اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات و تندرستی، قوت کار اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے، لیکن یہ نتائج اس تغذیہ کے نہیں ہوتے جو محض کھالینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس تغذیہ کے ہوتے ہیں جو ہضم ہوکر خون بنےاور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کام یابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں ہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہوکر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی کی صورت میں نمایاں ہوں۔خدا کے قانونِ طبعی میں وہ شخص جو کھاکر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھاکر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟
(تفہیم القرآن، تفسیر سورہ یونس، آیت : ۹)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2024