آپ کی رائے

مکرمی!   السلام علیکم

’زندگی نو‘دسمبر ۲۰۱۱؁ء کے شمارے میں ایک مختصر آرٹیکل بعنوان ’پالیسی اور عمل میں مطابقت‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں فاضل تجزیہ نگار نے بعض ان کم زوریوں کی نشان دہی فرمائی ہے جو پالیسی اور عمل کے مابین عدم مطابقت کی غماز ہیں۔ محترم شکیل احمد انور صاحب نے اس آرٹیکل پر اپنی خفگی اور برہمی کااظہار کیا ہے۔ مدیر ’زندگی نو‘ پر بھی اپنا غصہ اتارا ہے کہ وہ بغیر ادارتی نوٹ کے اس طرح کی ’پراگندہ خیالی‘ جوایک گوشے میں پڑی ہوئی تھی، شائع کردیاکرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آئینہ اور اسے پیش کرنے والے کو مطعون کرنے کے بجائے اپنے چہرے کے داغ دھبوں کو دیکھتے اور ان کے ازالے کی فکر کرتے۔انبیاء کرام، صلحائے امت اور داعیان حق کی تاریخ شاہد ہے کہ باطل نظام اور بگڑے ہوئے ماحول اور سماج میں جب بھی دعوت کسی آمیزش کے بغیر پیش کی گئی ہے اور داعیان حق، معاشرے میں اس کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر نظر آئی تو اس کے درج ذیل نتائج لازماً برآمدہوئے:

٭ انھیں شدید مخالفتوں کاسامنا کرناپڑا۔ رائج الوقت باطل اقتدار اور قیادت نے اس دعوت میںاپنے لیے خطرے کی بو محسوس کی اور اس کی

شدید مخالفت کی۔

٭ وقت کے معروف علماء، مفتیان کرام اور قائدین ملت نے جو اقتدار وقت کے دامن گرفتہ تھے، جن کے ذاتی اور قومی مفادات اور حقوق

ومراعات باطل نظام حکومت سے وابستہ تھے، اس تحریک اوردعوت کی شدید مخالفت کی۔

٭ بگڑے ہوئے عوام کی اکثریت نے اسے نشانہ تضحیک بنایا۔

٭ ان مخالفتوں کے دوران بالعموم غیرمعروف مگر ذہین اور خیرپسند افراد نے دعوت قبول کی، انھیں بھی آزمائشوں کی بھٹیوں میں تپایا گیا۔

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ  نے تدبر قرآن میں سورہ بقرہ کی آیات ۱۵۵-۱۵۷کی تشریح کرتے ہوئے بجا طورپر فرمایا: ’اہل حق کے لیے یہ امتحان وآزمائش قانون الٰہی میں ناگزیر ہے۔ اس قسم کے امتحانوں سے گزرکر ہی بندوں کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے۔ اس امتحان کے بغیرکوئی گروہ اللہ کی اخروی نعمتوں کا سزاوار قرار نہیں پاتا۔‘

٭           داعیان حق کی ایک واضح پہچان یہ ہے کہ وہ باطل نظام اور کرپٹ معاشرے میں عوامی دادو تحسین سے محروم اور اجنبی کی حیثیت سے ہوتے ہیں۔ بدئ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأ محترم سید شکیل احمد انور صاحب نے مولانا صدر الدین اصلاحیؒ  کی معرکۃ الآرا تصنیف ’تحریک اسلامی ہند‘ سے ایک اقتباس پیش کیاہے، جو طریق کار کے پرامن اور تعمیری انداز کی تائید میں ہے۔ مولانا اصلاحی نے اپنے اس جملے پر ایک نوٹ تحریر کیاہے۔ جملہ یہ ہے: ’تحریک اسلامی کے لیے بالکل ناگزیر ہے کہ وہ اپنے طورطریقے لازماً پرامن اور تعمیری رکھے۔‘نوٹ ملاحظہ ہو:

’گزشتہ بیس برسوں میں حکومت نے تحریک اسلامی کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔ مثلاً اس کے ذمے داروں اور کارکنوں کو برابر گرفتار اور نظربندکرتی رہی ہے۔ اس کے خلاف اپنے مختلف محکموں میں خفیہ سرکلر جاری کرتی رہی ہے ۔ اس کے ارکان کو اپنی ملازمتوںسے نکالتی رہی ہے اور اس کے ذمے دار وزرائ اس کی مخالفت میںبیان دیتے رہے ہیں۔ اور تقریباً ہر مرتبہ اور ہر اقدام کے سلسلے میں بھی وہ ملک کے عام قوانین کا سہارا لینے کی جرأت نہیں کرسکی۔ کیوں کہ اسے یقین تھا کہ خود اپنی ہی عدالت میں بھی اس الزام کو ثابت کرنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ اسی طرح جب کسی اسمبلی میں یا کسی پریس کانفرنس میں ارباب حکومت سے ان گرفتاریوں کے متعلق سوالات کیے گئے تو وہاں بھی انھوںنے اس الزام کو دوہرادیا، مگر جب اس کے لیے واقعات کی شہادت طلب کی گئی تو آج تک کسی بھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ یا وزیر داخلہ کی طرف سے کوئی ایک واقعہ بھی ثبوت میں پیش نہ کیاجاسکا۔ حد یہ ہے کہ جب ایک بار یوپی اسمبلی میں ایک ممبر نے اصرار کے ساتھ پوچھا کہ کیا جماعت اسلامی کی اب تک کی تاریخ میں کسی تخریبی کارروائی کی نشاندہی کی جاسکتی ہے تووزیر داخلہ نے، جو افسوس ہے کہ صرف سیاست کار اور مدبر ہی نہیںتھے بل کہ ایک بڑی دھارمک شخصیت کے بھی مالک تھے، یہ کہہ کر اپنی جان چھڑالینے میں کوئی اخلاقی قباحت یا ضمیر کی خلش محسوس نہیں کہ ’مجھے یہ تاریخ یاد نہیں۔‘

مولانا نے یہاں جس جماعت اسلامی اور اس کی بیس سالہ مدت کا تذکرہ کیا ہے وہ تاریخ کے صفحات اور جماعت کے بنیادی لٹریچر میں تومحفوظ ہے مگر آج زمین پر اس کا سراغ لگانا ممکن نہیں۔ مگر جس سیکولر جمہوری نظام کی تصویر سیدشکیل انور صاحب پیش فرمارہے ہیں، وہ ملاحظہ فرمائیں:

’ان بنیادی ﴿سیکولرزم، نیشنلزم، ڈیموکریسی﴾ باطل تصورات پر جماعت کی گرفت میں ڈھیل آگئی ہے۔ اب سیکولر جمہوری نظام ایک گوارا، پسندیدہ، بلکہ ہماری تائید کا مستحق نظام ہے اور جب سے ہم نے فسطائی عناصر کو برسراقتدار آنے سے روکنے کے لیے سیکولر جمہوری عناصر کو برسراقتدار لانا شروع کردیاہے، موجودہ نظام قابل نفرت نہیں رہا۔ ‘

موصوف مزید فرماتے ہیں:

’ہم نے سیاسی جدوجہد پر عائد حدود و قیود، مصالح دین و امت کے بموجب برخواست کردیے ہیں اور اب ہم عملی سیاست میں داخلے کے لیے آمادہ ہیں۔ تو بسم اللہ کریں۔ کیوں کہ سیکولر جمہوری عناصر کے نام پر دنیا پرست، خودغرض اور اباحیت پسند سیاست دانوں کو چمکانا کبھی بھی ہمارا مطمح نظر نہیں رہا۔‘ ﴿تحریک اسلامی مرحلے اور تقاضے، ص:۶۴،۶۵﴾

مگراس خواب کی تعبیر میں سب سے بڑی رکاوٹ خود جماعت اسلامی ہند کا بنیادی لٹریچر ہے۔ اس کا اعتراف خود موصوف نے کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’تحریکی موضوعات میں چونکہ تحریک کے قائد اول کی تحریریں اب بھی رائج و مقبول ہیں اس لیے عام سطح کے وابستگان جماعت کے علاوہ اوسط درجے کے قائدین بھی ذہنی وفکری الجھنوں کاشکار رہتے ہیں۔‘

میں بصد ادب گزارش کروںگا کہ جماعت کا بنیادی لٹریچر تحریک کی ایک پائیدار اور مستحکم بنیاد ہے۔ دنیا بھر کی دینی تحریکیں اس سے غذا اور قوت حاصل کرتی ہیں۔ آپ اسے دریابرد نہیں کرسکتے۔ اس کے مطالعے سے جو فکر بنتااور پروان چڑھتاہے، اسے آپ ’مخصوص گوشے کی پراگندہ خیالی‘ قرار دے کر نہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکتے ہیںنہ کارکنان تحریک کو۔

ابواختراعظمی،میرٹھ

 

مکرّمی!

’حکمت دعوت کے چندعملی نمونے‘ یہ مضمون مارچ کے زندگی نو میں شائع ہوگیاہے۔

میں حیران ہوں، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اکثر آپ مضمون میں ایسی قینچی چلادیتے ہیں کہ اس کا حلیہ ہی بگاڑکر رکھ دیتے ہیں؟ مثلاً اس مضمون کے آغاز میں تھاکہ :

’مجھے جو تجربات ہوئے ہیں اس کے مطابق یہاں کا ذہن تصوف کی زبان جلد سمجھ لیتا ہے۔‘

اس مضمون سے ’تصوف‘ کے لفظ کو غیرضروری طورپر حذف کرکے آپ نے اس پورے پیرا گراف کی روح نکال دی ہے۔ براہ کرم اس طرح آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

پرواز رحمانی صاحب نوک پلک ٹھیک کرکے مضمون کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں، مرحوم فریدی صاحب بھی یہ کام انجام دیتے رہے ہیں، جب کہ آپ کارویہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔

غلام رسول دیشمکھ،بھساول

 

محترمی ومکرمی!

’زندگی نو‘ میں قارئین کے تاثرات پر مبنی کالم ’آپ کی راے‘ دوبارہ شروع کرنے پر شکریہ! البتہ مارچ کاشمارہ دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہواکہ مذکورہ کالم اپنی افادیت سے ذرا ہٹاہوا ہے۔ اس کالم میں وہی خطوط شامل ہونے چاہییں جو شمارے میں شائع شدہ مضامین کے متعلق قارئین اپنے تاثرات کی صورت میں لکھتے ہیں۔ اِس کے بجائے اس کالم میں بعض افراد کے مضامین نما خطوط کو شامل کیاگیا ہے۔ آپ کی رائے سے مراد شائع شدہ مضامین پر پڑھنے والوں کی رائے ہونا چاہیے۔ ورنہ اس کالم کی حیثیت و نوعیت ہی بدل جائے گی۔ خطوط کے بجائے مضامین لکھے جانے لگیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زندگی نو جماعت ِ اسلامی ہند کاترجمان ہے، گرچہ اس کو صرف متوسلیان جماعت ہی نہیں پڑھتے بل کہ سب لوگ پڑھتے ہیں۔ اس صورت میں اس میں جماعت کے نظریات، طریقۂ کار اور تحریکی کلچر پر تنقیدی مضامین وخطوط شائع نہ کریں۔ اس سے قارئین کو غلط پیغام پہنچتا ہے۔ اگر کوئی فرد جماعت کی یا اس کے کلچر کی اصلاح چاہتاہے تو جماعت کے ذمے داروں کو لکھے۔ وہ جواب دیں گے۔

محبوب علی بلگانور،سندگی، کرناٹکا

 

محترمی ومکرمی!

محترم ڈاکٹر عبدالحمید مخدومی نے لکھاہے: ’ایک دفعہ مجھے کمیونسٹوں کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، ان کی،سادگی بے ساختگی اور اپنے رفقاء سے محبت کا بڑا عمدہ منظرتھا ، جسے میں اپنی جماعت میں نہیں دیکھ سکا‘ محترم کایہ دعویٰ میری نظر میں غلط ہے۔ ہم نے جماعت کے متعدد اجتماعات میں شرکت کی ہے، ہمارے قائدین میں وہی سادگی، وہی متانت و سنجیدگی دیکھنے کو ملی، جو واقعتا قائدین میں ہونی چاہیے۔ ہم نے انھیں سبھوں کے ساتھ مل کرنوش کرتے دیکھاہے، دوران وقفہ بے تکلفی بھی دیکھی۔

دوسری بات محترم نے یہ لکھی ہے: ’تزکیہ نفس اور تطہیرقلب خانقاہوں ہی میں ممکن ہے‘ ہم صرف یہ کہنا چاہیں گے جس طرح خانقاہوں کے ذریعے سے تطہیر ممکن ہے ، اسی طرح اور بھی بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے نفوس کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ جماعت نے خانقاہ کی مخالفت کب کی ہے۔ کسی شخصیت سے تعلق برائے اصلاح میں کیا حرج ہے۔ کیا اس شخصیت کاخانقاہ میں رہنا اور بہت سے مریدوں کا مرشد ہونا ضروری ہے؟ اگر کوئی شخص اپنی اصلاح کے لیے جماعت کے بزرگوں میں سے کسی کو منتخب کرے تو کیا اس کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔ موصوف نے لکھا ہے: ’ہرمقرر کابار بار اسٹیج پر بیٹھے ہوئے قائدین کا الگ الگ نام لینا، اندیشہ ہے کہ انھیں کبرنفس میں مبتلا کردے۔‘ایک شخصیت جس سے عوام ناواقف ہوں، اس کاتعارف کرانا ناگزیر ہے۔ اس میں کیا قباحت ہے۔ شخصیت کے کارناموں کو پیش کرنے سے ہمت بندھتی ہے، مزید ثابت قدمی میں بھی یہ چیز معاون ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ  ، کی ہمت افزائی فرمائی اور انھیں ’سیف اللہ‘ کے لقب سے نوازا۔

یہ بات کہی گئی ہے کہ ’سفر کرکے آنے اور سفر کی صعوبتوں کو انگیز کرنے کرنے کا دور ہی ختم ہوگیا ۔‘ یہ بات ایک حد تک ٹھیک لگتی ہے۔ یہ چیز آہستہ آہستہ نوجوانوں میں بھی آرہی ہے۔ البتہ اگر جماعت کے معمرافراد ہوں، بیماریوں اور کم زوریوں نے گھیرلیاہو تو ایسے افراد کے لیے سفر کی مشقت میں آسانی پیدا کرنے میں کیا حرج ہے؟کہاگیاہے کہ: ’’اقامت دین کے نصب العین کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جایاجارہا ہے‘۔ پتا نہیں یہ بات کس تناظر میں کہی گئی ہے۔ اس کی وضاحت ضروری ہے کہ جماعت نے نصب العین سے کہاں روگردانی اختیار کی ہے۔ واضح رہے کہ طریق کار الگ چیز ہے اور نصب العین الگ چیز۔ کسی بھی تحریک کو پھیلنے پھولنے کے لیے مدتوں کا وقت درکار ہوتاہے۔ جماعت کا نصب العین اقامت دین ہے۔ جماعت اسی پر کاربند ہے۔ ہزار مخالفتوں کے باوجود اورمحدود وسائل کے ہوتے ہوئے جماعت نے جو خدمت خلق کا کام کیاہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ اسلامی بینک کاری کے تعلق سے جماعت کی خدمات کا مؤرخ سنہرے حروف میں تذکرہ کرنے پر مجبور ہوگا۔ ہر فیلڈ کا ماہر جماعت اسلامی ہند کے پاس میسر ہے۔

ضیاء الرحمن رکن الدین، بھٹکل

 

زندگی نو دسمبر ۲۰۱۱؁ء کے شمارے میں محترم جناب تابش مہدی صاحب کاایک مضمون مولاناشاہ وصی اللہ فتح پوریؒ  ﴿تذکرہ﴾ شائع ہوا ۔ کاش کہ تابش صاحب نے کسی تحریکی شخص کا تعارف کرایا ہوتا تو ہمارے جیسے عامی لوگوں کو کتنا فائدہ تحریکی زندگی میں ہوتا۔ ایک ایسے شخص کا تعارف جس کی زندگی صوفیانہ ہو، جس کی سرحد رہبانیت کی سرحد سے ملتی ہو، تحریکی لوگوں کو کیا فائدہ پہنچاسکتی ہے۔

محترم ہم سبھی لوگ جانتے ہیں کہ پرچہ زندگی نو، اخبار دعوت، کانتی، ریڈینس یہ سب پرچے تحریک اسلامی کے ترجمان ہیں، میرے خیال میں اِن میں ایسے ہی مضامین شائع ہوںجو ان پرچوں کے شایان شان ہوں۔

زندگی نو ماہ فروری میں جو تعارف ، رضی الاسلام ندوی نے عبدالقادر عودہ شہیدؒ  کاکرایا ہے وہ مضمون ان پرچوں کے شایان شان ہے۔ اللہ تعالیٰ رضی الاسلام صاحب کو جزائے خیر دے۔ آمین۔ محترم رہ نمائی فرمائیں کہ راہ نجات کہاں تلاش کی جائے، تحریک میں یا خانقاہ میں؟ صفحہ۶۰ پر تحریر ہے اسلام میں اعتراض تو ہے ہی نہیں۔ یہ تو منافقین کا کام ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمرؓ   کے کرتے پر ایک بڑھیا نے اعتراض کیا تھا لیکن حضرت عمرؓ   نے بڑھیا کا منہ منافقت کہہ کر بند کرنے کی کوشش نہیں کی دتھی بلکہ بڑھیا کو مطمئن کیا، خود جماعت اسلامی کے دستور میں لکھاہے کہ رسول خداﷺ  کے سوا کوئی تنقید سے بالاتر نہیں۔

اسی صفحے کے دوسرے پیراگراف پر تحریر ہے: فرماتے تھے اسی صورت میں ساری توجہ صدارت، سکریٹری اور خازن کے عہدوں یا مجالس شوریٰ وعاملہ کی رکنیت پر ہوتی ہے۔

اس پیراگراف کو پڑھنے سے پتا چلتاہے کہ مولانا اسلام کے نظم اجتماعی کے قائل نہیں۔ مجھے حضرت عمرفاروقؓ   کا قول یاد آتاہے کہ اسلام بغیر جماعت نہیں، جماعت بغیر رہبر نہیں اور رہبر بغیر اطاعت نہیں، گزارش ہے کہ بھول چوک معارف فرمائیںگے۔

محمد احمد، رکن جماعت اسلامی ہند، بلیریا گنج، اعظم گڑھ

 

مکرمی!

اپریل ۲۰۱۲کے شمارے میں م-نسیم صاحبؒ  کا خط ڈاکٹر سیدعبدالباری کے نام پڑھ کر بے ساختہ یہ مصرع زبان پر آگیا:           ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘

میں ڈاکٹر سیدعبدالباری کا مشکور ہوں کہ انھوں نے یہ ذاتی خط عوامی بناکر تحریک اسلامی کی ایک خدمت بروقت انجام دی۔ مرحوم م-نسیم صاحب نے جس درد سے یہ خط لکھاہوگا، اس کااندازہ اس تحریر کی تاثیر سے ہوتاہے:    ’دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘

ڈاکٹر سیدعبدالباری کے پاس ایسے جواہر پارے اور بھی ہوں گے، طشت ازبام کردیں۔

ڈاکٹر وقار انور، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی-۲۵

مشمولہ: شمارہ مئی 2012

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223