عبادات اور اصلاح و تربیت

(مولانا سید احمد عروج قادری )

مولانا سید احمد عروج قادریؒ کایہ کتابچہ عبادات اور اصلاح و تربیت‘ دراصل ایک مقالہ ہے، جس میں مولانا نے تین نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ (۱)  پہلے نکتہ کے تحت انہوں نے دین اسلام کے ارکان نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج جو عبادات کی شکلیں ہیں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ یہ مقصود بھی ہیں اور ذریعہ بھی ہیں۔ (۲) دوسرے نکتہ میں تربیت کی چار قسموں کا ذکر کیا ہے (۳) تیسرے نکتہ میں اس پر مختصراً روشنی ڈالی ہے کہ فرائض و نوافل عبادات اور ذکر واذکار سے ہم اپنی تربیت کے لیے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں؟

مقصود اور ذریعہ

سب سے پہلے مولانا نے قرآن کے حوالے سے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عبادات نہ صرف مقصود ہیں اور نہ صرف ذریعہ ہیں بلکہ یہ سمجھنا صحیح ہے کہ یہ مقاصد بھی ہیں اور اصلاح و تربیت کے ذرائع بھی ہیں۔ سورہ الذاریات آیت۵۶ میں فرمایا گیا : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ ترجمہ: ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘مولانا نے اس آیت کی وضاحت کے طور پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی تفسیر سے حوالہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ــــ’’معلوم یہ ہوا کہ جنّ اور انسان جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی پرستش کریں، صرف اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں، صرف اسی کے نیاز مند ہوں، صرف اسی کے سامنے جھکیں، صرف اسی کے احکام بجا لائیں، صرف اسی سے تقویٰ کریں، صرف اسی کے بھیجے ہوئے دین کی پیروی کریں، صرف اسی کو اپنی قسمتوں کا بنانے والااور بگاڑنے والا سمجھیں اور صرف اسی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلائیں۔ ان میں سے ہر چیز مقصود بالذات اور ان کے مقصد تخلیق کو مکمل کرنے والی ہے کیونکہ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پرستش بھی ہے اور پوری زندگی میں اس کے احکام کی اطاعت بھی۔ ‘‘

زندگی کے مقصد کی دوسری تعبیر پیش کرتے ہوئے مولانا نے سورہ کہف کی آیت : ۷ کا حوالہ دیا ہے جس کا ترجمہ ہے: ’’روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کو زمین کے لیے سنگار بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ ان میں اچھے عمل کرنے والا کون بنتا ہے۔‘‘

اسی مضمون کو سورہ الملک آیت نمبر ۲ میں فرمایا گیا کہ: ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘ان آیتوں کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ’’حسن عمل یا عمل صالح، مقصد تخلیق کی دوسری تعبیر ہے جو عبادات سے مختلف اور متضاد نہیں ہے۔ کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اعمال کے وہ ستون ، نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج ہیں۔ یہی چار ستون ہیں جن پر دین اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے اور اچھے اعمال کی وہ جڑیں بھی یہی عبادات ہیں۔ مقصد تخلیق کی اس تعبیر سے بھی معلوم ہوا کہ عبادات مقصود بالذّات ہیں ۔‘‘

عبادات کے مقصود ہونے کے اس وسیع دائرے کی وضاحت کے بعد مولانا نے خاص طور سے قرآن کی ان آیتوں کا حوالہ پیش کیا ہے جس میں نماز اور زکوٰۃ کا مقام متعین کیا گیا ہے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میںتمام نیکیوںاور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی اطاعت کے اظہار کے لیے صرف اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ یا انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں بھی ایمان کے بعد اعمال میںصرف اقامتِ صلوٰۃ اور انفاق کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر کا حوالہ پیش کیا ہے کہ: ’’قرآن کے تدبر سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں بنیادی نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰۃ کو حاصل ہے۔ دوسری نیکیاں انھیں دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں بلکہ انھیں سے پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ قرآن کے بے شمار مقامات میں ان دونوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ ان کا ذکر آگیا تو گویا سب کا ذکر آگیا۔ مثلا سورہ توبہ میں فرمایا گیا کہ: ’’پس اگر وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی بن گئے۔‘‘ اس حوالے کے بعد مولانا لکھتے ہیں: ’’ان دونوں چیزوں کی حقیقت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ فی الواقع دین میں ان کی حیثیت ہونی بھی یہی چاہیے، ایک آدمی کے اللہ تعالیٰ کا ٹھیک بندہ بن جانے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے؟ اسی چیز کی کہ ایک طرف وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑ جائے اور دوسری طرف خلق سے اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہوجائے۔ نماز انسان کو خدا سے صحیح طور پر جوڑتی ہے اور انفاق سے خلق کے ساتھ اس کا تعلق بالکل صحیح بنیاد پر استوار ہو جاتا ہے۔ ایک شخص اگر اپنے رب کے حقوق ادا کرتا ہے اور خلق کے حقوق پہچانتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی کلید پاگیا۔ ‘‘

آگے مولانا نے نماز اور زکوٰۃ کے مقصودبا لذّات ہونے کے ثبوت کے طور پر قرآن سے متعدد حوالے پیش کیے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ صرف ذریعہ نہیں ہیں بلکہ پابندی سے ان کو ادا کرتے رہنے سے ہی آخرت میں نجات حاصل ہوسکے گی مثلاً سورہ توبہ آیت۵ میں فرمایاگیا:’’پھر اگر وہ توبہ کرلیںاور نماز قائم کریںاور زکوٰۃ دیں تو انھیں چھوڑ دو۔‘‘اسی سورہ کی آیت ۱۱ میں پھر فرمایا: ’’پس اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃدیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘ مولانا لکھتے ہیں: ’’کون شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ جن چیزوں کو دین میں یہ مقام حاصل ہے وہ خود مقصود نہ ہوں بلکہ محض ذریعہ ہوں۔ قرآن کے دلائل یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ عبادات کو محض ذریعہ سمجھنا غلط ہے اور یہ کہ جو لوگ اقامت صلوٰۃ نہیں کرسکتے ان سے اقامت دین کی توقع خام خیالی ہے۔ ‘‘

اس کے بعد مولانا نے قرآن کی ان آیتوں کو پیش کیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادات اصلاح و تربیت کے ذرائع بھی ہیں۔ مثلاًنماز کے تعلق سے سورہ بقرہ آیت نمبر ۴۵میںبنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ : ’’وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوٰۃ صبر اور نماز سے مدد لو۔ پھر آیت نمبر ۱۵۳ میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا۔ ’’اے ایمان والو، صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ان آیتوں کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر سے حوالہ پیش کیا ہے کہ: ’’آدمی اگر صحیح راہ پر چلنے کا عزم کرلے اور اس پر چل کھڑا ہو اور ساتھ ہی برابر اپنے رب کو یاد رکھے اور اس سے مدد مانگتا رہے (جس کی بہترین شکل نماز ہے) تو اس کے عزم کی قوت ہزار گنی بڑھ جاتی ہے ، کوئی مشکل سے مشکل حالت بھی اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہونے نہیں دیتی۔ اگر حالات کی نزاکت سے آدمی کے پائوں لڑکھڑانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی اس کا وہ تعلق جو نماز کے واسطہ سے قائم ہوتا ہے، اس کو گرنے سے بچا لیتا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں صبر کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ اس وصف کو پیدا کیے بغیر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے عہد پر قائم نہیں رہ سکتی اور نماز کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہی چیز صبر کے پیدا کرنے ، اس کو ترقی دینے اور اس کو درجہ کمال تک پہچانے کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ ‘‘اس وضاحت کے بعد مولانا لکھتے ہیں: ’’نماز سے استعانت دراصل اللہ سے استعانت ہے۔ اسی کی مدد تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔

قرآن میں ان کے علاوہ اور آیتیں بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو راہ حق پر قائم رکھنے اور اس کی زندگی کو سدھارنے اور سنوارنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔‘‘نماز کے بعد روزہ کے تعلق سے بتایا کہ رمضان کے روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے تعلق سے سورہ توبہ آیت نمبر ۱۰۳ میں فرمایا گیا کہ: ’’تم ان کے مالوں سے صدقہ قبول کرو اس سے تم ان کو پاکیزہ بنائو گے اور ان کا تزکیہ کروگے۔‘‘ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی، تزکیہ حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حج کے تعلق سے مولانا لکھتے ہیں: ’’سورہ بقرہ ۱۹۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی طرح حج بھی تقویٰ کے حصول ، اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور اس کے ذکر کی مشق کا ذریعہ ہے۔ حج میں شعائر اللہ کی تعظیم کے احکام دیے گیے ہیں اور اس تعظیم و احترام کو تقویٰ القلوب( دلوں کا تقویٰ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قربانی کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تک گوشت اور خون نہیں پہنچتاہے ۔ یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حج بحیثیت مجموعی حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے۔‘‘ دین کے چاروں ستون نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کے ذریعہ حاصل ہونے والی خصوصیات کے ذکر کے بعدسورہ المائدہ کی آیت نمبر ۳۵ کو پیش کیا ہے جس میں تمام نیکیوں کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنے کو کہا گیاہے۔ ترجمہ ہے: ’’اے ایمان لانے والوں اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس راہ میں جد وجہد کرو، شاید تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے۔‘‘ مولانا لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں وسیلہ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہاں اس کے معنیٰ ذریعہ تقرّب کے ہیں۔ مفسرین و علماء کے نزدیک کوئی خاص ذریعہ تقرب مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد تمام طاعات کو بروئے کار لانا اور تمام معاصی کو ترک کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام عبادتیں، طاعتیں، نیکیاں، اذکار اور دعائیں رضائے الٰہی کے حصول اور اس بارگاہ میں تقرب کے ذرائع ہیں۔‘‘

عبادات فرض ہیں، اور ان کی ادائیگی کا جو طریقہ ہے اس طریقے پرپابندی سے ادا کرنا ضروری ہے اور ساتھ ہی عبادات کے ان طریقوں کی پابندی سے ہم اپنی اصلاح و تربیت بھی کرسکتے ہیں اور اللہ کا تقرب دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

تربیت کی قسمیں

یہ بتانے کے بعد مولانا نے تربیت کی چار قسمیںبتائی ہیں۔ (۱) علمی تربیت (۲) عملی تربیت (۳) انفرادی تربیت (۴) اجتماعی تربیت۔ علمی تربیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں اپنے دین و ایمان، مقصد زندگی، اپنے نصب العین او ر ان سب کے تقاضوں کا علم حاصل ہو نیز عبادات اور ان کے شرائط و حدود کی واقفیت بھی ہو۔ عملی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جن قابل عمل چیزوں کا علم حاصل کیا ہے ان پر عمل کی اتنی مشق اور اتنی مہارت حاصل کر لیں کہ وہ ہماری زندگی کے لوازم میں داخل ہوجائیں اور وہ ہماری راسخ صفات بن جائیں۔ علمی تربیت کتابوں، تقریروں، خطبوں، قرآن و حدیث کے درس و تدریس اور اس طرح کے دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتی ہے اور عملی تربیت میدان عمل میں ملتی ہے۔ انفرادی تربیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص پر بحیثیت فرد علم و عمل کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ انھیں ادا کرنے لگے۔ اجتماعی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی جماعت کا رکن ہونے کی وجہ سے اس پر جو جماعتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ اس کو محسوس کرے ، ان کو پورا کرے اور ان سے غفلت نہ برتے۔

استفادے کی تدبیر

مقالے کے آخر میں مولانا نے عبادات یعنی نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج سے ہم کس طرح تربیت حاصل کرسکتے ہیں اور ان سے ہم کس طرح استفادہ حاصل کرسکتے ہیں اس پر روشنی ڈالی ہے۔لکھتے ہیں: ’’استفادے کی تدبیر یہ ہے کہ نماز،زکوٰۃ، روزے، حج، اذکار اور نوافل کے جو فوائد قرآن اور صحیح احادیث میں بیان کیے گیے ہیں ان کو سامنے رکھ کر اپنا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ نماز باجماعت ایک طرف اوقات کی پابندی، ڈسپلین اور اطاعت امام سکھاتی ہے اور دوسری طرف حقیقی نمازیوںکو مربوط کرتی، ان کے درمیان اخوت کے جذبے کو فروغ دیتی اور باہمی ہمدردی و مواسات کے جذبات ابھارتی ہے۔ روزے اور حج سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے جو انتہائی بنیادی اور جامع صفت ہے۔ زکوٰۃ انفاق فی سبیل اللہ کی مشق کراتی ہے۔ تہجد کی نماز نرم بستر سے اٹھا کھڑا کرتی ہے، تسبیح، تمحید، تکبیر اور تہلیل کے کلمات کی دل اور زبان سے تکرار، خدا کی محبت پیدا کرتی ہے۔ نبیﷺ نے ہر وقت اور ہر کام کی جو دعائیں سکھائی ہیں وہ ہر وقت اور ہر کام میں خدا کو حاضر و ناظر جاننے کی مشق کراتی ہیں۔اب غور کیجیے اگر یہ تمام چیزیں ہمیں حاصل ہوگئی ہوں یا ہوجائیں تو اللہ تبارک تعالیٰ کی ہمہ جہتی اطاعت اور تحریک اقامت دین کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں اور کیا چاہیے۔ کاش ہم اللہ و رسول کے مقرر کیے ہوئے اصلاح و تربیت کے ان ذرائع سے فائدہ اُٹھانے کا عزم کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عبادات کا صحیح مفہوم سمجھنے اور ٹھیک طور پر ادا کرنے اور ان سے بھر پور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مشمولہ: شمارہ جولائی 2018

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223