پیشین گوئی کے اسیر

اسرائیل کے لیے امریکہ اپنے مفادات داؤ پر کیوں لگا رہا ہے؟

گذشتہ دو دنوں کے دوران بعض اہم امریکی سیاست دانوں کی طرف سے کچھ قابل ذکر بیانات سامنے آئے ہیں۔ ایک اخباری بیان امریکی کانگریس کے رکن مائک جانسن کا سامنے آیا ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ ’’اسرائیل ہمارا ناگزیر اور لازمی حلیف ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت (اسرائیل کے لیے ۲۶ ارب ڈالر ) کی مالی امداد کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔ اسرائیلی اپنے وجود کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم مومنین (عیسائیوں) کے لیے انجیل میں یہ ہدایت موجود ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں، اور ہم بلا شک وشبہ اس ہدایت پر عمل کریں گے اور جب تک ہم ان کے ساتھ ہیں وہ کام یاب رہیں گے۔‘‘

اسرائیل کے تعلق سے امریکی سیاست کو پروٹسٹنٹ عیسائی عقیدے سے جوڑنے والا یہ بیان حالیہ دنوں میں اپنی نوعیت کا سب سے پہلا بیان ہے۔ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے مطابق انجیل انھیں ایسا کرنے کا حکم دیتی ہے۔ انھی دنوں امریکی کانگریس میں ڈییموکریٹک پارٹی کے نمائندے رِک ڈبلیو ایلن (Rich W. Allen) نے کولمبیا یونیورسٹی کی مصر نژاد چانسلر نعمت شفیق سے استفسار کیا۔ ایلن نے نعمت شفیق سے جب یہ سوال کیا کہ ’’کولمبیا یونیورسٹی تسلی بخش انداز میں اسرائیل کی حمایت کیوں نہیں کرتی، تو وہ انتہائی سنجیدہ نظر آیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارا ذہن بالکل صاف ہونا چاہیے کہ یہ وہ میثاق ہے جو رب نے نبی ابراہیم سے کیا تھا اور رب کا یہ وعدہ بہت ہی واضح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر تو نے اسرائیل کو برکت دی تو میں تجھے برکت دوں گا اور اگر تو نے اسرائیل پر لعنت بھیجی تو میں تجھ پر لعنت کروں گا۔‘‘

اس نے مزید کہا: ’’عہد نامہ جدید (انجیل) میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تیرے ذریعے سے ساری قومیں بابرکت ہوں گی۔ تو کیا یہ بات آپ کو معلوم نہیں ہے؟‘‘ یوینورسٹی کی چانسلر نے جواب دیا: ’’میں نے یہ بات سن رکھی تھی، لیکن اس کی بہترین تشریح آج سامنے آئی ہے۔‘‘

’’یہ اچھی بات ہے کہ آپ اس قول سے مانوس نظر آ رہی ہیں۔ کیا آپ یہ چاہیں گی کہ کولمبیا یونیورسٹی انجیل کے رب کی جانب سے لعنت زدہ ہو جائے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’بالکل نہیں۔‘‘

اسرائیل کے سلسلے میں امریکی سیاست کا رشتہ انجیل مقدس کی تعلیمات سے جوڑنے والے امریکہ کی سیاسی اشرافیہ کے ان بیانات پر نگاہ ڈالنے والے کو یہ بیانات عجیب معلوم ہوسکتے ہیں، کیوں کہ یہ سیکولرزم اور سرمایہ داری کے عالمی قلعے سے جاری ہو رہے ہیں۔ اس سے کئی ایسے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کے درمیان قطعی اور واضح تعلقات کے سلسلے میں صاف جوابات کی طرف لے جاتے ہیں۔

جڑوں کی طرف واپسی

رچرڈ کرٹِس (Richard Curtis) امریکی وزارت خارجہ کا ریٹائرڈ اہلکار ہے اور ’’امورِ مشرق وسطیٰ کے بارے میں واشنگٹن کی رپورٹ‘‘[1]کا ایڈیٹر ہے۔ ایک بار اس نے یہ جستجو کی کہ ۱۹۴۸ سے لے کر ۱۹۹۵ تک امریکہ نے اسرائیل کو جو سرکاری و غیر سرکاری امداد فراہم کی ہے، اس کی قیمت و مالیت کتنی ہے۔‘‘ اس سلسلے میں اس نے لکھا: ’’ہم ٹیکس دہندہ لوگ اسرائیل کی چھوٹی سی ریاست کو بیرونی اور عسکری امداد کے طور پر سالانہ ۶ ارب ڈالر پیش کرتے ہیں۔‘‘

کرٹس اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’گذشتہ ۴۶ برسوں کے دوران امریکہ کے ٹیکس دہندگان نے اسرائیل کو کل ۶۲.۵ ارب ڈالر پیش کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دنیا کی سب سے چھوٹی ریاستوں میں سے ایک ریاست کو اسی قدر مالی امداد فراہم کی ہے، جس قدر ہم نے مجموعی طور پر افریقہ کی جنوبی صحرائی ریاستوں، لاتینی امریکہ، کاریبیائی سمندر کو فراہم کی ہے۔ ان ریاستوں کو دی جانے والی مجموعی امداد کا اندازہ تقریباً ۴۰ ڈالر فی کس کا ہے، جب کہ اسرائیل کو دی جانے والی امداد دس ہزار سات سو پچتہر ڈالر فی کس کے برابر ہے۔‘‘

کرٹِس نے صرف یہی ذکر نہیں کیاہے، بلکہ اس نے یہ بات بھی کہی ہے کہ امریکہ کے بہت سے مقامی اور مسیحی ادارے ہیں جو اسرائیل کو ٹیکس سے آزاد اعانتیں فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کی اعانتوں کی مجموعی رقم ۱۹۴۸ سے ۱۹۹۵ کےد رمیان ۸۳ ارب ڈالر کے قریب ہوتی ہے، گویا اوسطًا امریکہ کی طرف سے ہر اسرائیلی کو سالانہ ۱۴ ہزار ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔

ایک طرف برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی اس زبردست مالی و اخلاقی حمایت اور پھر دیگر بہت سے روشن دلائل و شواہد سے تحریک پاکر امریکی صحافی گریس ہیلسل (Grace Halsell) نے اس راز کو جاننے کی کوشش کی ہے جو اس کے ملک کو اسرائیل کی خاطر اس حد تک اپنے اسریٹیجک مفادات قربان کر دینے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ گریس ہیلسل ساٹھ کے عشرے میں سابق امریکی صدر لینڈن جانسن (Lyndon B. Johnson) کے ساتھ خطبہ نویس کے طور پر کام کر چکی ہے۔

اس نے فیصلہ کیا کہ اس کا جواب تلاش کرے گی، مطالعہ کرے گی، اس کے لیے سفر کرے گی اور ہر اس شخص سے ملاقات کرے گی جس کے پاس اس سوال کا جواب ہوگا۔ اسی طویل سفر کے نتیجے میں اس کی دو کتابیں ’’پیشین گوئی اور سیاست: عسکریت پسند عیسائی مبلغین نیوکلیر جنگ کے راستے پر‘‘[2]اور ’’اللہ کی حمایت: امریکہ اسرائیل کی خاطر اپنے مفادات کو قربان کیوں کر رہا ہے۔‘‘[3]منظر عام پر آئیں۔ یہ دو اہم کتابیں ان بنیادی پہلؤوں کو سامنے لاتی ہیں جو امریکہ کے اسریٹیجک ذہن کو جذباتی انداز سے، بل کہ بعض اوقات عاقبت نا اندیشی کے ساتھ اسرائیل کی طرف ڈھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ یہ ذہن تو نہ صرف اسرائیل اور عرب، بلکہ خود امریکہ کے خلاف بھی اسرائیل کے جرائم کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ کی جنگ کے دوران مشرقی بحر متوسط میں موجود امریکی جاسوسی جہاز، لبرٹی، کونشانہ بنا کر ۳۴ امریکی ملّاحوں کو جہاز کے اوپر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ وادی سینا، گولان کی پہاڑی، مغربی کنارے اور غزہ پر اچانک قبضہ حاصل کرکے اسرائیل نے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے، لیکن امریکی سیاست داں، جن میں اس وقت کے صدر لینڈن جانسن سرفہرست تھے، خاموشی کے ساتھ ان جرائم کو پی گئے۔

سب سے بڑا راز

اس کی بنیادی وجہ وہ انقلابی رشتہ ہے جو سولہویں صدی کے دوران برپا ہونے والی مذہبی اصلاحی تحریک نے یورپ کے کیتھولک عیسائیوں کے دلوں میں پیدا کیا تھا۔ جرمن پادری ’مارٹن لوتھر کِنگ‘ روم کی پاپائیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور چرچ کے سیاسی و مذہبی انحرافات کے خلاف اس نے ایک موثر اصلاحی و انقلابی تحریک برپا کردی۔ اس اصلاحی تحریک کو برپا کرنے کی وجہ خاص طور سے یہ تھی کہ چرچ نے انجیل مقدس کے فہم کو اپنی ذات تک محدود کر لیا تھا اور دیگر مقامی و یورپی زبانوں میں اس کے ترجمے یا اس کی تفسیر و تاویل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد چرچ کی وہ حرکات اس تحریک کی سب سے بڑی وجہ بنیں جو کتاب مقدس (انجیل) کی روح کے منافی تھیں، خاص طور سے یہ کہ مالی دستاویزوں کے عوض گناہوں کی معافی دی جانے لگی تھی۔

۱۵۲۳ میں مارٹن لوتھر نے’’عیسی پیدائشی یہودی تھے‘‘[4]کے عنوان سے جو کتاب لکھی تھی، وہ کتاب گویا دونوں [یہودیت اور عیسائیت] کے درمیان ۱۶ صدیوں تک قائم رہنے والی عداوت کے بعد عیسائیت کے اندر یہودی عنصر کو دوبارہ واپس لانے کی کوشش تھی۔ اس کتاب میں لوتھر نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کتاب مقدس کے جتنے بھی ’اسفار‘ ہیں، ان سب کو روح القدس نے تنہا یہودیوں کے توسط سے نازل کیا تھا۔ یہود ابناء اللہ ہیں اور ہم [عیسائی]اجنبی مہمان ہیں۔‘‘

اگرچہ لوتھر نے اس کتاب میں مذکور اپنی آراء سے رجوع کر لیا تھا، تاہم پروٹسٹنٹ تحریک نے، خاص طور سے فرانسیسی مصلح جان کیلوِن (John Calvin) کو ساتھ لے کر ان افکار سے خوب استفادہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ افکار و آراء اینگلو سیکسن خطے میں پھیل گئے اور ۱۵۳۴ میں جب برطانوی انجیلک چرچ نے روم سے علیحدگی اختیار کی، ان افکار نے وہاں اپنی مضبوط جڑیں قائم کرلی تھیں۔

پندرہویں صدی کے اواخر میں امریکہ دریافت ہوا اور شمالی امریکہ کو لے کر انگریزوں، فرانسیسیوں، اسپینیوں اور ہولینڈیوں کے درمیان خوں ریز کشمکش کے ساتھ ہی برطانیہ نے امریکہ پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس کی وجہ سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کو بڑی تعداد میں وہاں سے نئے براعظم کی طرف ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور اسے انھوں نے اپنا وطن بنایا۔ آخرکار ۱۸ ویں صدی کے آخر میں امریکیوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کر دیا، لیکن امریکہ اور برطانیہ کا مذہبی عقیدہ ایک ہی رہا۔

پروٹسٹنٹ مذہب کے بعض مورخین اس تحریک کو ’’مسیحیت کو بڑے پیمانے پر یہودیت زدہ ‘‘ کرنے کی تحریک کہتے ہیں، اس لیے کہ اس تحریک کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ عہدِ قدیم (تورات) میں موجود جڑوں کو سمجھے بغیر عہد نامہ جدید (انجیل) کا فہم و شعور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خیال قدیم عیسائیت کے سلسلے میں زمانہ اصلاح سے پہلے موجود مطالعے کے برخلاف تھا۔ اصلاحی تحریک کے زمانے سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عیسائیت یہودیت کی وارث ہے اور [یہودیوں کی] اُس امانت کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی زیادہ مستحق ہے جس سے یہودیت نے پلّہ جھاڑ لیا تھا، یہاں تک کہ اسی قدیم عیسائی عقیدے کے مطابق یہودیوں نے مسیح [علیہ السلام] کو صلیب تک پہنچادیا تھا۔

گریس ہیلسل اسی لائن کو اختیار کرتی ہوئی ان حقیقی اسباب تک پہنچتی ہے جنھوں نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ اسرائیل کے فائدے کے لیے اپنے اسٹریٹیجک مفادات کو بھی اس قبیح ترین حد تک نظر انداز کر دے۔ اس کا جواب اسے اپنی آپ بیتی، اور خاص طور سے آپ بیتی کے اس حصے میں ملتا ہے جو بچپن سے لے کر جوانی کے دوران گزرا ہے۔

بچپن میں جب عیسائی مبلغین کتاب مقدس کی کہانیوں کو اللہ کے دشمنوں سے جوڑ کر بیان کیا کرتے اور خاص طور سے ان واقعات پر توجہ مرکوز رکھتے جو دنیا میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کی مخصوص و متعین علامتوں سے متعلق ہوا کرتے تھے، تو وہ ان کو بہت غور سے سنا کرتی تھی۔ ’’اس میں ایسی ایسی پیشین گوئیاں ہیں جو دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گی، معرکہ ہرمجدون یا وادی مجیدون(Armageddon) بس پیش آنے والا ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی بھی وقت پیش آ جائے اور حزقیال کی پیشین گوئی پوری ہو جائے۔ یہ پیشین گوئی بس پوری ہوا چاہتی ہے۔ امریکہ بھی حزقیال کی پیشین گوئی کا ایک حصہ ہے اور ہم اس کے لیے بالکل تیار ہیں۔‘‘

امریکہ کے موجودہ سیاسی ذہن کی تشکیل کرنے والے اس عقیدے کو سمجھنے کے لیے ہیلسل نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جدید مذہبی گروہ کا حصہ بن کر متعدد بار وادی مجیدون کی طرف رخت سفر باندھا۔ وادی مجیدو ن موجودہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع ہے اور یہاں کے اسرائیلی چرواہے اس گروہ سے تعلق رکھنے والوں کا ان کے شایان شان استقبال کرتے ہیں۔ اس گروہ میں اس نے کئی امریکی شہریوں سے تعارف حاصل کیا جو دیکھنے میں تو عام سے انسان نظر آتے ہیں، لیکن کتاب مقدس کی پیشین گوئیوں سے متاثر اور ان کے تعلق سے پرجوش نظر آئے۔

اس پیشین گوئی کی رو سے آخری زمانے میں نزول مسیح کا واقعہ معرکہ ہرمجدون کے زیر سایہ ہی پیش آئے گا۔ یہ معرکہ جس کے متعلق بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کی قیادت حضرت مسیحؑ فرمائیں گے، اور جس میں ۲۰۰ ملین لوگ قتل کر دیے جائیں گے، اس وقت تک واقع نہیں ہوگا جب تک یہودی فلسطین کی طرف واپس ہو کر اپنی قومی ریاست قائم نہ کر لیں۔ مسجد اقصیٰ اور گنبدِ صخرہ کے کھنڈرات پر ہیکل [سلیمانی] کی تعمیر اس معرکے کے لیے چنگاری کا کام کرے گی، کیوں کہ مسلمان ان حادثات پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

گریس نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران ان افکار و نظریات کو عام کرنے کی جو بنیادی وجہ رہی، وہ ’جبر وقدر‘ کا عقیدہ رکھنے والی انجیلک مسیحی تحریک کا ظہور ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس نے دنیا میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کی تفسیر و تشریح جبر و قدر [تقدیر کے ذریعے پہلے سے طے شدہ ہونے ] کے نقطہ نظر سے کی ہے، جن کا وقوع رب کی مرضی اور اس کے حکم سے ہونا ہے۔

ان افکار کو ۱۹۲۱ میں امریکہ کے اینجلک پادری سائرس اسکوفیلڈ (Cyrus Scofield)کے ذریعے فروغ و عروج حاصل ہوا، جس نے کتاب مقدس (انجیل) میں اپنے تفسیری حواشی کا اضافہ کر کے اسے ’ریفرنس بائبل‘ کے نام سے شائع کیا۔۱۹۰۹ء کے بعد سے ہی یہ بائبل دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بائبل میں سے ایک ہے۔ اس میں اسکوفیلڈ نے یہ رائے پیش کی ہے کہ دنیا کے اختتام پر پیش آنے والے حادثات و واقعات ’’اسرائیل کے دوبارہ وجود میں آنے سے ‘‘ مشروط ہیں، اس لیے یہودیوں پر لازم ہے کہ اپنے حصے کا فرض [یعنی گریٹر اسرائیل کا قیام]، انجام دیں تاکہ مسیح واپس آسکیں۔‘‘

اینجلک پروٹیسٹنٹ عقیدے میں اپنی راہ بنا لینے والے یہودی لٹریچر پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس لٹریچر نے تین بنیادی نکات پر توجہ مرکوز رکھی ہے، اور ان تینوں نکات کو اس بنیاد کی حیثیت حاصل ہے جس پر موجودہ وقت کی ’یہودی مسیحی صہیونیت‘ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ تین نکات اس طرح ہیں:

یہودی اللہ کی چنندہ قوم ہیں اور اسی وجہ سے وہ تمام قوموں میں افضل و ممتاز ہیں۔

ایک الٰہی میثاق ہے جو یہودیوں کا رشتہ فلسطین کی ارض مقدس سے جوڑتا ہے اور یہ میثاق لازوال اور ابدی ہے۔

عیسائی عقیدہ مسیح [علیہ السلام] کی دنیا میں واپسی سے مربوط و مشروط ہے، اور ان کی واپسی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک اسرائیل کی ریاست قائم نہ ہو جائے، یعنی فلسطین میں یہودی جمع نہ ہو جائیں۔

یہودی مسیحی صہیونیت

امریکی مذہبی مطالعات کے پروفیسر ’پول مرکلے‘ (Paul Merkley)اپنی کتاب ’’مسیحی صہیونیت ۱۸۹۱۔ ۱۹۴۸‘‘[5]میں لکھتا ہے کہ مسیحی اور یہودی نمائندوں کے درمیان مشہور ترین ملاقات ۱۸۹۶ میں ہوئی تھی، یعنی یہ ملاقات صہیونی تحریک کے بانی آسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرذل (Theodor Herzl) اور جرمن نسل سے تعلق رکھنے والے برطانوی انجیلکی پادری وِلیم ہنری ہِشلر (William Henry Hishler)کے درمیان ہوئی تھی، جو کہ اس وقت ویانا میں برطانوی سفارت خانے کا پادری تھا۔

اسی سال پہلی بار مارچ کے مہینے میں ہشلر کی ملاقات ہرزل سے ہوئی تھی اور عجیب و غریب انداز میں اس نے یہ کہتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تھا: ’’ میں حاضر ہوں۔‘‘ ہرزل نے جواب دیا: ’’یہ تو میں دیکھ ہی رہا ہوں، لیکن آپ ہیں کون؟‘‘ ہشلر نے پہلے کی طرح عجیب انداز میں جواب دیا: ’’آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں نے بہت پہلے، ۱۸۸۲ میں ہی پرنس باڈن( جرمنی) کی خدمت میں آپ کی آمد کی پیشین گوئی کر دی تھی۔ اور لیجیے اب میں آپ کی مدد کے لیے آگے آگیا ہوں۔‘‘

ہرزل اس انجلیکی پادری کی شخصیت، اس کے انداز گفتگو، اور جرمنی کے شہزادوں سے اس کے مضبوط تعلقات سے متاثر ہوچکا تھا، اس لیے کہ وہ پرنس آف باڈن اور اس کے بچوں کو استاد رہ چکا تھا۔ یہیں سے ہشلر مستقبل میں باڈن کے شہزادوں تک پہنچنے کی راہ ہم وار کرتا ہے اور ان تک ہرزل کی رسائی کو آسان بناتا ہے تاکہ وہ انھیں اپنے منصوبے پر قائل کر سکے، کیوں کہ یہ لوگ (جرمنی) عثمانیوں [خلافت عثمانیہ] کے حلیف تھے، جن کا فلسطین پر کنٹرول تھا۔

اس کے بعد ہرزل نے پادری ہشلر سے اس کے گھر پر ملاقات کی۔ اس کے اندر ہرتزل نے ارض مقدس کی طرف یہودیوں کی واپسی کے سلسلے میں عدیم النظیر قسم کا جوش و جذبہ دیکھا۔ ہرزل لکھتا ہے: ’’کل اتوار کے دن دوپہر کے بعد میں نے پادری ہشلر سے ملاقات کی۔ (اس کے گھر میں) جس کمرے کے اندر میں داخل ہوا، اس کی دیواریں زمین سے لے کر چھت تک کتابوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اور یہ سب مختلف انجیلوں کے علاوہ کوئی دوسری کتابیں نہیں تھیں۔‘‘

ہرزل اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’آخر میں مسٹر ہِشلر نے مجھے اپنے خزانہ کتب اور فلسطین کے نقشے سے واقف کرایا۔ یہ ملٹری اسٹاف کا ایک بڑے سائز کا نقشہ ہے جس کی چار تہیں ہیں۔ جب اس نقشے کو پھیلایا گیا تو اس کمرے کا فرش اس نقشے سے پوری طرح ڈھک چکا تھا۔ اس نے نقشے کے اوپر مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں پر اس کے اندازے کے مطابق ہمارا جدید ہیکل ہونا چاہیے۔ یہ بیت ایل کا مقام ہے، کیوں کہ یہی اس ملک کا مرکز ہے۔ اس نے مجھے ہیکل کے قدیم نمونے بھی دکھائے اور کہا: ’’ہم نے آپ لوگوں کے لیے زمین تیار کر لی ہے۔‘‘

پول مرکلے کے خیال میں اسی ملاقات کو ۱۹ ویں صدی کے آخری برسوں کے دوران’ یہودی عیسائی صہیونی اتحاد‘ اور اس اتحاد کی نشو و نما کی اولین بنیاد شمار کیا جاتا ہے۔ بعد میں جو کچھ پیش آیا، وہ اسی ملاقات کے اثرات و نتائج تھے۔ چناں چہ برطانیہ کی سیاسی اشرافیہ اور اس کے بعد امریکہ کی سیاسی اشرافیہ ان افکار سے متاثر ہوئی اور ان کو زیرعمل لانے کے لیے انھوں نے کوششیں کیں۔ یہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ۱۹۱۷ سے ۱۹۴۸ تک اپنے قبضے کے دوران اور اس کے بعد بھی برطانیہ نے فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کی حمایت اور اسلحوں اور جنگی ساز وسامان سے ان کی مدد کی تھی۔

خود موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے فروری ۱۹۸۵ میں، جب کہ وہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کا سفیر تھا، ایک تقریر میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا، اس نے کہا تھا: ’’انگریز اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے مسیحی صیہونیوں کی کتابیں بیسوی صدی کے آغاز میں پیدا ہونے والے تاریخی رہ نماؤں مثلاً برطانوی وزیر اعظم لویڈ جارج (Lloyd George)، برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بلفور (Arthur James Balfour)، اور امریکی صدر وُڈ ورڈ وِلسن (Woodrow Wilson)کی فکر و نظریے پر براہ راست اثر انداز ہوئیں۔‘‘

نیتن یاہو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: ’’عظیم ملاقات کے خواب نے ان حضرات کے شعلۂ خیال کو بھڑکا دیا جنھوں نے یہودی ریاست کے احیا کے سلسلے میں سیاسی و بین الاقوامی بنیادیں کھڑی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہماری یہودی روایات میں ارض اسرائیل کی طرف واپسی کے لیے قدیم زمانے سے شوق اور دل چسپی پائی جاتی ہے۔ یہ خواب، جو ۲۰۰۰ (دو ہزار) برسوں سے ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے، مسیحی صیہونیوں کی بدولت اب بھڑک اٹھا ہے۔‘‘

امریکی صدور اور پادریوں کی صیہونی خدمات

ہیلسل نے اپنی کتاب ’’پیشین گوئی اور سیاست‘‘ میں یاجوج ماجوج سے متعلق تورات کی پیشین گوئیوں کی شدت و گہرائی پر نظر ڈالی ہے اور یہ جانا ہے کہ معاصر انجیلک عیسائیوں کے نزدیک ان پیشین گوئیوں کا مصداق ’روس‘ ہے۔ معرکۂ ہرمجدون یا ارمیگڈون (Armageddon) کی جنگ وہ جنگ ہوگی جو مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع وادی مجدون یا مجیدون میں مسیح [علیہ السلام] کے دشمنوں کے خلاف ان کی ہی قیادت میں برپا ہوگی۔ اسی طرح ہیلسل نے ’’رب کے دشمن‘‘، ’’اسرائیل کےدشمن‘‘ جیسی دیگر اصطلاحات کا وہ مفہوم بھی تلاش کیا ہے جو امریکہ کے سیاسی اشرافیہ، خاص طور سے امریکی صدور جیمی کارٹر (Jimmy Carter)، رونالڈ ریگن (Ronald Reagan)، جارج بُش سینئر (George Bush) اور بل کلنٹن (Bill Clinton) وغیرہ کے یہاں پایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ۱۹۸۶ کے آغاز میں اسکاٹ لینڈ کے ’لوکربی‘ نام کے دیہات میں ایک امریکی ہوائی جہاز دھماکے کی وجہ سے گر گیا تھا اور اس میں لیبیائی صدر معمر قذافی کو ملوث بتایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ہیلسل کہتی ہے: ’لیبیا رونالڈ ریگن کا دشمن نمبر ایک بن گیا۔ لیبیا سے ریگن کی نفرت کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسے اس اسرائیل کا ایک دشمن سمجھتا تھا جس کا ذکر پیشین گوئیوں میں آیا ہے، اس لیے [اس کے نزدیک] وہ (لیبیا) اللہ کا دشمن ہے۔‘‘

اسی طرح ہیلسل نے ریاست کیلیفورنیا سے سنیٹ کے سابق چیرمین جیمس مِلز (James R. Mills)کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ۱۹۷۱ میں اس کی ملاقات رونالڈ ریگن سے ہوئی تھی۔ یہ ریگن کے صدر بننے سے پہلے کی بات ہے۔ ’’ریگن نے اچانک مِلز سے انجیل کی پیشین گوئیوں اور سوویت یونین (یاجوج ماجوج) سے ہماری اس متوقع حتمی جنگ پر گفتگو شروع کر دی جس کا ذکر کتاب مقدس میں آیا ہے۔‘‘

مِلز سان دیگو میگزین (San Diego Magazine) کے اگست ۱۹۸۵ کے شمارے میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ریگن نے اسے انتہائی تاکید کے ساتھ بتایا کہ ’سفر حزقیال کی ۳۸ ویں فصل میں یہ نص موجود ہے کہ عن قریب ارض اسرائیل ایسے حملوں سے دوچار ہوگی جو ان ممالک کی افواج کی طرف سے ہوں گے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔‘ ہیلسل کہتی ہے کہ لیبیا بھی ان حملہ آور ممالک میں شامل ہوگا۔ آپ سمجھے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ لیبیا آج کل کمیونسٹ ہو چکا ہے اور یہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہرمجدون کی جنگ اب دور نہیں ہے۔‘‘

ہیلسل اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ سابق امریکی صدر جیمی کارٹر کی بعض تقریروں میں بھی پیشین گوئیوں سے متعلق وہی تاثر مل جائے گا جس پر بعد میں ریگن کا یقین و ایمان رہا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل کا مطلب بالآخر اس ارض موعود کی طرف واپسی ہے جس سے سینکڑوں برس پہلے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ اسرائیلی قوم کا قیام دراصل تورات میں مذکور پیشین گوئیوں کو پورا کرنا اور ان پیشین گوئیوں کا اصل نفاذ ہے۔‘‘

اپنی دوسری کتاب ’’اللہ کا ہاتھ‘‘[6]میں ہیلسل نے امریکہ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ممتاز ’ انجیلک عیسائی جماعتوں‘ اور اسرائیل کے لیے ان کی مالی، زبانی اور سیاسی تائید کے مظاہر کا سراغ لگایا ہے۔ ان طاقت ور لوبیوں کا بھی پتہ لگایا ہے جنھیں ان جماعتوں نے اسرائیل اور امریکی یہودیوں کےساتھ مل کر پروان چڑھایا ہے۔

ہیلسل کا خیال ہے کہ یہودی اور مسیحی صیہونیوں کو ایک کرنے والے تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ سنجیدگی آتی رہی۔ یہ چیز ان چرچ مجالس اور ٹیلی فونک ملاقاتوں میں نمایاں ہو کر سامنے آئی جنھیں اس وقت کے معروف امریکی پادری حضرات منعقد کیا کرتے تھے۔ ان پادریوں میں سرفہرست نام ’جیری فالویل‘ (Jerry Laymon Falwell) کا تھا، جسے گذشتہ صدی کے ستّر کے عشرے میں اسرائیلیوں نے ایک جیٹ طیارہ تحفے میں دیا تھا، گولان کی پہاڑیوں پر اس کی میزبانی کی تھی اور وہاں اس کے نام سے ایک اسٹیڈیم [Calvin Falwell Field] بھی قائم کیا تھا۔

ہیلسل اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ فالویل اس کے بدلے میں اپنی تقاریر اور کتابوں کے ذریعے سے مطلق اور کھلے طور اسرائیلیوں کی حمایت کرتا تھا، بلکہ ان کے لیے فنڈ بھی اکٹھا کرتا تھا۔ اس سلسلے میں اس کا کردار اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اسرائیل کے وزرائے اعظم، مثال کے طور پر نیتن یاہو، جب بھی امریکہ آتے تو اس سے ملنے کے خواہش مند رہا کرتے تھے۔

اسی طرح ہیلسل صیہونیوں کی ان سیاسی تنطیموں پر بھی نظر ڈالتی ہے جو حالیہ برسوں کے دوران امریکہ کے مختلف انتخابات میں ملوث و دخیل رہی ہیں۔ آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ تورات کی پیشین گوئیاں مسئلۂ ’’مسیح‘‘ پر غالب آنے لگی ہیں، جسے عقیدۂ ’’جبر و قدر‘‘ کی حامل مسیحی فکر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہی فکر امریکہ کے سیاسی و مذہبی منظر نامے پر حاوی بھی ہے۔

مذکور بالا گفتگو سے ان خفیہ اسباب کے متعلق ہمارے سوال کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے، جنھوں نے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے لیے امریکہ کی سیاسی اشرافیہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم ترین مفادات تک نظر انداز کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب ان گہرے مذہبی رشتوں کے پیچھے کارفرما پہلؤوں تک ہی محدود نہیں ہے جنھوں نے مسیحی صیہونیت اور یہودی صیہونیت کو ایک کر دیا ہے، بلکہ سیاسی، اسٹریٹیجک، اقتصادی اور تاریخی مفادات کا اتحاد بھی انھیں ایک کیے ہوئے ہے اور یہ وہ امور ہیں جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ (بشکریہ الجزیرہ عربی ویب سائٹ)

حوالہ جات

[1] مجلہ Washington Report on Middle East جو امریکی خارجہ پالیسی کے تحت شائع ہوتا ہے اور سال میں اس کے ۸ شمارے منظر عام پر آتے ہیں۔

[2] Prophecy and Politics: Militant Evangelists on the Road to
Nuclear War

[3] Forcing God’s Hand: Why Millions pray for a Quick Rapture— And Destruction of Planet Earth

[4] Jesus Christ was born a Jew

[5] The Politics of Christian Zionism, 1891-1948

[6] Forcing God’s Hand: Why Millions pray for a Quick Rapture— And
Destruction of Planet Earth

مشمولہ: شمارہ جون 2024

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau