مسجد اشاعت اسلام۔۔۔ پہلی صف۔۔۔ بالکل درمیان میں۔۔۔ امام صاحب کے مقام سے ٹھیک پیچھے۔۔۔ ایک کرسی پر براجمان۔۔۔ قرآن ہاتھ میں لئے ہوئے۔۔۔ مطالعے اور غوروفکر میں غرق۔۔۔ جسمانی اعتبار سے بوڑھے۔۔۔ بہت بوڑھے۔۔۔ مگر اپنی ذہنی و ارادی قوت کے اعتبار سے جوان۔۔۔ بہت جوان۔۔۔ یہ تھے مولانا امانت اللہ اصلاحی صاحب۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین!
مولانا محترم کی براہ راست خدمت کرنے یا ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن ایک فاصلے سے انہیں دیکھنے اور دیکھتے رہنے، ان کے لئے دعا کرنے، ان کے علمی شوق و عزم و حوصلے پر رشک کرنے سے دہلوی زندگی کا شاید ہی کوئی دن خالی گزرا ہو۔ یہ کوئی میرا ہی ذاتی معاملہ نہیں ہے، اس مسجد کا ہر نمازی مولانا محترم سے کم از کم یہ فاصلاتی (مگر قلبی) تعلق ضرور رکھتا ہے۔ میرے ایک دوست کی ان سے محبت و عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ مسجد میں ان کے برابر کھڑے ہونے کے لئے مسابقت کیا کرتا تھا۔ جس جوش و جذبے کے ساتھ مولانا اصلاحی اپنی گرتی صحت اور موسم کی سختیوں کا مردانہ وارمقابلہ کرتے ہوئے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے؛ مغرب کی اذان دیتے؛ اقامت کہتے؛ نماز کے لئے وقت سے پہلے حاضر ہوکر گھنٹوں گھنٹوں مطالعے میں منہمک رہتے۔۔۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چند مرتبہ انہیں گھر سے مسجد آتے ہوئے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دیکھ کر ایمان تازہ ہوگیا کہ خدا اور خدا کے گھر کی محبت میں یہ شخص کس قدر تکلیفوں سے آہستہ آہستہ مسجد کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ مثل سنی تھی کہ اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر بے اختیار خدا یاد آتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ یقینا ایسے ہی بندوں میں سے تھے۔
ہم دوستوں میں مولانا اپنے نام سے کم اور (کسی دوست کے عطاکردہ )لقب سے زیادہ مشہور تھے۔ یہ لقب تھا ’’حفظِ قرآن اینٹی وائرس‘‘۔ جس کسی نے پچھلے سالوں میں مسجد اشاعت اسلام میں تراویح کی نماز پڑھی ہے، اسے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس کی ’وجہ لقبیہ‘ کیا ہے۔ بلامبالغہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کوئی امام، مولانااصلاحی کی موجودگی میں، الفاظ تو کجا زیر، زبر، پیش اور تشدید وغیرہ کی غلطی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ادھر غلطی ہوئی، ادھر ایک دھیمی مگر بارعب آواز نے اس غلطی پرگرفت کی۔ کئی دفعہ غلطی اتنی باریک ہوتی تھی کہ عام مقتدیوں کو اندازہ بھی نہیں ہوپاتا تھا کہ کس مقام پر کیا چوک ہوئی ہے۔ لیکن ہر نمازی بالکل اطمینان اور اعتماد کے ساتھ نماز اداکرتا تھا۔ کبھی کبھی جب امام صاحب اپنی اصلاح نہ کرپاتے اور رکوع میں چلے جاتے تو مولانا محترم سلام پھیرنے کے بعد انہیں متنبہ کردیتے۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ کسی امام نے ایک مقام پر ٹوکے جانے پر اپنی یادداشت پر اصرار کیا اور پھر ثبوت کے طور پر قرآن کھول کر مولانا کی خدمت میں پیش کرنا چاہا ،لیکن قرآن کھولتے ہی مسکرا کر خود اپنی اصلاح کرلی۔ اس معاملے میں مولانا مرحوم نے خدادداد صلاحیت پائی تھی۔ ایک مرتبہ آپ کا ذکر نکل آنے پر برادرم ابولاعلیٰ سبحانی نے بتایا کہ آپ ایک زمانے تک نائیجیریا میں رہے اور وہیں ایک بڑے حادثےمیں زخمی ہوگئے۔ اس حادثے کے نتیجے میں آپ بے ہوشی( کوما) میں بھی رہے۔ جب اس سے افاقہ ہوا تو کئی دن یادداشت کے فقدان Amnesia کے شکار رہے اور یادداشت پر اس حادثے کے نمایاں اثرات پڑے، لیکن خدا کا کرشمہ ہے کہ اس حال میں بھی انہیں قرآن ازبر تھا۔ یہ سب جان کر دل میں ان کا مقام کچھ اور بلند ہوگیا۔ حیات نو میں مختلف تراجم قرآن پر ان کے افادات کی اشاعت سے ان کے علمی مقام کا اندازہ بھی ہوا۔
مولانا محترم کی علالت کی اطلاع مل چکی تھی۔ جب جناب رفیق احمد صاحب عصر کی نماز کے بعد کھڑے ہوئے تو دل دھک سے ہوگیا کہ کہیں وہ اسی خبر کو سنانے نہ کھڑے ہوئے ہوں جو دل کسی طرح سننے پر آمادہ نہیں۔ دل سے بے اختیار دعا نکلی کہ بات کوئی اور ہو اور مولانا بخیر ہوں۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے؛ انہیں جنت الفردوس میں انبیاء، صدیقین و شہداء کی معیت نصیب فرمائے۔
نگاہیں بہت دن مسجد میں اس نورانی چہرے کو ڈھونڈیں گی۔۔۔ پہلی صف کے اس ’’مجاہد نمازی‘‘ کی خالی کرسی پر بار بار نظر جائے گی جس پر بیٹھنے والے کے اندر ایک فقیرانہ انکسار بھی تھا اور شاہانہ جلال بھی!
مشمولہ: شمارہ مئی 2019