اسلامی معاشرہ (ریاست) کے تعلق سے سب سے پہلی بات جو سمجھ لینے کی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک فکر ونظر کا معاشرہ ہے، عقائد وخاص خیالات کا معاشرہ ہے، انہیں عقائد سے اسلامی معاشرہ کے تمام گوشے جڑے ہوئے ہیں، اور وہیں سے احکام، آداب واخلاق کے سارے چشمے پھوٹتے ہیں۔
اس معاشرہ میں اسلام ہی طرز معاشرت کی بنیاد، قانون ودستور کی اساس، اور زندگی کے تمام مراحل میں ہدایات ورہنمائی کا سرچشمہ ہے، لیکن اس کے باوجود یہ معاشرہ تنگ نظر اور متعصب نہیں، جذباتی اور جانبدار نہیں؛ بلکہ رواداری، بھائی چارگی، محبت ، انصاف اور رحمت کی خوشبو سے آراستہ ایک باغ وبہار ہے۔وہ اس معاشرہ میں رہنے والے تمام انسانوں کے درمیان – چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم- ایک خوشگوار تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے، اور یہ ایسا ہمہ جہت اور انسانیت نواز تعلق ہے، جو اسلام سے پہلے دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔
دستوری ہدایات:
اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہئے، اس سلسلے میں شریعت میں ہمیں دستوری ہدایات ملتی ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا يَنْہٰكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗیكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ الممتحنۃ: ۸-۹)
’’ جن لوگوں نے دین میں تم سے قتال نہیں کیا، اور تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انصاف کرنے سے اللہ تمہیں منع نہیں کرتا ہے، بلا شبہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، البتہ جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں گھر سے نکالا اور تمہیں گھر سے نکالنے میں مدد کی ان کے ساتھ دوستی کرنے سے اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے، اور جو ان سے تعلق رکھے گا تووہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
اہل ذمہ کی تعریف
اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کو ذمی یا اہل ذمہ کہا جاتا ہے۔
’’ذمہ‘‘ کا مفہوم ہے وعدہ، ضمانت اور گارنٹی، کیوں کہ ذمیوں کے ساتھ اللہ اور رسول اور جماعت المسلمین کا عہد ہوتا ہے کہ وہ مکمل طور سے اسلامی حکومت کے پناہ میں ہیں، اس طرح ’’ذمہ‘‘ کا مفہوم آج کل وہی ہے جو ہر ملک اپنے باشندوں کو ’’شہریت‘‘ عطا کرتا ہے، اس طرح ذمہ ایک عقد ہے، جو مسلمانوں اور غیروں کے درمیان ایک تعلق قائم کر دیتا ہے۔حضرت مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں: ’’ذمی کا مطلب ہے جس کے جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری لی گئی ہے۔‘‘ (عثمانی، تقی: اسلام اور سیاسی نظریات، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، پاکستان،۱۴۱۳ھ؍۲۰۱۰ء، ص ۳۰۶)
غیر مسلموں کے حقوق
سب سے پہلا قاعدہ تو یہ ہے کہ اہل ذمہ کو دارالاسلام میں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کے ہوتے ہیں، ذیل میں ان حقوق کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
۱- حق تحفظ:
سب سے پہلا اور اہم حق، جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت ہے، اور یہ حفاظت باہری ظلم وزیادتی سے بھی ہے اور داخلی زیادتیوں سے بھی۔
(الف) باہری ظلم وزیادتی سے حفاظت
باہری ظلم وزیادتی سے حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار دار الحرب سے دار الاسلام آکر، ذمیوں پر حملہ کرنا چاہیں تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ ذمیوں کی حفاظت کے لیے، کفار سے مقابلہ کرے، چناںچہ امام قرافی (۶۲۶- ۶۸۴ھ ؍ ۱۲۲۸-۱۲۸۵ء) اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ ظاہریہ کے امام ـ’’ابن حزم‘‘(۳۸۴-۴۵۶ھ؍۹۹۴ء- ۱۰۶۴ء )کا قول نقل کرتے ہیں کہ:
’’أن من کان فی الذمۃ، وجاء أھل الحرب الی بلادنا یقصدونہ، وجب علینا أن نخرج لقتالھم بالکُراع والسلاح، و نموت دون ذلک، صونا لمن ھو فی ذمۃ اللہ تعالی و ذمۃ رسولہ ﷺ، فان تسلیمہ دون ذلک اھمال لعقد الذمۃ‘‘
’’اگر حربی دار الحرب سے آکر دار الاسلام کے ذمیوں سے لڑنا چاہے تو ہم پر لازم ہوگا کہ ان سے مقابلہ کے لیے نکلیں، چاہے ہم مر ہی کیوں نہ جائیں، اور یہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ذمہ کی حفاظت کی غرض سے ہوگا۔ـ‘‘
(القرافی،شھاب الدین ابی العباس احمد بن ادریس المصری المالکی: الفروق، وبحاشیتہ:ادرار الشروق علی انوار الفروق للامام ابن الشاط ،قدم لھ،حققہ،و علق علیہ: عمر حسن القیام، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ط۔ الاولی ۱۴۲۴ھ؍۲۰۰۳م، الموضوع: الفرقُ التاسع عشر والمئۃ، ج۲؍۴۳۳)
اور اس سلسلے میں یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جنگ تاتار کے زمانے میں، جب تاتاریوں نے شام پر حملہ کیا تو امام ابن تیمیہ ’’مطلوشاہ‘‘ کے پاس گئے، تاکہ قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بات کر سکیں، تو تاتاری کمانڈر نے مسلمان قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دے دی اور ذمیوں کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا، تو حضرت شیخ الاسلام نے کہا: ہم تمام ذمی قیدیوں کی رہائی کے بغیر راضی نہیں ہو سکتے، کیوں کہ وہ ہمارے اہل ذمہ ہیں ہم کوئی قیدی نہیں چھوڑیں گے، نہ اہل ذمہ میں سے اور نہ اہل ملت میں سے، اور جب حضرت شیخ الاسلام کا اصرار بڑھا تو اس نے سب کو آزاد کر دیا۔(القرضاوی، یوسف:غیر المسلمین فی المجتمع الاسلامی، قاھرہ، مکتبہ وھبہ، مصرط الرابعہ ۱۴۲۵ھ؍۲۰۰۵ء، ص ۱۰)
(ب) داخلی ظلم وزیادتی سے تحفظ:
جہاں تک داخلی ظلم وزیادتی سے تحفظ کا تعلق ہے، تو اس معاملہ میں اسلام نے بڑے سخت احکام دیئے ہیں، اور مسلمانوں کو بڑی سختی سے روکا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ کوئی بھی ظلم وزیادتی کو روا رکھیں، اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جائے گی، اور آخرت کا سخت عذاب تو ہے ہی۔
ایک حدیث میں آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے:
’’من ظلم معاھدا او انتقصہ حقا او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس منہ، فانا حجیجہ یوم القیامۃ‘‘
’’جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا، یا اس کا حق مارا، یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا، یا اس کی خوش دلی کے بغیر اس کا کوئی سامان لیا، تو قیامت کے دن میں اس کا خصم ہوںگا۔‘‘
(السجستانی ، ابو داؤد سلیمان بن الاشعث بن اسحاق الازدی: سنن ابی داؤد،مشمول فی موسوعۃ الحدیث الشریف الکتب الستۃ ، باشراف و مراجعۃ صالح بن عبد العزیز بن محمد ابراہیم آل الشیخ، دارالسلام للنشر و التوزیع، ط.الثالثہ،۱۴۲۱ھ ؍۲۰۰۰ء،۱۹-اول کتاب الخراج و الفی و الامارۃ، ۳۱- باب فی تعشیر اہل الذمہ اذا اختلفوا بالتجارۃ،ص-۱۴۵۳، رقم الحدیث:۳۰۵۲۔)
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے: ’’من آذی ذمیافانا خصمہ ومن کنت خصمہ خصمتہ یوم القیامۃ۔‘‘
’’ جس نے ذمی کو تکلیف دی،تو میں اس کا فریق ہوں گا اور میں جس کا فریق ہوں گا اس سے قیامت کے دن لڑوں گا۔‘‘
(السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر : الجامع الصغیر من حدیث البشیر النذیر، مطبعۃ مصطفی البابی،ط۔ الرابعۃ ۱۳۷۳ھ،۲؍۴۷۳، واشار الی ان سندہ حسن، بحوالہ زیدان، عبدالکریم:احکام الذمیین والمستامنین فی دار الاسلام، موسسۃ الرسالۃ،ط ۔ ۱۴۰۲ھ ؍ ۱۹۸۲ء، المطلب الاول: الحقوق العامۃ للذمیین،۱-حریۃ الزمی فی الرواح والمجیء وحمایۃ شخصہ من الاعتداء،ص۸۸۔)
ہر دور میں مسلمانوں نے ان احکام کا لحاظ رکھا اور اہل ذمہ سے ہر طرح کے ظلم وزیادتی کو دور کرتے رہے، حضرت عمر فاروقؓ ہر ملک سے آنے والے لوگو ں سے وہاں کے اہل ذمہ کے احوال دریافت فرماتے:’’لعل المسلمین یفضون الی اہل الذمۃ فا ذ ی ‘‘، ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان نے ذمیوں کو تکلیف پہونچائی ہو‘‘۔ سب لوگ کہتے:’’ما نعلم الا وفائََ‘‘ ’’ہم تو صرف وفاداری جانتے ہیں۔‘‘
(الطبرانی،ابو جعفر محمد بن جریر: تاریخ الامم والملوک (تاریخ طبری) ، المطبعۃ الحسینیۃ، القاہرۃ، ط۔الاولی، ۴/۲۱۸، بحوالہ زیدان، عبدالکریم : احکام الذمیین والمستامنین فی دار الاسلامOp.Cit ،ص۸۸۔)
اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ہی فریق دوسرے کا حق پورا پورا ادا کیا کرتے تھے۔حضرت علیؓ مال وجان کی حرمت میںذمی اور مسلمان دونوں کے یکساں ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’انما بذلوا الجزیۃ لتکون اموالہم کاموالنا ودمائہم کدمائنا۔‘‘’’ وہ جزیہ اسی لیے دیتے ہیں تاکہ ان کی جان ومال ہماری جان ومال کی طرح محفوظ ہو جائیں۔‘‘
( ابن قدامہ المقدسي، موفق الدین أبو محمد عبداللہ بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ، المعرو ف ب ا بن قدامہ المقدسي:المغنی،تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، وعبدالفتاح محمد الحلو، الریاض، دار عالم الکتب، ط۔ الثالثۃ،۱۴۱۷ھ؍۱۹۹۷ء کتاب الجہاد، ۱۶۳۴ – مسئلۃ، قال:(اذا سبی الامام فہو مخیر۔۔۔۔۔۔۔) فصل: ذکر ابوبکر ان الکافر اذاکان مولی مسلم، لم یجز استرقاقہ،۱۳؍۴۹، زیدان، عبدالکریم:احکام الذمیین والمستامنین فی دار الاسلامOp.Cit ،ص۸۹۔(
تمام ملکوں کے علماء وفقہاء کی تصریح ہے کہ ذمیوں کا دفاع اور ان کے تمام حقوق کی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہے۔
(ج) جان کی حفاظت:
جان کا تحفظ، تحفظ کی اقسام میں سب سے اہم اور بڑھ کر ہے، ذمیوں کی جان مسلمانوں کے نزدیک اپنی جان کی طرح محترم ہے، اور ان کا خون کرنا حرام ہے۔
اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کی ہدایات بڑی واضح ہیں، ایک حدیث میں ارشاد ہے:
’’ من قتل معاھدا لم یرح رائحۃ الجنۃ، و أن ریحھا لیوجد من مسیرۃ أربعین عاماً۔‘‘ ’’جس نے ذمی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا، جب کہ اس کی خوشبو، چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جائے گی‘‘۔
(البخاری محمد بن اسماعیل ،الصحیح (صحیح البخاری) ، مشمول فی موسوعۃ الحدیث الشریف الکتب الستۃ ، باشراف و مراجعۃ صالح بن عبد العزیز بن محمد ابراہیم آل الشیخ، دارالسلام للنشر و التوزیع، ط.الثالثہ،۱۴۲۱ھ ؍۲۰۰۰ء،۵۸-کتاب الجزیہ و المواد عۃ ، ۵-باب اثم من قتل معاھدا بغیر جرم، رقم الحدیث:۳۱۶۶،ص۲۵۶،النسائی : القسامۃ (4750) , وابن ماجہ : الدیات (2686) , واحمد (2/186))http://www.taimiah.org/index.aspx?function=item&id=977&node=8130)
اس لیے فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ ان کا قتل حرام ہے، اور قاتل سزایاب ہوگا، ذمی کے قاتل کی سزا میں ائمہ کا اختلاف ہے اور سب سے بے غبار مسئلہ امام ابو حنیفہ کا ہے کہ ذمی کے قاتل کو قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔
(د) مال کی حفاظت:
اسی طرح ذمیوں کے مال کی حفاظت بھی، اسلامی حکومت کی بڑی ذمہ داری ہے، اور ہر دور میں اسلامی حکومتوں نے اس اصول پر عمل کیا ہے اور ذمیوں کے مال کی حفاظت کی ہے، امام ابو یوسف (۱۱۳ھ-۱۸۳ھ؍۷۳۵-۷۹۸ء) نے ’’ کتاب الخراج‘‘ میں اس معاہدہ کا تذکرہ کیا ہے، جو نبی اکرم ﷺ نے اہل نجران سے کیا ہے:
’’ولنجران و ھاشیتھا جوار اللہ، وذمۃ محمد النبی رسول اللہﷺ، علی أموالھم و ملتھم و بِیَعھم، وکل ما تحت أیدیھم من قلیل أو کثیر۔۔۔‘‘
’’اہل نجران اور آس پاس والوں کے لیے اللہ کی پناہ اور رسول اللہ محمد مصطفیﷺ کا ذمہ ہے، کہ ان کے مال، مذہب اور عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی، اور ان کا تمام مملوکہ سامان، کم ہو یا زیادہ۔……‘‘
(الامام یوسف،ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم المعروف ب الامام یوسف:کتاب الخراج،بیروت، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر،ط ۱۳۹۹ھ؍۱۹۷۹ء فصل: قصۃنجران واھلھا:۷۲)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح لکھا تھا: ’’ امنع المسلمین من ظلمہم والاضرار بہم واکل اموالہم الابحلہا۔‘‘
’’ مسلمانوں کو اہل ذمہ پر ظلم وزیادتی کرنے سے، انہیں تکلیف دینے سے اور ناجائز طریقہ پر ان کا مال کھانے سے روکو۔‘‘ (حوالہ سابق،فصل :فی الکنائس والبیع والصلبان، ص، ۱۴۱)
واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام کی رواداری مثالی ہے، یہاں تک کہ وہ چیزیں جنہیں اہل ذمہ مال سمجھتے ہیں، اور اسلام کی نظر میں وہ مال نہیں ہیں، اسلام ان چیزوں کی بھی حفاظت کرتا ہے۔
شراب اور خنزیر، مسلمانوں کے نزدیک مال نہیں ہیں، اسی وجہ سے کسی وجہ سے مسلمان کی شراب اور خنزیر کو کوئی مسلمان ضائع کر دے اس پر کوئی تاوان یا مال جرمانہ نہیں ہے، لیکن یہی چیزیں اہل ذمہ یہود ونصاری کے یہاں مال ہیں، لہذا کوئی مسلمان اہل ذمہ کے خنزیر اور شراب کو ضائع کر دے تو اس پر تاوان واجب ہوگا، اور ان کی قیمت ادا کرنے کا پابند ہوگا، اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ (القرضاوی، یوسف:غیر المسلمین فی المجتمع الإسلامی،Op.cit ص ۱۵))
(ہ) عزت وآبرو کا تحفظ:
عزت وآبرو، انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی جوہر ہے، اس کا تحفظ، جان سے عزیز تر ہے، عزت وآبرو کی حفاظت میں جان گنوا دینا، شرفاء کا شیوہ رہا ہے، اس لیے اسلام نے ذمیوں کے عزت وآبرو کی حفاظت کے بڑے سخت احکام دیئے ہیں، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی ذمی کو گالی دے یا اس پر الزام لگائے یا اس کی غیبت کرے یا اس کے نسب، اخلاق یا خلقت یا کسی بھی چیز کا مذاق اڑائے۔
در مختار میں ہے: ’’یجب کف الأذی عن الذمی وتحرم غیبتہ کالمسلم۔‘‘
’’ ذمی سے ہر قسم کی تکلیف کو دور کرنا ضروری ہے اور اس کی غیبت مسلمان کی غیبت کی طرح حرام ہے۔‘‘
علامہ شامی اس پر تعلیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کیوں کہ عقد ذمہ کی وجہ سے ان کے لیے وہ تمام حقوق ثابت ہوئے جو ہمارے لیے ثابت ہیں، تو جب مسلمان کی غیبت حرام ہوئی تو ذمی کی غیبت بھی حرام ہوگی، بلکہ فقہاء کہتے ہیں: کہ ذمی پر ظلم کرنا زیادہ سخت ہے۔‘‘(الشامي،ابن عابدین، محمد أمین بن عابدین المعروف ب الشامي؍ابن عابدین: رد المختار علی الدر المختار،بیروت، دار الفکر للطباعۃ، ۱۴۱۲ھ؍۲۰۰۰ء: باب المستامن ۴/۱۷۱)
۲- غربت اور مجبوری کے وقت کفالت کا حق:
اسلامی حکومت کی رواداری اور رعایا پروری کی انتہا یہ ہے کہ اسلام، اسلامی حکومت کے غیر مسلموں کے لیے، غربت اور ضرورت کے وقت کفالت اور معاشی کمزوریوں کے مداوا کی بھی ذمہ داری لیتا ہے۔چناںچہ ہر دور کے خلفاء اور امراء نے اس اصول پر سختی سے عمل کیا ہے، حضرت خالد بن الولیدؓ نے عراق کے اہل حیرۃ -جو نصاریٰ تھے- کے لیے جو ذمہ کا معاہدہ لکھا تھا، ان میں بڑی وضاحت سے لکھا تھا:
’ أیما شیخ ضعف عن العمل، أو أصابتہ آفۃ من الآفات، او کان غنیاً فافتقر وصار أھل دینہ یتصدقون علیہ، طرحت جزیتہ وعِیل من بیت مال المسلمین و عیالہ‘‘
’’جو بوڑھا آدمی کام نہ کر سکے یا کسی آفت ومصیبت میں مبتلا ہو جائے یا مالدار تھا فقیر ہو گیا، اور اس کے ہم مذہب اس پر صدقہ کرنے لگیں تو ان کا جزیہ ساقط کر دیا جائے گا، اور بیت المال سے اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کی جائے گی۔‘‘
(الام یوسف ،ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم: کتاب الخراج، Op.citفصل فی الکنائس والبیع والصلبان، ص: ۱۴۴)
اور یہ واقعہ حضرت ابو بکرؓ کے دور میں پیش آیا اور تمام صحابہ نے اس پر اجماع فرمایا۔
حضرت عمرؓ نے ایک یہود کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بڑھاپے نے اس پر اسے مجبور کر دیا ہے، تو اسے لے کر بیت المال کے منشی کے پاس گئے اور حکم دیا کہ اس کے لیے اور اس طرح کے تمام لوگوں کے لیے، اتنا وظیفہ مقرر کر دیا جائے جو ان کی ضرورت کی کفیل ہو سکے، اور فرمایا:
’’ما انصفناہ اذ أخذنا منہ الجزیۃ شاباً، ثم نخذ لہعند الھرم۔‘‘ ’’یہ انصاف نہیں ہوگا کہ ہم جوانی میںان سے جزیہ لیں اور بڑھاپے میں بے سہارا چھوڑ دیں۔‘‘
(حوالہ سابق، فصل فیمن تجب علیہ الجزیۃ، ص۱۲۶)
اس طرح کے بہت سے واقعات ایسے ہیں، جن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کی نظر میں معاشرتی حقوق کی مکمل رعایت ایک اہم اصول ہے، اور اس میں دار الاسلام کے تمام شہری مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔
۳-آزادیٔ مذہب کا حق:
اہل ذمہ کے جن حقوق کی اسلام حفاظت کرتا ہے ان میں ایک اہم حق، آزادیٔ مذہب کا حق ہے، چناںچہ دارالاسلام کا ہر شہری اپنے مذہب اور دین پر عمل کرنے میں آزاد ہے، اسے اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی ان پر کوئی دباؤ ڈالے گا۔ اس اصول کی بنیاد قرآن کریم کی یہ آیت ہے:{لا إکراہ في الدین۔} (البقرۃ: ۶۵۲) ــ’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد:{أفأنت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین۔} (سورۂ یونس: ۹۹)’’ کیا آپ لوگوں کو ایمان کے لیے مجبور کریں گے۔‘‘
ان آیتوں کے شانِ نزول کے بارے میں مفسرین نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ اسلام کی رواداری کا اعجاز ہے، لکھا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں انصار کی جن عورتوں کی اولاد مر جاتی تھی وہ نذر مانتی تھیں کہ اگر لڑکا زندہ رہا تو وہ انہیں یہودی بنا دیں گی، اور جب بنو نضیر کی جلا وطنی ہوئی تو ان میں انصار کے لڑکے بھی تھے، تو ان کے والدین کہنے لگے کہ ہم اپنے بیٹوں کو نہیں چھوڑیں گے ۔ (یعنی: یہودی مذہب پر، انہیں نہیں رہنے دیں گے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {لا إکراہ فی الدین۔}
(ابن کثیر، ابو الفیداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی المعروف ابن کثیر: تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الفکر، ط ۱۴۱۴ھ؍۱۹۹۴ء ۱/۶۸۲، سورہ بقرہ: ۲۵۶)
قابل غور بات ہے کہ یہ اصرار ایک تو والدین کی طرف سے تھا، جو اپنی اولاد کو اپنے دشمنوں کے تابع دیکھنا نہیں چاہتے تھے، پھر وہ دشمن بھی ایسے جو دین اور قومیت دونوں میں ان کے خلاف تھے، پھر ان خاص حالات کو بھی مد نظر رکھئے، جن میں وہ لڑکے، یہودی مذہب میں داخل ہوئے تھے، حالاںکہ اس دور کی عالمی صورت یہی تھی کہ لوگ اپنے مخالفین کے ساتھ، ظلم وزیادتی کی تمام حدود کو پار کر جاتے تھے، جیسا کہ رومی سلطنت اپنے مذہب کے مخالفین کے ساتھ کر رہی تھی، لیکن ان تمام نزاکتو ں کے باوجود قرآن نے زبردستی مذہب قبول کرنے کو مسترد کر دیا؛ بلکہ صرف دلائل وبراہین سے اسلامی اصول واحکام کو سمجھانے پر اکتفاء کیا گیا۔
اسی لیے تاریخ میں کبھی یہ واقعہ پیش نہیں آیاکہ کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو، اور خود غیر مسلم مغربی مصنفین نے اس کا اعتراف کیا ہے، اسی طرح اسلام نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی، ان کے مذہبی شعار کی پوری پوری رعایت کی ہے۔
۴- ملازمت اور کمانے کا حق:
اسی طرح اسلام نے غیر مسلموں کو مکمل طور سے ملازمت اور کمانے کا حق دیا ہے، انہیں مسلمانوں کی طرح ہر طرح کا پیشہ مکمل آزادی سے اختیار کرنے کا حق ہے۔ حتی کہ مسلم دور حکومت اور خاص طور سے عہد عباسی میں بہت سے غیر مسلموں کو بڑی بڑی وزارتیںدی گئیں اور کسی بھی فقیہ نے اس کو غلط نہیں قرار دیا۔ قرآن اور حدیث کی کسی نص میں اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کی شرکت کو حرام قرار نہیں دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے بعض معاصر فقہاء بشمول علامہ یوسف قرضاوی جو کہ ایک معتدل اور بڑے عالم دین ہیں انہوں نے بھی چند شرطوں کے ساتھ غیر مسلموں کی اسلامی ریاست میں شرکت کو بالکل جائز قرار دیاہے۔
( القرضاوی، یوسف: من فقہ الدولۃ فی الاسلام: مکانتہا ۔ معالمھا ۔ طبیعتھا ۔ موقفہا من الدیمقراطیۃوالتعددیۃ والمراۃ وغیر المسلمین،القاھرۃ ، مصر، دارالشروق، ط۔الخامسۃ،۱۴۲۷ھ؍۲۰۰۷ء، ص ۱۹۴-۱۹۵)
فقہاء کا اتفاق ہے کہ اہل ذمہ کو تمام معاملات میں مسلمانوں کی طرح سارے حقوق حاصل ہوں گے، صرف سود کا معاملہ الگ ہے کہ وہ ان پر بھی مسلمانوں کی طرح حرام ہے۔
اور چند مسائل کے سوا تمام معاملات میں اہل ذمہ کو معاشی مسائل میںمکمل طور سے آزادی حاصل ہے، یہی اسلام کا اصول ہے، اور اسی پر اسلامی تاریخ گواہ ہے۔
’’بیزل یونیورسٹیUniversity of Basel -‘‘، سویزر لنڈ،میں مشرقی زبانوں کے پروفیسر اور مشہو مستشرق عالم’’آدم میتز‘‘ [Adam Metz،۱۸۶۹-۱۹۱۷ء] کی یہ شہادت معمولی نہیں، وہ لکھتے ہیں:
’’ولم یکن فی التشریع الاسلامی ما یغلق دون أھل الذمۃ أی باب من أبواب الأعمال، وکانت قدمھم راسخۃ فی الصنائع التی تدر الارباح الوافرۃ، فکانوا صیارفۃ وتجارا و أصحاب ضیاع وأطباء، بل ان أھل الذمہ نظموا أنفسھم، بحیث کان معظم الصیارفۃ الجھابذۃ فی الشام۔ مثلا۔ یھوداً۔ علی حین کان أکثر الاطباء، والکتبۃ نصاری۔ وکان رئیس النصاری ببغداد ھو طبیب الخلیفۃ، وکان رؤساء الیھود وجھابذتھم عندہ ۔۔۔‘‘
’’اسلامی قانون میں ذمیوں کے سامنے، کسی بھی کام کا دروازہ بند نہیں تھا، اور منفعت بخش ملازمتوں اور کاروبار میں ان کے پیر جمع ہوئے تھے، وہ صراف، سوداگر، ڈاکٹر اور بڑی بڑی پراپرٹی والے تھے، بلکہ ذمیوں کی ایک تنظیم تھی، اکثر بڑے سنار اور جوہری ملک شام میں یہودی تھے، جب کہ اکثر ڈاکٹر عیسائی تھے، اور عیسائیوں کا سردار ہی بغداد میں خلیفہ کا معالج تھا، اور اکثر بڑے بڑے یہودیوں کی بھی خلیفہ تک رسائی تھی۔‘‘
( متز، آدم:الحضارۃ الإسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، الترجمۃ: محمد عبد الہادی ابو زیدہ، اعد فہارسہ:رفعت البدراوی،بیروت، دارالکتب العربی،ط الخامسۃ۱؍ ۸۶)اس کے علاوہ کچھ اور بھی حقوق ہیں، مگر وہ سب ضمنی ہیں، اس لیے ان پر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔
مصادر و مراجع
قرآن وعلوم قرآن
۱- القرآن الکریم۔
۲-ابن کثیر، ابو الفیداء اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی المعروف بابن کثیر: تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الفکر، ط ۱۴۱۴ھ؍۱۹۹۴ء۔
حدیث وعلوم حدیث
۳-البخاری محمد بن اسماعیل ،الصحیح (صحیح البخاری) ، مشمول فِی موسوعۃ الحدیث الشریف الکتب الستۃ ، باشراف و مراجعۃ صالح بن عبد العزیز بن محمد ابراہیم آل الشیخ، دارالسلام للنشر و التوزیع، ط.الثالثہ،۱۴۲۱ھ ؍۲۰۰۰ء
۴- السجستانی ، ابو داؤد سلیمان بن الاشعث بن اسحاق الازدی: سنن ابی داؤد،مشمول فِی موسوعۃ الحدیث الشریف الکتب الستۃ ، باشراف و مراجعۃ صالح بن عبد العزیز بن محمد ابراہیم آل الشیخ، دارالسلام للنشر و التوزیع، ط.الثالثہ،۱۴۲۱ھ ؍۲۰۰۰ء۔
فقہ وعلوم فقہ
۵-ابن قدامہ المقدسي، موفق الدین أبو محمد عبداللہ بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ، المعروف ب ا بن قدامہ المقدسي:المغنی،تحقیق عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ، وعبدالفتاح محمد الحلو،الریاض، دار عالم الکتب، ط۔ الثالثۃ، ۱۴۱۷ھ ؍۱۹۹۷ء .
۶- الامام یوسف،ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم المعروف ب الامام یوسف : کتاب ا لخرا ج ، بیروت، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر،ط ۱۳۹۹ھ ؍ ۱۹۹۷ء ۔
۷- الشامي؍ابن عابدین، محمد أمین بن عابدین المعروف ب الشامي،ابن عابدین: رد المختار علی الدر المختار، بیروت، دار الفکر للطباعۃ، ۱۴۱۲ھ؍۲۰۰۰ء۔
۸-القرافی،شھاب الدین ابی العباس احمد بن ادریس المصری المالکی:الفروق، وبحاشیتہ:ادرار الشروق علی انوار الفروق للامام ابن الشاط ،قدم لھ،وحققہ،و علق علیہ: عمر حسن القیام، بیروت،موسسۃ الرسالۃ، ط۔ الاولی ۱۴۲۴ھ؍ ۲ ۰ ۰ ۳م۔
علوم اسلامي
۹-زیدان، عبدالکریم:احکام الذمیین والمستامنین فی دار الاسلام، موسسۃ الرسالۃ ، ط۔ ۱۴۰۲ھ؍۱۹۸۲ء۔
۱۰-القرضاوی، یوسف:غیر المسلمین فی المجتمع الاسلامی، قاھرہ، مصر، مکتبہ وھبہ،ط الرابعہ ۱۴۲۵ھ؍۲۰۰۵ء۔
۱۱- : من فقہ الدولۃ فی الاسلام:مکانتہا۔معالمھا۔طبیعتھا۔موقفہا من الدیمقراطیۃوالتعددیۃ والمراۃ وغیر المسلمین،القاھرۃ، مصر، دار الشروق، ط ۔ الخامسۃ، ۱۴۲۷ھ ؍ ۲۰۰۷ء۔
۱۲- متز، آدم:الحضارۃ الإسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، الترجمۃ: محمد عبد الہادی ابو زیدہ، اعد فہارسہ:رفعت البدراوی،بیروت، دارالکتب العربی،ط الخامسۃ۔
اردو
علوم اسلامي ومتفرقات
۱۳-عثمانی، تقی: اسلام اور سیاسی نظریات، کراچی، پاکستان، مکتبہ معارف القرآن،۱۴۱۳ھ؍۲۰۱۰ء
ویب سائٹ
۱۴- http://www.taimiah.org
مشمولہ: شمارہ اپریل 2016