اسلامی ادارہ سازی: رفاہی ادارے

رفاہی ادارےفلاحی اداروں کے ذریعے اسلام کی عملی شہادت اس سلسلہ مضامین کا مرکزی موضوع ہے۔ اس کے تحت اس ماہ ہم رفاہی اداروں اور ان کے کردار کو زیر بحث لائیں گے۔ رفاہی کام (charity work)سے یہاں ہماری مراد وہ منظم اجتماعی سرگرمیاں ہیں جو بلامعاوضہ، رضاکارانہ طریقوں سے،ضرورت مند انسانوں کی مدد و خدمت اور ان کی حاجتوں کو رفع كرنے کے لیے انجام دی جاتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس سلسلہ مضامین میں دیگر عنوانات کے تحت جن کاموں اور خدمات کوزیر بحث لایا جارہا ہے (مثلاً گذشتہ ماہ کا مضمون : شفاخانے) ان کا بڑا حصہ بھی رفاہی کام ہی ہیں لیکن آج ہم ایسے عام کاموں کو زیر بحث لارہے ہیں جن کا احاطہ ادارہ جاتی کاموں کے دیگر بڑے محاذوں کے تحت نہیں ہورہا ہے اور جن کا اصل ہدف غریبوں اور محتاجوں کی بنیادی ضروریات زندگی (livelihood)کی تکمیل ہوتا ہے۔

موجودہ دورمیں بڑی رضاکارانہ تنظیموں (NGOs)کے ساتھ، شہری اور محلہ جاتی سطح کے ادارے، خانہ دار خواتین کی انجمنیں، ہاؤسنگ سوسائٹیاں، سروس کلب (مثلاً روٹری کلب، لائنس کلب وغیرہ) نوجوانوں کی ویلفیر تنظیمیں، وظیفہ یابوں اور چہل قدمی کرنے والوں کی اسوسی ایشنیں (walkers associations)کارپوریٹ کمپنیوں کے رفاہی مراکز، مذہبی مقامات اور مذہبی ادارے و تنظیمیں وغیرہ جیسے طرح طرح کےاجتماعی گروہ رفاہی خدمات انجام دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی مذکورہ بالا نوعیت کے اداروں کے ساتھ،مساجد، درگاہوں،خانقاہوں وغیرہ سے منسلک ادارے، دینی انجمنیں وغیرہ بھی رفاہی کاموں میں مصروف ہیں۔ تحریکات اسلامی کے کاموں کا دنیا بھر میں یہ ایک اہم محاذ ہےاور ہمارے ملک میں بھی تحریک اسلامی ہمیشہ ان کاموںمیں پیش پیش رہی ہے۔ یہ کام کس طرح اسلام کی عملی شہادت کے اور اسلام کی روشنی میں متبادل پالیسیوں اورسماجی معمولات (social norms)کے فروغ کا ذریعہ بنائے جاسکتے ہیں؟ اس پر ذیل کی سطروں میں کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔

بنیادی اسلامی تصورات

موجودہ دور میں رفاہی خدمات کے سلسلے میں اوررفاہی کام کرنے والے اداروں کے لیے ہمارے خیال میں اسلام کی درج ذیل تعلیمات خاص طور پر رہ نما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۱۔ ممکنہ رفاہی خدمات ہر مسلمان سے مطلوب ہیں

جدید معاشروں میں رفاہی کام یاسماجی خدمت ایک مشغلے اور شخصی رجحان کانام ہے۔جن لوگوں کو’سوشل ورک’ میں دل چسپی ہوتی ہے وہ رضاکارانہ طور پر شامل ہوتے ہیں اور اکثر افراد جنھیں ان کاموں میں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی وہ نہ اس میں شامل ہوتے ہیں اور نہ سماجی معمولات میں یہ عدم شمولیت ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ اسلام کے نزدیک ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام انسانوں کی جو کچھ خدمت کرسکتا ہے یا ان کے مسائل کے حل میں جو تعاون بھی کرسکتا ہے، اسے کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا : كل سلامى من الناس عليه صدقة كل يوم تطلع فيه الشمس (ہر روزجب سورج طلوع ہوتا ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوجاتا ہے[1]۔)آگے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ صدقے کا مطلب دوسرے انسانوں کی ہر طرح کی ضرورت پوری کردینا ہے۔ سواری پر بیٹھنے میں مدد کرنا، راستے سے کسی تکلیف دہ چیزکوہٹادینا۔ وغیرہ۔مطلب یہ کہ اپنی طاقت و استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ دوسروں کے لیے کرنا ضروری ہے۔ قرآن کے مطابق انسانوں کی خدمت کا جذبہ ایمان کی نشانی ہے اور ضرورت مندوں سے اعراض اور انھیں دھتکارنا کفر و نفاق کی علامت ہے۔ارَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ‎۔وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ (کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کی جزا وسزا کو جھٹلاتا ہے؟وہ جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔الماعون )انسانوں کی خدمت اللہ سے محبت کی علامت ہے۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔الانسان 8) رفاہی خدمات نیکی اور تقویٰ کا مظہر ہیں۔ [البقرة: 177] انسانوں کی خدمت بندہ مومن کے لیے اس دنیا میں بھی اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے الرَّاحمونَ يرحمُهُمُ الرَّحمنُ. ارحَموا من في الأرضِ يرحَمْكم من في السَّماءِ (رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے۔لہذہ تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا[2]) اور آخرت میں بھی اپنی مشکل دور کرنے کا وسیلہ ہے۔ ومن كان في حاجة اخيه ، كان الله في حاجته ، ومن فرج عن مسلم كربة ، فرج الله عنه كربة من كرب يوم القيامة(جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا۔)[3]

۲۔ رفاہی خدمات کا اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے

رفاہی کاموں سے متعلق اسلام کے تصور کی اہم ترین امتیازی خصوصیت اخلاص نیت پر اس کا اصرار ہے۔ قرآن مجید نام و نمود کی خاطر صدقہ کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور در حقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔ النساء 38)قرآن کے نزدیک احسان جتانا اور وصول کنندگان کی عزت نفس کو مجروح کرنا بھی صدقات کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ۔ (اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ البقرۃ 264)موجودہ دور میں غریبوں اور مسکینوں کو ‘امداد’کے نام پرسر بازاررسوا کرنا اوربے جا تصویر کشی کے ذریعے ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا ان واضح نصوص کی روشنی میں سخت قابل مذمت ہے۔اسلام کےنزدیک ضرورت مندوں کی خدمت ان پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (ان کےمالوںمیں سائل اورمحروم کابھی حق ہے۔ الذاریات 19) انفاق سےمحض لینے والے کی غرض پوری نہیں ہوتی بلکہ زیادہ بڑی غرض تو دینے والے کی پوری ہوتی ہے۔

۳۔ زیادہ سے زیادہ انفاق اور خدمت کی اعلیٰ ترین سطح مطلوب ہے

رفاہ عام اورضرورت مند انسانوں کی مدد اسلام کے نزدیک محض ایک ایسا علامتی کام نہیں ہے جس میں بہت زیادہ دولت مند لوگ اپنی دولت کا ایک بہت ہی حقیر حصہ خرچ کرکے خود کوسخی داتا سمجھ بیٹھیں۔اسلام چاہتا ہےکہ مسلمان اس کام کوبہت اعلیٰ سطح پر انجام دیں۔ اس میں اپنے مال کا زیادہ سے زیادہ جزو اور اپنے وقت اور توجہ کا بیش قیمت حصہ صرف کریں۔صدقات کو صرف بچے کچھے، خود کے لیے ناقابل استعمال اور غیر معیاری مال تک محدودرکھنے کے رویے کی قرآن واضح الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالاں کہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ البقرۃ 267) قرآن مجید نے انفاق کا اعلیٰ معیار تو یہ قرار دیا ہے کہ ضروریات زندگی کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ(پوچھتے ہیں : ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں ؟ کہو : جو کچھ تمھاری ضرورت سے زیادہ ہو۔البقرۃ 219) نبی کریم ﷺ نے فرمایا مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ، قَالَ: فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ (جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔کہا: آپ نےاسی طرح مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ہم نے باور کرلیاکہ کسی بھی زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے)[4] قرآن مجید نے اس سے آگے بڑھ کر اہل ایمان کے کردار کی بلندی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ خصوصیت بھی بتائی ہے کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ الحشر 9) قرآن کے نزدیک نیکی کامعیار یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں محبوب ترین چیزیں بھی قربان کی جائیں۔لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو۔ آل عمران 92) عمل کی دنیا میں صحابہ کرام ؓ نے اس معیار کی سخاوت اور ضرورت مندوں کی مدد کے نمونے بھی پیش فرمائے۔ [5]

۴۔ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل اصل ترجیح ہونی چاہیے

قرآن مجید کے بیانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا ( وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ۔الانسان 8)قرآن کے نزدیک ایک اہم نیکی ہے جس کی تاکید قرآن مجید میں تقریباً 16مقامات پر آئی ہے۔نبی کریم ﷺ نےکھانا کھلانے والے کو لوگوں میں افضل تر قرار دیا ہے۔ خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ(تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو ضرورت مندوں کو کھانا کھلائے۔)[6] یتیم بچے (قرآن نے 22 جگہوں پر ان کی مدد کی تاکید کی ہے)، بیوہ خواتین (الساعي على الأرملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله: بیواؤں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔[7])مسافر(ابْنَ السَّبِيلِ،الاسراء 26)،قرض دار(في الرقاب، توبہ 60)، قیدی(اَسِیۡرًا۔ الانسان 8) وغیرہ جیسے ضرورت مندوں کا قرآن مجید نے خاص طور پر تذکرہ کیا ہے۔ اس سے بھی رفاہی کاموں میں اسلام کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ان عام ضرورت مندوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں(اِنَّ الْمُنْفِقَ عَلَی الْخَیْلِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَبَاسِطِ یَدَیْهِ بِالصَّدْقَةِ لَا یَقْبِضُهَا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں سرگرم گروہ پر خرچ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس نے دونوں ہاتھ صدقہ کے ساتھ پھیلا رکھے ہوں اور وہ ان کو بند نہیں کرتا۔[8] نیز ارشاد باری تعالیٰ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ (خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے’البقرۃ 273) كا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ضرورتوں میں کھانے اور لباس وغیرہ کے علاوہ بے نکاحوں کے نکاح (وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ : تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو۔النور32) کو بھی اسلام رفاہ عام کا ایک اہم ہدف قرار دیتا ہے۔

۵۔وقتی ضرورتوں کی تکمیل کے مقابلے میں پائیدار حل پر زیادہ توجہ دی جائے

پائیدار حل (sustainable livelihood) کا تصور بہت اہم ہے جس پر موجودہ احوال میں خاص طور پر توجہ درکار ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ غربا و مساکین، غربت و افلاس کے چکر سے نکلیں اور ان کو پائیدار وسائل رزق میسر ہوں۔ رفاہی خدمت کا اصل ہدف یہی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا (اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو، البتہ انھیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انھیں نیک ہدایت کرو۔النساء5 )یہ حکم اصلاً زیر کفالت یتیموں کے حوالے سے ہے لیکن اس سے یہ حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ناسمجھ اور غیر ذمہ دار لوگوں کو روپیے پیسے دینا مناسب نہیں ہے۔ وقتی ضرورت کی تکمیل کے لیے ان کو کھانا اور دیگر اشیائے ضرورت فراہم کی جائیں اور اصلاً ان کے معاشی استحکام کی فکر کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مانگنے والے کے لیے کلہاڑی کا انتظام کرادیا اور اسے لکڑی کاٹ کر رزق حاصل کرنے کی طرف رہ نمائی فرمائی۔ [9]حضرت عمر ؓ فرماتے تھے : إذا أعطيتُمْ فأَغنوا (جب تم غریبوں کو دو تو اس طرح دو کہ وہ آئندہ ضرورت سے بے نیاز ہوجائیں[10]۔ )امام غزالی[11]، امام ابن تیمیہ[12]،امام نووی[13] اور متعدد علمائے سلف نے یہ صراحت کی ہے کہ صدقے کی افضل تر شکل یہ ہے کہ مسکین کو زندگی بھر کے لیے بے نیاز کردیا جائے۔اس کی عملی شکل یہی ہوسکتی ہے کہ اس کو اس طرح دیا جائے کہ وہ اپنی تجارت قائم کرسکے یا اپناآزاد پیشہ شروع کرسکے۔ احادیث نے صدقہ جاریہ کا تصور دیا کہ ایسا صدقہ جس کا فائدہ مسلسل ہوتا رہے وہ صدقہ دینے والے کے لیے جاری و ساری اجر، یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی ثواب پہنچاتا رہے گا۔ لوگوں میں روپیے تقسیم کردیے جائیں اور وہ کھا پی کر ختم کردیں تو یہ محض وقتی صدقہ ہوگا لیکن صدقے سے کسی کو مستقل روزگار پر لگادیا جائے تو جب تک صدقہ لینے والا اور اس کے اہل و عیال اس سے مستفید ہوتے رہیں گے وہ دینے والے کے لیے صدقہ جاریہ بنا رہے گا۔ اس تصور کے نتیجے میں بھی مستقل اور پائیدار وسیلہ روزگار کی فراہمی اسلامی رفاہی خدمات کی ترجیح رہی ہے۔

۶۔ بلا کسی تفریق کے تمام ضرورت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل 

رفاہی کام، انسانوں کی خدمت اور ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں اسلام کسی تفریق کا قائل نہیں ہے۔قرآن مجید میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ صدقہ اور بھلائی کے کاموں کو اس بات کے ساتھ مشروط رکھنا صحیح نہیں ہے کہ لوگ ہدایت قبول کریں۔ صدقہ و خیرات ہر ایک کے لیے ہے۔ (لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ۔ لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمھارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمھیں دیا جائے گا اور تمھاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی سورہ البقرۃ۔ آیت 272)نبی کریم ﷺ نے اس آیت کریمہ کی روشنی میں خاص طور پر ہدایت فرمائی۔تصدقوا على اهل الاديان(تمام مذاہب والوں پر صدقہ کیا کرو)[14]۔ اسلام نے نہ صرف غیر مسلموں بلکہ چرند پرند اور حیوانات کے ساتھ تک حسن سلوک اور ان کی خبر گیری کا حکم دیا ہے۔مشہور حدیث ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت کا واقعہ سنایا جس کی بخشش اس لیے ہوگئی تھی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا[15]۔اونٹ کو پانی پلانے پر بھی آپ نے اجر کی خوش خبری دی[16]۔ایسی متعدد نصوص ہیں جن سے اسلام کے رفاہی تصور کی عالمگیریت اورآفاقیت واضح ہوتی ہے۔

۷۔ پیشہ ور بھکاریوں کی ہمت افزائی کی ممانعت: 

اسلام نے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کاحکم دیا ہے لیکن پیشہ ور بھکاریوں کی ہر گز ہمت افزائی نہیں کی ہے۔مانگنا خود ایک ناپسندیدہ حرکت ہے اور اس کی مذمت میں متعدد نصوص موجود ہیں۔مانگنے کی اجازت دی بھی گئی ہے تو صرف ناگزیر صورت میں ضرورت کی تکمیل کی حد تک۔قرآن و حدیث میں سائلوں کے حق کی جو بات کہی گئی ہے وہ ایسے ہی شدید ضرورت مند سائلوں کے سلسلے میں ہے۔ جن لوگوں نے مانگنے کو پیشہ بنالیا ہے، پیسے جمع کرنے کے لیے مانگتے ہیں،کسب معاش کی صلاحیت کے باوجود مانگتے ہیں یا مستقل مانگنا ہی ان کا کام بن گیا ہے ان کی نبی کریم ﷺ نے بڑے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے۔ (‏‏‏‏من سأل الناس أموالهم تكثرا،‏‏‏‏ فإنما يسأل جمرا،‏‏‏‏ فليستقل أو ليستكثر: جو آدمی اپنا مال بڑھانے اور زیادہ کرنے کی غرض سے لوگوں سے مانگتا ہے تو ایسا آدمی اپنے لیے انگاروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگتا۔ اب وہ چاہے انھیں کم کر لے چاہے زیادہ[17]) قرآن مجید نے اُن مسکینوں کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے جو شدید محتاجی کے شکار ہوتے ہیں لیکن مانگتے نہیں يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ۔ (ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ البقرۃ 273)۔ رفاہی کام کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے ضرورت مندوں کو تلاش کریں اور ان کی ضروریات کی تکمیل کریں۔ سہولت پسندی کی وجہ سے لوگ اپنے صدقات مسجدوں کے باہر اور چوراہوں پر کھڑے ہوئے بھکاریوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ بھیک کو پیشہ بنانا نہ صرف بھکاریوں کے لیے ناجائز ہے بلکہ دینے والوں کے لیے بھی درست نہیں کہ ایسے پیشہ ور مانگنے والوں کو صدقات دیں۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب رد المحتار على الدر المختار میں جانتے بوجھتے ایسے بھکاریوں کو بھیک دینے کو حرام کام میں معاونت (إعانة علی المحرم) قرار دیاگیا ہے۔ [18]امام غزالیؒ نے حضرت عمر کا واقعہ بیان کیا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو مانگتے ہوئے دیکھاتو حکم دیا کہ اسے کھانا کھلادو۔ جب کھانے کھالینے کے بعد بھی آپ نے اسے پھر مانگتے ہوئے دیکھا تو اس کے جھولے کی تلاشی لی جس میں اس نے روٹیاں اور خیراتی مال جمع کررکھا تھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں بلکہ تجارت ہے۔ آپؓ نے اس کا جھولا چھینا، اس میں جمع روٹیاں اونٹوں کو کھلادیں۔اسے درّہ رسید کیا اور پھر تنبیہ کی کہ دوبارہ نظر نہ آنے پائے[19]۔ اس سے رفاہی و خیراتی کاموں کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر بہت واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صورتوں میں حقیقی ضرورت مند اور نہایت مجبور لوگ بھی مانگنے پرمجبور ہوتے ہیں اور بھیک مانگنے والوں میں ایسے افرادکی موجودگی بھی ہوسکتی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا، ایسے ضرورت مندوں کو پہچاننا اور ان کا مسئلہ حل کرنا ہی اصلاً منظم رفاہی کام کا مقصد ہونا چاہیے۔حقیقی ضرور ت مندوں کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہونا چاہیے اور پیشہ ور بھکاریوں کو کسی صورت بھیک نہیں دی جانی چاہیے۔ اسی سے گداگری کے مسئلہ کا حل ممکن ہے۔

تاریخی جائزہ

اسلامی تاریخ میں رفاہی خدمات، مذکورہ بالا تصورات و خصوصیات کی آئینہ دار رہی ہیں۔ دوماہ قبل وقف کے عنوان پر جو تجزیہ پیش کیا گیا تھا [20]اس سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ان رفاہی خدمات میں، اسلامی تصور کے مطابق کھانے اور ضروریات کی تکمیل پر اصل توجہ رہی ہے۔ چناں چہ وقف کے موضوع پر پیش کیے گئے مضمون میں بتایا گیا تھا کہ لنگر خانے ہر دور میں رفاہ عام کا ایک اہم محاذ رہے ہیں۔ مسجدوں، خانقاہوں، زاویوں، وغیرہ سے متصل لنگر خانوں میں تمام ضرورت مندو ں کے کھانے کے مستقل انتظامات رہتے۔ مسافروں کی خدمت پر قرآن نے جو زور دیا ہے اس کے نتیجے میں مسافر خانوں اور کاروان سرایوں کا رواج عام رہا ہے۔ ان کاروان سرایوں میں مسافروں کے لیے قیام و طعام کے معقول انتظامات ہوتے۔ سواری کے جانوروں کے اصطبل اور ان کے چارے وغیرہ کی سہولتیں دستیاب رہتیں۔یہ سہولتیں مفت ہوتیں لیکن ذی حیثیت مسافرین جاتے ہوئے عطیات دیتے۔جو مسافر لٹ کر یا حادثے کا شکار ہوکر آتے (جو اس وقت کے اسفار میں بہت عام تھا) ان کو آرام سے گھر پہنچنے تک کے اخراجات اور ضروری معاوضے مل جاتے۔ یہ کاروان سرائے تاجروں کے لیے باہمی رابطے اور نیٹ ورکنگ کے بھی اہم مراکز تھے۔ [21]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ليس المؤمنُ بالذي يشبعُ وجارُه جائِعٌ إلى جنبَيْهِ (وہ شخص مومن نہیں جو خود تو سیر ہو جائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے[22]) اس تنبیہ کے نتیجے میں اسلامی تاریخ میں لوگ اپنےمحلوں اور بستیوں کو، باہمی تعاون سے غربت و فاقے سے مکمل طور پر پاک رکھنے کی سنجیدہ کوشش کرتے تھے۔ عثمانی دور کے قسطنطنیہ کے ’قصاب الیاس محلے‘ (Kasap lyas mahallesi)کو معاشی مورخین، اس حوالے سے، ایک اہم ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس محلے میں پھلوں کے تاجروں کی اکثریت تھی۔ ان کے علاوہ سرکاری ملازمین و افسران، دست کار و فن کار، وغیرہ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے بھی آباد تھے۔محلے کی مسجدیں اور صوفی خانقاہیں (تکیے) رفاہی کاموں کے اصل مراکز تھے۔ان مراکز نےتاجروں کی انجمنیں (Esnaf) قائم کررکھی تھیں جن کے درمیان تکافل انشورنس کا نظام تھا۔ لوگ پیسے جمع کرتے تھے اور کسی بھی تاجر کو نقصان ہوجائے یا اس کی تجارت کسی حادثے کی شکار ہوجائے تو اس جمع شدہ رقم سے اس کی بھرپائی ہوتی۔زکوۃ اجتماعی طور پر جمع ہوتی اور اس سے غریبوں کو روزگار فراہم کیا جاتا۔یا تو آلات فراہم کیے جاتے یا بلاسودی قرضہ دیا جاتا۔ سب سے متاثر کن نظام اوقاف کا تھا۔ بتدریج اس آبادی میں اوقاف پیدا کیے جاتے رہےیہاں تک کہ اٹھارہویں صدی کے آتے آتے اس محلے کی کئی گلیاں اوقاف کے گھروں پر مشتمل ہوگئیں۔ غریب لوگ، باہر سے آنے والے ضرورت مندوں، اور معاشی استحکام کے لیے تگ و دو کررہے نوجوانوں کویہ گھر بہت کم کرایے پر فراہم کیے جاتے اور کرایے کی وصول شدہ رقوم سے بیواؤں،یتیموں اور لاچاروں کو وظیفے دیے جاتے۔محلے میں کئی بیکریاں تھیں جہاں سے ضرورت مندوں کو مفت گرم کھانا ملتا۔ان بیکریوں کے اخراجات کے لیے بھی تکیوں نے باغات وقف کررکھے تھے۔ معاشی سرگرمی کے لیے بہت سے وسائل(اوزار، پھلوں کی فروخت کے گاڑے وغیرہ) مسجدوں اور تکیوں کی ملکیت میں ہوتے اور متعدد تاجر ساجھے داری میں ان کا استعمال کرتے۔ کومشلوک (komşuluk)ایک ترکی تصور ہے جس میں ایک محلے میں رہنے والے باہم ایک دوسرے کے مسائل کے لیے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ الیاس قصاب محلے میں اس تصورکے مطابق یہ پختہ روایت تھی کہ بستی کے کسی بھی گھر کی ضرورت پوری بستی کی ضرورت سمجھی جاتی اور بستی کے سب لوگ مل کر اس ضرورت کی تکمیل کرتے۔ معاشی مورخین کہتے ہیں کہ اس محلے کا پائیدار رفاہی نظام اس قدر موثر تھا کہ کئی سو سال تک اس نے محلے کو غربت و افلاس اور محرومی سے مکمل طور پر آزاد رکھا بلکہ ہر طرح کے بیرونی تعاون حتی کہ حکومت کے رفاہی کام کی بھی یہاں ضرورت پیش نہیں آئی[23]۔

موجودہ صورت حال اور مطلو ب رویے

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی مذکورہ بالا تعلیمات کے نتیجے میں آج بھی مسلمان اپنے جذبہ خیر اور خیرات و انفاق کی کیفیت کے اعتبار سے کافی آگے ہیں۔غریب و پسماندہ مسلمان بھی دنیا بھر میں، دیگر معاصر قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ انفاق و خیرات کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ چیریٹیز ایڈفاونڈیشن (charities aid foundation)نامی عالمی ادارہ ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں ایک تفصیلی سروے کرتا ہے جس میں مختلف ممالک کے عوام میں موجود انسانی خیرخواہی اورضرورت مندوں کی مدد کے جذبے اور رجحان کی اسٹڈی کی جاتی ہے اورعالمی اشاریہ خیرات (world giving index) نامی ایک مخصوص اشاریے کے ذریعے ملکوں کی صورت حال پیش کی جاتی ہے۔اس اشاریے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ دوسروں کو دینے اور مدد کرنے کا رجحان سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں پایا جاتا ہے[24]۔ انڈونیشیا اس انڈیکس کے اعتبار سے گذشتہ سات سال سے مسلسل پہلے نمبر پر آرہاہے[25]۔امریکہ کے سروے کے مطابق، خیرات اور ضرورت مندوں کے تعاون کا رجحان سب سے زیادہ مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ [26]انگلستان میں ایک اوسط شہری سالانہ جو خیرات کرتا ہے، وہاں کا مسلمان اس کے مقابلے میں چار گنا کرتا ہے۔ [27]ہمارےملک میں بھی نیشنل سیمپل سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، غربت و پس ماندگی کے باوجود، فی گھر مسلمانوں کے صدقات و خیرات اکثریتی فرقے کے صدقات سے کہیں زیادہ ہیں۔ [28]

لیکن دوسری طرف صورت حال یہ بھی ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق ہمارےملک میں ہر چوتھا بھکاری مسلمان ہے۔ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب پندرہ فی صد ہے لیکن بھیک مانگنے والوں میں مسلمانوں کا تناسب پچیس فی صد ہے۔ [29]عام مشاہدہ یہ ہے کہ نہ صرف بھیک مانگنے والے بلکہ بھیک دینے والے بھی زیادہ مسلمان ہیں۔ مسجدوں کے باہر، دیگر عبادت گاہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھکاریوں کی تعداد ہوتی ہے۔ مسلمانوں سے بھیک کا حصول اس قدر آسان ہے کہ بسا اوقات بعض غیر مسلم بھی مسلمانوں کے بھیس میں بھیک مانگتے ہوئے مل جاتے ہیں۔

ان دونوں حقائق کے تجزیے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر جذبہ خیر تو موجود ہے لیکن اس جذبے کی مناسب تنظیم کا اور ثمر آور طریقوں سے اس کے استعمال کا فقدان ہے۔ انفاق وخیرات کی بڑی رقم پیشہ ور بھکاریوں پر ضائع ہورہی ہے یا غیر پیداواری وقتی چیریٹی میں صرف ہورہی ہے۔جعلی مدرسوں اور غیر حقیقی سماجی سرگرمیوں کے نام پر بھی مسلمانوں کے جذبہ خیر کا استحصال عام ہوتا جارہا ہے۔ عام خیراتی رقوم ہی نہیں بلکہ زکوۃ بھی ہر سال بڑے پیمانے پر چھوٹے چھوٹے اور غیر موثرحصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور مانگنے والوں کی وقتی ضرورتوں اور اکثر فضول خرچیوں کی نذر ہوکر سماج میں کسی ٹھوس تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن پاتی۔ یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے۔ اس کے نتیجے میں اسلام کی تعلیمات اور ان کی اثر پذیری کی شہادت نہیں ہوپارہی ہے بلکہ الٹا اسلام اورمسلمانوں کی بڑی غلط تصویر لوگوں کے سامنے پیش ہورہی ہے۔اس صورت حال کی اصلاح کے لیے ملی رفاہی اداروں میں اصلاحات مطلوب ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ اہم باتیں نیچے درج کی جارہی ہیں۔

مسلم نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ محلوں اور کالونیوں میں یامساجد کو بنیاد بناکر چھوٹی بڑی رفاہی تنظیمیں اور ادارے قائم کریں اور اسے ایک تحریک بنادیں۔ ملک کے بعض علاقوں میں یہ رجحان پہلے سے موجود ہے اور ‘مسلم جماعت’ یا ‘یوتھ ویلفیر اسوسی ایشن’وغیرہ ناموں سے رفاہی ادارے ہر محلے میں کام کررہے ہیں۔ لیکن یہ رجحان ملک کے تمام علاقوں میں عام ہونا چاہیے اوریہ کوشش ہونی چاہیے کہ مسجدوں کے باہر اور چوراہوں پربھکاریوں کو رقوم دینے کے بجائے ان اداروں کے ذریعے منظم طریقے سے خیراتی رقوم کا استعمال ہو اور مسلمانوں میں جو جذبہ خیرپایا جاتا ہے وہ صحیح معنوں میں نفع بخش اور ثمر آور بنے۔

ان اداروں اورچھوٹی بڑی تنظیموں کو منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے حاجت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ٹریننگ انھیں مسلسل فراہم کرنا بڑی ملی تنظیموں اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ازالہ غربت اورفراہمی روزگار کا کام اب ایک منظم اور منصوبہ بند کام ہے۔ اس کے لیے موثر ترین طریقے کیا ہوسکتے ہیں؟ اور کم سےکم خرچ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیسے مستقل روزگار فراہم کیا جاسکتا ہےَ؟ اس پر ٹھوس مطالعات موجود ہیں[30]۔ان مطالعات سے استفادہ، ان کی اساس پر اداروں کی تربیت (capacity building)اور پھر منصوبہ بندی اور نفاذ، ان مراحل کو ہمارے نظام خیرات کا لازمی حصہ بننا چاہیے۔

منصوبہ بندی میں ہمارے خیال میں درج ذیل تین باتیں رہ نما اصول کے طور پر پیش نظر رہنی چاہئیں۔

کھانا کھلانا اطعام طعام رفاہی کام کا ایک ہدف ہو۔ جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں، لنگر خانے اسلامی تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کی علامت رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ صورت حال نہیں رہی ہے۔ اس کا احیا ہو اور مسجدوں کے باہر یا دیگر مراکز پر دن میں ایک یا دو دفعہ صحت بخش، صاف ستھرا کھانا بلا تفریق مذہب و ملت تمام بھوکوں کو فراہم ہوتا رہے یا ضرورت مندوں کے گھروں کو پہنچتا رہے تو اس سے دو فائدے ہوں گے۔پہلا فائدہ تو یہ ہوگا کہ ماضی کی طرح اسلام کے نظام رحمت کی طاقت ور شہادت مسلسل پیش ہوتی رہے گی اور دوسرے بھکاریوں کے مذکورہ بالا مسئلے پر قابو پانے میں بھی اس سے بڑی مدد ملے گی۔ آج بھی متوسط طبقے کے مسلمان دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اچھا کھاتے ہیں۔ کھانے کا بڑا حصہ ضائع بھی کرتے ہیں۔ شادیوں اورتقریبات میں اورریستورانوں میں بھی بڑے پیمانے پرکھانے کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر رفاہی ادارے ہر جگہ کام کرنے لگیں تو اس ضائع ہورہے کھانے سے بھی مدد لے کر کافی کام ہوسکتا ہے۔یہ انتظام ہوجائے تو پھر یہ تحریک بھی چل سکتی ہے کہ معذوروں، بھکاریوں وغیرہ کو نقد رقوم کسی صورت فراہم نہ کی جائے۔ یہ بیداری عام مسلمانوں میں بھی لائی جانی چاہیے کہ اگر کوئی بھکاری دروازے پر دستک دیتا ہے تو اسے پیسہ نہ دیا جائے بلکہ کھانا کھلایا جائے۔ ان کو نقد رقم دینے کے بجائے ان کی حقیقی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

جو لوگ کسی پیشے یا روزگار سے وابستہ نہیں ہوسکتے (مثلاً بہت زیادہ ضعیف مردوخواتین یا ایسے معذور جو کوئی کام نہیں کرسکتے، وغیرہ) صرف ان ہی کو مالی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ یہ مالی مدد مناسب تحقیق کے بعد ضروری نگرانی میں وظیفوں کی شکل میں فراہم ہو اور اس کے لیے کوشش ہوکہ مستقل وقف قائم کیے جاسکیں تاکہ پائیدار اساس پر مستقل وظیفوں کا انتظام ہوسکے۔ اسلامی تاریخ میں نقد وقف (cash waqf)کا نظام اس سلسلے میں نظیر بن سکتا ہے۔ جہاں بھی ممکن ہو اس کی طرف پیش رفت کی جائے۔

خیراتی رقوم اور زکوۃ کا استعمال اصلاً روزگار پیدا کرنے والے کاموں کے لیے کیا جائے۔ رفاہی ادارے اسی مقصد کے لیے کام کریں۔ ضرورت مندوں کو ٹریننگ دی جائے۔ ضروری آلات اور وسائل فراہم کیے جائیں۔ زیر کار سرمایہ(working capital) فراہم کیا جائے اور تجربہ کار تاجروں کی تربیت و نگرانی میں وہ لوگ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ جماعت اسلامی ہند کی پہل پر قائم متعدد ادارے (زکوۃ سینٹر انڈیا، مائکرو فینانس کی متعدد سوسائٹیاں، رفاہ چیمبر آف کامرس وغیرہ) اسی اصول پرکام کررہے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ زکٰوۃ سمیت تمام خیراتی رقوم کی اس طرح کے پیداواری استعمال کی باقاعدہ تحریک شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں چلے۔اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا بھی ازالہ ہوگا اور اسلام کے زریں اصولوں کی صحیح شہادت بھی سامنے آئےگی۔

ایک اور ضرورت قرضوں کی فراہمی،تعلیمی امداد کی فراہمی اور ہنگامی حالات،بیماری،حادثہ وغیرہ کی صورت میں سوشل سیکوریٹی کے انتظامات کی ہے۔ اس پر آئندہ ’مالیاتی اداروں ‘ کے تحت تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ ان شاء اللہ

۴۔ عام مروج رفاہی کاموں کے علاوہ اسلامی اسپرٹ کے مطابق اور اوقاف کی شاندار تاریخ کے تسلسل میں جس کا جائزہ ہم پیش کرچکے ہیں، نئے اور اختراعی کام بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مفید مشورے کو بھی نیکی کی ایک شکل قراردیا ہے۔مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مثل أجر فَاعله (خیرو بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والے کو، اس بھلائی کو سرانجام دینے والے کی مثل اجرو ثواب ملے گا[31] ) ہمارے زمانے میں مشورہ دینے کا کام (counseling)بھی باقاعدہ پروفیشنل کام بن چکا ہے۔بہتر خاندانی زندگی، تجارت و صنعت، روزگار، تعلیم، قانونی امور، صحت و علاج،اسکالرشپ،تغذیہ، سفر وغیرہ جیسے زندگی کے تمام شعبوں میں ماہرانہ مشورے انسانوں کی اہم ضرورت بن چکے ہیں۔ رفاہی کاموں کا یہ ایک اہم ہدف ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی نصوص میں ‘سفارش’کو بھی نیکی کی ایک اہم شکل قرارد یا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا (جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۔النساء 85) نبی کریمﷺ کی محفل میں کوئی ضرورت مند آتا تو آپ صحابہ ؓ کو ترغیب دیتے کہ اشْفَعُوا تُؤجَرُوا ( اس کے لیے سفارش کرو تمھیں اجر ملے گا۔) [32] ہمارےزمانے میں سفارش کے نبوی حکم پر عمل کی ایک اچھی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف سرکاری اسکیموں سے استفادے میں ضرورت مندوں کی مدد کی جائے۔ ہاؤسنگ، وظیفہ جات، اسکالرشپ،خواتین اور لڑکیوں کی کفالت، غریبوں کے وظیفے، روزگار کا حصول، مہارتوں (skills)کی ٹریننگ، تجارت و صنعت میں تعاون، ایسے متعدد شعبے ہیں جن میں سرکار کی مفید اسکیمیں موجود ہیں لیکن ان کے فائدے بہت کم ضرورت مندوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے کارکنوں نے کئی جگہ ناگرک وکاس کیندر وغیرہ ناموں سے ان اسکیموں سے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچانے کے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ان تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند لاکھ روپے سالانہ کےمعمولی خرچ سے کروڑوں روپیوں کی سرکاری امداد غریبوں کو پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس کام کو بھی ایک تحریک بن کر پورے ملک میں عام ہونا چاہیے۔

ہم متعدد مضامین میں خاص طور پر مسلم علاقوں کی ان کم زوریوں کو زیر بحث لاچکے ہیں جو اسلام کے تعلق سے منفی رائے عامہ کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ رفاہی کاموں کاایک اہم ہدف ان کم زوریوں سے علاقوں کو پاک کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً صفائی و نظافت کے لیے خصوصی انجمنیں کام کریں۔ میونسپل حکام پر مسلسل دباؤ ڈال کر اور خود اپنے رضاکاروں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ محلے اور سڑکیں صاف ستھری رہیں اورکچرے کی بروقت نکاسی ہو۔ راستے سے رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔ اسلامی نصوص میں ان کاموں کو بھی رفاہی کاموں کا ہدف قرار دیا گیا ہے: أَمِطِ الأذى عن الطريقِ، فإنه لك صدقةٌ (راستے سے تکلیف کو دور کرنا بھی صدقہ ہے[33]۔)

۵۔ یہ سارے کام بلاتفریق مذہب و ملت تمام ضرورت مندوں کے لیے عام ہونے چاہئیں۔ عام طور پر مسلمان تفریق نہیں کرتے۔ کووڈ کے دوران مسلمانوں نے بلاتفریق مذہب جو خدمات انجام دیں ان کو پورے ملک میں محسوس کیا گیا، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ شعوری طور پر ان کوششوں کو اور اس طرح کے اداروں کو ہر طرح کی بستیوں میں پھیلایا جائے۔ اہل اسلام کی تصویر یہی بنے کہ وہ سارے انسانوں کے لیے رحمت کا باعث ہیں۔

۷۔ اوپر ہم نے قصاب الیاس محلے کی جو تاریخی مثال پیش کی ہے، ہمارا خیال یہ ہے کہ اس سے اسلام کے رفاہی تصور کی بہترین ترجمانی ہوتی ہے۔ اس مثال کو شہری کالونیوں میں اور دیہاتوں اور قصبات کے محلوں میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔خود کفالت اور تعاون باہمی کے ایسے چند نمونے بھی ملک بھر میں قائم ہوجائیں تو یہ اسلام کے اصولوں کی بہت طاقت ور شہادت ہوگی۔

حواشی و حوالہ جات

[1] صحيح البخاري؛كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَر؛بَابُ مَنْ أَخَذَ بِالرِّكَابِ وَنَحْوِهِ(2989)

[2] سنن الترمذی؛ کتاب البر والصلة؛ صححه الالبانی، صحیح الترمذی (1924)

[3] صحیح البخاری؛کتاب المظالم (2442)، صحیح مسلم کتاب البر والصلة (6578)

[4] صحیح مسلم؛ کتاب اللقطة، حدیث 4517))

[5]
صحابہ کرام کے رفاہی کاموں کی دلچسپ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: امیرالدین مہر (2011)صحابہ کرام اور رفاہی کام؛ دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی؛ اسلام آباد

[6] مسند احمد (حدیث صھیب 23929) صححه الالبانی (سلسلة الأحادیث الصحیحة 2351)

[7] صحیح البخاری (بَابُ السَّاعِي عَلَى الْمِسْكِين حدیث نمبر6007)

[8] مسند احمد (17622) صححه الالبانی )صحیح الترغیب وترھیب 1245)

[9] سنن ابي داود، باب مَا تَجُوزُ فِيهِ الْمَسْأَلَةُ (1641)

[10] عبدالرزاق :المصنف (7286)

[11] ابوحامد الغزالی؛ احياء علوم الدین؛ دارالمعرفة؛ بیروت؛ (مکتبۃ شاملۃ) ج 1 ص 224

[12] سامي بن محمد بن جاد الله؛ الاختيارات الفقهية لشيخ الإسلام ابن تيمية لدى تلاميذه؛ دار ابن حزم (بيروت)2019؛ ج 1ص 285

[13] أبو زكريا النووي؛ المجموع شرح المهذب؛ إدارة الطباعة المنيرية، مطبعة التضامن الأخوي؛ القاهرة(1964) ج 6 ص 94

[14] المصنف ابن أبي شيبة؛ دارالفکر (مکتبۃ شاملۃ) 3/68صححه الالبانی؛ سلسلة الأحادیث الصحیحة 915)

[15] البخاري (3467)، ومسلم (2245)

[16] سنن ابن ماجه (3686) صححه الالبانی (صحیح ابن ماجه 2987)

[17] صحیح مسلم؛ کتاب الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، حديث:1041.

[18] ابن عابدین؛ رد المحتار على الدر المختار؛ دار عالم الکتب، الریاض؛ 2003؛ ج 3 ص 306

[19] ابوحامد الغزالی؛ احياء علوم الدین؛ دارالمعرفة؛ بیروت؛ (مکتبۃ شاملۃ) ج 4 ص 211

[20] سید سعادت اللہ حسینی؛وقف اسلامی ادارہ سازی کا تاریخی ماڈل؛ زندگی نو؛ فروری 2025ص5–24

[21] کاروان سرایوں کے ایک دلچسپ ورچول ٹور کے لیے:

https://artspaces.kunstmatrix.com/en/exhibition/12749829/caravanserai-along-silk-road-0-1500 ; retrieved on 16-03-2025

[22] سنن البيهقي (20160) صححه الالبانی (صحيح الجامع 5382)

[23] اس دلچسپ موضوع کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے درج ذیل کتاب بہت مفید ہے:

Cem Behar (2003) A Neighborhood in Ottoman Istanbul: Fruit Vendors and Civil Servants in the Kasap lyas Mahalle; State University of New York Press

[24] Charities Aid Foundation; World Giving Index;available at https://www.cafonline.org/docs/default-source/inside-giving/wgi/wgi_2024_report.pdf; retrieved on 16-03-2025

[25] ملاحظہ ہو ویب سائٹ پر مختلف سالوں کی رپورٹیں:

https://www.cafonline.org/home/world-giving-index; retrieved on 16-03-2025

[26] https://irusa.org/study-finds-muslim-americans-are-among-the-most-generous-in-donations-volunteering/º retrieved on 16-03-2025

[27] https://www.charitytimes.com/ct/UK-Muslims-give-four-times-more-than-the-average-donor.phpº retrieved on 16-03-2025

[28] https://www.thehindu.com/news/national/christian-muslim-households-top-in-donations-for-charity/article19285920.eceº retrieved on 16-03-2025

[29] https://indianexpress.com/article/explained/muslims-polpulation-in-india-muslims-beggar-unemployment-census-data-muslim-economic-survey-2941228/

[30] درج ذیل مطالعات خاص طور پر قابل توجہ ہیں

Banerjee, Abhijit V., Duflo, Esther. Poor Economics: Rethinking Poverty & the Ways to End it. India: Penguin Random House India Private Limited, 2011.

Sachs, Jeffrey. The End of Poverty: Economic Possibilities for Our Time. United Kingdom: Allen Lane, 2005

Karlan, Dean., Appel, Jacob. More Than Good Intentions: Improving the Ways the World’s Poor Borrow, Save, Farm, Learn, and Stay Healthy. United States: Penguin Publishing Group, 2012..

[31]
صحیح مسلم (1893) کتَابُ الْإِمَارَةِ ؛بَابُ فَضْلِ إِعَانَةِ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللهِ بِمَرْكُوبٍ وَغَيْرِهِ، وَخِلَافَتِهِ فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ

[32] صحيح البخاري; كِتَابُ الزَّكَاةِ؛بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الصَّدَقَةِ وَالشَّفَاعَةِ فِيهَا(1432)

[33] سنن ابي داود (5243)صححه الالبانی سلسلة الأحادیث الصحیحة (1558)س

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223