زکوٰۃ کے لغوی معنی طہارت اوربڑھنے کے ہیں۔ شرعا مخصوص طریقے سے مال سے نکالی جانے والی چیز کو زکوٰۃ کہتے ہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو گناہ سے پاک کرنے کا اور مال وصاحب مال کو آفات سے بچانے کا سبب ہے۔
زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ یہ قرآن وحدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔لہذا جو اس کی فرضیت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوجائے گا اور جو زکوٰۃ کی فرضیت کا قائل ہو لیکن ادا نہ کرے تو وہ فاسق اور گنہگار ہے۔ آخرت میں سخت عذاب کا سزاوار ہے۔ حکو مت اسلامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قہرا وجبرا اس سے زکوٰۃ وصول کرے۔
زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز میں قیام، رکوع اور سجدے کے ذریعے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے۔ تا کہ اللہ کا قرب حاصل ہو۔ اسی طرح زکوٰۃ کی ادائی سے بارگاہ الٰہی میں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کا نہیں ہے، بلکہ وہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعے اللہ تعالی کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت اور اعانت ہوتی ہے۔اس اعتبار سے زکوٰۃ اخلاقیات کا اہم باب ہے۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ مال کی محبت اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰۃ اس کا علاج اور گندے اورزہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اورتزکیے کا ذریعہ ہے۔
دولت کی گردش
اسلام یہ نہیں چاہتا کہ دولت کسی ایک گروہ کی ٹھیکیداری میں آجائے یا سوسائٹی میں کوئی ایسا طبقہ پیدا ہوجائے جودولت کو خزانہ بنا کر جمع کرتے رہے۔بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ دولت ہمیشہ گردش میں رہے اور زیادہ سے زیادہ قوم کے افراد میں پھیلے۔ اس لیے اسلام نے زکوٰۃ اور وراثت کی تقسیم جیسے قانون نافذ کیے ،تا کہ دولت خاندان کے کسی ایک فرد کے پاس نہ رہے ،بلکہ اس کو آپس میں بانٹتے رہیں۔مولانا سید ابوالحسن ندوی نے حضرت شاہ ولی اللہ کے قول کو نقل کیا ہے کہ وہ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں:
’’ نفس اور حرص وبخل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حرص بدترین اخلاق میں سے ہے، جو معاد میں انسان کو سخت ہلاکت میں ڈال سکتی ہے۔ جوحریص ہوگا مرتے وقت بھی اس کا دل مال میں اٹکا رہے گااور اس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔اگر زکوٰۃ کی مشق ہوگی تویہ حرص اس سے ختم ہوچکی ہوگی، جو بالآخر اسے نفع پہنچائے گی۔‘‘﴿ارکان اربعہ:۸۴۱﴾
جب مسلمان زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو وہ اس کے اخروی بینک میں جمع ہوجاتی ہے، جس کا ثواب مرنے کے بعد انٹرسٹ کے ساتھ ملے گا۔ اسی طرح زکوٰۃ مسلمانوں کی انشورنس کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ زکوٰۃ مسلمان معذوروں، اپاہجوں اور بیواؤں، کا ذریعہ پرورش ہے۔اس کا سیدھا سا دہ فلسفہ یہ ہے کہ آج تم مالدار ہو تو دوسروں کی مدد کرو ، کل تم ضرورت مند ہوگئے تو تمہاری مدد کی جائے گی۔ تم کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم مفلس ہوگئے تو ہمارا کیا بنے گا۔ دُنیوی مصائب سے خلاصی کی کیا سبیل ہوگی، ان سب فکروں سے زکوٰۃ ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے۔تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی زکوٰۃ کو اللہ کی انشورنس کمپنی میں بیمہ کرالو۔ آج دنیا میں غریبوں کے کام آئے گی اور کل قیامت کے دن تمہارے کام آئے گی۔
زکوٰۃ اسلامی ٹیکس یا فقرا پر احسان نہیں
زکوٰۃ دینا فقراء ومساکین پر کوئی احسان نہیں ہے۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ فقراء کا مالداروں پر احسان ہے کہ ان کی وجہ سے ان کا مال لائف ٹائم بینک میں جمع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ اسلام کا عائد کردہ ٹیکس بھی نہیں ہے،بلکہ اسے معاشرے سے بدحالی اور تنگدستی دور کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی نے لکھا ہے :
’’زکوٰۃ کی فرضیت در حقیقت اس امت کے ساتھ لطف ورحمت کا معاملہ ہے، جس کا بار سب سے کم اور برکت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ اغنیائ سے وصول کی جاتی ہے اور فقرائ کو لوٹا دی جاتی ہے،اور حکومتوں کے ٹیکس زیادہ تر متوسط طبقہ اور غربائ سے وصول کیے جاتے ہیں۔یہ دولت جو کسانوں، اور تاجروں پر لگائے ہوئے ٹیکس سے حاصل ہوتی ہے، بڑی سخاوت کے ساتھ بلکہ بیدردی اور بے رحمی کے ساتھ صدرمملکت، بیرونی ممالک کے مہمانوں کے استقبال اور ان کی ضیافت میںشراب کی طرح بہائی جاتی ہے۔‘‘﴿ارکان اربعہ۵۸،۵۹﴾
اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالی نے انسان کے دل میں بنی نوع سے ہمدردی کا عمدہ ترین وصف ڈال دیا ہے، جس کی بنائ پر اپنے بھائیوں کی بیچارگی ،غربت وافلاس کو دیکھ کراس کا دل پسیجتا ہے اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے دل میں خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔
زکوٰۃ: غربت کا حل ہے
ہماری آج کی دنیا جو بظا ہرترقی اور علم و فن کی دنیا ہے، انکشافات وایجادات کی دنیا ہے، فن طب اور سرجری نے بھی ناقابل قیاس حدود کو پار کرلیا ہے۔ مگر حیات انسانی کی حفاظت اور اس کی بقائ ہر آن اورہر لحظہ خطرے میں ہے۔ واقعات وحوادثات مثلا قحط سالی، سمندری طوفان، سونامی کی ہلاکت خیزی، زلزلے، اور بھیانک ایکسڈنٹ عام ہیں۔قتل وغارت گری اور انسانی خون کی ارزانی ایسی عام ہوگئی ہے، کہ عقل انسانی حیران ہے۔ اس صورت حال میںلوگوں میں غربت وافلاس کا عام ہونا واضح ہے۔ لہٰذا اسلام نے اس کا جو حل پیش کیا ہے ، جس طرح ضرورت مندوں کی کفالت کا نظام قائم کیا ہے، اس کی نظیر انسانوں کے مروجہ قانون واصول میں نہیں ملتی۔
الغرض اگر مسلمان شریعت کے نظام زکوٰۃ کو اس کے اصول وشرائط کے ساتھ قائم کریں تو دنیا کی آدھی سے زیادہ مصیبتیں اورپریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔سماج کی اقتصادی مشکلات بد حالی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔دینی ودنیوی دونوں قسم کے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ زکوٰۃ کے بغیر سماج کی فلاح اور کامیابی کا تصور ممکن نہیں۔ اس لیے سماج میں زکوٰۃ کو وہ حیثیت حاصل ہونا چاہیے جو اس کا حق ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ آج بھی ملت کے افراد دل کھول کر راہ خدا میں مال وزر لٹاتے ہیں، جس کا اندازہ ملک میں چل رہے ہزاروں یتیم خانوں، انجمنوں اور مکاتب ومدارس سے کیا جا سکتاہے، جن کے وجود وبقائ میں بہت حدتک زکوٰۃ کا بھی دخل ہے۔لیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر زکوٰۃ وصدقات کے سلسلے میں مزید تبلیغ وتنظیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔خصوصاً اس کے موثر اجتماعی نظم کے قیام کی۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010