اس بات کی طرف ادارہ زندگی نو اور جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران برابر متوجہ کرتے رہے ہیں کہ کووڈ کی وبا کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی اور ہمیں ان تبدیلیوں کو رخ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زیر نظر مضمون میں اسی قسم کی گفتگو کی گئی ہے۔
ڈاکٹر منصف مرزوقی تیونس کی دستور ساز اسمبلی کے صدر رہ چکے ہیں اور ملک کے صدر بھی منتخب ہوئے اور تین سال اس عہدےپر فائز رہے۔ وہ پیشےسے ڈاکٹر ہیں۔ ان کی پہچان حقوق انسانی کے معروف جہد کار اور متعدد کتابوں کے مصنف، تجزیہ نگار، سیاسی ناقد اور نظریہ ساز کے طور پر رہی ہے اور دنیا کی موثر ترین شخصیتوں کی فہرست میں جگہ رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی یہ تحریر خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔ اس میں انھوں نے صرف رائج تصورات پر تنقید پر اکتفا کیا ہے۔ اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی تنقید کے ساتھ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں متبادلات بھی دنیا کے سامنے پیش کریں۔
یہ ایک سلسلہ مضامین کا پہلا تمہیدی مضمون ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس سلسلے کے اہم مضامین کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کریں(
عظیم امریکی دانش ور نوم چومسکی ایک دل چسپ مکالمے میں کہتے ہيں: ’’ہر وہ شخص جو کورونا کی وبا سے پہلے والی فطری صورت حال واپس آنے کا خواب دیکھتا ہے ، وہ غلطی پر ہے ، کیوں کہ وہ صورت حال کسی بھی طرح فطری نہیں تھی۔‘‘
اس وبائی بيمارى نے اس’فطری‘صورت حال کا پول کھول کر رکھ دیا ہے،جس کے بارے میں كچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی كامياب علاج اور مرض بچاؤ ویکسین کی دریافت ہوگی،وہ اس کی طرف واپس لوٹ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے جیسا کہ کچھ دوسرے لوگ سمجهتے ہیں کہ اس وبائی بیماری كے خاتمےكے ساتھ ہی ہم یکایک ایسی دنیا میں چلے جائيں گے جس کا کورونا سے پہلے والی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
البتہ یہ یقینی ہے کہ بحران کی خطرناکی ہم سب کو ان تمام اصولوں پر از سر نو بالکل جڑ سے جائزہ لینے پر مجبور كرے گی جن پر موجوده دنیا کو بنایا گیا ہے،اور یہ چیز دیر یا سویر ہمارے طرز زندگى اور طرز فكر میں بنیادی تبديلی ضرور لائے گی، اس کی ابتداہوچكى ہے اگرچہ بہتوں كو اس كا ادراك نہيں ہوپا رہا ہے۔
یہ وبائی بیماری اس زلزلے کے مانند ہے جو انجینئروںکو مجبوركردیتا ہے كہ وہ قديم منہدم عمارتوں کے نقائص كوسمجهنے كے بعد ایسی عمارتیں تخلیق کریں جو مستقبل میں زلزلوں کے سامنے ٹھہر سكیں۔ بالکل اسى طرح اب ہم بحيثیت افراد، اقوام اور ملكوں کےدوبارہ سوچنے پرمجبور ہوں گے،تاکہ ہم نے جو فکری اور مادی نظام اور پالیسیاں تعمیر کررکھی ہیں ان کےتمام کم زور پہلوؤں کی نشان دہی ہو ، اور اس ہول ناک تجربے نے ہمیں جو سکھایا ہے اسے بہتر تعمیر میں کام لا ئیں۔
کورونا کے زلزلے نے جس سسٹم کو سب سے زیادہ ہلا کر رکھ دیا ہے وہ نظام صحت ہے۔ اس وبائى بيمارى كا مقابلہ كرنے ميں غريب ممالك کے نظامِ صحت كا ناکام ہوجانا كوئى تعجب كى بات نہيں ہے، ليكن امريكہ،برطانيہ اور اٹلى جيسے بڑے مغربى ممالك کی ایسی سانحاتی تصویر سامنے آنا جس میں يہ ممالك چينى فوجى طياروں سے طبى امدادمنتقل كرتے نظر آتے ہیں۔ تواس کا مطلب ہے کہ ان تما م ملکوں کو تلخ سے بھی زیادہ سخت جائزوں کی ضرورت ہے، اپنے صحت کے سسٹم کو نئے سرے سے قائم کرنے کے لیے۔
درحقيقت مجهے امریکی نظامِ صحت کے زمیںبوس ہوجانے پرتعجب نہيں ہوا،جس کی اصلاح کی باراک اوباما نے کوشش کی تھی،ليكن پھر ڈونالڈ ٹرمپ نے آكر اس آدمی کی تمام اصلاحات پر پانی پھیرديا۔ مجھے برطانوی نظام كے گھٹنے ٹیکنے پر بھی حیرت نہیں ہوئی جو آج اخلاقی اصولوں سے عاری لبرلزم کی قیمت خود بھی ادا کررہا ہے ،اور وہاں كے بے گناہ مریضوں سے بھی ادا کرارہا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ 80 کی دہائی کے آغاز میں تونس كے شہر سوسہ ميں فیکلٹی آف میڈیسن میں طب وقائی کے پروفیسر کی حیثیت سے پانجويں سال كے طلبا کے سامنےمجھےدنیا میں رائج صحت كے نظاموں کےعنوان پر ليكچر دینے تھے۔ مجھے ان کاتقابلی جائزہ پیش کرنا تھا ، جس میں نمونے کی حیثیت سے سوویت یونین بطور كميونسٹ ملك، امریکہ بطور سرمايہ دار ملك تھے اور سویڈن اور برطانیہ بطور ان ممالک کے تھے جنھوں نے سوشلزم اور کیپٹلزم کے بہتر افکار کواخذ کیا ۔
صحت عامہ پر خرچ اور نتائج کے حوالے سے، ميں طلبا کو بتارہا تھا کہ صحت کا بدترین نظام امریکی نظام ہے۔ اس کی لاگت بہت زیادہ ہےاوربیماری سےلڑنے اور شرح اموات ميں كمى لانےكے لحاظ سے اس کا حاصل بہت کم ،خواه اس كا تعلق نوزائیدہ بچوں سے ہویا بوڑھوں سے ۔یہ سب اس لیے کہ امریکہ كا نظامِ صحت مریضوں کے مفاد كى خاطر نہیں بنایا گیا، بلکہ ایک انتہا پسند لبرلزم كے مفاد كى خاطر بنایا گیا ہے جس كے نزديك صحت ايك سامان ہے ، خرید وفروخت کے ہر سامان کی طرح۔ اور اسپتالوں یا انشورنس کمپنیوں کی فکر صرف نفع کا حصول ہے، کسی بھی چیز سے زیادہ ۔
میں طلبا كو دستیاب سائنسی اعداد و شمار كى بنياد پر بتاتا تها کہ صحت کا سب سے بہترین نظام برطانوی نظام ہے ، کیوں کہ وہ انصاف ، منصوبہ بندی اور مریضوں کی آزادی پر مشتمل ہے ۔ اور اس لیے بھی کہ رياستى ٹيكس كے ذريعےاس كى مالى اعانت ہوتى ہے۔ یہ مارگریٹ تھیچر کے اقتدار میں آنے سے پہلے كى بات ہے،جب 80 كی دہائی کے آخر میں اس نے آکر برطانوی صحت کے نظام کی چیر پھاڑ نہیں کی تھی۔ اس کے یہاں ’کی ورڈ‘ نج کاری تھا، اوراس کا ماننا تھا کہ اسپتال ايك اقتصادى اداره ہے جو مریضوں پر اس نفع میں سے ہی خرچ کرے گا جو اسے خود مریضوں سے حاصل ہوگا۔
یہ تو طے ہے کہ لبرلزم جو اب تک دنیا کے سرکردہ معاشی ماہرین جیسے تھامس پیکیٹی کی بمباری کے نیچے رہا ، اس بحران سے اور زیادہ لاغرہوکر نکلے گا، صرف اس نظام صحت كى كاركردگى کی وجہ سے نہیں جس کا وہ ذمہ دار ہے، بلکہ اس عالمی اقتصادی مشین کے اتنی جلدی بیٹھ جانے کی وجہ سے ، جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، خاص طور سے80 كى دہائى كے آخر ميں امريكى صدر ريگن اور برطانوى وزير اعظم مارگریٹ تھیچر كے درميان معاہدوں كے بعد۔
جيسے ہى وبائى بيمارى ہم پر حملہ آور ہوئی، پيداوار دھڑام سے نیچے آگری، کیوں کہ دنیا کے کونے کونے میں قائم فیکٹریوں کے درمیان مواصلاتى نظام ٹهپ پڑگیا،جنھیں سستے مزدوروں کے پیش نظر یہاں وہاں بانٹ دیا گیا تھا۔اس کے نتیجے میں اچانک گویابے روز گارى کی سونامی آگئی، اور اس کے بعد زیادہ کم زور ملکوں میں بھکمری کی واپسی کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ یہ سخت حالات لبرلزم کے پرستاروں کا انتظار کررہے ہیں۔
اقوام اور اشرافیہ نےفطرت کو تباہ وبرباد کرتے ہوئے اپنے عیبوں اور کوتاہیوںسے صرف نظر کرلیا تھا، کیوں کہ انھوں نے یہ مان لیا تھاكہ بہت سے مواقع كى طرح یہ بھی دولت بڑھانے کا میدان ہے۔ليكن وہ اپنی ذمہ داری سے معاف نہیں کیے جائیں گے،موجوده اقتصادى بحران ميںاورکورونا کے خاتمےکے بعد اس بحران کے نتیجے میں جو اوربحران آئیں گے،ان پر نہ اقوام خاموش رہیں گی اور نہ بڑی عالمی کمپنیوں کے دباؤ میں آکر بہت سے ممالک ۔
وطنيت اور قوميت
اس وبائى بيمارى نے اس تصور کی مضحكہ خيزی اس طرح نمایاں کردی ہے کہ اس پر کسی کارٹون کا گمان ہوتا ہے۔ یہ وائرس ہمیں یہ دل پذیرسبق دیتا ہے کہ انسانیت ایک ہے اور یہ دنیا ایک ہے۔بھلاآج آزادقومى فيصلے جيسے تصور كا كيا مطلب رہ جاتا ہے ،جب کہ تم ایسی دنیا میں رہ رہے جوباہم مربوط اور گتھم گتھا ہے۔ جس میں ہر وطن ایک مشترک نسیج کے خلیےکی طرح ہے، اس کی زندگی سے ہر خلیےکی زندگی ہے، اس کی بیماری اسے بیمار کرتی ہے اور اس کی موت اس کی موت بن جاتی ہے۔
آج ایسی دنياوى سرحدوں كا كيا مطلب رہ گیا جس میں چمگاڈروں کا گوشت کھانے کی چینیوں کی حرص كے نتيجہ میں ہزاروں اطالوی ، ہسپانوى اور فرانسیسی موت كا شكار ہوتےہيں ، لبنانی بهوك كى خاطر مظاہره كرتے ہيں،تونس ميں سوجی اور آٹے سے لدے ہوئے ٹركوں پر ڈاکہ زنی کے واقعات بڑھ جاتے ہیں،برطانوى وزيراعظم آئی سی یو ميں ایڈمٹ ہوتےہیں، اور دنيا كى نمبر وَن فوجى قوت كا سربراه تمام لوگوں كے لیے مذاق بن جاتا ہے جب وہ اس بيمارى كے علاج كے لیے عبقرى تجاويز پيش کرتا ہے۔
جمہوریت کے بارے میں کیا کہیں؟ وبائی مرض سے پہلے ہی یہ تکلیف کی حالت سے دوچار تھی، اوپر پاپولزم کی ہتھوڑی اور نیچےکرپشن کا سندان ۔ اس صورت حال نے صحافت، پارٹیاں اور انتخابات جيسےاس کےتمام ستونوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ۔ اب اس وبائى بيمارى كے بعد وہ اتنی لاغر ہوچکی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ نئے اور پرانے ڈكٹيٹرموقع سے فائدہ اٹھانے میں لگےہیں،اورمغربی جمہوریت کی ناقص کارکردگی کاچینی نظام کی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ، اسے مستقبل کے بہترین سیاسی نظام کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
اس وقت انھیں یہ یاد دلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ جنوبى كوريا نےوبا سے مقابلہ ميں سب سے بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان کی نگاہیں چین اور اس کے نظام پر ٹکى رہیں گی، جس میں شاید عرب اپنے سب سے قدیم ، سب سے گہرے اورسب سے خطرناك واہمے یعنی ’آمرانہ عادلانہ نظام‘ کی کامیابی دیکھ رہے ہیں۔
اب انسانی حقوق كوليں۔ اس وقت انفرادى اور اجتماعى آزادىوںکو بڑھتے ہوئےخطرے سے پیدا ہونے والا بڑا اشکال یہاں پایا جاتا ہے، کیوں کہ ٹکنالوجی نے نگرانی اور تعاقب کی سہولتیں بہت بڑھادی ہیں۔اور اس وبائى مرض نے اب تک کے سب سے بڑے پيمانے پر اس كا تجربہ كرنے كا سنہری موقع فراہم كيا ہے۔
اس وبا نے ہمارے سامنے حقوق کے علم برداروں کی حیثیت سے ایسے چیلنج کھڑے کردیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی درپیش نہیں آئے تھے۔
آج ہم جانتے ہیں کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر کہنہ بیماریوں میں مبتلا عمر رسیدہ افراد ہیں۔ کیا ہم نسبتا اس چھوٹے طبقے کی زندگیوں كى چند سال مزیدحفاظت كى خاطر جو اپنى طبعى عمر پوری کرنے والے ہی ہیں، معاشى پہيے كو روك كراور لاک ڈاؤن کی قيد عائد كركے كروڑ ہا کروڑ لوگوں كے كهانے پينے اور كام کرنے كے حق كو داؤ ںپر لگادیں؟ یہ سوال حقوق کو درپیش ایک بڑے چیلنج کی ترجمانی کرتا ہے۔
حقوق انسانى كے عَلَم بردارکی حیثیت سے ہمارا رد عمل ان بڑے مال داروں كے سلسلہ ميں كيا ہونا چاہیے جن كے بیچ بحر اوقيانوس يا بحر الكاہل ميں چھوٹے چھوٹے جزیرے خریدنے كى دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جہاں وه اپنے خاندان او ر محافظوں کے ساتھ محفوظ رہيں، جب تك كہ اس وبا كا خاتمہ نہ ہوجائے۔ انہيں اس بات كى پروا بالکل نہيں ہے كہ انسانوں کا بڑاحصہ یا تمام انسان موت کا نوالہ بن جائیں گے۔ کیاملکیت كا حق جیسا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے سترہويں باب میں درج ہے،غیر مشروط اور لا محدودہے؟کسی بھی حوالے سے اس كو چھیڑا نہیں جاسكتا ہے ؟ کیا اس کی حیثیت بھی اس اعلامیہ کے پانچويں باب جیسی ہے جس میں جسمانی تشدد اور بے حرمتی کی سخت ممانعت ہے؟ یایہ اضافی حق ہے جس کی متعین حدیں ہیں؟
کیا ریاست کا یہ فرض نہیں ہے كہ ايسے حالات ميں حد سے زیادہ دولت پر قابض اشخاص کے اس حق کو معطل کردیا جائے، اس دولت کی حد تک جو انھوں نے ذخیرہ کررکھی ہے اور ان كى ضروريات سے بہت زائدہے –تاکہ اس کے ذریعہ كروڑوں بهوكے افراد کو بھکمری سے بچایاجائے۔اس لیے کہ ان كا تعلق بهى انسانى قبيلےسے ہے اور انہيں اس صورت میں بهى جينے كا حق ہے اگر وبا كى مدت دراز ہو؟
وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ خود اس عالمی اعلامیہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، صرف اس باب کی حد تک نہیں بلکہ دوسرے ابواب کی سطح پر بھی، تنقیح اور اضافے کے پہلو سے از سر نو جائزے کی ضرورت ہے۔
معاملہ يہ نہيں ہے كہ ہم ان تمام نظريات كا انكار كرديں جن كى ہم اب تک پرستش کرتے ر ہے ، یا ہم ان سرابوں کے پیچھے اب تک دوڑتے رہنے پرجن کی ہماری اقوام نے بھاری قیمت ادا کی ہےسینہ کوبی کریں ۔
صحيح بات یہ ہے کہ ہم ہميشہ عصر حاضر كے حقائق ، اس كے تصورات،اس کی زبان اور اس کی صورتوں کو بنیاد بناکر غوروفكر كرتے ہيں۔ اور معاشرے کی ترقی اور مشکلات کے ہر مرحلے میں ہم میں سے ہرایک نے اپنی اپنی جگہ حل پانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے کچھ حل کامیاب ہوگئے، اور انھوں نے ہی کسی بھی درجے میں معاشرے کو ارتقا کی راہ دکھائی، اور کچھ حل ایسے ہیں جن کی حدیں سامنے آگئیں، اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت کا ادراک ہوا، اور کچھ حل ایسے ہیں جنھیں تجربات نے غلط یا از کار رفتہ ثابت کردیا ہے، اور ان کے متبادل کی تلاش لازم ہوگئی ہے۔
بس آج ہميں يہى كرنے كى ضرورت ہے ۔ اس وبائی مرض نے ان تمام پرانی دراڑوں كو عياں كرديا ہے جو ہمارے معاشروں میں جہاں تہاں مقدس ترین فکری مقدسات میں پائی جاتی تھیں ۔ وہ وطنیت ہو،(یاقومیت ہو جو وطنیت کی وسیع تر شکل ہے)، ترقی پسندی ہو، جمہوریت ہو ، لبرلزم ہو ، انسانی حقوق ہوں یا سیاسی اسلام ہو۔
اس طرح کا جائزه مہنگا او رکرب انگیزہوگا، کیوں کہ اس کی مزاحمت ان معبدوں کے پہرے داروں کی طرف سے ضرور ہوگی، جن کے عین قلب میں کورونا کی مار پڑی ہے۔
ميں نے اپنے عہدِجوانى ميں ايك تنقيدى كتاب لکھی تھی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا لہجہ بہت سخت ہے، اس كا عنوان ہے ’في سجن العقل’ يعنى دماغ كے قيدخانےميں (يہ ميرى ويب سائٹ پر دستياب ہے) ۔ اس ميں ایسے لوگوںکی ذہنیت کا بيان ہے، جن کے بارے میں گليلیو نے كہا ہے ’ ’يہ لوگ ارسطو كى كتاب ميں پڑهى ہوئى غلطيوں کو جھٹلانا گوارا نہیں کرتے، چاہے ان حقائق کو جھٹلانا پڑ جائے جنھیں وہ اپنی سر کی آنکھوں سے آسمان میں دیکھتے ہیں‘‘۔ بعدازیں میں نے عقیدے رکھنے والوں کے موقف کو اپنے تجربات سے سمجھا ، يا سمجهنے كى كوشش كررہا ہوں ، کیوں کہ وہ درحقیقت ايك ناگزير فرض انجام دیتے ہيں۔
دراصل معاشروںكو سب سے زیادہ خوف خلفشار سےہوتاہے ۔ اس کی سب سے اہم طلب استحكام واستقرار ہوتی ہے۔ اور اسی لیے اسے روایت پسندوں کے بریک کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن جو چیز معاشرے کو سب سے زیادہ کم زور کرتی ہے وہ جمود ہے ، اور معاشرے کی اہم طلب ارتقا ہے۔ لہذا اسے ہمیشہ اصلاح پسندوں اور انقلابیوںكى ضرورت رہتی ہے۔ انجام کار نہ تو روایت پسندوں كو اصلاح پسندوں اور انقلابیوں سے چھٹکارا مل سكتا ہے ، اور نہ ہی اصلاح پسندحضرات روایت پسندوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں ،جب کہ اجتماعی ذہن کو دونوں كى ضرورت ہے تاكہ ٹھہراؤ او رحرکت كے درميا ن توازن برقرار رہے۔
اس كا مطلب يہ ہےكہ ان لوگوں کے ساتھ بحث کرنے میں وقت اور صلاحيت كو ضائع نہ كيا جائے جو شعورى یا غير شعورى طور پر پرانے افكار اور رواجوں کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ زمانہ خود ان كے لیے كافى ہےکیوں کہ ان میں بہترین لوگوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ بالآخردرمیانی حل تلاش کریں گے، اور ان میں بدترین لوگوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ایسی عمارت کے اندر پڑے سڑتے رہیں گےجس کی دیواریں دن بدن کھوکھلی ہوتی جائیں گی، یہاں تک کہ انھی کی ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گرپڑیں گی۔
اس کی مثال کے لیے ہم پچاس كى دہائى كى قوم پرستى كو ليتے ہيں۔ یہ عربی قوم پرستی کی ایسے تصور کی حفاظت کرتی رہی جس كا زمانہ بیت گیا۔اس کے باوجود آج تک وہ ایسےڈكٹيٹروں کا دفاع کررہی ہےجو اس مصیبت زدہ امت کے ساتھ بھیانک جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ۔ایسے جرائم جن کے ارتکاب کی جرأت نہ استعمار کرسکتا ہے اور نہ ہی صہیونیت۔
اب بس یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس نازک ترین صورت حال میں اجتماعی عقل کاحرکیاتی حصہ اپنی ذمہ داری انجام دے۔
ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے سرعت کے ساتھ قدروں پر مبنی ایسےفکری نظام كى تشكيل كرليں جسے قطب نما کی حیثیت حاصل ہو۔ ساتھ ہی ایسے فعال سیاسی وسائل پیدا کریں، جو افكار اور قدروں كو ايكشن ميں تبديل كرديں ، اور اس طرح افراد، اقوام او ر انسانى نسل كو بچانے کا کام کریں۔
ابھی تک نہ تو ایسا کوئی نظام پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے نقوش کی ابتدائی صورت ہی نظر آتی ہے۔آج کون کہہ سکتا ہے کہ لبرلزم ، قومیت، جمہوريت ، سياسى اسلام، ترقى پسندى اور انسانى حقوق كے مابعد کے لیے اس کے پاس کوئی واضح تصور ہے؟
بس ايك ثابت شده حقيقت يہ ہے كہ ہمیں باکس کے باہر سوچنا ہوگا۔ اپنی جہالت کے ساتھ ، مسائل کی خوف ناک پیچیدگی کے ساتھ اوراجتماعی عقل کے روایت پسند حصے کے ساتھ سخت کشمکش کرتے ہوئے۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ ہے ’فکری نفیر‘کا اعلان، اور اس تصور کو نکھارنے کے لیے اپنی تمام توانائیوں کو اکٹھا کردینا۔
یہ کیسے؟
دیکھیں سائنسی محققین نے اس بحران كا كيسے سامنا كيا ہے۔ چينيوں نے وائرس كے جينياتى تركيب سے متعلق اپنی دريافتوں كو چهپاكر نہيں ركها بلكہ اسے دنیا بھر کے اہل تحقیق کے سامنے رکھنے میں جلدی کی۔ اور یہی ان کے دوسرے ملکوں کےساتھیوں نے کیا۔اسی طرح آج ایک اور تجربہ اسی وقت جاری ہے، یہ ایک امریکی یونیورسٹی کی پہل ہے،جو دنیا کے زیادہ سے زیادہ کمپیوٹروں کو ایک نیٹ ورک میں جمع کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاکہ اسے ایسی زبردست کمپیوٹیشنل پاور حاصل ہوجائے، جو اس پروٹین تک جلد از جلد رسائی کی کوششوں میں مددگار ہو جو وائرس کو خلیوں کی سطح پر اترنے اور پھر داخل ہونے سے روک سکے۔
اس میں شامل ہونے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ خود بھی محقق ہوں یا پروٹین کے ماہر ہوں، آپ کو صرف اپنے فارغ وقت میں اپناكمپيوٹرادهاردينے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے امکانات کوباقی کمپیوٹروں کے امکانات میں شامل کیا جاسکے۔ جہاں تک سائنسی عمل کی بات ہے تو وہ سائنسى ماہرين کے کرنے کا کام ہے۔ یہ دو مثالیں ہیں جو نئے راستہ كا پتہ ديتى ہیں۔
ہمیں اپنے تجربات اور آگاہیوں کو ایک ساتھ ایک ہی ٹوکری ميں ڈالنے كى ضرورت ہے ، اپنى عقلوں كو آپس ميں جوڑ نا ہے۔ اس نئے فکری نظام کی تشکیل کی یہ دو بنیادی شرطیں ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے ، جس سے شاید ہم اپنی حفاظت کرسکیں۔ یا شاید ہم زبردست اجتماعی عالمی عقل میں —جسے ہم اپنی نگاہوں کے سامنے تشکیل پذیر ہوتے دیکھتے ہیں ، اور اس میں ہماری کچھ حصہ داری نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ ابن خلدون کے زمانے سے ہے—پھر سے نئے افکار داخل کرنے لگیں ۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020