بلکہ اس میں انکی انتہائی معراج مشارق الانوار اور مشکوۃ الماصابیح پڑھائی جاتی تھی۔ اور یہ تعلیم بھی محض برکت حاصل کرنے کے لئے ہوتی تھی۔ اس کا مقصد مسائل کا استنباط اور فقہی اثبات نہ ہوتا تھا۔‘‘(پاک وہند میں اہلحدیث کی خدمات ِحدیث ، ص : ۰۱)
اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حدیث ِنبوی کے متعلق اس زمانہ میں سلوک کس طرح کا تھا ۔ علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کہتے ہیں ’’عہد ِتغلق میں علم ِحدیث کے ساتھ لوگوں کو جو بے اعتنائی تھی اس کا انداز ہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے سلطان غیاث الدین کے زمانہ میں مسئلہ سماع کی تحقیق کے لئے ایک مجلس منعقد ہوئی ۔ مناظرہ کے فرقے شیخ نظام الدین سلطان الاولیاء تھے اور دوسری طرف تمام علماء ۔ شیخ کا بیان ہے کہ جب میں کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو علماء بڑی جرات اور بے باکی سے کہتے تھے کہ اس ملک میں حدیث پر فقہی روایت مقدم سمجھی جاتی ہے ۔اور کبھی کہتے کہ چونکہ اس حدیث سے شافعی نے استدلال کیا ہے اور وہ ہمارے مخالف ہیں اس لئے ہم اسکو حدیث نہیں مانتے ‘‘(مقالات سید سلیمان ندوی ، علم الحدیث ، فنی فکری اور تاریخی مطالعہ ، ص :۴۷)
علماء اور فقہاء کے اس رویے کے پیش ِنظر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں لکھتے ہیں کہ ’واشتغالہم بعلم الحدیث قلیل قدیما وحدیثا‘ کہ یہاں کے اہل علم کا ماضی اور حال میں علم حدیث سے بہت کم واسطہ اور تعلق رہا ہے۔ عمدۃ الرخایہ کے مقدمہ میںبھی مولانا عبدالحی لکھنوی نے بھی اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے ۔
نصاب ِتعلیم کا درست ہونا کسی قوم کو ترقی کے اعلی منازل تک لے جاسکتا ہے لیکن ایک غیر مناسب نصاب ِتعلیم قوم کے اعلی نفوس کو بھی بے کار اور کند بنا کر چھوڑ دیتا ہے ۔ برصغٖیر میں اسلامیا ت کے حوالہ سے جو نصاب ِتعلیم تھا اسے مولانا عبد الحی چار ادوار میں اور مولانا ابو الحسنات ندوی نے پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے :
پہلا دو ر : بارھویں صدی عیسوی تا پندرھویں صدی عیسوی کے درمیان تقریبا دو سو سال ۔
دوسرا دور : ۱۴۸۹ءسکندر لودھی کی تخت نشینی سے ۱۶۴۲ء شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کے عہد کے ختم ہونے تک ۔
(برصغیر پاک وہند کے قدیم عربی مدارس کا نظام ِتعلیم ۔ ص: ۴۱)
؎ ان دو ادوار میں نصابِ تعلیم میں صرف مشارق الانواراور مشکوۃ المصابیح تھے۔
تیسرا دور : میر فتح اللہ شیرازی کا دربار ِاکبر ی میں آمد سے ہوتا ہے ۔ ۱۶۰۵ء جو کہ شاہ ولی اللہ پر ختم ہوتا ہے ۔
اس دور میں مشکوۃ المصابیح (مکمل) شمائل ترمذی (مکمل) اور صحیح بخاری (کچھ حصے ) نصاب ِتعلیم میں شامل تھے ۔
چوتھا دور : بارھویں صدی ہجر ی سے شرو ع ہوکر تقریبا عہد ِمغلیہ تک جاری رہتا ہے ۔اس دور میں علم حدیث پھر تنزلی کا شکار ہوا۔ نصاب میں صر ف مشکوۃ ہی شامل رہی ۔
پانچواں دور : مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی۱۸۵۷ ء میںتقریبا حدیث کی تمام اہم کتابیں نصاب میں داخل ہوگئیں جن میں کتب ِستہ ، موطا مالک ؒ ومحمد ؒ وغیرہ قابل ِذکر ہیں ۔
ان ادوار کا تذکرہ اسلئے ضروری سمجھا گیا کہ کسی بھی علم اور فن کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اس وقت ان علوم کے تراجم بھی روبہ عمل ہوتے ہیں ۔ اگر حدیث سے ہی اتنی بے توجہی تو تراجم ِحدیث کا خیال بھی بے جا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء میں حدیث کے ایسے بھی خدمت گزار گزرے ہیں جنھوں نے اس تاریک دور میں علم حدیث کی شمع روشن کی اور اہل ِوطن تک رسائی کے لئے ان کی زبان میں بھی ترجمہ کیا ۔
پہلا نا م شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ (۱۵۵۱ ء تا۱۶۴۲ء)کا آتا ہے ۔
آپ نے تقریبا احادیث ِنبوی ﷺ کے پانچ مجموعوں کے ترجمہ کئے جو کہ درجہ ذیل ہیں :
۱)الطریق القویم فی شرح الصراط المستقیم : یہ فارسی ترجمہ وشرح ہے ۔ ایسے احادیث کا مجموعہ ہے جن میں نبی کریم ﷺ کی زندگی ، کردار عادات واخلاقی تعلیمات سے متعلق ہیں ۔ یہ ترجمہ دہلی میں ۱۶۰۳ء کو مکمل ہوئی ۵۵۸۱ء میں لکھنو سے شائع ہوئی ۔ ( علوم الحدیث ، فنی فکری اور تاریخی مطالعہ ۔ص:۷۶)
۲)اشعۃ اللمعات فی شرح المشکوۃ : یہ مشکوۃ المصابیح کی شرح وترجمہ ہے ۔ جو نول کشور پریس لکھنو سے ۱۹۱۳ء میں پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ۔۱۶۱۵ء کے وسط میں شروع کیا اور ۱۶۲۵ ء کو دہلی میں ختم ہوا ۔ (ایضا : ص ۵۶۱)
۳) ماثبت بالسنۃ فی ایام السنۃ : اس کتاب میں ہمہ قسم کی احادیث کا ترجمہ ہے ۔ اس کو عبدالحق محدث دہلوی ؒ کی فارسی تصانیف کا ضمیمہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہ کتاب ۱۸۳۷ء میں کلکتہ اور۱۸۸۹ ء لاہور سے شائع ہوئی ۔ (ایضا ص :۱۴۱)
۴) ترجمۃ الاحادیث الاربعین : اس رسالہ میں ایسی چالیس احادیث کا ترجمہ ہے جن میں بادشاہوں اور شہزادوں پر تنبیہ وارد ہے ۔ (ایضا ص :۲۴۳)
۵) دستور فیض الفوت : یہ رسالہ نبی اکرم ﷺ کے لباس سے متعلق وارد احادیث کے ترجمہ پر مشتمل ہے ۔ (ایضا ص :۴۴۳)
شیخ عبد الحق محدث نے ان پانچ احادیث کے مجموعوں کا ترجمہ کیاہے ۔ غالبا یہ برصغیر میں احادیث ِشریفہ کے اولین مترجم ہیں ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (۱۷۶۲ء)
آپ ؒ کانام اس سلسلہ میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے بعد آتا ہے ۔ شاہ صاحب امام مالک ؒ سے بہت متاثر تھے ۔ موطا امام مالک کا آپ نے ترجمہ وشرح بزبان عربی وفارسی کیا ۔ فارسی ترجمہ وشرح کا نام المصفی ہے جسکو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ (علوم الحدیث ، ص :۹۷۶)
نواب صدیق حسن خان بھوپالی (۱۸۳۲ء-۱۸۹۰ء)
آپ کی خدمات احادیث کے باب میں برصغیر میں ناقابل ِفراموش ہیں ۔ آپ ؒ مشہور زمانہ ابن حجر ؒ کی کتاب بلوغ المرام کا فارسی میں ترجمہ کیا اور اسکی شرح بھی کی ۔ جو کہ’’ مسک الختام ‘‘کے نام سے بھی شائع ہوئی ہے ۔
ابراھیم بن عبد العلی آروی (۱۸۱۸ء تا۱۹۰۱ء)
آپ ؒ نے’ ’طریق النجاۃ‘‘ کے نام سے مشکوۃ المصابیح کا ترجمہ کیا ۔
ابوالحسن سیالکوٹی (وفات۱۹۰۷ء)
ترجمہ کے باب میں آپکی خدمات قابل ِذکر ہیں ۔ درج ِذیل کتب ِاحادیث کے آپ نے ترجمہ کئے ہیں :
۱) فیض الباری فی شرح والترجمۃ صحیح البخاری : یہ صحیح البخاری کی مشہور شرح جوکہ ابن حجر نے فتح الباری کے نام سے کی تھی ۔ اسکا مکمل اردو ترجمہ ہے جوکہ تیس پاروں پر مشتمل ہے۔ اور اسکو مولانا فقیر محمد نے مطبع محمدی لاہورسے شائع کیا ہے ۔
۲) ترجمہ تیسیر الاصول ۔
۳) فیض الستار یہ امام محمد کی کتاب کتاب الآثا ر کا اردو ترجمہ ہے ۔
۴) ترجمہ مشکوۃ المصابیح ۔
(علوم الحدیث فنی ،فکری وتاریخی مطالعہ ص :۹۸۶ عبدالروف ظفر )
مولانا وحید الزماں۱۸۵۰ء تا ۱۹۲۰ء)
کتب ِاحادیث کے اردو تراجم کے حوالہ سے آپکا نام سرفہرست ہے ۔ آپ نے تقریبا چھ احادیث کے مجموعوں کو اردو کا قالب پہنایا ہے ۔
۱) کشف المغطا عن الموطا (ترجمہ موطا امام مالک ؒ )
۲) الھدی المحمود (ترجمہ سنن ابی داود )
۳) المعلم (ترجمہ صحیح مسلم )
۴) تسہیل القاری (شرح وترجمہ صحیح البخاری )
۵) رفع الھجاجۃ عن ابن ماجۃ (ترجمہ سنن ابن ماجۃ )
۶) روضۃ الرمی من ترجمۃ المجتبی (سنن النسائی کا ترجمہ )
(علوم الحدیث ،ص : ۷۹۶)
عبدالتواب ملتانی(۱۱۸۷ء تا ۱۹۴۷ء)
آپ نے درج ِذیل تین کتابوں کے ترجمہ کئے ہیں :
۱) ترجمہ وشرح مشکوۃ المصابیح ۔
۲) ترجمہ صحیح البخاری ( صرف آٹھ حصے )۔
۳) ترجمہ بلوغ المرام : یہ ترجمہ آپ نے اپنے مطبع سلفیہ ملتان سے۱۹۲۵ء سے کیا جو دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔
(پاک وہند میں اہل حدیث کی خدمات ِحدیث ،ص :۷۹۴ )
شبیر احمد عثمانی(۱۸۸۵ء تا۱۹۴۹ء)
آپ نے’’ فضل الباری‘‘ کے نام سے بخاری کا ترجمہ اور شرح کی ہے ۔ (علوم الحدیث ، ص :۷۰۷)
مولانا عبداللہ روپڑی(۱۸۸۶ء تا ۱۹۶۴ء)
آپ نے مشکوۃ المصابیح کا اردو ترجمہ کیا اور اسکے حواشی لکھے جو کہ ابتدا تا کتاب القدر ہے ۔ (غیر مطبوعہ )(علوم الحدیث ص: ۹۰۷)۔
مندرجہ بالا علماء نے قبل آزادی کتب احادیث کے ترجمہ کئے ۔ علاوہ ازیں اُس دور میں کئی محدثین بھی پیدا ہوئے لیکن ان کی تصانیف منظر ِعام پر آنہ سکی۔ انکی خدمات کا دائرہ درس وتدریس تک محدود رہا ۔ خلاصہ بحث یہ کہ آزادی سے قبل احادیث کے تراجم پر زیاد ہ کام نہ ہوا جتنا کہ مابعد آزادی ہوا ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2015