بوقت ضرورت زبانوں کو سیکھنا
پوری امت پر فرض کفایہ یہ بھی ہے کہ بوقتِ ضرورت وہ دوسری قوموں کی زبان سیکھے، کیوںکہ ان کی زبان سے غافل رہے گی تو وہ ان کے علم و حکمت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ اسلام نے دوسری قوموں کی زبان سیکھنے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ یہ دوسری قوموں کے ساتھ افہام و تفہیم کا ذریعہ اور دعوتِ اسلام پھیلانے کا وسیلہ ہے۔ تمام زبانیں اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں، اللہ کا فرمان ہے:
{وَ مَآ أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہ لِیُبَیَّنَ لَہُمْ۔} [ ابراہیم:۴]
’’ ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائےہپ۔‘‘
رسولؐ عربی تھے، قرآن کی زبان عربی ہے، تاکہ قریش اسے اچھی طرح سمجھ سکیں، لیکن آپؐ کی دعوت عالمی تھی، اللہ کا ارشاد ہے:
{ تَبَارَکَ الّذِی نَزّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِ ہِ لیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔} الفرقان:۱]
’’ نہایت متبرک ہے جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہاں والوں کے لئے نذیر ہو۔ــ‘‘{وَ مَآ أَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ}[ الأنبیاء:۱۰۷] اے محمدؐ! ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ در اصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘
{قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللَّہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَاً۔۔۔}[ الأعراف:۱۵۸] ’’ اے محمدؐ! کہو کہ ـ’’ اے انسانوں! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں۔۔۔۔‘‘
جب اسلام کی دعوت عالمی دعوت ہے، تو ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں یہ دعوت دوسری قوموں تک ان کی زبان میں پہنچا سکیں۔ خود رسولؐ کے پاس ایسے صحابہ کرام موجود تھے جو فارسی، رومی، حبشی زبان جانتے تھے۔ یہود کی زبان سریانی جاننے والا کوئی نہیں تھا، تو رسولؐ نے انصاری صحابی حضرت زید بن ثابتؓ کو اسے سیکھنے کا حکم دیا، اور صرف نصف ماہ کے اندر وہ اس زبان کے ماہر ہو گئے۔ (۱۵) لگتا ہے کہ انصار کا یہود کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے حضرت زید بن ثابتؓ کو اس زبان سے معمولی سی واقفیت پہلے سے تھی، اسی لئے وہ تھوڑی سی مدت میں اس کے ماہر ہو گئے تھے۔
علم الاحصاء؍ اعداد و شمار کے علم (Statistics) پر عبور
علم احصاء ؍ اعداد و شماراور اس سے متعلق تمام علوم جو زندگی کے مراحل میں کام آتے ہیں پر عبور حاصل کرنا بھی علم کفایہ میں داخل ہے۔ کیوں کہ اس دور میں کسی بھی معاملہ کو سلجھانے اور اپنی بات کو دوسروں کے سامنے مدلل طور پر صحیح ثابت کرنے کے لئے اس کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ علم خاص طور سے کٹ حجتی کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ آپؐ نے مدینہ میں اسلامی ریاست کے ابتدائی دور میں ہی اس سے فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت حذیفہ بن یمان ؓسے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ :’’ ہم لوگ رسولؐ کے ساتھ تھے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’ احصوا لی کم یلفظ الاسلام؟‘‘ ’’ مجھے گن کر بتاؤ کہ کتنے لوگ اسلام کو ماننے والے ہیں۔‘‘
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ: آپؐ نے کہا:
’’ اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام من الناس؟ مجھے تحریری شکل میں بتاؤ کہ کتنے لوگ اسلام کے ماننے والے ہیں۔‘‘ حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ ـ ـ : ’’ فکتبنا لہ ألفاً و خمس مأۃ رجل۔‘‘ (۱۶) ’’ پس ہم نے ایک ہزار پانچ سو آدمی کا نام لکھ کر بتایا۔‘‘
اسلامی ریاست کے شروع میں علم احصاء ؍ اعداد و شمار کا ستعمال اس بات پر دلالت ہے کہ اسلام میں علمی وسائل کے استعمال کی بڑی اہمیت ہے۔ اور و ہ اعدادوشمار بھی کسی درجے میں تحریر کی شکل میں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ یہ علم مرتب ہوجائے تو اچھا ہو گا، تاکہ مسلمانوں کی قوت کا آپؐ کو اندازہ ہو ، جس کے ذریعہ آپؐ دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔ اسی لئے صرف مردوں یعنی جنگ پر قدرت رکھنے والوں ہی کی گنتی ہوئی۔
مستقبل کی منصوبہ بندی (planing)کا علم
دور حاضر میں مستقبل کی منصوبہ بندی کا علم حاصل کرنا بھی فرضِ کفایہ میں شامل ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ مستقبل کی جھلکیاں محسوس کی جاتی ہیں۔ اس علم کا انحصار قوم؍ ملک کی موجودہ ظاہری ، باطنی طاقت، اس کے پڑوسیوں سے تعلقات اور علمی تحقیق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ علم ظنی اور تخمینی ہے، قطعی اور یقینی نہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ اس علم سے غافل رہیں، جبکہ دوسری قومیں اس سے مکمل فائدہ اٹھارہی ہیں، اپنے بڑے بڑے مدبران،تنظیموں کو اس کام پر لگا رکھا ہے، با ضابطہ ہر ملک کے پاس اپنے اپنے پلاننگ کمیشن موجود ہیں۔
اسے مطلق علمِ غیب ( جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے) حاصل کرنے کی کوشش پر محمول نہ کیا جائے، جہاں تک بات غیبِ نسبی ( الغیوب النسبیۃ) کا تعلق ہے، جسے اللہ نے سنن الہی کے حدود میں رہتے ہوئے، بندوں کو مختلف وسائل کے استعمال کے ذریعہ معلوم کرنے کا راستہ بتایا ہے، وہ غیر شرعی نہیں ہے، بلکہ جائز ہے۔ یہ Meteorological observation (علم الأرصاد الجویۃ)کے مانند ہے، جوحرارت، گرمی،سردی، اور بارش وغیرہ کی خبریں فضاء میں تبدیلی کی بنیاد پر دیتا ہے، اور اس کی بنیاد پرماحولیات میں تبدیلی کی امید کی جاتی ہے۔ جب علم احصاء ؍ اعداد و شمار علمی طریقہ کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے تو مستقبل کی منصوبہ بندی بھی اسی طرح ہے، بلکہ وہ تو سب سے بڑی علمی علامت ہے، کیوں کہ مستقبل کی منصوبہ بندی کا انحصارعلم احصاء ؍ اعداد و شمار پر ہوتی ہے۔مستقبل کی منصوبہ بندی کا مقصد ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہے جو مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کر سکے اور متعینہ اہداف کو پورا کرسکے۔
کچھ لوگ مستقبل کی منصوبہ بندی کو دین کے خلاف سمجھتے ہیں، در اصل یہ سوچ پرانی فکر کے اثر کا نتیجہ ہے، جب علم کو ایمان کے بالمقابل کھڑا کردیا گیاتھا، کہ یہ دونوںدو مختلف چیزیں ہیں جو کبھی اکٹھا نہیں ہو سکتیں۔ اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو جوہرِ دین مستقبل کی منصوبہ بندی پر قائم ہے، کیوں کی دیندار آدمی اپنے آج سے کل کے لئے زادِ راہ اکٹھا کرتا ہے، یعنی زندگی سے موت کے لئے، دنیا سے آخرت کے لئے، صحت سے مرض کے لئے، تاکہ اصل مقصود یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کا ثبوت حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں بھی ملتا ہے، جسے اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ بادشاہِ وقت نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیوں کو سات دبلی گائیں کھارہی ہیں، اور اسی طرح سات ہری اور سات سوکھی دانے کی بالیاں دیکھیں۔ یوسفؑ نے اللہ کے عطا کئے ہوئے علم کے مطابق بتایا کی سات سال خوشحالی رہے گی اور اس کے بعدسات سال قحط سالی کا زمانہ رہے گا، پھر رفاہ کا زمانہ آجائے گا۔ اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے یوسفؑ نے ۱۵ سال کے لئے زرعی منصوبہ بندی کی۔ قرآن کے اندر یہ قصہ اس طرح ہے:
’’ ایک روز بادشاہ نے کہا’’ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیاں ہری ہیں اور دُوسری سات ُسوکھی،……. یُوسفؑ نے کہا کہ ’’سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہوگے، اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو، ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے نکالو اور باقی کو اس کی بالیوں ہی میں رہنے دو۔پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہ کھالیا جائے گا جو تم اس وقت کے لئے جمع کروگے۔ اگر کچھ بچے گا تو وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو، اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی، اور وہ رس نچوڑیں گے۔‘‘[ یوسف:۴۳،۴۷-۴۹]
بعض لوگ مستقبل کی منصوبہ بندی کو توکل علی اللہ اور قضا و قدر پر ایمان کے منافی سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ خود بھی اس سے بھاگتے ہیں،اور اس پردوسرے لوگوں کو بھی ابھارتے اور آمادہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر گہرائی سے اسلام کا مطالعہ کریں تو یہ توکل علی اللہ کے خلاف نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں توکل یہ نہیں ہے کہ ان ظاہری اسباب اور سنن سے غفلت برتا جائے جن پر اللہ نے اس نظام کو قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اس اعرابی کا واقعہ یاد رکھنا چاہئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرا پنی اونٹنی مسجد کے باہر چھوڑ دی،اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنی اونٹنی کو باندھ دوں پھر توکل کروں، یا چھوڑ دوں اور پھر توکل کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ اعقلہا و توکل۔‘‘ (۱۷) اسے باندھ دو، پھر توکل کر۔
امام طبریؒ ان لوگوں کا رد کرتے ہیں جو اسباب کو ترک کرنے کو توکل کا اعلی مقام تصور کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اور یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا، وہ اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے ، اپنے توکل کے اندر اسباب و وسائل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل نہ کرے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب (غزوہ کے لئے) نکلتے توزرہیں پہنتے اور سرپر خود پہنتے ۔ اور تیر اندازوں کو گھاٹی کے منہ پر بیٹھایا، مدینہ کے ارد گرد خندق کھدوائی، حبشہ اور مدینہ ہجرت کر نے کی اجازت دی، بلکہ خود بھی ہجرت کی۔ کھانے پینے کے اسباب کو اپنایا، اپنے گھر والوں کے لئے زاد [Food stuff]‘‘ ذخیرہ کیا، اور یہ انتظار نہیں کیا کہ آسمان سے ان پر یہ [ چیز] نازل ہوگی، حالانکہ وہ مخلوق میں سب سے زیادہ اس بات کے حقدار تھے کہ ان کے لئے یہ [ چیز آسمان سے ]حاصل ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اللہ پر سب سے زیادہ توکل کرنے والے تھے، لیکن ساتھ ہی ہر کام منصوبہ بند طریقے سے کرتے تھے اور ممکن حد تک اسباب و وسائل اختیار کرتے تھے۔ چناںچہ جب قریش نے مسلمانوں کی ایذا رسانی میں حد کردی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم آناً فاناً نہیں دیا تھا، اس وقت حبشہ کے ، جغرافیائی ،سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے دیا تھا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ مواصلات کے عدم موجودگی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ دنیا کے حالات سے ناواقف نہیں تھے۔ اس کا مزید ثبوت اس وقت کی دو بڑی عظیم عالمی طاقتوں روم اور فارس کے درمیان جنگ کے تعلق سے مسلمان اور کفارِ قریش کے موقف میں ملتا ہے۔ رومیوں کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمان ان کی فتح کے خواہش مند تھے، تو اہل فارس کے کافر ہونے کی وجہ سے کفارِ قریش ان کی فتح کے خوہش مند تھے۔ سورہ ’’روم‘‘ کی ابتداء میں اس کا یوں ذکر ہے:
’’ ا۔ل۔م۔رُومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے، اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘[الروم:۱-۸]
یہ واقعہ اسلام کے ابتدائی دور کا ہے، جب مسلمان کمزور اور مظلوم تھے۔ اس کے باوجود وہ عالمی حالات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان جاری جنگ پر ان کی نگاہ تھی، کہ کس کی جیت ہوتی ہے اور حالات کیسے بدلیں گے، یا اپنی جگہ برقرار رہیں گے، پھر ان حالات کا ان پر کیا اثر پڑیگا؟مستقبل کی منصوبہ بندی کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے واقعہ میں بھی ملتا ہے۔ اس کے اندر منصوبہ بندی اور توکل علی اللہ پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ آپ نے ہجرت سے قبل اس کے لئے تمام احتیاطی تدابیر کرلیں جو اس وقت ضروری تھیں۔ اوس وخزرج سے بیعتِ عقبہ اولی اور ثانیہ کیا، ان سے اپنی جان و مال کی حفاظت کی شرط رکھی، کہ وہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی ہی حفاظت کریں گے جیسی وہ اپنی اور اپنے آل واولاد کی کرتے ہیں۔ پھر مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا۔
اپنے سفر کے ساتھی کے لئے حضرت ابو بکر ؓکا انتخاب کیا، اور قریش کو چکمہ دینے کے لئے اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو سلا دیا۔ ایک امانت دار غیر مسلم راستہ بتانے والے شخص عبد اللہ بن اریقط کو تیار کیا۔( اس واقعہ سے فقہاء یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب کسی غیر مسلم پر بھروسہ ہو تو اس سے غیر اسلامی فن سیکھا جاسکتا ہے۔) سواریوں کا انتظام کیا تاکہ وہ ان کے رفیق اور عبد اللہ بن اریقط سوار ہو کر مدینہ جا سکیں، پھر ایک جگہ کا انتخاب کیا، جہاں وہ لوگ سوار ہوں گے۔کچھ دن چھپنے کے لئے ایک خفیہ مقام کا انتخاب کیا تاکہ قریش کی شدت تلاش کم ہوجائے اور وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش سے مایوس ہوجائیں۔ وہ جگہ غار ثور تھی، جو مدینہ کے راستہ پر نہیں بلکہ اسکے مخالف سمت پر تھی، تاکہ اس طرح قریش دھوکے میں رہیں۔اس کے بعد حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ اور حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کو اس کام پر لگا یا کہ وہ کھانا اور اہل مکہ کی خبریں غار ثور تک لایا کریں، پھر حضرت ابو بکرؓ کے غلام حضرت عامر بن فہیرؓہ کو اس کام پر متعین کیا کہ وہ غار ثور تک بکریاں لایاکریں تاکہ وہ لوگ دودھ حاصل کر سکیں، ساتھ ہی ساتھ ان کو اس کام پر بھی لگایا کہ وہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ اور حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کے قدموں کے نشانات کو مٹادیا کریں تاکہ کسی کو کسی طرح کا شک نہ ہو۔آپؐ نے منصوبہ بندی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، اور ہر مجاہد (یعنی شخص) نے اپنا اپنا رول ادا کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کا رول حضرت علی ؓسے مختلف تھا، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ اور حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کا رول حضرت عامر بن فہیرؓہ سے الگ تھا، اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ صحیح کام کر رہاتھا۔
ان تمام تدابیر کے باوجود قریش غار ثورکے منہ تک پہنچ گئے اور قریب تھا کہ راز فاش ہوجائے اور تمام تدابیر اور منصوبوں پر پانی پھرجائے۔ حضرت ابو بکرؓ کو اس وقت بڑی تشویش لاحق ہوئی، اور کہا کہ اے رسول اللہ ! اگر مشرکین میں سے کوئی اپنے پیر کے نیچے دیکھ لے تو وہ ہم لوگوں کو دیکھ لے گا۔ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے توکل علی اللہ سے بھرا ہوا مؤمنانہ جملہ نکلا۔ ’’ و ما ظنک یا أبا بکر باثنین، اللہ ثالثہما‘‘ (۱۹) قرآن نے اس واقعہ کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللَّہُ اِذْ أَخْرَجَہَ الّذِیْنَ کَفَرُوْا ثاَنِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللَّہَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ وَ أَیَّدَہَ بِجُنُوْدٍ لَمْ تَرَوْہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ السُّفْلَٰی وَ کَلِمَۃُ اللَّہِ ہِیَ الْعُلْیَا۔ وَ اللَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ٭}[التوبۃ:۴۰]
’’تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پرواہ نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ ’’ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔‘‘
در اصل یہی توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم ہے کہ مؤمن اپنی استطاعت کے مطابق تمام تدابیر کر لے، پھر اللہ پر بھروسہ کرے اور کہے کہ { اِنَّ اللَّہَ مَعَنَا}[التوبۃ:۴۰] اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
ماہرین فن سے علم سیکھنا
مسلمانوں پر یہ بھی فرض کفایہ ہے کہ ہر نفع بخش علم کو سیکھے، وہ علم چاہے غیر مسلم کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مشرکین قیدیوں کے علم سے فائدہ اٹھایا اور ان کی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ وہ لوگ مسلم بچوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دیں۔ انصاری صحابی حضرت زید بن ثابت ؓنے ان سے ہی علم حاصل کیا تھا، جو بعد میں کاتب وحی اور حضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں مرتب قرآن بنے۔
امام ترمذیؒ، امام ابن ماجہؒ نے ضعیف سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کی ہے کہ:
’’ الکلمۃ الحکمۃ ضالّۃ المؤمن،أنی وجدہا فہو أحق بھا‘‘(۲۰)
’’ حکمت بھری بات مؤمن کا گمشدہ سرمایا ہے، جہاں اسے یہ ملے، وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
اگر چہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے لیکن معنی کے لحاظ سے قوی ہے۔حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’ العلم ضالّۃ المؤمن، فخذوہ و لو من أید المشرکین۔‘‘(۲۱)
علم مؤمن کا گمشدہ سرمایا ہے، اسے حاصل کرو، اگر چہ مشرکین کے ہاتھوں ہی کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔‘‘
اس سے مراد مادی علوم ہیں، اسی وجہ سے مسلمانوں نے ہر دور میں دوسری قوموں کے مادی علوم سے فائدہ اٹھایا، چنانچہ انہوں نے یونان، فارس، روم ، ہندوستان اور بطور خاص یونان سے طب،کیمیاء، علم فلک، ریاضی وغیرہ کا علم حاصل کیا۔
جہاں تک دوسری قوموں کے دینی افکار لینے کا سوال ہے، اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔ امام احمد ؒنے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عمر ؓ کو یہودیوں کی دینی کتاب سے کچھ پڑھتے دیکھا، تو اپنی ناراضگی کا اظہار کیا، کیوں کہ اللہ نے قرآن کے ذریعہ تمام تحریف شدہ کتاب سے مسلمانوں کو بے نیاز کر دیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:
اے ابن عمرؓ! ’’کیا تم حیرت زدہ ہو؟[یعنی اپنے عقیدے میں شک کے شکار ہو، یہاں تک کہ تم اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کہیں اور سے علم لے رہے ہو۔] اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تمہارے پاس یہ[ اللہ کی کتاب جوگزرے ہوئے انبیاء پر نازل ہوئی] صاف ستھری لے کر آیا ہوں،تم ان سے کچھ مت پوچھو، پس وہ تمہیں صحیح بات بتائیں گے اور تم اسے جھٹلاؤگے، یا وہ تمہیں غلط بات بتائیں گے اور تم اسے سچ مان لوگے۔اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو وہ میری اتباع کرتے۔‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناراضگی کاا ظہار اس لئے کیا تھا کہ یہ معاملہ عقیدہ سے متعلق تھا، اور عقیدہ صر ف اور صرف صادق و مصدوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لینا تھا، یہ اسلام کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شدت برتی کہ ایسا نہ ہو کہ دین حق ، دین باطل سے خلط ملط ہوجائے۔ اگر صرف معلومات کے لیے دوسرے مذاہب کی دینی کتابیں پڑھی جائیں تو یہ منع نہیں ہے،اس کے ذریعہ سے دعوت اسلام مزید بہتر طریقے سے دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔دوسری قوموں کے دنیاوی علوم سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ جیسا کہ اوپر آچکا ہے کہ بدر کے مشرک قیدیوں کی مدد سے آپ نے مسلم امت کی جہالت دور کرنے کی کوشش کی۔ اہل فارس کا طریقۂ جنگ اپناتے ہوئے مدینہ کے دفاع کے لئے خندق کھودوائی، اسی وجہ سے اس غزوہ کا نام غزوۂ خندق پڑگیا۔ طائف کے گھیراو کے وقت منجیق کا استعمال کیا، ممبر پر خطبہ دیا،حالانکہ یہ ایک رومی بڑھئی کی صنعت تھی۔‘خلفائے راشدین نے امت کی بھلائی کو دیکھتے ہوئے کچھ ایسے علوم کو رائج کیا جنھیں عرب پہلے نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے سن ہجری،فن تاریخ اور فن دیوان کا ایجاد کیا۔ اسے مؤرخین اولیات عمرؓ میں شمار کرتے ہیں۔
بلکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ فن تدوین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ایجاد ہوگیا تھا، وہ حضرات آپؐ کے ذریعہعلم احصاء ؍ اعداد و شمار کے استعمال کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں (۲۳) ، جس کا ذکر پیچھے آچکا ہے۔
لہٰذا وہ تمام علوم جن کی بنیاد پر غیر اسلامی ملک عام طور پر اور مغرب خاص طور پر آج ترقی یافتہ ہے، سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ در حقیقت مغرب کے جدید علوم مسلمانوں کے علوم سے مستعار ہیں، وہ ان میں تہذیب و تدوین کرکے آج چاندتک پہونچ گئے اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ اگر ہم اسے سیکھتے ہیں تو یہ ہمارا کھویا ہواسرمایہ ہے جو ہماری طرف لوٹ کر آجائے گا(ہذہ بضاعتنا ردت الینا)؛ کیوں کہ اسلام میں علم سنورتا ہے بگڑتا نہیں، باقی رہتا ہے مرتا نہیں۔ جس شخص کو یہ علم حاصل ہو وہ وہی کہے جو حضرت سلیمانٌ نے اس وقت کہا تھا جب ایک بڑے جن نے ملکۂ سبا کا تخت پلک جھپکتے ہی ان کے پاس حاضر کردیا تھا۔
{ہَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِیْ أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفَرُ وَ مَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ۔ } [ النمل:۴۰]
’’ وہ پکار اٹھا ’’ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافرِ نعمت بن جاتاہوں۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے۔‘‘
نوٹ: اس مضمون کے اندر ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے، بلکہ بعض افکار ان سے ہی ماخوذ ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016