حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؒ

فوجی قافلہ معرکہ سر کرکے واپس ہورہاتھا۔ جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی۔ دشمنوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے اور وہ پہلے ہی منتشر ہوگئے تھے۔ تمام فوجیوں کے چہروں پر خوشی ومسرت رقصاں تھی اور جلد سے جلد گھر پہنچنے کی خواہش میں انھوںنے اپنی سواریوں کی رفتار تیز کردی تھی۔ اِسی دوران میں چوںکہ ایک فوجی کا اونٹ دوسری سواریوں کا ساتھ نہیں دے پارہاتھا، اس بناپر وہ دوسرے فوجیوں سے پیچھے رہا جارہاتھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اونٹ چک کر نہیں دے رہاتھا۔ قصور اونٹ کا نہیں تھا۔ وہ تھا ہی کم زور، نحیف اور مریل سا۔ جنگ توکیا، وہ اس قابل بھی نہیں تھاکہ اس سے روزمرّہ کا کوئی کام لیاجاسکے۔ مگر فوجی کے پاس کوئی دوسرا اونٹ نہیں تھا، اس لیے معرکہ آرائی کے شوق میں وہ اسی کو لے آیاتھا۔ سالار لشکر اپنی ذمے داری بہ خوبی نبھارہاتھا۔ اسے تمام فوجیوں کی فکر تھی۔ وہ کبھی قافلے کے اگلے سر ے پر پہنچ جاتا اور فوجیوں کے احوال دریافت کرتا اورکبھی درمیان میں رہنے والے فوجیوں سے خوش طبعی کرتا اور کبھی قافلے کے پیچھے ہولیتا۔ ایک فوجی کو قافلے سے بچھڑتا دیکھ کر وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس موقعے پر دونوں کے درمیان یہ گفتگو ہوئی:

سالار: کیا بات ہے؟

فوجی: اپنے اس اونٹ کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہوں۔

سالار:  تم اتنا لاغر اونٹ کیوں لائے تھے؟

فوجی:        میرے پاس بس یہی ایک اونٹ تھا۔ آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں، یہ کتنا مریل سا ہے۔ اس کی کم زوری کی وجہ سے میں نے سوچ لیاتھاکہ اس کو آزاد چھوڑدوںگا۔ آپ کی طرف سے جنگ کے لیے چلنے کا اعلان سنا تو میںخود کو روک نہ سکا اور اسی کو لے آیا۔

سالار:  کیایہ اونٹ تم مجھے بیچوگے؟

فوجی:        لے لیجیے۔ مجھے پیچھے نہیںرہناچاہتا۔

سالار: نہیں میں خرید کر لوںگا۔

فوجی:  قیمت لگائیے۔

سالار:  ایک درہم۔

فوجی:        یہ کم ہے۔ اس میں میرا گھاٹا ہے۔

سالار:  دو درہم۔

فوجی: یہ بھی کم ہے۔

سالار: تین درہم

فوجی:   اس میںبھی گھاٹا ہے۔

سالارقیمت بڑھاتارہا اور فوجی اسے کم بتاتارہا۔ یہاں تک کہ سالار نے اس اونٹ کی قیمت ایک اوقیہ لگادی۔

فوجی: ٹھیک ہے، لے لیجیے۔

سالار:       گھر پہنچ کر اونٹ مجھے دے دینا اور رقم لے لینا۔

تھوڑی دیر خاموشی کے بعد دونوں میں پھر گفتگو ہوئی۔

سالار:       کیا تمھاری شادی ہوگئی ہے؟

فوجی:        جی ہاں

سالار:       کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟

فوجی:        بیوہ سے۔

سالار:       کسی نوعمر کنواری سے کیوں نہیں کی کہ اس کے ساتھ کھیل کود کرتے؟

فوجی:        میرے باپ پچھلی جنگ میں مارے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیچھے نو﴿۹﴾ لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ میں نے سوچاکہ کسی بڑی عمر کی عورت سے شادی کروں،تاکہ وہ انھیں سنبھال کر رکھ سکے اور ان کی دیکھ بھال کرسکے۔

سالار:       تم نے اچھا کیا۔ اِن شائ اللہ اس میں خیر ہوگی۔

ذرا دیر بعد سالار نے پھر خاموشی توڑی۔

سالار:       جب ہم شہر سے قریب پہنچیںگے تو کچھ دیر ٹھہریںگے۔ تاکہ ہمارے گھر والوں کو ہمارے واپس آنے کی خبر مل جائے۔ پھر شہر میں داخل ہوں گے۔ تمھاری بیوی کو خبر پہنچے گی تو وہ تمھارے لیے گائو تکیے پونچھ کر ٹھیک کرے گی۔

فوجی:        ہم غریب لوگ ہیں، ہمارے پاس کہاں گائو تکیے اور غالیچے ہیں۔

سالار:       وہ بھی ہوجائیں گے۔

یہ موقع ہے غزوۂ ذات الرقاع کا۔ سالارِ لشکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور فوجی حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؒ ۔

حضرت جابرؒ کا تعلق انصارِ مدینہ کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنوسلمہ سے تھا۔ ان کے والد کا نام عبداللہ بن عمرو بن حرامؒ تھا۔ باپ اور بیٹے دونوں ان خوش قسمت افراد میں سے تھے، جنھیں بیعت عقبہ ثانیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہواتھا۔ انھوں نے ہر موقعے پر اسلام اور پیغمبراسلام کی حفاظت و مدافعت کاعہد کیاتھا، جسے زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔ ان کے والد کثیر العیال تھے۔ کھجور کاایک باغ تھا، جس کی پیداوار سے بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ وہ اکثر مقروض ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن چوںکہ دل میں جذبۂ جہاد کی فراوانی تھی، اس لیے منادی کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد دونوں موقعوں پر انھوںنے بیٹے ﴿جابرؒ ﴾ کو گھر والو ںکی دیکھ بھال کے لیے روک دیا اور خود جہاد میں شریک ہوئے۔ ان کی شہادت ﴿غزوۂ احد﴾ کے بعد بیٹے نے ان کی جگہ لے لی اور پورے جوش اورجذبے کے ساتھ شریکِ غزوات ہونے لگا۔ حضرت جابرؒ کا اپنا بیان ہے:

’’میں نے رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انیس ﴿۱۹﴾ غزوات میں شرکت کی ہے۔ میں کسی غزوے میں پیچھے نہیں رہا۔ سوائے بدر اور احد کے کہ ان دونوں میں میرے والد نے مجھے روک دیاتھا۔‘’

صرف غزوات ہی نہیں، بل کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر جو سرایا ﴿فوجی ٹکڑیاں﴾ بھیجاکرتے تھے، ان میں بھی حضرت جابرؒ شریک رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؒ کی سربراہی میں ایک فوجی ٹکڑی قافلہ قریش کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے بھیجی۔ ان لوگوں نے سمندر کے ساحل پر پندرہ ﴿۱۵﴾ دن قیام کیا۔ یہاں تک کہ زادِ راہ ختم ہوگیا۔ لیکن وہاں مزید قیام ضرور ی تھا، اس لیے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ یہ فوجی ٹکڑی تین سو افراد پر مشتمل تھی۔ ان پر کچھ سخت ایام ایسے بھی گزرے کہ ہر فوجی کو دن بھر میں کھانے کے لیے صرف ایک کھجور ملتی تھی۔ لیکن ان میں سے کسی کے دل میں محاذ سے ہٹنے کا ذرّہ برابر خیال نہیںآیا۔ بعد میں ایک موقعے پر حضرت جابرؒ نے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو ان کے کسی شاگرد نے پوچھا: حضرت آپ لوگ کیسے کام چلاتے تھے؟ انھوںنے جواب دیا:

’’ہم اس کھجور کو اس طرح چوستے تھے جیسے بچے سوچتے ہیں، پھر ڈھیر سا پانی پی لیتے تھے۔ یہ ہمارے لیے رات تک کے لیے کفایت کرجاتاتھا۔ اور ہم اپنے ڈنڈوں سے درختوں کے پتّے جھاڑتے تھے۔ پھر انھیں پانی میں بھگوکر چبالیتے تھے۔‘’

اسی طرح کاایک غزوہ جس میں حضرت جابرؒ نے شرکت کی، تاریخ میں غزوۂ ذات الرقاع کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے زمانۂ وقوع کے بارے میں محدثین و اصحابِ سیر میںاختلاف ہے۔ لیکن صحیح تر قول یہ ہے کہ وہ غزوۂ احزاب سے قبل ۴ہجری میں پیش آیاتھا۔ اسی غزوے سے واپسی پر ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ گفتگو ہوئی تھی جسے ابتدا میں نقل کیاگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ لاغر اونٹ کی وجہ سے حضرت جابرؒ احساسِ کم تری میں مبتلا تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس احساس کو دور کرنے کے لیے، ان کی خود داری کو باقی رکھتے ہوئے اور ان کی کچھ مالی امداد کرنے کے مقصد سے ان کے اونٹ کا سودا کرنا چاہا۔ روایت میں ہے کہ بھائو تائو کرتے ہوئے ہر جملے کے ساتھ آپﷺ فرماتے تھے: وَاللّٰہُ یَغْفِرُلَکَ ﴿اللہ تمھاری مغفرت فرمائے﴾ اس طرح آپﷺ نے ان کے لیے پچیس مرتبہ استغفار کیا۔

اگلے دن صبح حضرت جابرؒ اونٹ لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اونٹ کو حجرۂ نبویﷺ کے دروازے پر بِٹھادیا اور خود مسجد میں جاکر انتظار کرنے لگے۔ آپﷺ گھر سے نکلے تو اونٹ کو دیکھ کر فرمایا: یہ کیا؟ لوگوں نے بتایاکہ اسے جابرؒ لے کر آئے ہیں۔ آپﷺ نے انھیں بلابھیجا۔ وہ آئے تو انھیں مخاطب کرکے فرمایا: بھتیجے! اپنا اونٹ لے جائواور اس کی قیمت بھی، جو ہمارے درمیان طے ہوئی تھی۔ پھر آپﷺ نے حضرت بلالؒ کو بلاکر فرمایاکہ جابرؒ کو ایک اوقیہ دے دو۔بعض روایات میں پانچ اوقیہ اور بعض میں چار دینار دیے جانے کاذکر ہے۔ حضرتِ جابرؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودو کرم، نوازش اور اصحاب کی دل جوئی کے پہلے ہی سے شاہد تھے۔ انھیں اندازہ ہوگیاتھاکہ ہو نہ ہو آپﷺ ایسا ہی کریںگے۔ وہ کہتے ہیں مجھے یہ چیز بہت ناپسند تھی کہ میں اونٹ بھی لے لوں اور اس کی رقم بھی۔ لیکن میں کیا کرتا۔آپﷺ کے فرمان کو رد کرنے کی مجھ میں تاب نہ تھی۔

جب حالات بدلے اور خوش حالی آئی تو حضرت جابرؒ کو بھی اس کا کچھ حصہ ملا۔ ان کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئی۔ گھر میں اسبابِ زیست فراہم ہوئے۔ ان کی بیوی نے ملائم اور آرام دہ بستر، خوبصورت چادر، گائوتکیہ اور غالیچہ وغیرہ اکٹھا کرلیا۔ وہ کسی خاص موقعے پر غالیچے بچھاتی تو جابرؒ اپنی سادہ طبیعت کی بنا پر اور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے: اسے اٹھالو، میں اس پر نہیں لیٹوںگا۔ وہ جواب دیتیں:نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ ایک وقت آئے گا جب تمھارے پاس غالیچہ ہوگا۔ آپ کی یہ پیشین گوئی اب پوری ہوگئی ہے۔

حضرت جابرؒ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جو سراسر معجزات کے قبیل سے ہیں۔ ان کی کوئی عقلی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ایسے معجزات کاصدور ایک زندہ حقیقت ہے۔ یہاں دو واقعات کاتذکرہ کیاجارہاہے۔

حضرت جابرؒ کے والد نے اپنے پیچھے ایک بڑا قرض چھوڑا تھا۔کھجور کا صرف ایک باغ تھا، جس سے پورے گھرانے کی کفالت بہت مشکل سے ہوپاتی تھی۔ قرض کی ادائی کیسے ہوتی۔ والدکی شہادت کے بعد قرض داروں نے جابرؒ سے تقاضا کرنا شروع کردیاتھا۔ قرض اتنا تھاکہ اگر کئی سال کی پیداوار بھی اس میں صرف کردی جاتی اور گھر کے خرچ کے لیے کچھ بھی نہ روکا جاتا تو بھی تمام قرض ادا نہ ہوپاتے۔ اس صورت حال سے حضرت جابرؒ بہت پریشان اور متفکر تھے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کھجوریں پک گئی ہیں۔ اب انھیں تُڑوانے کا وقت آگیاہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ قرض دار اب پھر مجھے گھیریںگے اور قرض کی فوراً ادائی کامطالبہ کریںگے۔ اس لیے جب میں کھجوریں توڑوں تو آپ وہاں چلے چلیے، تاکہ آپﷺ کو دیکھ کر وہ لوگ میرے ساتھ بدزبانی نہ کریں اور مجھے موقع دے دیں کہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ان کا قرض نپٹادوں۔ آپﷺ آمادہ ہوگئے اور فرمایا: ’’جائو، کھجوریں توڑکر ان کے الگ الگ کئی ڈھیر لگائو۔ پھر مجھے خبر کرو۔‘’ انھوںنے ایسا ہی کیا۔آپ تشریف لے گئے۔ کھجور کے سب سے بڑے ڈھیر کے تین چکر لگائے ،پھر اس کے اوپر بیٹھ گئے اور فرمایا: جائو، تمام قرض داروں کو بلالائو کہ آکر اپنا اپنا قرض لے جائیں۔ وہ آئے تو آپﷺ نے کھجوریں تول تول کر انھیں دینا شروع کردیں۔ جابرؒ بیان کرتے ہیں کہ میں تو اس پر بھی تیارتھاکہ ایک کھجور بھی گھر نہ لے جائوں، سب قرض میں ادا کروں کہ کسی طرح قرض داروں سے پیچھا چھوٹے۔ یہاں یہ حال تھا کہ کھجور کے تمام ڈھیر صحیح سالم بچ گئے اور جس ڈھیر پر بیٹھ کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں تقسیم فرمارہے تھے، ایسا لگ رہاتھا کہ اس میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ۶۳/وسق قرض تھا۔ پورا قرض ادا کرنے کے بعد بھی ۳۱/ وسق کھجور بچ رہی۔ ایک وسق جدید پیمانے کے حساب سے ایک سو تیس کلو پانچ سو ساٹھ گرام کاہوتا ہے۔

دوسرا واقعہ غزوۂ احزاب کے موقع کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ کے اطراف میںخندق کھودنے میں شریک تھے۔ مدینے کی آبادی کو دشمنوں کے حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ جلد ازجلد، کم سے کم وقت میں خندق کھود دی جائے۔ بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر سب اپنے کاموں میں منہمک رہتے تھے۔ بسااوقات بھوک کی شدت کو کم کرنے کے لیے بعض صحابہ اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھتے تھے تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوتے تھے۔ ایسے ہی کسی موقع پر حضرت جابرؒ نے محسوس کیاکہ آپﷺ بھوک سے نڈھال ہورہے ہیں، تڑپ اٹھے۔ گھر پہنچ کر بیوی سے کہا: ’’’’نیک بخت، تمھارے پاس کچھ ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے۔‘’ سلیقہ مند بیوی نے وقتِ ضرورت کے لیے ایک تھیلی میں کچھ جَو چھپا رکھاتھا، جس کی مقدار ایک صاع سے زیادہ نہیں تھی۔ اسے نکالا اور فوراً چکّی سے پیس ڈالا۔ گھر میں بکری کا ایک بچہ تھا، اسے جابرؒ نے ذبح کیا۔ بیوی نے کہا: ’’’’جائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چند اصحاب کے ساتھ بلا لائیے۔ اور دیکھیے، مجھے رسوا نہ کیجیے گا۔ زیادہ آدمی آگئے تو کھانا کم پڑجائے گا۔‘’ حضرت جابرؒ بیان کرتے ہیں: میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے سرگوشی کی۔ میں نے عرض کیاکہ میری بیوی نے مختصر سا کھانا آپﷺ کے لیے تیار کیا ہے۔ تشریف لے چلیے اور اپنے ساتھ دو چار لوگوں کو بھی لے لیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زور سے اعلان کیا: اے اہلِ خندق، چلوجابرنے تمھارے لیے عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیاہے۔‘’ اس وقت حضرت جابرؒ پر کیسی بدحواسی طاری ہوئی ہوگی، اس کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ بھاگے ہوئے گھر پہنچے اور بیوی سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بیوی نے بہت ملامت کی۔ کہاکہ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹھیک سے بات نہ کی ہوگی۔ صحیح صورت حال نہ بتائی ہوگی۔ انھوںنے جواب دیا: میں نے ویسا ہی کیاتھا جیسا تم نے کہاتھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی تھی کہ دیگچی کو چولھے سے نہ اتارا جائے اور آٹا گوندھ کر ڈھکارہنے دیاجائے اور روٹی پکانے کے لیے پڑوسن سے مدد لے لی جائے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار صحابہ تھے۔ انھیں کھانا نکال نکال کر دینے کاکام آپﷺ نے اپنے ذمّے لیا۔ حضرت جابرؒ بیان کرتے ہیں: قدرتِ الٰہی سے تمام لوگوں نے شکم سیر ہوکر کھانا کھایا۔ پھر بھی اچھا خاصا کھانا بچ رہا۔ ﴿بخاری و مسلم﴾

حضرت جابرؒ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی۔ اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ لطف وکرم کا معاملہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے تو آپﷺ نے حضرت ابوبکرؒ کو ساتھ لیا اور ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت جابرؒ اس کاتذکرہ بڑے فخر سے کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرؒ میری عیادت کے لیے آئے، ان کا آنا ضمنی طورپر نہیں تھا کہ کہیں جاتے ہوئے راستے میں ذرا دیر میرے گھر پر رک گئے ہوں۔ بل کہ وہ بالقصد پیدل چل کر میری عیادت کے لیے میرے گھر تشریف لائے تھے۔

ایک دوسرے موقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت جابر فرماتے ہیں:

میں اپنے گھر میں بیٹھا ہواتھا کہ اُدھر سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاگزر ہوا۔ آپﷺ نے مجھے اشارے سے بلایا۔ میں آپﷺ کے ساتھ ہولیا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور چلتے رہے، یہاں تک کہ ہم آپﷺ کی ایک زوجۂ مکرمہ کے حجرے کے پاس پہنچ گئے۔ پہلے آپﷺ گھر میں داخل ہوئے، پھر مجھے بلالیا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: کچھ کھانے کو ہے؟ آپ کی خدمت میں تین روٹیاں پیش کی گئیں۔ ایک روٹی آپﷺ نے اپنے سامنے رکھی، دوسری مجھے مرحمت فرمائی اور تیسری روٹی کے دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا اپنے سامنے رکھا اور دوسرا مجھے دیا۔ پھر دریافت فرمایا: کیا سالن ہے؟جواب ملا: سالن تو نہیں ہے۔ تھوڑا سا سرکہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: لائو لائو، سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے۔‘’

اس کھانے کی لذّت حضرت جابرؒ زندگی بھر محسوس کرتے رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ جملہ سناکہ ’’سرکہ تو بہت اچھا سالن ہے، سرکہ میری سب سے پسندیدہ غذا بن گیا۔ اس لذّت کو انھوںنے اپنے شاگردوں اور دوسرے متعلقین میں بھی منتقل کردیا۔ ان کے ایک شاگرد طلحہؒ کا بیان ہے کہ جب سے میں نے جابرؒ کی زبان سے یہ واقعہ سنا ہے، مجھے بھی سرکہ اچھا لگنے لگا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جابرؒ کی محبت، جاں نثاری اور فدائیت کا یہ عالم تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے اور آپﷺ کے ارشاداتِ عالیہ سے فیض اُٹھانے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کا شمار ان سات صحابۂ کرام میں ہوتاہے، جن سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔ حضرت جابرؒ کی مرویات کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زیادہہے۔ وہ عہدنبویﷺ کے بہ کثرت چھوٹے بڑے واقعات کے راوی ہیں۔ مثلاً غزوۂ خندق، غزوۂ المصطلق، عزوۂ ذات الرقاع، قتل کعب بن اشرف، رجم ماعز، صلح حدیبیہ، غزوۂ خیبر، سفر فتح مکہ، واقعۂ ایلائ، حجۃ الوداع، صلاۃ الخوف، صلاۃ الکسوف ﴿سورج گرہن کی نماز﴾ اور مرض وفات وغیرہ۔

حضرت جابرؒ سے بعض چھوٹے چھوٹے اور دل چسپ واقعات بھی مروی ہیں: ایک سفر میں وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ کسی نماز کا وقت ہوا تو انھوں نے پانی کا انتظام کیا۔ آپﷺ نے وضو کیا اورنماز ادا کرنے لگے۔ جابرؒ آپﷺ کی معیت میں نماز پڑھنے کے لیے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ آپﷺ نے ان کاکان پکڑا اور کھینچ کر انھیں اپنی داہنی جانب کرلیا۔

حضرت جابرؒ کا تعلق قبیلۂ بنوسلمہ سے تھا۔ اس قبیلے کے مکانات مسجد نبویﷺ سے دور تھے۔ قبیلے والوں نے سوچاکہ ان مکانات کو فروخت کردیں اور مسجد نبویﷺ سے قریب کوئی زمین خرید کر وہاں مکان بنالیں۔ آپﷺ کو معلوم ہوا تو آپﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: دِیَارَکُم، تُکتَبُ آثَارَکُمْ یعنی جہاں ہو وہیں رہو، مسجد آنے کے لیے تمھارے جتنے قدم اٹھیں گے ان کاتمھیں ثواب ملے گا۔

ایک مرتبہ جابرؒ خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کون؟ جواب دیا: میں۔ آپﷺ یہ فرماتے ہوئے حجرے سے باہر تشریف لائے: ’’یہ میں میں کیا ہوتاہے؟‘’ یعنی نام بتانا چاہیے۔

حضرت جابربن عبداللہ الانصاری جیساکہ گزشتہ سطور میں عرض کیاگیاکبارصحابہ میں تھے وہ ان خوش نصیب صحابہ میں تھے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں بیٹھنے اور سفراحضر میں آپ کی معصیت میں رہنے کے بہت زیادہ مواقع ملے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے بہت زیادہ احادیث مروی ہیں۔

حضرت جابرؒ بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہمارے لیے درس و نصیحت کے متعدد پہلو ہیں۔ سب سے نمایاں پہلویہ سامنے آتا ہے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مال داری ضروری نہیں ہے۔ غریب سے غریب مسلمان بھی اپنے ایمان، اخلاص، اللہ اور اس کے رسول سے محبت اور ان کی اطاعت، خودسپردگی اور جاں نثاری کی بہ دولت بارگاہِ الٰہی میں بلند درجہ حاصل کرسکتا ہے اور خوش نودیِ رب سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔ دوسرا روشن پہلو یہ سامنے آتاہے کہ تحریک اسلامی سے وابستہ فرد کے لیے اپنے مشن پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ بھوک ، پیاس، غربت، تنگ حالی، راستے کی مشقت اور دیگر پریشانیاں اس کی راہ کھوٹی نہ کرسکیں۔ مقصد سے عشق اور اس کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد اس کی پہچان ہونی چاہیے اور تیسرا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ یہ کہ سربراہ کا تعلق اپنے تمام مامورین کے ساتھ یکساں ہونا چاہیے۔ کسی کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ سربراہ سے اسے کم چاہتا ہے یا اسے کم اہمیت دیتاہے۔ بل کہ ہر ایک یہ محسوس کرے کہ سربراہ کا اس سے بڑا قریبی تعلق ہے۔ محبت، اپنائیت اور گرم جوشی کا یہ تعلق ہی کسی تحریک کی جان ہوتاہے۔‘‘

مشمولہ: شمارہ اگست 2011

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223