کورونا کی وبا کے واحد موثر ہتھیار کے طور پر ویکسین کاری کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ لیکن اس عمل میں کئی طرح کی دشواریاں ہیں۔ ان دشواریوں کا احاطہ دو اہم عنوانات کے تحت کیا جاسکتا ہے۔
ویکسین ہچکچاہٹ
ویکسین کی سیاست
ویکسین ہچکچاہٹ
ویکسین لگوانے میں دیر کرنا یا ویکسین لگوانے کے لیے آمادہ نہ ہونے کا نام ویکسین ہچکچاہٹ (vaccine hesitancy) ہے۔
ویکسین ہچکچاہٹ باقاعدہ تحقیق کا موضوع ہے۔ ویکسین ہچکچاہٹ کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات پر ہندوستان کے تناظر میں چند باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
سیاقی وجوہات/اثرات کے تحت ویکسین
ہچکچاہٹ میں سب سے اہم رول میڈیا کا ہوتا ہے۔ یہ میڈیا روایتی بھی ہیں اور سوشل میڈیا بھی۔ مثلاً ہندوستان میں مین اسٹریم میڈیا نےعام طور سے تو اس سلسلے میں مثبت رول ادا کیا لیکن بعض اوقات بہت سی ایسی خبریں بھی آئیں جنھوں نے ویکسین ہچکچاہٹ میں اضافہ کیا۔ مثلاً لُچ مونٹنیے(Luc Montagnier)کے اس جھوٹے ویڈیو کی تشہیر جس میں ان کی جانب اس بیان کو منسوب کیا گیا کہ ویکسین لینے والے تمام افراد دو سال میں مر جائیں گے۔ چناں چہ اس ویڈیو کے سوشل میڈیا میں عام ہونے کے بعد لازمی طور پر ویکسین ہچکچاہٹ میں اضافہ ہوا۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر ہزاروں ایسے ویڈیو گردش میں رہے جن میں کہا گیا کہ ویکسین لگانے سے افراد کی موت ہورہی ہے۔ ویکسین لگانے سے انسان کے اندر مقناطیسیت پیدا ہورہی ہے۔ ان بہت سے ویڈیوکی وجہ سے غیرمعمولی ویکسین ہچکچاہٹ میں اضافہ ہوا۔
یہ تمام ویڈیو تلبیس و تدلیس اطلاع (disinformation and misinformation) پر مبنی تھے۔
قیادت، سیاسی و مذہبی: سیاسی اور مذہبی قیادت نے بھی ویکسین لگانے میں بہت دیر کی ہے مثلاً ہندوستانی سیاسی لیڈران نے ویکسین رول آؤٹ کے کئی ہفتوں بعد ویکسین لگوائی۔ اس سے عوام میں ویکسین کے تئیں اعتبار میں کمی آئی اور یہ بیانیہ تخلیق ہوا کہ ’’اگر لیڈر حضرات یہ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں تو ضرور پہلے عوام پر یہ ویکسین ٹیسٹ کی جارہی ہے اور بعد میں یہ لیڈر لگوائیں گے اس لیے ابھی ویکسین محفوظ نہیں ہے اور اسے نہیں لگوانا چاہیے۔‘‘
مذہبی اور سیاسی قیادت کے اس طرز عمل سے ویکسین کے عمل میں کافی دیر ہوئی ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ لیڈر بھی بہرحال انسان ہوتے ہیں اس لیے ان میں بھی ابتداءً ویکسین کا خوف تھا۔ حالاں کہ بحیثیت قائد وہ بہ آسانی اس خوف پر قابو پاسکتے تھے۔ لیکن وہ اس میں ناکام یاب رہے اور اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر ویکسین ہچکچاہٹ میں اضافہ ہوا۔
مذہب/ کلچر/ جنس: مذہب اور اس سے جڑے بعض تصورات سے بھی ویکسین ہچکچاہٹ پیدا ہوئی ہے۔ مثلاً مسلمانوں میں حرام و حلال کے تصور کی بنا پرغلط طور پر یہ مشہور ہوگیا کہ ویکسین میں سور کی چربی بہ نفس نفیس موجود ہے، ہندوؤں میں یہ مشہور ہوگیا کہ ویکسین میں گائے کے خون کے اجزا ہیں۔ یہودیوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ گائے کے بچے کو ذبح کرکے ویکسین بنائی جاتی ہے۔ عیسائیوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ گائے کے جنین سے ویکسین تیار کی جاتی ہے۔ حالاں کہ بعد میں تمام مذہبی ذمہ داران نے اس بات کو صاف کیا کہ ویکسین کے متعلق بیشتر باتیں غلط ہیں اور ویکسین لگوائی جاسکتی ہے لیکن بعض مذہبی تصورات بہرحال ویکسین ہچکچاہٹ پیدا کرتے ہیں۔
جغرافیائی رکاوٹیں: دور دراز گاؤں اور دیہاتوں میں ویکسین لینے کے لیے لمبے فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں اس لیے عوام عام طور پر ویکسین لینے کے لیے اتنا فاصلہ طے کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں یا کسل مندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی ایک اہم فیکٹر کے طور پر مانا جاتا ہے خاص طور پر دیہی ٹیکہ کاری میں یہ بہت اہم ہوجاتا ہے۔
انفرادی و اجتماعی وجوہات/ اثرات
ماضی میں ویکسین کا تجربہ: ویکسین ہچکچاہٹ میں انفرادی سطح پر سب سے اہم عوامل کے طور پر ماناجاتا ہے۔ مثلاً کسی نے پہلے کوئی ویکسین لی اور اسے کوئی ری ایکشن آگیا۔ مثلاً بہت زیادہ بخار آگیا یا بہت زیادہ کم زوری محسوس ہوئی تو دوبارہ ویکسین لینے کے لیے اس کی آمادگی مشکل سے ہوگی۔
صحت کے متعلق فرد کے نظریات: ویکسین ہچکچاہٹ میں اس کا رول بظاہر کم نظر آتا ہے لیکن عملاً بہت زیادہ ہے۔ مثلاً فرد اگر اس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ مرض وغیرہ کچھ خاص بات نہیں ہے بلکہ خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ فلاں کو ہوا تھا مجھے تو نہیں ہوسکتا یا ہو بھی گیا تو کچھ خاص مسئلہ نہیں ہوگا یا یہ کہ ایلوپیتھی نظام علاج بیکار ہے یا ویکسین تو صرف بڑی کمپنیوں کے ذریعے پیسے کمانے کا ذریعہ ہے وغیرہ۔ اس طرح کے نظریات رکھنے والے افراد نہ صرف یہ کہ ویکسین کے لیے خود ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کے ویکسین لینے یا نہ لینے کے فیصلہ پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس طرح ویکسین ہچکچاہٹ میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
ویکسین اور ویکسین کاری کے متعلق معلومات
اس پہلو کا ویکسین ہچکچاہٹ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ کووڈ ویکسین اور ویکسین کاری سے متعلق اتنی غلط معلومات عوام الناس میں مشہور ہوئیں کہ عالمی تنظیم برائے صحت نے اسے Infodemic کا نام دے دیا۔ یعنی وائرس کے ذریعے عالمی وبا برپا ہوئی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاعاتی وبا کا ظہور ہوا۔ ویکسین اور ویکسین کاری کے متعلق سوشل میڈیا میں ہزاروں جھوٹے آڈیو اور ویڈیو پھیلائے گئے جس سے عوام الناس میں ویکسین اور اس عمل کو لے کر غیرمعمولی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام الناس ویکسین لگوانے اور نہ لگوانے کا فیصلہ لینے میں زبردست خلجان کا شکار ہوگئے۔
صحت، مرض اور ویکسین سے متعلق اداروں پر اعتماد
ویکسین ہچکچاہٹ کا اہم ترین گوشہ یہ بھی ہے۔ تنظیم برائے عالمی صحت کی جانب سے ہر وبا کے متعلق معلومات دی جاتی ہیں۔ اس طرح امریکہ کے مرکز برائے ضبط امراض (Centre for Disease Control CDC)کی جانب سے بھی اعداد و شمار اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ کووڈ 19 کے تعلق سے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں،ان میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کی جاتی رہی کیوں کہ مرض نیا تھا اور وائرس نیا تھا۔ اس کی تحقیقات ابتدائی دور میں تھیں۔ اس لیے جب جو تحقیق خاص معیار پر اترتی اس کے نتائج کو عالمی ادارہ صحت اور CDC ہدایات کے طور پر جاری کرتے۔ لیکن ہدایات کے فرق نے ان اداروں پر اعتماد کو کم کیا ہے مثلاً پہلے کہا گیا کہ 6 فٹ کا فاصلہ وائرس سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔ بعد ازاں کہا گیا کہ نہیں 10 فٹ پر بھی پھیل سکتا ہے۔ پہلے ماسک کے بارے میں کہا گیا کہ کوئی بھی ماسک حفاظت کرسکتا ہے بعد میں کہا گیا کہ صرف کچھ خاص ماسک ہی حفاظت کر پاتے ہیں۔ ویکسین کے متعلق پہلے کہا گیا کہ تمام ویکسین ایک جیسی ہیں کوئی بھی لے سکتے ہیں، بعد میں کچھ تحقیقات کے تحت بعض دوسرے سائنسی تحقیقی اداروں نے کہا کہ فلاں فلاں ویکسین، فلاں فلاں ویکسین سے بہتر ہے۔ ان مختلف اور بعض اوقات متضاد بیانوں کی وجہ سے ان اداروں پر عوام کا اعتماد کم سے کم ہوتا ہے۔ مزید سونے پر سہاگہ کا کام ان اداروں کے متعلق سازشی نظریات نے کیا ۔مثلاً کہا گیا کہ عالمی ادارہ صحت تو دواؤں کی کمپنیوں سے ساز باز رکھتی ہے۔ اور اس کے ممبران کا ذاتی فائدہ ہے۔ اس کے ممبران ان کمپنیوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں اور بدلے میں ان کی ویکسین اور دواؤں کے لیے ہدایت جاری کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ سازشی نظریہ بھی پروان چڑھا کہ بل گیٹس اور عالمی ادارہ صحت میں سانٹھ گانٹھ ہے اور بل گیٹس کی منشا پر عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی وبا قرار دیا ہے تاکہ بل گیٹس ویکسین بنوا کر اسے اونچی قیمتوں پر بیچ سکے۔
ان تمام امور کی بنا پر ان اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہوا اور ویکسین ہچکچاہٹ کو مزید تقویت ملی۔
ویکسین اور ویکسین کاری سے متعلق وجوہات
ویکسین اور ایسےعمل میں موجود خطرے مثلاً خون کے لوتھڑوں کا جمنا، یا دماغی امراض کا ہونا، یاد داشت چلی جانا، بہت زیادہ کم زوری آجانا، بہت تیز بخار کا ہونا، ان تمام خطرات سے غیرمعمولی ویکسین ہچکچاہٹ پیدا ہوئی ہے۔ حالاں کہ یہ تمام خطرے vaccine demographyکے معلوم خطرات ہیں۔ اور ان اثرات کے وقوع پذیر ہونے کی شرح انتہائی کم ہے۔
ایلوپیتھی نظام علاج میں عام تر دوا جیسے پیراسیٹمول بھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ اسی طرح سے ہر دوا کے سائیڈ افیکٹ ہوتے ہیں۔ ہر آپریشن میں خطرات ہوتے ہیں۔ ایلوپیتھی ماڈل اپنی ان کمیوں کے ساتھ ہے۔ اس میں جب فائدہ خطرہ سے زیادہ ہوتا ہے تبھی کوئی ویکسین/ دوا/ آپریشن آزمایا جاتا ہے۔ ویکسین کے سلسلے میں بھی یہی بات درست ہے۔ لیکن عوام الناس میں ایلوپیتھی ماڈل کی یہ کمی ویکسین کے تناظر میں مکمل طور پر معروف و مقبول نہیں ہے . ویکسین کے فائدوں کے بجائے ویکسین کے خطرات بہت زور و شور سے نقل کیے جاتے ہیں اور اس طرح سے ویکسین ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے۔
ویکسین کی قیمت اور ویکسین دینے کے طریقے اور ویکسین کی کارکردگی اور صلاحیت (efficiency and efficacy) کی بنیاد پر بھی ویکسین ہچکچاہٹ وجود میں آئی۔ مثلاً ویکسین کی قیمت زیادہ ہونے پر عوام اسے لگوانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ کارکردگی اور صلاحیت ویکسینولوجی کے معروف مسائل ہیں۔ اسی طرح اشتہار بازی کے ذریعے جب ایک ویکسین کو دوسرے ویکسین پر فوقیت دلانے کی کوشش کی جاتی ہے تب بھی ویکسین ہچکچاہٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہندوستان کے تناظر میں کوویکسین (Covaxin) اور کووی شیلڈ (Covishield) کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جس میں کووی شیلڈ بنانے والی کمپنی کے مالک نے کوویکسین کو سادے پانی سے تعبیر کیا تھا اور یہ کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
ویکسین ہچکچاہٹ اور ویکسین سیاست ایک دوسرے سےمربوط ومنسلک ہیں۔ ویکسین سیاست ویکسین ہچکچاہٹ پیدا کرتی ہے اور پھر ویکسین ہچکچاہٹ مزید ویکسین سیاست کے لیے زمین ہم وار کرتی ہے۔
ویکسین سیاست ایک جدید موضوع ہے لیکن یہ ان معنوں میں نہیں ہے کہ جانے انجانے میں ویکسین پر سیاست کی جاتی رہی ہے۔ماضی میں بھی ویکسین پر سیاست کی جاسکتی ہے۔ کرسٹن ہولمبرگ وغیرہم نے The Politics of Vaccination: A global history نامی کتاب ایڈٹ کی گئی جس میں مختلف مصنفین کے آرٹیکل شامل ہیں اور ویکسین کی سیاست پر پیچیدہ بحثیں ہیں۔
آسان لفظوں میں ویکسین کی سیاست کا مطالعہ درج ذیل عنوانات کے تحت کیا جاسکتا ہے۔
ویکسین کی پیداوار: ہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان پوری دنیا کی ویکسین پیداوار میں 60 فیصد کا حصہ دار ہے لیکن ہندوستان کی کئی ریاستوں میں ویکسین کی قلت ہورہی ہے۔ ویکسین کی یہ قلت کئی وجوہات کی وجہ سے ہے۔
ویکسین رول آؤٹ کا مستحکم وژن نہ ہونا۔
ویکسین کی لائسنسنگ اور پیداواری قوت کو بڑھانے کے لیے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس قدم نہ اٹھانا۔
ویکسین پر غیرضروری سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
مرکزی حکومت رکھنے والی پارٹی کا ان ریاستوں کو زیادہ ویکسین دینا جہاں اس پارٹی کی حکومت ہے۔
مثلاً ابتداءً فرنٹ لائن ورکرس اور فرنٹ لائن ہلیتھ ورکرس کی ویکسین لگوانے کی پالیسی بہت صحیح تھی لیکن بعد میں یہ پالیسی جمود کا شکار ہوگئی۔ اسی طرح گو کہ ہندوستان 60 فیصد ویکسین پیدا کرتا ہے، حکومت کی جانب سے پیشگی معاہدات خریداری (advance purchase agreement) ملک کی آبادی کے حجم کے تناظر میں نہیں کیے گئے۔ ویکسین کی سیاست کی بنا پرمہاراشٹر جو سب سے زیادہ متاثر ریاست تھی اسے بی جے پی والی ریاستوں سے کم ویکسین ڈوز الاٹ کیے گئے۔ چناں چہ ویکسین ڈوز الاٹ کرنے کا فیصلہ بیماری کی شدت پر نہیں بلکہ پارٹی لائن پر کیا گیا۔
اسی طرح ویکسین سرٹیفیکٹ پر وزیر اعظم کا فوٹو غیرضروری سیاسی فائدہ کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ عوامی صحت اور ویکسین وغیرہ یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے ٹیکس سے ویکسین خریدی جاتی ہے اس لیے کسی ملک کے وزیر اعظم کو اس کے سرٹیفیکٹ پر اپنا فوٹو لگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ویکسین سیاست میں ویکسین پروڈکشن کے سلسلے میں اہم ترین رکاوٹ پیٹنٹ ہے جس کی رو سے ہرکمپنی ویکسین نہیں بنا سکتی۔ مرکزی حکومت نے اس ضمن میںپیٹنٹ کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جس کی وجہ سے ویکسین کی پروڈوکشن متاثر ہوئی ہے۔
ویکسین کی تقسیم کاری: عالمی ادارہ صحت کے ذمہ داران اس ضمن میں بہت سارے بیانات شائع کرچکے ہیں۔ پسماندہ ترین ممالک میں مشرقی افریقی ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں ویکسین کی تقسیم کاری میں غیرمعمولی فرق ہے اور یہ فرق ویکسین کی سیاست کا اہم نکتہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ویکسین کا عمومی تقسیم کاری ہوتی۔ غریب ممالک کو مفت میں ویکسین تقسیم کیے جاتے یا کم از کم ویکسین کے پیٹنٹ ختم کردیے جاتے تاکہ غریب ممالک میں موجود دواؤں کی کمپنیاں انھیں خود تیار کرتیں۔ لیکن اس ضمن میں کچھ خاص اور نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اس لیے بعض ممالک ایسے ہیں جہاں فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین کاری کا عمل ہی شروع نہیں ہوپایا ہے۔ بعض ممالک مختلف ذرائع سے ویکسین خریدنے کے لیے قرض حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تمام پہلو ویکسین کی بین الاقوامی سیاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالاں کہ اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت نے GAVI کے ساتھ مل کر ایک بہتر ویکسین بٹوارے کی کوشش کی لیکن اس میں انھیں زیادہ کام یابی نہیں ملی۔
ہندوستان میں تقسیم کاری ہی کے ذیل میں ویکسین کی دو خوراکوں کے درمیان مدت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ابتداءً کہا گیا کہ کووی شیلڈ کی دو خوراکوں کے درمیان 45 دن کا فرق ہونا چاہیے اس کے لیے بنیادی سائنسی ڈاٹا موجود ہے اس کے بعد ویکسین کی قلت ہونے لگی تو کہا گیا کہ 84 دنوں کا فرق ہونا چاہیے۔ اس مدت کو 45 سے 84 دن کرنے کے لیے اس وقت کوئی خالص سائنسی ڈاٹا نہیں تھا لیکن چوں کہ پروڈکشن اور تقسیم کاری میں بہت زیادہ فرق آگیا تھا یعنی ویکسین پیداوار کی رفتار ویکسین لگنے کی رفتار سے کم تھی اس لیے غالباً اس مدت کو 45 سے 84 دن کر دیا گیا۔
ویکسین نیشنلزم (ویکسین کی ذخیرہ اندوزی)
ویکسین نیشنلزم ویکسین کی سیاست کا سیاہ ترین باب ہے۔ جب کچھ ممالک اپنے شہریوں کے لیے ویکسین کے خوراکوں کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ جمع کرلیں تو اسے ویکسین نیشنلزم کہا جائے گا۔
ویکسین نیشنلزم پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہ مادہ پرستی اور خود غرضی کی قبیح ترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ جب ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ویکسین دے کر بچایا جاسکتا ہو ایسے وقت میں اگر کچھ ممالک اپنی آبادی سے دو گنا اور تین گنا ویکسین کو ذخیرہ اندوز کرتے ہیں، تو انھیں بےشرم اور خودغرض ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں شائع اعداد و شمار آنکھیں کھولنے والے ہیں۔ مثلاً اس وقت امیر ترین ملکوں کی 14 فیصد آبادی کے لیے (جو امریکہ، کینیڈا، جاپان اور انگلینڈ میں بستی ہے) 59 بلین خوراکوں کے لیے دواؤں کی کمپنیوں پیشگی معاہدہ خریداری کیے جاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ ٹریڈ ریلیٹیڈ اگریمنٹ آن انٹلکچول پروپرٹی سروس اورعالمی ادارہ تجارت کے دیگر معاہدات کی رو سے یہ کمپنیاں ان خوراکوں کو دینے کے لیے مجبور رہیں گی۔ الا یہ کہ یہ ممالک اپنا معاہدہ ختم کردیں۔ تا حال عالمی ادارہ صحت کے چیف کی کئی گزارشات کے بعد ابھی تک کسی ملک نے اپنا معاہدہ ختم نہیں کیا ہے۔
افریقی یونین کو صرف 270 ملین ویکسین کی خوراکیں درکار ہیں لیکن اسے خریدنے کے لیے اس کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
حالاں کہ عالمی ادارہ صحت نے امیرترین ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کو ختم کریں لیکن تا حال اس پر کوئی جواب ان ممالک کا نہیں آیا ہے۔
ویکسین سرٹیفیکٹ: مختلف ممالک میں داخلہ کے لیے اب کووڈ ۱۹ کے ویکسینیشن کا سرٹیفیکٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس سرٹیفیکٹ پر دو آرا ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اگر کوئی فرد ویکسین لگوانا نہیں چاہتا تو اسے ویکسین لگوانے پر اس طرح مجبور کرنا غلط ہے۔ وہ چاہے تو ویکسین لگوائے چاہے نہ لگوائے ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہ ریاست کا فرد کے حقوق میں دراندازی کا معاملہ ہے۔ کسی ملک میں داخل ہونے کے لیے اس طرح کی شرطیں افراد پر ریاست کا کنٹرول مضبوط کرنے کے زمرے میں رکھی جائیں گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ کووڈ ۱۹ ایک خطرناک ترین بیماری ہے اس لیے اس سے بچنے کے لیے ریاست جو چاہے اقدام کرسکتی ہے کیوں کہ یہ سارے اقدام فرد کی صحت اور معاشرہ کی صحت کی بہتری کے لیے ہی ہوں گے۔
چناں چہ کووڈ سے متاثر فرد کا داخلہ اگر کسی ملک میں ہوجاتا ہے تو وہ اس بیماری کو ملک میں بہت سارے شہریوں تک منتقل کرسکتا ہے اور اس سے معاشرہ کی مجموعی صحت متاثر ہوسکتی ہے اس لیے سرٹیفیکٹ لازم ہے کیوں کہ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ ملک میں داخل ہونے والا فرد کووڈ ۱۹ سے متاثر نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک کووڈ ۱۹ کے خطرہ کی سنگینی کے پیش نظر دوسری رائے کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
لیکن یہاں ویکسین سیاست در آتی ہے۔ یعنی مختلف ملکوں میں مختلف ویکسین کو ہی منظوری دی گئی ہے مثلاً US میں کووی شیلڈ کا سرٹیفیکٹ ضروری ہے جب کہ یوروپ میں یہ سرٹیفیکٹ نہیں مانا جارہا ہے۔ یوروپ میں Pfizer یا Moderna کے ویکسین کا استعمال ہی منظور ہے۔ اسی طرح خلیجی ممالک میں کووی شیلڈ کے بجائے صرف Moderna یا Pfizer کی ویکسین سرٹیفیکٹ کو منظور کیا جاتا ہے۔
جب کہ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام ویکسین چاہے وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر تیار ہوئےہوں کووڈ ۱۹ سے کم و بیش حفاظت کرنے میں مفید ِمطلب ہیں ۔پھر ایک ویکسین کو دوسری ویکسین پر ترجیح کیوں؟دراصل یہ بھی ایک قسم کی ویکسین سیاست ہے۔
اوپر دی گئی تفصیلات سے ہر بات واضح ہوگئی کہ ویکسین ہچکچاہٹ اور ویکسین سیاست ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط زمینی حقیقتیں ہیں۔ ویکسین ہچکچاہٹ کو دور کرنے کے لیے دیگر اسباب کے ازالے کے ساتھ ویکسین سیاست سے پاکی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021