حقیقت میں تصوف اسلام کے لیے کوئی اجنبی یا باہر سے درآمد کیا گیا نظام نہیں ہے۔ یہ اسلامی نظامِ زندگی کا ایک اہم حصہ اور زہد وتزکیہ جیسی مفید ومتوازن اسلامی تعلیمات کا ایک امتداد (extension)ہی ہے۔ اسی لیے فقہا ومحدثین کبھی بھی اس کے مخالف نہیں رہے، گو کہ ان حضرات نے اہل تصوف کی جانب منسوب کچھ متعین اقوال وافعال پر تنقید ضرور کی، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ فقہا ومحدثین تصوف کے مخالف تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کی اس تنقید کا مطلب یا تقاضا صوفیا سے بے تعلقی وبے زاری نہیں تھا۔
تصوف سے متعلق بعض امور پر علما کی تنقید در حقیقت تصوف میں درآئی غلط باتوں کے ازالے اور تصوف کو امت بالخصوص اہل سنت کے اصل دھارے میں ضم کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ تھی۔ ایسی کوششوں کی تاریخ بہت لمبی بھی ہے اور پیچیدہ بھی، سماجی وثقافتی مسائل اور افکار ورجحانات کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ ایسی تمام کوششوں کا احاطہ کچھ آسان نہیں۔ اور اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم صوفیا، فقہا اور محدثین (تینوں جماعتوں) کی جانب سے کی جانے والی تمام کاوشوں کا احاطہ کرلیں تو پھر یہ کام اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔
زیر نظر مضمون میں ان تینوں جماعتوں کے ائمہ کے واقعات واقوال کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ ان حضرات کے مابین باہمی اختلافِ رائے کے ساتھ کیسی گہری الفت ومحبت پائی جاتی تھی، ان تینوں جماعتوں کے ائمہ اپنی شخصیت وتصنیفات میں کس طرح ان تینوں رجحانات کے جامع ہوتے تھے اور ہر جماعت کے ائمہ دیگر دو جماعتوں کے نقطہ ہائے نظر کی اصلاح وتصحیح کی کیا راہ اپناتے تھے۔ائمہ علم حدیث کے ان اقوال سے بھی استدلال کیا جائے گا جن میں انھوں نے صوفیا کے اصل رجحان کوبنیادی طور پر صحیح قراردیا ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی واضح ہوگا کہ اسلامی تاریخ کے آغاز سے لے کر آج تک دونوں حلقوں (صوفیا ومحدثین) کے معتدل افراد کے درمیان تعلق مخالفت ودشمنی کا نہیں تھا، بلکہ ان تینوں حلقوں کے مابین ایک دوسرے سے تعاون واستفادہ کا سلسلہ ہی قائم وغالب تھا۔
ان حلقوں کے درمیان پایا جانے والا علمی مباحثہ اس منہج کا ایک حصہ ہے جو افکار ورویوں سے متعلق اختلافات کو برتنے کی بابت ہمارے اسلامی علمی وتہذیبی ورثے میں پایا جاتا ہے اور جس کو اختیار کرکے ہم آج امت کے علمی واصلاحی حلقوں میں پائی جانے والی دوریوں کو دور کرسکتے ہیں۔
مختصر تاریخ
کسی بھی فکر ونظریے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تاریخ کا علم ہو۔ اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فقہا ومحدثین تصوف کی تاریخ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے ادوار ورجحانات کو کس طرح منہجی طور پر تقسیم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں امام ابن تیمیہؒ (متوفی: ۷۲۸ھ) کی ایک عبارت ہماری بہت قیمتی راہنمائی کرتی ہے، اپنی کتاب ’الصفدیہ‘میں وہ تحریر کرتے ہیں: ’’وہ عظیم مشائخ جن کا تذکرہ ابو عبد الرحمان سلمیؒ(متوفی: ۴۱۲ھ) نے ’طبقات الصوفیة‘اور ابو القاسم قشیریؒ (متوفی: ۴۶۵ھ) نے ’الرسالة‘میں کیا ہے وہ سب اہل سنت والجماعت اور محدثین کے مسلک پر تھے، جیسے فضیل بن عیاضؒ (متوفی: ۱۸۷ھ)، جنید بغدادیؒ (۷ ۲۹ھ)، سہل بن عبد اللہ تستریؒ (متوفی: ۲۸۳ھ)، عمرو بن عثمان مکیؒ (متوفی: ۳۰۰ھ)، اور ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازیؒ (متوفی: ۳۷۱ھ) وغیرہ، ان سب حضرات کے اقوال اہل سنت کے مطابق ہیں،عقائد کی بابت ان حضرات کی صراحتیں موجود ہیں اور اس موضوع پر ان کی تصنیفات بھی ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ نے اسلامی تصوف کے مختلف رجحانات کا استقرا ایک اور پہلو سے بھی کیا ہے، یہ منہجی تقسیم ہے، جو دیگر علمی وعملی شعبوں کی طرح تصوف میں بھی پائی جاتی ہے، امام موصوف نے تصوف کی اہم شخصیات کو مختلف رجحانات وحلقوں میں تقسیم کیا ہےاور اس تقسیم کی بنیاد ہر زمانے کے اسلامی علمی مناہج اور ان کے ارتقا کو بنایا ہے۔ ان کی بیان کردہ تقسیم میں صوفیا کا ایک گروہ ‘محدثین صوفیا’ کا بھی ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’لیکن بعض صوفیا بعض فروعی عقائد میں اہل کلام کے طریقہ پر تھے، ان میں سے کوئی بھی فلاسفہ کے کلامی نظریہ کا متبع نہیں تھا، فلسفہ کارنگ بعد کے بعض صوفیا کے یہاں نظر آتا ہے، یعنی صوفیا کی ایک تعداد محدثین کے کلامی نظریہ کی حامل ہے، یہ سب سے بہتر اور ممتاز صوفیا ہیں، بعض صوفیا اہل کلام کے عقائد کے ہیں اور چند کو ہم فلاسفہ کے طریق پر کاربند پاتے ہیں۔‘‘
امام ابن تیمیہؒ کے کیے ہوئے مختلف حلقوں اور رجحانات کے اس استقرا کو بنیاد بناتے ہوئے امام ذہبیؒ (۷۴۸ھ)نے فقہ اور حدیث کے میدانوں سے وابستہ شخصیات کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے۔ ان دونوں حلقوں کے درمیان باہمی تعلقات کی ہی وجہ سے تصوف کے پورے منظر نامے کو سمجھنا اور اسے اہل سنت والجماعت کے عام دھارے میں شامل کرنا ممکن ہوپایا ہے۔ امام ذہبیؒ نے چوتھی صدی ہجری (دسویں صدی عیسوی) تک کے علمی منظر نامے کو بہت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے اس بیان کی اصل اہمیت اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انھوں نے وہ بنیاد پیش کی ہے جس کو اختیار کرکے مختلف اختصاصات کے علما کے مابین تعاون وتعلق ممکن ہے۔
انھوں نے اپنی تصنیف ’سیر أعلام النبلاء‘میں فقہ وحدیث کے جامع ائمہ کی ایک تعداد کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’تب محدثین ایسے ائمہ ہوتے تھے جنھیں فقہ میں بھی درک حاصل ہوتا تھا۔ فقہا حدیث پر بھی گہری نگاہ رکھتے، علمِ حدیث کے حصول کے لیے بھی سفر کرتے، اور اس کے بھی ماہر ہوتے۔ جب کہ آج محدث علم حدیث کے صرف چند ظاہری امور پر اکتفا کرتا ہے، گہرے فہم اور یاد کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا اور فقیہ حقیقتِ فقہ سے محروم بھی ہوتا ہے اور حدیث سے نابلد بھی۔‘‘
ابن تیمیہؒ اور ذہبیؒ سے پہلے امام حافظ ابو نعیم اصفہانی شافعیؒ (متوفی: ۴۳۰ھ) نے ایک نہایت اہم بات تحریر کی تھی، جس سے ہمارے لیے اصلاحِ تصوف کی تاریخ کا اجمالی تصور آسان ہوجاتا ہے۔ اپنی کتاب ’حلیة الاولیاء‘میں تاریخ صوفیا پر کلام کرتے ہوئے انھوں نے اس کا نقطۂ آغاز عہد صحابہؓ میں اہل صفہ کو قرار دیا ہے، اس طرح انھوں نے تصوف کو صحابہؓ سے لے کر (اپنے الفاظ میں) ابتدائی اسلاف تک ایک لگاتار قائم رہنے والا سلسلہ قرار دیا ہے۔ تصوف میں در آئے جاہل وگم راہ لوگوں کو انھوں نے مسترد کیا ہے۔
وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’شیخ ابو عبد الرحمان سلمیؒ نے جن حضرات کا تذکرہ ‘طبقات الصوفیہ’ میں کیا ہے اور ان کا سلسلہ اہل صفہ سے جوڑا ہے ان میں سے ایک بزرگ سے ہماری ملاقات ہے۔ یہ بزرگ صوفیا کے منہج کی تنقیح اور ابتدائی اسلاف کے طریق پر اس کی اصلاح کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔ یہ ان اسلاف کے طریق کے ہی راہی اور ان کے نقش قدم کے پیرو ہی ہیں۔ جماعتِ صوفیا میں در آئے جاہل وگم راہ لوگوں کی راہ سے بے زار اور ان پر شدید ناقد ہیں۔ ان کے نزدیک تصوف کا مطلب سنت نبوی کی اتباع، محقق صوفیا، محدثین اور ممتاز فقہا کے طریق کی پیروی ہی ہے۔ اس کے بعد ہم نے صوفیا کی سوانح وحالات زندگی پر متعدد تصنیفات کے مصنف ممتاز محدث وصوفی ابو سعید ابن الاعرابی البصریؒ (متوفی: ۳۴۰ھ) کی وہ تحریر پڑھی جسے انھوں نے اپنی کتاب ’طبقات النساء‘کے آغاز میں لکھا ہے۔‘‘
غرض اصلاحی عمل کے لیے ضروری ہے کہ فکر تصوف اور شرعی نظام سے اس کے تعلق کا ایک اجمالی خاکہ سامنے لایا جائے، اور یہی کام مذکورہ بالا تینوں ائمہ نے کیا ہے۔ انھوں نے تصوف پر گفتگو اسے اسلام سے غیر متعلق خارجی نظام مانتے ہوئے نہیں کی ہے، بلکہ اسے خالص اسلامی نظام کا ایک ایساحصہ مانا ہے، جس میں کچھ چیزیں باہر سے داخل ہوگئی ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک تصوف اسلام کے سرچشمہ سے ہی نکلا ہے، گو کہ اس میں بھی دیگر شرعی علوم کے مانند کچھ چیزیں باہر سے در آئی ہیں۔
مختلف عوامل
سچ یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں میں تصوف شرعی فکر وعلم کے عام دھارے سے بے دخل نہیں تھا۔ اس سلسلے میں اختصار کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ابتدائی تین صدیوں میں گو کہ علمِ حدیث کا بول بالا رہا، اسی عہد میں (دوسری صدی کے اواخر میں)فقہی مسالک بھی وجود میں آئے، پھر چوتھی صدی کے آغاز سے ان مسالک نے باقاعدہ وہ شکل اختیار کی جو اگلی صدیوں میں جاری رہی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ زہد وتزکیہ کی تحریک (جو کہ تصوف کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے) شرعی علم وفکر کے عام دھارے میں داخل اور اس سے وابستہ تھی۔ تصوف وشریعت کے اس تعلق کو بطور خاص ایسے ائمہ کے وجود نے بہت محکم کیا تھا جو تصوف، حدیث اور فقہ کے جامع تھے۔ابن تیمیہؒ نے جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے وہ ایسی ہی تھیں۔ ان تینوں جماعتوں کا باہمی تعاون واستفادہ اصلاحی عمل کی تکمیل کے لیے زمین ہم وار کرتا ہے، جس کا اصل فائدہ ومقصود یہ ہے کہ قرون اولی کی طرح تمام علوم ومعارف باہم متعلق ووابستہ ہوجائیں۔
تصوف کے اس اجمالی تاریخی خاکے کو مکمل کرنے کے لیے یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں صوفیا میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی جسے ہم ’فقہائے صوفیا‘کہہ سکتے ہیں، اس جماعت کا آغاز قشیریؒ اور شیخ الاسلام ہرویؒ (متوفی: ۴۸۱ھ) سے ہوتا ہے، پھر یہ سلسلہ امام غزالیؒ (متوفی: ۵۰۵ھ) تک پہنچتا ہے، اس جماعت نے صوفیا وفقہا کو ایک ساتھ لانے کی کوشش کی۔ انھی کے ساتھ ایک اور جماعت بھی سامنے آئی، یہ محدثین کی جماعت تھی، جو احادیث کی روایت واسانید کے ساتھ صوفیا کے طرز کی تربیت اور وعظ سے بھی اشتغال رکھتی تھی، امام سلمیؒ اور امام قشیریؒ اسی سلسلے کی شخصیات ہیں۔
پھرچھٹی صدی ہجری میں ’صوفیائے محدثین‘کی ایک پوری جماعت وجود میں آئی، مثلا: شیخ عبد القادر جیلانی حنبلیؒ (متوفی: ۵۶۱ھ) اور ابو طاہر سلفی (متوفی: ۵۷۶ھ)۔ اس صدی میں ہمیں ایسی دسیوں ممتاز شخصیات ملتی ہیں جن کے تذکرہ نگار ومؤرخین ان کا تعارف ’صوفی محدث‘یا محدث صوفی جیسے الفاظ سے کرتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات کی بنا پر امام ابن تیمیہؒ نے صوفیا کا ایک طبقہ ’اہل حدیث صوفیا‘کے نام سے تشکیل دیا ہے، ان کے بعد ابن رجب حنبلیؒ (متوفی: ۷۹۵ھ) نے بھی اپنی کتاب ’ذیل طبقات الحنابلة‘میں ایسے صوفیا کو ’متصوفة أھل الحدیث‘کہا ہے۔
اسی صدی میں تصوف کی کچھ ایسی شخصیات بھی تھیں جو تصوف وحدیث کے ساتھ فقہ میں بھی امتیازی شان رکھتی تھیں۔ ان میں ممتاز ترین دو مالکی ائمہ ابوبکر طرطوشیؒ (متوفی: ۵۲۰ھ) اور قاضی ابن العربیؒ (متوفی: ۵۴۳ھ) نیز دو حنبلی ائمہ عبد القادر جیلانیؒ اور ابن الجوزیؒ (متوفی: ۵۹۷ھ)ہیں۔ اسی عرصہ میں ہمیں تصوف کا حنابلہ کے یہاں آغاز ہوتا دکھتا ہے۔یہ کام شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے ہاتھوں انجام پایا، جو تصوف کے سب سے بڑے سلسلہ کے بانی ہیں۔
اگلی یعنی ساتویں صدی ہجری میں ایسی بہت سی شخصیات سامنے آئیں جو حدیث، فقہ وتصوف میں امامت کے مقام پر فائز تھیں، جیسے عز بن عبد السلامؒ (متوفی: ۶۶۰ھ)، نوویؒ (متوفی: ۶۷۶ھ) مفسر قرطبیؒ (متوفی: ۶۷۱ھ)، پھر آٹھویں صدی میں ایسی شخصیات کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا، مثلا: ابن تیمیہؒ، ذہبیؒ، تقی الدین سبکیؒ (متوفی: ۷۵۶ھ)، ان کے صاحبزادے تاج الدین سبکیؒ (متوفی: ۷۷۱ھ)، اور ابن قیمؒ (۷۵۱ھ)، یہ سلسلہ نویں صدی میں بھی جاری رہا، ابن حجرؒ (متوفی: ۸۵۲ھ)، ان کے شاگرد سخاویؒ (متوفی: ۹۰۲ھ) اور سیوطیؒ (متوفی: ۹۱۱ھ) اس صدی کی وہ ممتاز ترین شخصیات ہیں جو حدیث،فقہ اور تصوف میں بیک وقت امام تھے۔
اس سلسلے میں چھٹی صدی میں زنگی حکم رانوں کے قائم کردہ دارالحدیث نامی اداروں یا ان کے جانشین ایوبی خلفا کے قائم کردہ مدارسِ فقہ اور خانقاہوں کا بڑا کردار تھا۔ ان اداروں نے ان تینوں جماعتوں (محدثین، فقہا اور صوفیا) کے درمیان باہم استفادے کے مواقع فراہم کیے، اس لیے کہ ان دونوں حکومتوں کے حکم رانوں کو حدیث، فقہ اور تصوف سے بیک وقت دل چسپی تھی۔
یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ ان اداروں نے اپنے طلبا کے اندر ان تینوں حلقوں کی خصوصیات بیک وقت جمع کرنے اور اس طرح ان کی علمی شخصیت میں توازن وجامعیت پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ ویسا ہی کردار تھا جیسا کردار پانچویں صدی ہجری میں سلجوقی وزیر نظام الملکؒ (متوفی: ۴۸۵ھ) کے مدارس نے فقہا (بالخصوص شافعی ومالکی فقہا) اور اشاعرہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے ادا کیا تھا اور جس کی بدولت وہ جامع علمی رجحان تشکیل پایا جسے تاریخ اسلامی کے اگلے مراحل میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔
بنیادی کام
اصلاحِ تصوف کا اجمالی تاریخی خاکہ پیش کرنے کے بعد اب ہم اس موضوع پر گفتگو کریں گے کہ علما نے کس طرح حقیقی اورشریعت کی نگاہ میں صحیح تصوف کو قبول کیا ہے اور اس میں در آئی خارجی غلطیوں کو کس طرح مسترد کیا ہے۔ اس موقع پر بطور خاص امام غزالیؒ اور شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے بہت اہم کردار کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے،۔اول الذکر نے فقہا اور صوفیا کے مابین استفادہےکی راہ ہم وار کی تو مؤخر الذکر نے محدثین اور صوفیا کے درمیان رابطے کی سبیل پیدا کی۔
محدثین، فقہا اورصوفیا کے درمیان ہم آہنگی وباہمی استفادے کی راہ ہم وار کرنے کی ان دونوں تاریخی کاوشوں کے نتیجہ میں ایک نیا رجحان پیدا ہواجس کو امت کی بڑی تعداد نے قبول کیا اور اس کے زیر اثران تینوں رجحانات کے حاملین کے درمیان ایک ہم آہنگ عام فکر پیدا ہوئی، جس نے فقہا کی خشکی دور کی، محدثین کی حدت کو کم کیا اور صوفیا کو حدود شریعت کاپابندکیا۔
تصوف کی اصلاحی کاوشوں پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام غزالیؒ نے ۴۸۸ھ میں گوشہ نشینی اختیار کرکے جب تصوف کی راہ اختیار کی تب سے انھوں نے تصوف اور علوم شریعت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کاوشوں کی قیادت کی، گو کہ وہ اس کے حقیقی بانی نہیں تھے۔ اس لیے کہ ان سے پہلے بھی بہت سے محدثین وفقہا صوفی تھے، جیسا کہ ہم نے پیچھے لکھا ہے، اور آگے بھی لکھیں گے۔ ان متقدم محدثین وفقہا صوفیا نے بھی اپنے اپنے زمانوں میں غالی صوفیوں پر تنقیدیں کیں، البتہ امام غزالیؒ نے تصوف کی اصلاح پر بہت زیادہ توجہ دی اور اس سلسلے میں متعدد تصنیفات تحریرکیں۔
یقین کے مقام پر فائز ہونے یا کشف کا دعوی کرکے شرعی احکام کی پیروی وپابندی سے خود کو آزاد سمجھنے کا دعوی کرنے والے نام نہاد صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے امام غزالیؒ اپنی کتاب ’احیا ءعلوم الدین‘ میں کہتے ہیں: ’’شطحات سے مراد بعض صوفیا کی دو طرح کی باتیں ہیں، ان میں سے ایک وہ طویل وعریض دعوے ہیں، جن میں عشق خداوندی کی باتیں کی جاتی ہیں، اللہ سے اپنا ایسا تعلق بیان کیا جاتا ہے جس کے بعد ظاہری اعمال کی ادایگی کی ضرورت نہیں رہتی، یہاں تک کہ کچھ حضرات تو اتحاد، حجاب اٹھ جانے، دیدار خداوندی اور اللہ تعالیٰ سے بالمشافہہ گفتگو کرنے کا دعوی کرتے ہیں، کہتے ہیں: ہم سے یوں کہا گیا تو ہم نے یوں کہا…، اس طرح کی گفتگوئیں عوام کے لیے نہایت مضر ہیں…، ایسی گفتگوؤں سے طبیعت کو لذت ملتی ہے کہ ان میں اعمال کرنے نہیں ہوتےاور نفس کواس طرح کے تزکیہ کی امید ہوتی ہے کہ وہ احوال ومقامات کا ادراک کرسکتا ہے، اس لیے غبی افراد اپنے لیے ایسے دعوے کرنے لگتے ہیں!!‘‘
امام غزالیؒ نے بالخصوص اپنے زمانہ (یعنی پانچویں صدی ہجری کے آخر اور چھٹی صدی ہجری کے اوائل) کے نام نہاد صوفیا پر یہ تنقید کی ہے کہ وہ تصوف کی روح وحقیقت سے غافل اوراس کے ظاہر پر قانع ہیں، تحریر فرماتے ہیں:
’’تیسری قسم نام نہاد صوفیا ہیں، یہ غلط فہمیوں کا شکار ہیں، مثلا ان میں سے ایک گروہ نے مخصوص لباس، ہیئت اور طرزِ تکلم کو ہی تصوف کا حاصل سمجھ لیا ہے،۔انھوں نے حقیقی صوفیا کے لباس، ہیئت، طرزِ گفتگو اور ظاہری آداب کا اتباع تو کیا، لیکن کبھی بھی مجاہدہ، ریاضت، مراقبۂ قلب اور اپنے ظاہر وباطن کو ہر طرح کے گناہوں سے پاک کرنے کی جاں گسل محنت نہیں کی… بلکہ یہ تو حرام ومشتبہ چیزوں اور حکم رانوں کے مال ودولت پر بلاتکلف ٹوٹے پھرتے ہیں۔‘‘
اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فقہا ومحدثین نے تصوف کی اصلاح کے سلسلے میں دو باتوں کا اہتمام کیا ہے: ۱۔ غلو پر تنقیدکرنا اور غلو پسندوں کو مسترد کرنا۔ ۲۔ شرعی حدود کے پابند تصوف کا دفاع کرنا نیز شطحات، خرافات اور شعبدے بازیوں سے محفوظ اس کے حقائق کو بیان کرنا۔ اس سلسلے میں وہ صوفیا کو اپنے صاف وشفاف شرعی علم سے مستفید کرتے ہیں تاکہ ایک مطلوبہ علمی اسلامی شخصیت کے تمام پہلو: عقیدہ، شریعت اور اخلاق بکمال وجود میں آسکیں۔
صوفیا پر فقہا ومحدثین کی تنقیدیں
ذیل میں ہم محدثین وفقہا کی دونوں مذکورہ بالا کاوشوں پر مختصر گفتگو کریں گے، ان مفید وبار آور کاوشوں کے نتیجے میں تصوف کا وہ رنگ سامنے آسکا جسے ہم ‘علمائی تصوف’ کہہ سکتے ہیں۔ تصوف کی اس قسم کی نمائندہ ائمہ کی وہ بڑی جماعت ہے جس کی شخصیت (ثقافت وطرز عمل ) میں ان تینوں رجحانوں (یا ابن تیمیہؒ کے الفاظ میں محدثین، زاہدین اور فقہا) کے تشکیلی عناصر ضم ہوگئے تھے، یہ بیک وقت محدثین، فقہا اور صوفیا تھے۔ نام نہاد صوفیا (جواپنی تربیت، مقاصد اور طرز عمل میں شرعی نصوص کے پابند نہیں تھے)پر محدثین وفقہا کی تنقید کے اہم نکات کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں:
۱۔ علم سے بے اعتنائی
تنقید کا ایک نکتہ یہ ہے کہ وہ شرعی علوم سے ناواقف اور ان کے تئیں غیر سنجیدہ ہوتے ہیں، امام غزالیؒ نے اس کو ’میزان العمل‘میں یوں لکھا ہے:
’’صوفیا علوم کی تحصیل اور علما کی تصنیفات سے استفادے کا شوق پیدا نہیں کرتے۔‘‘
صوفیا نے مقصود وہدف کے حصول کے لیے علوم شرعیہ کی تحصیل کے علاوہ ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے، امام غزالیؒ کا خیال ہے کہ:
ماہر فقہا نے ’’اس طریق کے وجود کا اور اس کے مقصود تک پہنچانے کے سلسلے میں بار آور ہونے کا انکار نہیں کیا ہے… لیکن اسے نہایت خطرناک جانا ہے۔ ان فقہا کا کہنا ہے کہ محنت وریاضت کے ذریعے اس حد تک مخلوق سے تعلقات ختم کرنا تقریبا ناممکن ہے اور اگر بطورِ نادر ایسا ہوبھی جائے تو اس کیفیت کا تسلسل اور زیادہ ناممکن ہے۔’ ’ مزید لکھتے ہیں: ’’نہ جانے کتنے صوفیا ہیں جو دس برس ایک خیال میں رہے، پھر اس سے چھٹکارا پاسکے، اگر وہ علوم شریعت کے ماہر ہوتے تو فوراً ہی اس سے نجات حاصل کرلیتے۔‘‘
امام غزالیؒ کی دو کتابوں ’المنقذ من الضلال‘اور ’احیا ءعلوم الدین‘کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اور ان سے پہلے اور بعد کے ان کے جیسے دیگر تصوف کے مصلحین کے نزدیک تصوف کے فروغ کا ایک ہی راستہ ہےاور وہ ہے تصوف میں در آئی خرابیوں اور برائیوں کو دور کرنا اور اس کے اہم اصولوں اور اہم تعلیمات کو اس طور پر منضبط کرنا کہ صحیح وغلط کی تمیز ہوسکے۔ ان کے نزدیک اس کا راستہ یہ ہے کہ تصوف کو علوم شریعت سے ایسا مربوط کردیا جائے کہ علوم شریعت اس کو حدود کا پابند اور غلطیوں سے محفوظ رکھیں،۔اس طرح تصوف کو فروغ حاصل ہوگا اور وہ پوری امت کے لیے ایک دیرپا منہج بن سکے گا۔
امام غزالیؒ شافعی فقیہ واشعری تھے، لیکن ابن جوزیؒ نے بھی (جو حنبلی فقیہ تھے، اور عقائد میں خاصا اشعری رجحان رکھتے رکھتے تھے) امام غزالیؒ کے مانند صوفیا کو ترغیب دی ہے کہ وہ علوم شریعت کی تحصیل کریں، اور صرف حالات وکیفیات پر اکتفا نہ کریں۔
اپنی کتاب ’صید الخاطر‘ میں ابن جوزیؒ نے لکھا ہے کہ:
’’اکثر صوفیا وزاہدین کو میں نے شریعت سے منحرف پایا۔ وہ شریعت سے ناواقف ہوتے ہیں، اور اپنی رائے پیش کرنے میں بہت جری واقع ہوتے ہیں۔وہ ایسی آیات سے استدلال کرتے ہیں جن کے معنی ومفہوم کا انھیں ادراک نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسی احادیث کو اپنا مستدل بناتے ہیں جن کے اسبابِ ورود یا پس منظرسے وہ ناواقف ہوتے ہیں۔‘‘
اپنی تصنیف’تلبیس ابلیس‘میں ابن جوزیؒ نے لکھا ہے:
’’صوفیا شریعت کا علم کم رکھتے ہیں، اس لیے ان سے ایسے اقوال وافعال صادر ہوتے ہیں جوجائز نہیں ہوتے۔ اس کی کچھ مثالیں ہم نے اوپر ذکر کی ہیں۔ پھر کچھ ایسے لوگ بھی اس طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں جو حقیقتا صوفیا کی صف کے نہیں ہوتے، لیکن ان کے ساتھ شمار کیے جانے لگتے ہیں، ان سے بھی اس طرح کی باتیں سرزد ہوتی ہیں۔ اسی لیے علما کی ایک تعداد نے ان پر تنقید کی ہے، یہاں تک کہ خود ان کے مشائخ انھیں برا بھلا کہتے ہیں۔‘‘
امام نوویؒ نے بھی ان غالی صوفیا پر سخت تنقید کی ہے جو بنا علم فتوے دیتے ہیں۔ علاج سے متعلق متعدد احادیث درج کرنے کے بعد ’شرحِ مسلم‘میں لکھتے ہیں: ’’ان احادیث میں ان غالی صوفیا کا بھی رد ہے جو علاج معالجہ پر نکیر کرتے ہیں۔‘‘ فتح الباری میں ابن حجرؒ کے یہاں بھی ہمیں اس کی باز گشت ملتی ہے۔ایک مسئلہ پر اپنی گفتگو میں جاہل صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’کچھ غالی صوفیا نے بغیرعلم کے اس حدیث کی تشریح کی ہے۔‘‘
یہ جاہل صوفیا حقیقی صوفیا نہیں ہوتے، بلکہ تصوف کی جانب اپنی غلط نسبت کرتے ہیں، امام سیوطیؒ ان عظیم متاخر ائمہ میں سے ایک ہیں جو بیک وقت محدثین، فقہا اور صوفیا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے زمانے کے اسی طرح کے نام نہاد صوفیا پر تنقید کرتے ہیں۔ اپنے رسالہ ‘الفرق بین المصنف والسارق’ میں فقہا کی صوفیا پر تنقید کا سبب ان کی شریعت سے ناواقفی کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان ہی جیسے لوگوں کی وجہ سے بہت سے فقہا صوفیا پر تنقید کرتے ہیں اور ان کے تئیں برا گمان رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان فقہا کا واسطہ ایسے نام نہاد صوفی سے پڑا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو صوفی بتاتا ہے، حالاں کہ حقیقت میں وہ صوفی نہیں ہوتا ہے، احادیث، فقہ واصول سے مکمل طور پر جاہل ہوتا ہے، اس کو تصوف کی ہوا نہیں لگی ہوتی۔
۲۔مسئلہ موضوع احادیث کا
پچھلے صفحات میں ہم نے جانا کہ صوفیا کی ایک تعداد ائمہ محدثین اور مختلف مسالک کے عظیم فقہا پر مشتمل تھی، ان حضرات کو ہم اصل وصحیح جماعتِ صوفیا کا علمی حصہ کہہ سکتے ہیں، لیکن اہل تصوف کے یہاں ہمیں ایسے افراد کی بھی ایک تعداد نظر آتی ہے جن کی تمام تر توجہ زہد، تقوی، تزکیہ اور مخصوص کیفیات پر تھی اور علم شریعت سے ان کو کچھ شغف نہ تھا۔ یہ حضرات روایتِ احادیث کے سلسلے میں ضعیف ومتروک (ناقابلِ اعتبار) تھے، تاہم ان کی اکثریت جان بوجھ کر غلط بیانی کا ارتکاب نہیں کرتی تھی۔ ہاں چوں کہ روایات کو صحیح طریقے پر محفوظ کرنے کے سلسلے میں یہ کم زور تھے اس لیے ان سے غلط بیانی سرزد ہوجاتی تھی، اور یوں ان کی بیان کردہ روایات صحیح باقی نہ رہتیں۔
اس کی وضاحت امام نوویؒ نے کی ہے، معروف وعظیم امامِ حدیث یحییٰ بن سعید القطانؒ (متوفی: ۱۹۸ھ) کے بیان: ’’ہم نے نیکوں کو حدیث سے زیادہ کسی اور سلسلے میں جھوٹا نہیں پایا‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے امام نوویؒ نے تحریر فرمایا ہے:
’’اس جملہ کی مراد وہی ہے جو امام مسلمؒ کی اس بات میں واضح کی گئی ہے: ’’ان حضرات کی زبان سے جھوٹ دانستہ طور پر سرزد نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ حضرات اس علم کے ماہر نہیں ہوتےاور ہر سنی بات نقل کردیتے ہیں۔ اس طرح یہ جھوٹی روایات نقل کردیتے ہیں اور جھوٹی بات جھوٹی بات ہی ہے، خواہ وہ جھوٹ دانستہ بولا گیا ہو یا نادانستہ۔‘‘
لیکن تصوف کی جانب اپنی نسبت کرنے والے بعض حضرات نے جان بوجھ کر بھی جھوٹی روایات بیان کی ہیں۔ ان کے سلسلے میں امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’دانستہ حدیثیں وضع کرنا تمام معتبر اہل علم کے یہاں حرام ہے۔جب کہ ایک گم راہ فرقہ کرامیہ نے نیک اعمال کی ترغیب اور برے اعمال سے روکنے کے لیے وضعِ حدیث کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی رائے کچھ ایسے جاہلوں کے یہاں بھی پائی جاتی ہے جو ناحق طور پر زاہدین (صوفیا) کے طریق پر ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہ موقف آخری درجہ کی حماقت اور جہالت سے عبارت ہے۔‘‘
حاصلِ کلام یہ ہے کہ محدثین نے کوئی بھی روایت صرف اس لیے رد نہیں کی ہے کہ اس کا راوی صوفی ہے، اور نہ کسی دوسرے کی روایت اس لیے قبول کی ہے کہ وہ غیر صوفی ہے، تصوف سے وابستگی ماہرین فن کے یہاں روایت کے قبول ورد کا معیار نہیں ہے، اس سلسلے میں معیار بس راوی میں مطلوبہ صفات (مثلا: صدق، ضبط اور ثقاہت وغیرہ) کا پایا جانا ہے۔ تصوف اگر حدود شریعت میں رہتے ہوئے ہو تو یہ روایات کے قبول ورد کا معیار نہیں ہے، آگے ہم کچھ ایسے صوفیا کابھی تذکرہ کریں گے جو علم حدیث کے ائمہ تھے۔
۳۔ خرافات پسندی
محدثین ہر روایت کو سند کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اور جب تک مضبوط سند نہ ملے وہ روایت قبول نہیں کرتے۔ اسی لیے وہ صوفیا کی ان روایات کو مسترد کرتے ہیں جو ناممکن امور پر دلالت کرتی ہیں یا جن کی سند صحیح نہیں ہوتی۔ ابن جوزیؒ نے ’صید الخاطر‘میں لکھا ہے:
’’کتنے ہی لوگ بعض حضرات کے پانی پر چلنے کی روایات نقل کرتے ہیں، ابراہیم حربیؒ (متوفی: ۲۸۵ھ) نے اس سلسلے میں کہا کہ: کوئی شخص پانی پر نہیں چل سکتا۔ لیکن ایسی روایات نقل کرنے والے کہتے ہیں کہ کیا آپ اولیا وصالحین کی کرامات کے انکاری ہیں؟ ہم کرامتوں کے انکاری نہیں ہیں، لیکن ہم صحیح روایات کو ہی معتبر مانتے ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ صالحین شریعت کا اتباع کرتے ہیں، اپنی آرا سے عبادت نہیں کرتے ہیں۔‘‘
ذہبیؒ نے بھی اس جیسی خرافات کو قابل ِرد ّقرار دیا ہے، ’تاریخ الاسلام‘میں وہ لکھتے ہیں:
’’عوام کے لیے گم راہ کن بننے والے ان شیطانی احوال میں سے چند یہ ہیں: سانپوں کو کھانا، آگ میں چلنا، ہوا میں اڑنا۔ یہ باتیں ایسے لوگوں کی جانب منسوب کی جاتی ہیں جو گناہوں کے اسیر اور فرائض کے تارک ہوتے ہیں۔ ان باتوں پر تنقید کریں تو کچھ جاہل کہتے ہیں: خاموش رہو، اولیاءاللہ کے سلسلے میں کچھ نہ بولو۔ اسے خبر نہیں کہ اولیا اللہ کی توہین کا مرتکب وہ خود ہورہا ہے، کہ ان اوباش اور مجنون افراد کو اولیا کی صف میں شامل بتارہا ہے۔‘‘
سلسلۂ رفاعیہ کے بانی شیخ احمد رفاعیؒ کے سلسلے میں امام ذہبیؒ نے لکھا ہے:
’’لائقِ تقلید زاہد، تواضع، قناعت، نرم گوئی … اور سلامتیٔ باطن کے بلند ترین مقام پر فائز‘‘، پھر آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’لیکن ان کے مریدین میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے اور کچھ نامناسب لوگ بھی تھے۔ عراق پر تاتاریوں کے غلبے (۶۵۶ھ) کے بعد اس سلسلے میں بہت سےغیر مخلص لوگ داخل ہوگئے، جو طرح طرح کی شیطانی حرکتیں کرتے، جیسے آگ میں داخل ہونا، درندوں پر سواری کرنا، اور سانپوں سے کھیلنا۔ شیخ رفاعیؒ اور ان کے صالح وابستگان ومریدین کا ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ شیطان سے اپنی پناہ میں رکھے۔‘‘
۴۔ حلول واتحاد کا نظریہ
جو غالی صوفیا حلول واتحاد کا دعوی کرتے تھے محدثین وفقہا نے ان پر شدید تنقید کی ہے، خیال رہے کہ یہ شدید تنقیدیں خالص علمی تھیں، جو علمائے امت کے درمیان نہایت زوردار مباحثہ ومکالمہ کی بہترین مثال ہیں، کچھ لوگوں کا یہ سمجھنا کہ یہ سب بے بنیاد تکفیری وتبدیعی (کافر یا بدعتی قراردینے کی) مہم تھی، غلط ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین ان صوفیا کے اس موقف پر شدید تنقید کے باوجود ان صوفیا کے لیے عذر بھی تلاش کررہے ہیں۔
مثلا امام ذہبیؒ ہر اس شخص پر شدید تنقید کرتے ہیں جس کے یہاں حلول واتحاد کی رائے کسی بھی درجہ میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسے صوفیا کے سلسلے میں الفاظ وتعبیرات کے استعمال میں نہایت محتاط نظر آتے ہیں۔ نجم الدین شیبانی (۶۷۷ھ) کے تذکرے میں ان کا یہ شعر امام ذہبیؒ نے نقل کیا ہے:
وَمَا أنتَ غیر الکون بل أنت عینہ وَیَفہَمُ ہٰذا السرمَن ہُوَ ذائق
(ترجمہ: آپ غیرِ کائنات نہیں، عین کائنات ہیں، اور اس راز کو وہی سمجھ سکتا ہے جو آپ کے عشق ومحبت کا ذوق آشنا ہوگا)۔
اس شعر کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ظاہری معنی کا اعتبار کریں تو اس بندہ کے اشعار میں اتحاد ذات کی بکثرت تصریح پائی جاتی ہے۔ اگر یہ ظاہری معنی مراد ہوں تو اس شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ اور اگر اس کے ظاہری معنی مراد نہ ہوں اور وہ اس کی دور کی کوئی تاویل کرتا رہا ہو تو بھی یہ بے ادبی اور اللہ کی بابت غلط بات کہنا ہے۔‘‘
یہی بات ذہبیؒ نے ‘میزان الاعتدال’ میں بھی کہی ہے، ملاحظہ ہو:
’’طیفور بن عیسیٰ ابو یزید بسطامی (متوفی: ۲۶۱ھ) ممتاز صوفی تھے، ان کی باتیں اور ان کے حالات بڑے عجیب وغریب ہیں، ان کا یہ ارشاد کتنا اچھا ہے: ’’اگر کسی کے ہاتھوں بڑی کرامات کا صدور ہوتا دیکھو، یہاں تک کہ وہ تمھیں ہوا میں اڑتا ہوا دکھائی دے، توبھی اس وقت تک اس پر اعتماد نہ کرو جب تک کہ یہ نہ دیکھ لو کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کس روش پر ہے، اور احکامِ شریعت کا کس قدر پاس رکھتا ہے۔ اہل تصوف ان سے بعض نہایت غلط باتیں بھی نقل کرتے ہیں، جن کی ان کی جانب نسبت صحیح ہے۔‘‘
اس کے بعد امام ذہبیؒ نے ان کی ایسی کچھ باتیں نقل کی ہیں، ان کے لیے عذر تلاش کیے ہیں، اور پھر اللہ کے سپرد ان کا معاملہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابو یزید اپنے حال سے خود ہی زیادہ واقف ہیں، حقیقتوں کا علم اللہ ہی رکھتا ہے، ہم اللہ کے حضور ہر اس شخص سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو جان بوجھ کر کتاب وسنت کی مخالفت کرے۔‘‘
فقہا ومحدثین نے بعض صوفیا پر جو تنقید کی ہے وہ (عام طور پر) بیرون سے کی گئی تنقید نہیں ہے۔ یہ مختلف وباہم نبرد آزما فرقوں ورجحانات کے درمیان ہونے والی تنقید بھی نہیں ہے۔ یہ معتزلہ وحنابلہ یا اشعری اور شیعوں کے درمیان پایا جانے والا اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ یہ خود اہل تصوف کی جانب سے کی جانے والی اصلاحی کاوشیں ہیں۔ اس لیے کہ جیسا کہ ہم آگے تذکرہ کریں گے بہت سے محدثین وفقہا صوفیا کی صف میں شامل تھے۔ اسی لیے یہ محدثین وفقہا (یہاں تک کہ غیر صوفی محدثین وفقہا بھی) تنقید واستدراک میں دقیق علمی منہج کا اتباع کرتے تھے، جس میں ذاتی خواہشات وغلط جذبات کا کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔ ان فقہا ومحدثین کی تنقید میں شدت اسی وقت نظر آتی ہے جب وہ شرعی احکام وحدود سے بے پروا تصوف پر کلام کررہے ہوتے ہیں، اسی لیے وہ حدود شرع کے پابند تصوف کا دفاع کرتے ہوئے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔
مثا امام ابن جوزیؒ نہایت گہری روحانی ونفسیاتی تبدیلیوں کے تجربے سے گزرے، پھر اس رائے ومنہج پر قانع ہوئے۔ ’صید الخاطر‘میں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جب ان کے دل میں ریا کے خوف سے وعظ کہنے کو ترک کرنے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کا خیال آیا تو غور وفکر کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ:
’’شر کے کاموں کو ترک کرنے کے لیے تو لوگوں سے الگ تھلگ ہونا صحیح ہے، لیکن گوشہ نشینی اختیار کرکے خیر کے کاموں کو ترک کرنا تو کسی طور صحیح نہیں ہے…۔ طلبا کو پڑھانا اور مریدین کی اصلاح وتربیت ہی تو عالِم کی عبادت ہے۔ بعض علما کا کسی کتاب کی تصنیف یا علم نافع کی تدریس کے مقابلے میں نفل نمازوں اور روزوں کو ترجیح دینا ان کی غلطی ہے۔ اس لیے کہ یہ بہت بار آور اور طویل مدت تک مفید کام ہیں۔‘‘
ایک جانب ابن الجوزی صوفیا پر شدید تنقید کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے تصوف کی دو نہایت اہم کتابوں کی تلخیص کی ہے، یہ کتابیں ہیں: اصفہانی کی حلیة الاولیاء اور غزالی کی احیا علوم الدین، پہلی کتاب کی تلخیص انھوں نے اپنی کتاب ’صفة الصفوة‘میں اور دوسری کتاب کی تلخیص ’منہاج القاصدین‘ میں کی ہے۔
پھر امام ابن تیمیہؒ نے صوفیا کی بابت صحیح نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے انھیں ایک ایسا دینی گروہ قرار دیا جس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے طریقے کی بابت اجتہاد کیا اور دوسرے گروہوں کے مانند اس اجتہاد میں ان سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ ’مجموع الفتاویٰ‘میں وہ تحریر کرتے ہیں:
’’صوفیا کی بعض متنازع آرا کی وجہ سے ان کے طریق کی بابت لوگوں کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات صوفیا اور تصوف کو بدعتی اور اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دینے پر مصر ہیں…، تو کچھ اور لوگ ان کی بابت غلو میں مبتلا ہیں اور انھیں انبیا کے بعد افضل ترین وکامل ترین مخلوق قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں انتہائیں مذموم ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ صوفیا بھی اللہ کی اطاعت کے سلسلے میں اسی طرح اجتہاد کرتے ہیں جس طرح اللہ کے دیگر فرماں بردار بندے کرتے ہیں، ان میں سے کچھ خاص مقربان بارگاہ الہی ہوتے ہیں، قرآن مجید کی زبان میں ‘السابقون’، کچھ اور لوگ اوسط درجہ کے مقربان بارگاہ، یا قرآنی اصطلاح میں اہلِ یمین…، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی جانب اپنا غلط انتساب کرتے ہیں، یہ اللہ کے نافرمان اور غلط کار لوگ ہوتے ہیں، کچھ اہل بدعت اور زندیق بھی ان کی جانب اپنا انتساب کرتے ہیں، لیکن محقق صوفیا ان کو اہل تصوف میں شامل نہیں مانتے۔‘‘
دینی وانسانی رشتۂ اخوت کی پاسداری اور سلامتیٔ نفس کی ایک حیرتناک مثال یہ ہے کہ محدثین نے غالی صوفیا کے ساتھ اپنے علمی اختلاف، بشریت کے مقام اور عوارض نیز نفس کے احوال اور اس کے مقامات والہامات وغیرہ کے فہم میں فرق کیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے صوفیا کا (یہاں تک کہ اپنے نزدیک غالی صوفیا کابھی) دفاع کیا ہے، ان کے تئین حسنِ ظن اور مناسب تاویل کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی ان کے ایسے اقوال وافعال سے آگاہ بھی کیا ہے جن کی تائید نصوص شریعت سے نہیں ہوتی ہے۔
یہ دو بہت اہم سطحیں ہیں، جن کے درمیان فرق کرنا لازمی ہے۔ مثلا ذہبیؒ نے ’میزان الاعتدال‘میں ابن فارض (متوفی: ۶۳۲ھ)کی بابت تحریر کیا ہے:
’’اپنے اشعار میں وہ ‘اتحاد ’ کا نظریہ بہت صراحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ بڑی مصیبت ہے، ان کے کلام پر غور کریے، جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ سنائیے اور صوفیا کے اقوال واحوال میں ان کے تئیں حسنِ ظن رکھیے۔‘‘
ذہبیؒ کراماتِ اولیا کا دفاع کرتے ہیں، کرامات کے منکرین (خواہ وہ عظیم ترین فقہا ومحدثین میں سے ہی کیوں نہ ہوں) پر نکیر کرتے ہیں، امام ابو اسحاق اسفرایینی شافعیؒ (متوفی: ۴۱۸ھ) کے سلسلے میں ’سیر أعلام النبلاء‘ میں لکھتے ہیں:
’’[وہ] اپنے زمانہ کے مجتہدین میں شمار ہوتے تھے،…، نہایت خوش اوقات اور تقوی شعار تھے…، روایتِ حدیث میں نہایت ثقہ ومستند تھے…، اولیا کی کرامات کے منکر تھے، اور انھیں ناممکن جانتے تھے، یہ ان کی بڑی غلطی تھی۔‘‘
ذہبیؒ کی صفتِ انصاف واعتدال
ذہبیؒ نے بہت بڑی تعداد میں ممتاز صوفیا کا تذکرہ کیا ہے، اور بہت انصاف سے کام لیا ہے، شریعت کی حدود کے پابند تصوف نیز دیگر علوم میں ان کے مقام کو ان کی خوبی بتاکر ان کی تعریف کی ہے، مثلا ممتاز صوفی وزاہد ادریس خولانیؒ (متوفی: ۲۱۱ھ) کے تذکرہ میں صوفیا کی اصطلاح کا بلا تکلف وبلاتامل استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کہا جاتا ہے کہ وہ ابدال میں سے تھے، اور اپنے مقام اور طرزِ عبادت میں بشر الحافیؒ (متوفی: ۲۲۶ھ) جیسے تھے۔‘‘
ممتاز صوفی ابو البقاء تفلیسیؒ (متوفی: ۶۳۱ھ) کے تذکرے میں لکھتے ہیں: ’’وہ عظیم وممتاز صوفی تھے، فقہ، اصول، عربی زبان، تاریخ، شعر اور سلوک کا علم رکھتے تھے، بہت ریاضتیں اور مجاہدے کیے تھے۔‘‘ ابو محامد زنجانی صوفی شافعیؒ (متوفی: ۶۷۴ھ) کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
’’فقیہ، امام، صالح، زاہد اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔‘‘
اپنے زمانے کے عظیم ترین مشائخ تصوف میں سے ایک نمایاں شخصیت ابو الفضل ابن الدمیری لخمیؒ (متوفی: ۶۹۵ھ) سے ملاقات نہ کرسکنے پر ذہبیؒ نے اظہار افسوس وحسرت بھی کیا ہے، ان کے تذکرے میں تحریر کرتے ہیں: ’’شیخ، امام ومُسند…،شیخ شہاب الدین سہروردیؒ (ابو حفص متوفی: ۶۳۲ھ) نے انھیں خرقہ عطا کیا تھا، اپنے وقت کے عظیم محدث تھے، افسوس میں ان کی ملاقات سے محروم رہا، بہت بڑی تعداد میں طلبا نے ان سے سماعت حدیث کی۔‘‘ خود ذہبیؒ بھی تصوف کے ایک سلسلے میں شامل تھے، اور ان کی بھی خرقہ پوشی ہوئی تھی، ممتاز صوفی شیخ ضیاء الدین سبتیؒ (متوفی: ۶۹۶ھ) کے تذکرے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ ان کا حدیث پڑھنے کا انداز بہت خوب صورت تھا…، مجھے خرقہ پہنایا، اور بتایا کہ یہ خرقہ انھیں شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے مکہ میں پہنایا تھا…، نہایت متواضع تھے، ہمیشہ مسکراتے رہتے، حلیہ اور طرزِ بود وباش صوفیا وفقہا کا تھا۔‘‘
ذہبیؒ کا خیال تھا کہ ہر عالم شرعی کو صوفی ومربی ضرور ہونا چاہیے، اور صوفی کو شریعت کا صحیح علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ’سیر أعلام النبلاء‘میں ایک بہت عجیب قاعدۂ کلیہ تحریر فرماتے ہوئے علما اور صوفیا کی بابت محدثین کا منہج یوں واضح کیا ہے:
’’عالم تصوف اور معرفت خداوندی سے عاری ہو تو وہ کسی کام کا نہیں ہوتا، اور صوفی علم شریعت سے بے بہرہ ہو تو گم راہی کا اسیر ہوجاتا ہے۔‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذہبیؒ نے اس سلسلے میں اپنے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا طریقہ اختیار کیا ہے، جنھو ں نے صوفیا کی دو قسمیں بیان کی ہیں، صالحین، اور غیر صالحین، ذہبی نے ان سے سند کے ساتھ شیخ شہاب سہروریؒ کا ایک قول نقل کیا ہے، ’تاریخ الاسلام‘میں لکھتے ہیں:
’’میں نے اپنے استاذ ابن تیمیہؒ کو یہ کہتے سنا کہ: میں نے شیخ عز الدین احمد فاروثیؒ (متوفی: ۶۹۴ھ) کو یہ کہتے سنا کہ میں نے اپنے شیخ شہاب سہروردیؒ سے ان کا یہ ارشاد سنا کہ: ’’میں نے علم کلام اور اصول دین سے اشتغال کا عزم کیا، پھر مجھے خیال آیا کہ میں اس سلسلے میں شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے مشورہ کرلوں، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میرے کچھ عرض کرنے سے پہلے ہی فرمایا: یہ قبر میں کام آنے والی چیز نہیں ہے…، شیخ شہاب سہروردیؒ کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہ ارادہ ترک کردیا۔‘‘
شیخ عبد القادر جیلانیؒ اپنے عہد کے عظیم ترین حنبلی عالم وفقیہ تھے، دوسری جانب وہ تصوف کے عظیم ترین شیخ اور اس کے ایک بہت بڑے سلسلہ کے بانی بھی تھے، امام ذہبیؒ نے ‘تاریخ الاسلام’ میں ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’وہ صاحبِ کرامات ومقامات بزرگ اور عظیم حنبلی فقیہ تھے…، حدیث کا علم حاصل کیا تھا…، اپنے زمانے کے امام، اپنے عہد کے قطب اورمتفقہ طور پر سب سے بڑے شیخِ تصوف تھے۔‘‘
شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے تصوف کے درونِ خانہ سے اس میں در آئی غلطیوں کی اصلاح میں نمایاں کردار ادا کیا، اس سلسلے میں ان کی کاوشیں کسی طور امام غزالیؒ سے کم تر نہیں، بلکہ اس پہلو سے زیادہ اہم تھیں کہ وہ فقہ وعقائد میں حنبلی مکتب فکر کے تھے، انھوں نے بغداد میں حنابلہ اور صوفیا کے درمیان قربتیں پیدا کیں۔ شدت پسند حنابلہ کے قلوب زاہد ومتقی صوفیا کے لیے نرم کیے اور دونوں کو قریب لاکر ان کا شرعی افق وسیع کیا۔ اس طرح (ابن تیمیہؒ کی وضع کردہ اصطلاح میں) صوفیائے محدثین کے حلقے کو مستحکم کیا۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2022