نیشنلزم کی آڑ میں

ہندوستان کے تناظر میں مرتب کی گئی کتاب On Nationalism کا مطالعہ اہم ہے، کیو ں کہ اس میں اٹھائے گئے سولات ہر ہندوستانی کا تعاقب کرتے ہیں ، ہر ایک اپنے نظریے کے مطابق اس کے جواب تلاش کرتا ہے۔ ایک کا، دوسرے کے جواب سے مطمئن ہونا ضروری نہیں ، البتہ ان سوالات پر سنجیدہ غور وفکر ضروری ہے۔

نیشنلزم کیا ہے؟ نیشنلزم کا مخالف کون ہے ؟ کیا نیشنلزم کا ثبوت کوئی خاص نعرہ بن سکتا ہے ؟’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ دائیں بازو کے نزدیک اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے ؟قانون بغاوت کی ایک آزاد ملک میں کیا حیثیت ہے اور اس کا استعمال کس کے خلاف ہونا چاہیے ؟ کس طرح کا ہندوستان ہمارے خوابوں کا ملک ہے؟

ان کے سنجیدہ، مدلل، اور مفصل جواب کی تلاش میں اس کتاب نے رومیلا تھاپر، اے جی نورانی، اور سدانند مینن کی تحقیق کو شامل کیا ہے۔ جن کا مختصرذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جائے گا۔

کتاب کا پہلا حصہReflections on Nationalism and History رومیلا تھاپر کے قلم سےمختلف اہم مباحث پر محیط ہے۔

وہ نیشنلزم کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

نیشنلزم کا مطلب ہے کہ حکومت اور ملک کے درمیان واضح فرق ہو، کوئی حکومت حب وطنی کا معیار نہ قرار پائے، اقتدار اعلی ملک اور اس کے باشندوں کی ہوگی، نہ کہ حکومت میں موجود پارٹی یا گروہ کی، حکمراں اور اس کے کاموں پر تنقید ملک پر تنقید قطعا نہیں سمجھی جائے گی۔ ایک ملک ان باشندوں سے مل کر بنتا ہے جو اس سرزمین پر رہتے اور بستے ہیں ، وراثتاََ ان کے حصے میں ایک منفرد تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے، ان کی شناخت اور ان کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ ہم نیشنلزم کا مطلب صرف ہندوستانی ہونا سمجھتے ہیں ، ہندو مسلم یا کوئی دوسرا مذہب یا کوئی دوسرا نیشن اس سے مراد نہیں لیا جاسکتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کی خیر خواہی ہر طرح کی خیر خواہی اور وفاداریوں پر مقدم ہو۔

صاحب قلم کے مذہب اور ملک کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے کرنے سے ہمیں اطمینان نہیں ہے، کیونکہ مختلف تہذیبوں کا گہوارا جو ملک ہوگا اس میں مذہب کو صرف شناخت کی حد تک ہی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اس پر عمل کرنے کو بھی قبول کیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ عملی طور پر ایسے سماج کا پایا جانا ضروری ہے جو مذہب پر عمل کو ریڈیکل اور کٹر پنتی نہ گردانے۔ اور نہ مذہب سے محبت ملک سے عدم محبت سمجھی جائے۔ مذہب پر عمل پیرا شخص، ملک کا اچھا شہری ہو سکتا ہے۔ اچھا شہری بننے کے لیے مذہب بیزاری پر مصرہونا دراصل ایک دوسری انتہا ہے۔

نیشنلزم کے مقاصد اور لوازمات کی پروفیسررومیلا تھاپر، اس طر ح وضاحت کرتی ہیں : نیشنلزم کے بنیادی مقاصد میں سے ہے کہ پورے سماج کی خیر خواہی کو یقینی بنایا جائے، ہر ایک شہری کی آزادی اور وقا رکی حفاظت کی جائے، لیکن یہ اس وقت تک عملا ممکن نہیں جب تک کہ معاشی ترقی اور سماجی انصاف میں ہر ایک برابر کاشریک نہ بن جائے۔ نیشنلزم میں ایک فرد کی شناخت اوراس کی تہذیب کو سماج کے ایک اہم ممبر اور ایک اہم حصے کے طور پر سمجھا گیا ہے، اسے کوئی جھنڈے لہرانے اور خاص قسم کے نعروں میں قید نہیں کر سکتا ہے۔ اسی لیے جو نعروں میں قومیت کو تلاش کرتے ہیں ، انھیں نیشنلزم کی یہ تعریف کبھی پسند نہیں آسکتی۔

ہندوتوا کے نزدیک نیشنلزم اس سے مختلف ہے، اس پر وہ صرف اپنا حق سمجھتے ہیں ، اسی لیے ہندوستان کی تاریخ بھی ان کے نزدیک معتبر وہ ہے جو ہندو سے متعلق ہو، اس میں بھی آرین سماج کو اصل باشندہ سمجھا گیا ہے اور اعلی ذات خود کو آرین سے جوڑ کر اصل باشندے ہونے کا زعم رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ طبقات کے فرق پربھی بضد ہیں ، ہندو لفظ کہہ کر وہ تمام ہندؤوں کا سپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اسی لیے مسلم سلطنت کی تاریخ کو وہ ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کہ مسلم حکمرانوں نے مذہب کی بنیاد پر ہندؤوں پر ظلم کیا ہو، اس طرح کے نظریات سے مقصودیہ ہوتا ہے کہ آج کے ہندؤوں کی ہمدردی حاصل کی جائے، ان کے سامنے محسن اور خیر خواہ بن کر خو د کو پیش کیا جائے، تاکہ سیاسی فائدے اٹھائے جاس کیں۔ اگلی سطور میں پروفیسرنے دو اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔

پہلی بات: ہندوتوا اور ہندو مذہب دو مختلف چیز یں ہے، حتی کہ دونوں ناموں کے تاریخی پس منظر میں بھی مختلف ہیں ، لفظ’ہندو‘مغرب ایشیا  میں’سندھو ‘لفظ سے ماخوذ ہے، قدیم ایرانی زبان میں (Indus River)  ’انڈس ندی ‘کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا تھا، جو مغرب ایشیا میں تھے، وہ ’انڈس ندی ‘کے مشرق میں آباد لو گو ں کو اسی نام سے موسوم کرنے لگے، گزرتے وقت کے ساتھ انڈس ندی کے مشرق میں آباد لوگو ں کے مذہب کے لیے لفظ ’ہندو ‘ استعمال ہونے لگا، ان کے عقائد اور مذہبی رسم ورواج کو ایک نام’ہندو‘ ملا، گویا ہندو ایک مذہب ہے، جس کے کچھ عقائد اور مذہبی رسم و رواج ہیں۔ تدریجا ترقی کرتے ہوئے ہندو مذہب کی کتابیں ، گیت، بھجن منظر عام پر آتے رہیں۔

جبکہ’ہندوتوا‘ ایک متعصب نظریے کو پیش کرتا ہے، اور ایک سیاسی وجود رکھتا ہے، ایک الگ سیاسی پہچان متعارف کراتے ہوئے ۱۹۲۳ء میں ساورکر، نے ’ہندوتوا ‘لفظ کا استعمال کیا، جسے اس وقت کی نام ور ہندو شخصیتوں نے مسترد کردیا، لیکن ۱۹۸۹ ء میں بی جے پی نے اس نظریے اور اصطلاح کو سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنالیا۔ اس لیے ایک عام ہندو شخص کا ہندوتواا سے حقیقت میں کوئی لینا دینا نہیں۔

دوسری بات : یہ سمجھ لینے کی ہے کہ جس طرح اپنے نام سے سیاسی مفاد مطمح نظر ہے، اسی طرح تاریخ کو بھی اس پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے، کہ اس سے اپنا اُلو سیدھا کیا جاس کے۔ جب تاریخ میں واقع ہونے والے تغیرات کو صرف تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے، تو حقائق تک رسائی ممکن ہے۔ لیکن اگر اپنی سوچ اور ایک خاص زاویے نگاہ سے تاریخ کو لکھا یا پڑھا جائے، تو تاریخ بدل دی جاتی ہے اور تاریخی واقعات ملاوٹوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

جس دور میں ہندوستان کی سرزمین کے اکثر حصے پر مسلم بادشاہوں کی حکمرانی تھی، ہندو مذہب ظلم کا شکار ہونے کے بجائے، دیگر مذاہب کاہم رکاب ہوکر اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ مغلیہ سلطنت کی یہ خاص بات رہی ہے کہ اس کے دیوان میں ایسے ہندو اورمسلم عہدے داران یکجا تھے، جو ہندو مذہبی کتابوں کے تراجم پر کمر بستہ ہوگئے اور انھوں نے مل جل کر ہندو مذہبی کتابوں کے تراجم کرائے، خاص کر فارسی تراجم پر خوب کام ہوا۔

اس میں مہا بھارت اور بھگوت گیتا کا ترجمہ قابل ذکر ہے، اسی طرح میرااورسورداس کا بھجن، کبیر اور تُکارام کی نظمیں، راماین کی کہانیاں سب اسی دور میں لکھی گئیں اور پھلی پھولیں ، حقیقت یہ ہے کہ :  ’’ظلم کا نشانہ بننا تو بہت دور، ہندو ثقافت ان صدیوں میں دیگر ثقافتوں کے ہمرکاب خوب پھلی پھولی۔‘‘  بلکہ تاریخ کے صفحات ان مظالم پر ماتم زدہ ہیں جو حکمراں طبقے سے لیکر عام ا ونچی ذات کے زعم میں مبتلا ہندو سماج کے لوگو ں نے دلت اورآدیواسیوں پر کیے، بھلا اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کو اچھوت بنا دیا جائے، اس کا چھولینا بھی نجس سمجھا جائے۔ زمانے کے اتنے بدلاو اور ترقی کے باوجود اس ذہنیت کی رمق آج بھی سماج میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہے، جو بہت افسوس ناک ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ ممبئی کے مشہور وکیل عبد الغفور نورانی صاحب کی تحریر پر مشتمل ہے Nationalism and Its Contemporary Discontents in India۔ اس تحریر میں خصوصی طور پر the law of sedition اور’ بھارت ماتا کی جے ‘ کا تاریخی منظر نامہ پیش کیا گیا ہے اور موجودہ حکومت کی جانب سے اس کے غلط استعمال پر تنقید کی گئی ہے۔

نورانی صاحب کہتے ہیں : سرزمین ہند میں ’قانون بغاوت ‘کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی تحریک آزادی کی تاریخ، کیونکہ برٹش گورنمنٹ نے آزادی کی تحریک کو دبانے، اور مجاہدین آزادی کو قیدو بند میں ڈالنے کے لیے ۲۵؍ نومبر ۱۸۷۰ء کو اس قانون کو وضع کیا۔ اس قانون کا سہارالے کر حکومت اپنے مخالفین کو اور ہر اس آواز کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتی ہے جس سے اسے خطرہ ہو یا کوئی سیاسی مفاد پیش نظر ہو۔

اس قانون پر نقد کرتے ہوئے ڈرافٹ کمیشن کے ممبر کے ایم منشی نے، یکم دسمبر ۱۹۴۸ء کو اسمبلی میں پر زور الفاظ میں کہا تھا :

سیڈیشن ’Sedition‘ ایک ایسا لفظ ہے جس کے مختلف معانی پیش ہوئے، جس نے صرف اس ایوان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کی قانونی عدالتوں میں واضح شکوک پیدا کیے، اس کی اصطلاحی تعریف بہت پہلے ۱۸۶۸ء میں بیان کی گئی تھی۔ یہ کہتا ہے سیڈیشن ہر وہ حرکت ہے تحریر، تقریر یا عمل کی صورت میں جسے اسٹیٹ کے سکون کے منافی گردانا جائے اور جو نادان عوام کی حکومت گرانے کی طرف رہبری کرے۔

سیڈیشن کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ایڈوکیٹ نورانی صاحب کئی ایک مقدمات کے حوالے پیش کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ

اس قانون کو آزادی ہند کے مجاہدین کے خلاف ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا گیاتھا اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو اس قانون کے سہارے دبانے کی اور فرد کو مجرم بنا کر پیش کرنے کی بار بار کوشش کی گئی تھی، لیکن آزادی کے بعد لو گو ں کے خیالات میں خاطر خواہ تبدیلی آئی ہے، کیونکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اس لیےبغاوت اور حکومت پر تنقیدکے درمیان حد فاصل کا رہنا ضروری ہے، مہذب سماج میں تنقیدکا استقبال کیا جانا چاہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اوراس کے کاموں پرتنقیدکو ملک پرتنقید باور کرایا جارہا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں حکومت پر تنقید و تبصرہ ہی اس کا جوہر ہے۔

ایڈوکیٹ نورانی صاحب کے مضمون کی دوسری بحث مخصوص نعرے کو وطن سے محبت کا معیار بنانے پر ہے۔ لکھتے ہیں : ۱۷ مارچ ۲۰۱۶ ء کو آر، ایس، ایس کے جنرل سکریٹری ہوشا بولےنے یہ بیان جاری کیا کہ : ’’جو کو ئی،بھارت ماتا کی جےنہیں لگائے گا وہ ہمارے لیے نیشن مخالف سمجھا جائے گا۔ ‘‘ اس کے دو دن بعد بی، جے، پی کے صدر، امت شاہ نے یہ آواز اٹھائی کہ :‘‘ بی، جے، پی ملک پر تنقید برداشت نہیں کرے گی، ملک مخالف حرکت، آزادی رائے کے نام پر قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘  اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان ایک لبرل جمہوری ملک میں اس لیے ناقابل قبول ہے کیونکہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سا نعرہ اور کون سا بیان ملک مخالف ہے اور کون سا نہیں ہے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے، اور خود ہی فیصلے کرتے پھیرے، اور یہ کہہ کر کہ وہ’ برداشت‘نہیں کرے گا   خود کو قانون سے بالاتر رکھنے لگے۔

کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ آرٹ ایڈیٹر، کالم نگار، سدانند مینن کی تحریر From National Culture to Cultural Nationalism پر محیط ہے۔

مینن صاحب لکھتے ہیں :

میں نے اپنی تحریر میں کلچرل نیشنلزم کے ان پانچ پہلؤوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جن سے اس کا ممکنہ مستقبل اور شکلیں واضح ہو سکیں۔ مجھے یہ مندرجہ ذیل پہلو اہم لگ رہے ہیں :

(۱)ثقافتی نیشنلزم کا ماضی کے ساتھ ربط (۲) سیاست کے ساتھ ربط (۳) انسانی صنف کے ساتھ ربط (۴) کلچرل ساختوں سے ربط (۵) تشدد کی سحر انگیزی سے اس کا ربط ۔

کلچرل نیشنلزم کا نظریہ انیسویں صدی کے اوائل میں پروان چڑھا، نیشنلسٹ لیڈر تِلک نے قدیم تاریخ اور اس کے حسن کو بنیا د بنا کر سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اس نظریے کی تعمیر کی کوشش کی، ان کی یہ کوشش خاص کر ہندو علامتوں سے متاثر رہی۔ قومی جدوجہد کو مؤ ثر رخ دینے کے لیے جس ماضی کا سہارا لیا گیا تھا، وہ بیرونی اثرات سے پاک، بے داغ اور خالص تھا، گرچہ ایک ایسی سرزمین جسے مختلف ثقافتوں اور مختلف معماروں نے کم و بیش تین ہزار سال کے طویل عرصے میں مل کر آبا د کیا ہو، اس کے لیے یہ نظریہ اپنے آپ میں ایک افسانہ ہے۔

کلچرل نیشنلزم کے پہلے مرحلے کو ابتدائی نیشلزم (incipient nationalism) کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ ملک کی ثقافتی شناخت کو تشکیل دینے کے لیے، پہلے خود ہندو ازم میں اصلاح کا آغاز ہوا، جیسا کہ بچپن کی شادی، ستِی کے رواج، دیوداسیوں کا چلن، اور ذات پات کی تفریق ان سب کو ظالمانہ سمجھا جانے لگے اورانھیں ختم کرنے کی کوششیں کی جانے لگی۔ ’’ برہمن سما ج‘‘ کی تشکیل ایک نئی خود غرض قوم پرستی کو واضح کرنے کی ابتداء تھی جسے بعدکے ایام میں جیوتیبا پھولے، اور ایشور چندرا ودیا ساگر جیسے مفکرین کے ذریعے مزید وضاحت ملی۔ سوامی دیانند سرسوتی نے زور و شور سے آریہ سماج کا پر چار کیا اور ساتھ ہی ہندومذہب کے ان رسومات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جن پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے نقد سامنا آرہا تھا۔ آج کی ’ گھر واپسی  ‘جیسی مہم اُن اصلاحی کوششوں سے بالکل مختلف ہے۔ اب ہندؤوانہ رسم و رواج کو ثقافتی خود مختاری کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور وَیداس کو انڈین نیشنلزم کی بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔

آج ہم شدت پسند کلچرل نیشنلزم کامشاہدہ کررہے ہیں ، کہیں دلتوں کو، کہیں مسلمانوں کو، کہیں دیگر اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، تو کہیں صوبے کے فرق کی بنیاد پر تو کہیں زبان کے فرق کو بنیاد بنا کر تشدد کیا جارہا ہے۔ طلبا اور اس کالرس بھی اس شدت پسند گروہ کے عتاب سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس ذہنیت کی آبیاری، شدت پسند قومیت جیسی سوچ نے کی ہے۔ یہ عناصر عرصہ دراز تک گم نامی میں رہ کر اپنے افکار کی نشر و اشاعت کرتے رہے لیکن جیسے ہی انھیں سازگار ماحول ملا وہ پورے ساز و سامان کے ساتھ اپنے لاؤ لشکر کو لے کر  منظر عام پر آ گئے۔

آ گے مینن صاحب لکھتے ہیں :

بائیں بازو کے حامی ۱۹۴۰ ء سے ہی ان شدت پسند افکار کے خلاف محاذ سنبھالے ہوئے ہیں ، اس کے لیے قلم، زباں ، میگزین، سینما ہر ممکنہ ذرائع کا استعمال کیا اور اس متشدد نظریات کے خلاف ایک سر گر م مہم چھیڑ دی، لیکن کچھ دہائیوں سے بایاں بازو اپنی مہم میں سرد پڑتا دکھائی دینے لگا، اور قومیت، وطنیت، مذہب، ثقافت اور شناخت جیسے موضوعات سے خود کو دور رکھنے لگا، نتیجتاً کلچرل نیشنلزم کے متشدد ہندوانہ نظریے کی راہ ہموار ہو گئی۔ اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دائیں بازو نے کلچرل نیشنلزم کی تصویر ماضی کے سانچے میں بنایا، جس میں اپنی مرضی کے رنگ بھر دیے، انھیں وہ ماضی پسند ہے جو ان کے خیالات کو تقویت پہنچائے، جس سے وہ سیاسی مفاد حاصل کرسکے، ان کے بیان کردہ ماضی میں سر زمین ہند کی تاریخ نہیں ، بلکہ ان کے نظریات جھلکتے ہیں۔ غیر جانبدار ارباب حل و عقد اور مصنفین و مؤرخین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی خود ساختہ ماضی پر سوال کریں ، حقائق کو سامنے لائیں اور ان افکار کے بالا خانوں میں بسے majoritarian اور hegemonicسے عوام الناس کو آگاہ کریں۔ جہاں کہیں ان سیاسی مباحث پر گفتگو نہیں ہو گی وہا ں یہ کلچرل نیشنلزم فتح و کامرانی کا پر چم بلند کیے دندناتا پھرے گا۔

مینن صاحب کی بات حقیقت کی ترجمانی ضرور کر رہی ہے البتہ میرا کہنا ہے کہ : بائیں بازو کی ناکامی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مذہب سے اس قدر بیزار اور نالا ں ہیں ، کہ وہ مذاہب میں فرق ہی نہیں کرتے، تمام مذاہب کو ایک ہی صف میں رکھ کر اپنے سامنے لکیر کھینچ لیتے ہیں ، اس لیے انھیں مذہب کی خوبی نہیں دکھ پاتی، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن کے سامنے مذہب کی خوبیاں اور انسانیت پر اس کے احسان واضح ہیں ، وہ ان کی مذہب بیزاری دیکھ کر ان سے دور ی بنائے رکھنا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ جبکہ بہت سے ایسے سوشل مسائل ہیں جن کے رہنما اصول ان سے پہلے مذہب نے پیش بھی کیے اور اسے کامیابی کے ساتھ نافذ بھی کیے، مثلا وہ سماج میں بھید بھاؤ پسند نہیں کرتے، اور اسلام نے ان سے بہت پہلے ہی بھید بھاؤ کو رد بھی کیا اور عملا اپنے سماج سے اسے ختم بھی کردیا۔ یہاں مذہبی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والے علما کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ کے ان پہلوؤں پر بھی قلم اٹھائیں اور اپنا موقف واضح کرتے رہیں۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب مینن لکھتے ہیں :

قومی ثقافت کو تشکیل دینا اور اسے بنائے رکھنا، ایک سیاسی عمل ہے، جس سے سیاسی اغراض پیش نظر ہوتے ہیں۔ اس نظریے کے پھلنے پھولنے کے لیے جہاں اسے بڑی تعداد میں حامی اورماننے والوں کی ضرورت پڑتی ہے، وہی ایک ایسے وجود کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، جس سے خطرہ لاحق بتا کر اپنے حامیوں کو برقرار رکھا جاس کے، وقت کے اعتبار سے مد مقابل وجود بدلتا رہتا ہے، کبھی کسی ایک سے کبھی کسی دوسرے سے خطرہ لاحق بتایا جاسکتا ہے، لیکن ہندوستان میں ہندو ثقافتی قوم پرستی کے طویل مدتی منصوبے نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کو ’دشمن ‘ اور ’ غیر‘ بنا کر پیش کیا، جن کی وفاداریوں پر ہمیشہ سوال اٹھا یا جاتا ہے۔

قومی قائدین میں ان نظریات کی مخالفت کرنے والوں میں رابندر ناتھ ٹیگور کا نام سر ِفہرست رہاہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے ملک سے ہماری محبت میں ایک ناروا سلوک کی گنجائش باقی رہتی ہے، اورانھیں نیشنلزم، ایسے آزاد سماج کے لیے ایک خطرہ لگتا تھا جہاں ذات پات اور دیگر مسائل کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا جاتا ہو۔

اختتام پر مینن صاحب لکھتے ہیں :

قومی ثقافت کی تعمیر کا سفر، جس میں ہندتوا ذہنیت کا کما حقہ مقابلہ نہیں کیا گیا، اس سفر نے آہستہ آہستہ ہمیں ثقافتی قوم پرستی کے صحن میں لا کھڑا کیا۔ اوراب یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ، ثقافتی قوم پرستی کا نظریہ، اپنے استحکام کے لیے ریاستی طاقت پر منحصر نہیں رہا۔ بلکہ اس کے بر عکس، منظم تشدد، دھمکی، خوف اورپر جوش تقریر کے سہارے جان بوجھ کر پارلیمانی کاروائی کو لاغر بنا کر اقتدار میں جوڑ توڑکرنے کی صلاحیت سے یہ نشوونما پاتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223