’’میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟‘‘ گیرڈا غصے سے بولی۔ ’’تم روزانہ سگریٹ کا پورا پیکٹ پی جاتی ہو پھر بھی پوری طرح صحت مند ہو! جب کہ میں نے کبھی اپنی پوری زندگی میں سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ پھر بھی مجھے پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا۔ یہ تو تمھیں ہونا چاہیے تھا، مجھے نہیں! ‘‘
گیرڈا کی ریگیا سے کہی گئی اس بات کا مجھے بہت برا لگا۔ میری بیوی کے لیے کینسر کی خواہش کرنا—اس کے لیے جس سے زیادہ مخلص، مہربان اور نرم دل ہستی میں نے نہیں دیکھی تھی۔ گیرڈا کی حالت چاہے کیسی بھی ہو، اس کی یہ بات بالکل نامناسب تھی۔
میں نے ریگیا سے کہا ، ’’یہ ایک کٹر ملحد کی عجیب و غریب بات ہے۔وہ شکایت کس سے کر رہی ہے؟ فطرت سے؟ یعنی وہ نہیں سمجھ سکتی کہ بگ بینگ کے بعد رونما ہونے والے اسباب و اثرات (causes and effects) کے تقریباً لامتناہی سلسلے اس کے کینسر میں مبتلا ہونے کی وجہ کیوں ہیں؟ اگر وہ کسی خدا کے وجود کی قائل نہیں ہے، تو زندگی کے لاتعداد حادثات سے خود کو خارج کیوں سمجھتی ہے؟ ‘‘
گیرڈا نے ہمیں جرمنی سے فون کیا تھا، جہاں وہ علاج کی غرض سے گئی تھی۔جاتے وقت جب اس نے مجھ سے کہا کہ ’’کیا آپ میرے لیے دعا کریں گے؟‘‘ تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔
اگرچہ میں نے گیرڈا سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں ضرور اس کے لیے دعا کروں گا، لیکن میں سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے لیے خود دعا کرتی تو یہ اس کے حق میں زیادہ مفید ہوتا۔
’’اگر میں اس موذی مرض سے نجات پالوں، تو سنجیدگی سے مذہب کا مطالعہ کروں گی،‘‘ اس نے پرعزم اور جذبات سے مغلوب لہجے میں کہا۔
جرمنی میں گیرڈا کے ڈاکٹروں نے اس پر ایک بالکل نیا طریقہ علاج آزمانا شروع کیا۔ اگرچہ اس کا کینسر کافی آگے بڑھ چکا تھا، اور انھیں اس کے بچنے کی امید بھی کم تھی، لیکن علاج بظاہر کام یاب رہا۔ وہ پوری طرح ٹھیک ہوکر لارنس لوٹ آئی۔ بیماری کے ساتھ اس کی لڑائی نے واقعی گیرڈا میں زبردست تبدیلی پیدا کردی تھی۔ لیکن یہ تبدیلی ویسی نہیں جس کی ہمیں توقع تھی۔
جہاں تک میں کہہ سکتا ہوں اس نے ’’مذہب کا سنجیدہ مطالعہ‘‘ کرنے کے اپنے وعدے پر کبھی عمل نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح ایک ہٹ دھرم اور جارح ملحد رہی۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ بہت سے منکرینِ حق بحرانی حالت میں لمحاتی طور پر اپنا ذہن بدل لیتے ہیں (قرآن نے انسان کی اس فطرت کا ذکر متعدد آیات میں کیا ہے، مثلاً ۱۰:۱۲، ۱۶:۵۳، ۱۷:۶۷، ۲۹:۶۵، ۳۰:۳۳، ۳۱:۳۲، ۳۹:۸، ۳۹:۴۹) لیکن اس کا زندگی کے تئیں نقطہ نظر ڈرامائی طور پر بدل چکا تھا۔ گیرڈا ہمیشہ اپنے دوستوں کی قدر کرتی تھی اور ان کے تئیں بہت وفادار اور فراخ دل واقع ہوئی تھی۔ جب بات چیت میں یہ نکتہ آیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’یہ میری ایک بہت بڑی بھول تھی۔ میں جان چکی ہوں کہ زندگی کتنی قیمتی ہے۔یہ میری حماقت تھی کہ میں نے دوسروں کے لیے خود کو اتنا کھپا رکھا تھا۔ اب میں دوبارہ ایسا نہیں کرنے والی۔‘‘
گیرڈا کو صحت یابی کا پروانہ دینے کے تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اس کے ڈاکٹروں نے پایا کہ اس کا کینسر لوٹ آیا ہے۔ اس بار انھوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ بیماری بہت آگے بڑھ چکی ہے۔
’’یہ کیسا خدا ہے جو میرے ساتھ ایسا کر رہا ہے،‘‘ اس نے اچانک ایک دن میری بیوی کو فون کرکے شاکی لہجے میں کہا۔
ریگیا عام طور پر گیرڈا کی مذہب مخالف باتوں کا جواب نہیں دیتی تھی۔ اگر گیرڈا مذہب کے موضوع پر سکون اور احترام کے ساتھ بات کرنا چاہتی تو ریگیا ضرور بات کرتی۔ لیکن اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اس کا رویہ ہمیشہ طنزیہ اور جارحانہ رہتا تھا، اس لیے ریگیا اسے نظر انداز کرناہی بہتر سمجھتی تھی۔
’’شاید خدا تمھیں ایک اور موقع دے رہا ہے۔‘‘ ریگیا گویا ہوئی۔ اپنی اس بات پر وہ خود حیرت میں پڑ گئی۔
گیرڈا ایسی باتوں پر چپ رہنے والوں میں سے نہیں تھی، خاص طور پر مذہبی موضوع پر۔لیکن نہ جانے کیوں اس دن وہ خاموش اور فکر مند رہی۔ شاید اس کی وجہ اس کی بگڑتی ہوئی حالت ہو۔
اپنی بیماری کے آخری چند مہینوں کے دوران گیرڈا نے خود کو اپنے دوستوں سے الگ تھلگ کر لیا تھا۔ اس نے فون پر ریگیا کو بتایا کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے ’’اس طرح‘‘ دیکھے۔ گیرڈا اور اس کے شوہر کینساس یونیورسٹی میں ریاضی کے شعبے میں استاد تھے۔ مجھے اس کے انتقال کی خبر ایک ڈیپارٹمنٹ میمورنڈم سے ملی جس میں کہا گیا تھا کہ اس کا خاندان اس کے لیے کوئی تعزیتی پروگرام نہیں رکھے گا، اور اگر کوئی تعزیت کرنا ہی چاہتا ہے تو وہ اس اسکالرشپ فنڈ میں عطیہ دے کر کرسکتا ہے جو گیرڈا کے شوہر نے اس کی یاد میں قائم کیا ہے۔
‘‘*
انسانی مصائب نے ہمیشہ مذہبی فکر کے لیے ایک بہت بڑا مخمصہ کھڑا کیا ہے۔ کیا یہ اکتائے ہوئے، اذیت پسند اور دشمن خداؤں کی تفریح کا ذریعہ ہیں؟ کیا یہ ہماری گناہ گار طبیعت کی سزا ہیں؟ کیا یہ ایسی چیز ہیں جن سے ہمیں مامون کیا جانا چاہیے تھا؟ کیا یہ مخلوق کی روحانی تربیت کا لازمی جز ہیں؟ کیا یہ بے خدا کائنات میں رونما ہونے والے حادثاتی اتفاقات کی پیداوار ہیں؟
ان تمام سوالات کو کرتے وقت یہ بات فرض کرلی جاتی ہے کہ انسانی مصائب نقصان دہ اور ناپسندیدہ ہیں۔ یہ فطری ہے، کیوں کہ یہ مصیبت زدہ انسان کے زاویہ نگاہ کی عکاسی کرتی ہےجو مصائب کی وجہ سے خود کو مظلوم تصور کرتا ہے۔
تاہم قرآن انسان کے دنیاوی مصائب کے بارے میں بالکل مختلف نقطہ نظر رکھتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ انسانی ارتقا کے عمل کے لیے ایک لازمی اور کلیدی عنصر ہے، اور ہم سب خواہ نیک ہوں یا بد، گنہ گار ہوں یا صالح، مومن ہوں یا کافر، ان کا مزہ چکھیں گے اور ضرور چکھیں گے۔
اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمائش کریں گے ۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں۔ اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ ‘‘ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے ’’ اُنہیں خوش خبری دے دو ۔ (سورۃ البقرہ:۱۵۵-۱۵۶)
چناں چہ ہر شخص کو تکلیفوں، گھاٹے، دکھ اور آفات ارضی کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ مذہبی لحاظ سے کسی بھی زمرے میں ہو۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک کھلا اعتراف ہے، لیکن یہ بیان کہ ’’جو لوگ صبر کریں انھیں خوش خبری دےدو،‘‘پہلے پہل مجھے انسانی مصائب کو بیان کرنے والی اس آیت میں انتہائی غیر سنجیدہ اور بے حسی پر مبنی محسوس ہوا۔ کیا قرآن ان دردناک تکلیفوں اور شدید مصائب سے بے خبر ہے جو انسانوں کو پہنچتے ہیں؟ یہ کہتا ہے کہ زندگی کی سختیوں پر ہم جس طرح رسپانڈ کریں گے وہ ہمارے حق میں انتہائی مفید ہوسکتا ہے، اور یہ رسپانس ناگزیر طور پر ہماری آخرت کی زندگی کی حالت سے مربوط ہے۔
پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا حالاںکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے ، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے ، حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔(اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ (سورۃ البقرہ: ۲۱۴)
میں اس آیت پر آکر رک گیا اور اسے کئی بار پڑھا۔ میں نے سوچا کہ مصیبتوں اور سختیوں کا جنت سے کیا واسطہ؟ کیوں نہ ہمیں اس زمینی مرحلے سے یوں ہی گزار کر جنت کو لوٹادیا جائے؟
’’ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ مل جائے گا حالاںکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے ، جو تم سے پہلے کے لوگوں پر گزر چکا ہے۔‘‘
اس آیت میں کیا کہا جارہا ہے؟ ایسی کون سی بات ہے جو میری نظروں سے اوجھل ہے؟
’’ ان پر سختیاں گزریں ، مصیبتیں آئیں ، ہلا مارے گئے ، حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔(اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
نوٹ کریں کہ انسانی مصائب کی یہ تصویر سچے ایمان والوں کی ہے۔ ’’وقت کا رسول اور اس کے ساتھی ،‘‘ اور انھیں شدید مصائب سے گزرنا پڑا۔ اتنے شدید کہ ہلا مارے گئے اور چیخ اٹھے کہ ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ نیک لوگوں کو آخر کس لیے سختی اور خوف کے مراحل سے گزرنا پڑے گا؟ ہمیں نازک اور کم زور وجود کے ساتھ کیوں رہنا پڑے گا۔
’’ تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی ‘‘ (سورۃ آل عمران: ۱۸۶)
میں نے سوچا کہ جب ہمیں دوبارہ زندہ کیا ہی جانا ہے، تو پھر موت دینے کی ضرورت کیا ہے؟
ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں ۔ آخر کار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۳۵)
بار بار قرآن یاد دہانی کراتا ہے، خاص طور پر ان آیات میں جن میں انسان کے ارضی مصائب کی لازمیت پرزور دیا گیا ہے کہ ہم خدا کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ لیکن کیا دکھوں اور مصائب سے ہم لازماً خدا کا قرب پالیتے ہیں؟
اے انسان ! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔ (سورۃ الانشقاق: ۶)
ہم کیسے کشاں کشاں اپنے رب کی طرف ملاقات کے لیے جارہے ہیں؟ ہمارے دکھ ہمیں خدا سے قریب کیسے کرتے ہیں؟ مجھے دعویٰ تو ملا، لیکن جواب ندارد۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ قرآن اصرار کرتا ہے کہ مصیبتیں انسانی ترقی میں اہم عنصر ہیں، پھر بھی میں یہ نکتہ نہیں پاسکا کہ ایسا کیوں ضروری تھا۔
در حقیقت ! ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے : میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟ کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور کیا دونوں نمایاں راستے اسے ( نہیں ) دکھا دیے؟ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو ! کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟کسی گردن کو غلامی سے چُھڑانا ،یا فاقے (بھوک) کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کرنے کی تلقین کی۔(سورۃ البلد: ۴-۱۷)
یہ میرے لیے ان خوف ناک اورچشم کشا آیات میں سے ایک تھی، جو پورے قرآن میں جابجا پھیلی ہوئی ہیں، ایک غیر متوقع زاویے سے دوسرے زاویے کی جانب یکایک ڈرامائی طور پر جست کرنے والی آیات۔ ایسی آیات جن کے ساتھ میری سخت کشمکش رہی ہے۔ اس دعوے نے کہ ’’ در حقیقت ! ہم نے انسان کو مشقتیں اٹھانے ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ مجھے اندر سے ہلاکر رکھ دیا۔ حالاں کہ غور کرنے پر میں نے پایا کہ یہ بات قرآن کی اب تک کی پیش کردہ ہر چیز کے عین مطابق ہے۔ یہ کوئی اتفاق ہو یا عظیم الشان منصوبہ، میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ بنی نوع انسان جدوجہد کے لیے خاص طور پر موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری نوع نے مصائب اور جدوجہد ہی کی بنیاد پر تاریخ میں ارتقا کے مراحل طے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ جب کوئی مشکل نہ ہو تب بھی ہم خودساختہ چیلنجوں کی شکل میں ہر لحظہ ان سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانوں کو تکلیف کا ’’سامنا کرنے کے لیے‘‘ پیدا کیا گیا ہے، پھر بھی قرآن یہاں اس بات پر زور نہیں دیتا کہ ان آزمائشوں اور مصیبتوں نے انسانی ترقی میں کیا کردار ادا کیا۔ قرآن کی توجہ ان مصائب و مشکلات کے اخلاقی و روحانی نتائج پر زیادہ ہے، اور یہ ان کے ممکنہ منفی اثرات کے بارے میں انتباہ سے اپنی بات شروع کرتا ہے۔ جدوجہد—جو کام یابی یا ناکامی پر منتج ہوتی ہے، بالترتیب گھمنڈ یا مایوسی کا باعث بن سکتی ہے، اور دونوں صورتوں میں خدا آگہی یا خدا کی قدرت پر یقین، اور بعض اوقات تشکیک یا الحاد کی جانب لے جاتی ہے۔ چناں چہ قرآن کہتا ہے:
’’اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا؟کہتا ہے : میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟‘‘
پچھتاوے سے بھرا بیان کہ ’’میں نے بہت دولت ضائع کر دی‘‘ عارضی نتائج کی تگ و تاز میں زندگی کو ضائع کرنے کی علامت ہے۔
’’کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟ اور کیا دونوں نمایاں راستے اسے ( نہیں ) دکھا دیے؟‘‘
قرآن میں ایسی کئی آیات [سورۃ الاعراف: ۱۹۵؛ سورۃ النحل: ۷۸؛ سورۃ الحج: ۴۶؛ سورۃ السجدۃ: ۹؛ سورۃ الاحقاف:۲۶؛ سورۃ الملک: ۲۳] ہیں جن میں کان، آنکھ اور دل (جو عام معنی میں انسانی عقل کی نمائندگی کرتا ہے) کا بطور ان نعمتوںکے حوالہ دیا گیا ہے جنھیں لوگ اکثر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ بتایا گیا ہمارے اردگرد رہنے والوں کی زندگی کے مشاہدے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کس چیز سے لوگوں کو واقعی سکون ملتا ہے۔
اس سطر کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں اپنی والدہ کا خیال آگیا۔ تمام تر مصائب اور تکلیفیں سہنے کے باوجود وہ مطمئن تھیں۔ وہ ہمیں بتایا کرتی تھیں کہ مسرت کی کنجی یہ ہے کہ دوسروں کو خوشیاں بانٹی جائیں۔ دوسرے مطمئن لوگوں پر غور کرتے ہوئے میں نے غور کیا کہ انھوں نے بھی اسی اصول کے تحت زندگی گزاری ہے۔
ماں کی یاد آئی تو اداسی کی ایک عجیب کیفیت نے مجھے آلیا، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ میں نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا۔ اگرچہ میں ان سے محبت کرتا تھا، میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ وہ ایک فریب میں جیتی تھیں۔ وہ ایک طرح سے ’’لیڈی ڈان کیخوتے‘‘ تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ وہ حقیقت سے اس طرح آنکھ کیسے موند سکتی ہیں۔ وہ کیسے نہیں دیکھ سکتیں کہ زندگی خوشیاں دینے کے لیے نہیں بلکہ بقا کی جدوجہد، مسابقت اور بہت سے حادثات اور خطرات سے خود بچانے کے لیے ہے۔ لیکن اب میں اپنی اور دوسروں کی زندگی سے، جنھیں میں جانتا تھا کہ وہ اس اصول پر کاربند ہیں، دیکھ سکتا تھا کہ یہ اندرونی سکون پانے کا راستہ نہیں ہے۔ اگر میں صرف اس بات پر غور کرنے کے لیے رک جاتا جو میں نے اپنے آس پاس دیکھا تھا تو میں آسانی سے جان سکتا تھا کہ زندگی میں دو ہی “واضح راستے” ہیں اور میں نے کانٹے دار راستے کو چنا ہے۔ دوسروں کی طرح میں نے بھی دشوار گزار گھاٹی (uphill climb) کو نظر انداز کردیا تھا۔
’’مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو ! کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟کسی گردن کو غلامی سے چُھڑانا ،یا فاقے (بھوک) کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔پھر (اس کے ساتھ یہ کہ ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کرنے کی تلقین کی۔‘‘
لفظ عقبہ ’’دشوار گزار گھاٹی‘‘ کا انتخاب دل چسپ ہے۔ ایک طرف تو اس کا مطلب ہوسکتا:مشکل کام، جس کی انجام دہی کے لیے شدید محنت، جدوجہد اور استقلال درکار ہے، یعنی وہ سب کچھ جو قرآن کے نزدیک ایک کام یاب زندگی کے لیے ضروری ہے۔ دوسری طرف اوپر چڑھنا روحانی صعود [چڑھائی]، خدا کے قرب کے لیے عمودی چڑھائی کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ مطالعہ قرآن کی بنا پر پہلا تصور میرے لیے قبول کرنا آسان تھا۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ دوسروں کی مدد کے لیے وقف زندگی مشکل تو ضرور ہوتی ہے، لیکن مفید ہو سکتی ہے، جب کہ خود پسندی و خودپروری کی زندگی گزارنا بظاہر سہل ہے، لیکن یہ حقیقی مسرت کے حصول کا راستہ نہیں ہے۔ تاہم میں ذاتی ارتقا اور خدا کے ساتھ تعلق کے درمیان ربط کو نہیں سمجھ سکا۔ کیا ان دونوں کے درمیان کوئی نامیاتی ربط موجود ہے؟ اگر نہیں، تو کیا ہماری ایثار پسندی ہمیں داخلی طور پر خدا سے قریب کرتی ہے؟ اگر نہیں، تو ہمارے وجود کا یہ ارضی مرحلہ غیر ضروری ہے، ہمیں دنیا کےجھمیلوں میں ڈالے بغیر خدا کا قرب دلایا جاسکتا تھا۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ زمین پر ہماری زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے۔
جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ‘‘پروردگار ، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب ، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ (سورۃ آل عمران: ۱۹۱)
ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ (سورۃ الانبیاء: ۱۶-۱۷)
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمھیں فضول (بے مقصد ) ہی پیدا کیا ہے اور (کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ) تمھیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے’’؟ (سورۃ المومنون: ۱۱۵)
یہ آسمان و زمین اور اِن کے درمیان کی چیزیں ہم نے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنا دی ہیں۔(سورۃ الدخان: ۳۸)
میں سمجھتا ہوں کہ اچھی بات یہ تھی کہ مطالعہ قرآن کے نتیجے میں، میں نے یہ بات پالی کہ خدا کے وجود کے تعلق سے میرے بیشتر اعتراضات اتنے مضبوط نہیں تھے جتنا کہ میں انھیںسمجھتا تھا۔ قرآن پڑھنےسے مجھے ان بنیادوں پر سوال اٹھانے کا موقع ملا جو میرے الحاد کا باعث تھے۔ بری بات یہ تھی کہ پورا قرآن ختم ہونے میں اب صرف تیس صفحے باقی بچے تھے لیکن میں ابھی تک یہ نہیں جان سکا تھا کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ میرے مسلمان دوست بھی میری اس میں کوئی مدد نہیں کرسکے۔ وہ اکثر میرے سوالوں کو نہیں سمجھ پاتے تھے، اور واحد جواب جو وہ دے پاتے تھے وہ یہ تھا کہ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ ہمیں اگلی زندگی کے لیے آزمایا جاسکے جس کی بنیاد پر وہاں پر ہمارا فیصلہ ہوگا۔ بظاہر یہ جاننا ان کے لیے کافی تھا اور انھوں نے کبھی اس معاملے کی گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی، لیکن یہ میرے لیے کافی نہیں تھا، میں اس کی معقول وضاحت پانے کے لیے بے چین تھا۔ البتہ قرآن ایسے دکھا رہا تھا گویا یہ بہت سادہ سی بات ہو۔ جس طرح میں اپنے طلبا کو آسان سا نکتہ نظر انداز کرنے کی وجہ سے بظاہر مشکل سوال حل کرکے دکھاتا تھا کہ وہ اسے ضرورت سے زیادہ پیچیدہ سمجھ رہے ہیں۔ مجھے بھی لگتا تھا کہ شاید میری نظر سے بھی کوئی نکتہ اوجھل ہے جس کی وجہ سے یہ عقدہ حل نہیں ہوتا۔ میں نے سوچا اسے دھونڈنے کی فطری جگہ قرآن کے وہ بیانات ہیں جن میں اور خدا اور انسان کے درمیان تعلق کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن خدا اور ایمان والوں کے درمیان تعلق کو کیسے بیان کرتا ہے، یہ سچے ایمان والوں کے کیا اوصاف بیان کرتا ہے، یہ خدا کی صفات کو کس طرح بیان کرتا ہے، اور کیا ان کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے؟
ان سوالات کی طرف رجوع کرنے سے پہلے مجھے اس بات کا ذکر کردینا چاہیے کہ زندگی کے پرفریب کردار کی تصویر کشی نے زمین پر انسانی مصائب پر میرے کچھ اعتراضات کو رفع کردیا تھا۔ یاد کیجیے کہ جب لوگ اگلی زندگی میں داخل ہوں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے زمین پر کتنا عرصہ گزارا ہے تو ان کے پاس اس کی دھندلی اور دور کی یادیں ہوں گی، گویا وہ کسی خواب سے بیدار ہوئے ہوں۔قرآن میں زندگی کے اس خواب آسا کردار کا بیان قیامت کے دن کے بہت سے بیانات سے مزید تقویت پاتا ہے۔ مُردوں کو موت کی نیندسے بیدار کرنے کے لیے صور پھونکا جائے گا (سورۃ الانعام: ۷۳)۔ کافر اپنی قبروں سے بھاگیں گے، جسے قرآن ان کے ’’سونے کی جگہ‘‘ کہتا ہے، لوگ وحشت زدہ اور مضطرب ہوں گے۔ وہ حواس باختہ ہوں گے۔ ان کی زمینی زندگی واہمہ محسوس ہوگی۔ (سورۃ النمل: ۸۸) لوگوں کی نظر اس طرح الجھن زدہ ہوگی گویا وہ نیند سے بیدار ہوئے ہوں۔ (سورۃ القیامۃ:۷)، پھر ان کی بینائی تیز ہو جائے گی، اور انھیں موجودہ حقیقت کا ادراک ہوگا (سورۃ ق: ۲۰۔۲۲)۔ سورۃ الزمر، آیت ۴۲ میں قرآن مُردوں کے جی اٹھنے کا موازنہ نیند سے بیداری سے کرتا ہے۔ یہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ زمینی زندگی میں خواہ ہم نے کیسی ہی تکلیفیں اور رنج اٹھائے ہوں، اگلی زندگی میں داخل ہونے پر ان کی یاد خواب سے بیدار ہونے سے زیادہ نہ ہوگی۔ وہ تمام دکھ اور تکلیفیں جو ہمارے زمینی وجود میں انتہائی شدید اور حقیقی لگتی تھیں، وہاں دور کے فریب سے زیادہ کچھ نہیں لگیں گی، گویا وہ ہمارے ذہن کی پیداوار ہوں۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ زمینی وجود حقیقی نہیں ہے، بلکہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہم جس تکلیف کا تجربہ کرتے ہیں وہ آخرت کی بڑی حقیقت کے سامنے بالکل غیر حقیقی محسوس ہوگا۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2021