سایے کی اہمیت ہر وہ شخص سمجھ سکتاہے جس کو موسم گرما میں گھومنے پھرنے یا محنت و مزدوری کرنے کی ضرورت پڑتی ہو۔ موسم گرما میں دھوپ کی شدت بڑھ جاتی ہے اور تپش و تمازت سے بچنے کے لیے ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو دھوپ میں نکلنے سے بچاجائے اور دھوپ کی شدت سے محفوظ رہاجائے۔ اگر باہر نکلنا ناگزیر ہو تو وہ اپنے گردن اور چہرے کو کم از کم سخت تمتماتی دھوپ سے بچانے کی کوشش کرتاہے اور جتنا ممکن ہو کسی درخت یا عمارت کے سایے میں اپنی مشغولیات انجام دینے کی کوشش کرتاہے۔ یہ اور بات ہے کہ سال میں کچھ دن ہی انسان کو اس کیفیت سے گزرنا پڑتاہے اور پھر وہ اس کیفیت کو بھول جاتاہے۔
دنیا میں دھوپ کی تپش اور تمازت سے بچنے کے لیے تھوڑی سی کوشش سے آدمی کو کوئی نہ کوئی ذریعہ میسر آجاتاہے۔ آدمی اپنی گنجایش اور وسائل کے مطابق اپنا انتظام خود کرلیتا ہے۔ ان سب کے بیچ کسی انسان کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ اس گرمی دھوپ اور تپش کے متعلق سوچے جو کہ روزِ قیامت انسانوں کو محسوس ہوگی اور اس دن وہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے کیا کچھ کرپائے گا۔ جس وقت سورج آدمی کے سر پر آلگاہوگا، ہر شخص پسینے میں غرق ہوگا، کوئی ٹخنے تک، کوئی گھٹنے تک اور کوئی کمر یا گردن تک پسینے میں ڈوبا ہوا ہوگا۔ ازل سے لے کر ابد تک تمام انسان بارگاہِ الٰہی میں جمع ہوںگے۔ اس وقت نہ کوئی درخت ہوگا نہ سایہ ، نہ ایرکولر ہوگانہ کنڈیشنر۔ نہ سرچھپانے کے لیے کسی کو کپڑا میسر ہوگا اور نہ وہ خود کو دھوپ سے کسی بھی طریقے سے بچاپاجائے گا۔ دنیا میں موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی انسان اپنی حیثیت کے مطابق گرمی سے محفوظ رہنے کا انتظام کرتا ہے۔ کھانے پینے کے معمولات بدل جاتے ہیں، رہنے اور آرام کرنے کے طریقے بدل جاتے ہیں ، اپنی معمول کی مصروفیات میں تبدیلی ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اپنے کپڑوں کے انداز میں بھی تغیر آجاتاہے۔ دنیا میں جو گرمی کی شدت اور تمازت ہے، وہ اس وقت ہے جب کہ سورج انسان سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے، جب سورج انسان کے سر سے قریب ہوجائے گا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ تمام انسان قبروں سے اٹھ کھڑے ہوںگے۔ نہ کوئی امیر بچے گانہ غریب، بادشاہ نہ فقیر، عورت نہ مرد، بچہ نہ بوڑھا ۔ بل کہ سارے کے سارے انسان ایک وسیع و عریض میدان میں اللہ کی جواب دہی کے منتظر کھڑے ہوں گے۔
خالق کائنات نے انسان کو چند احکام دے کر صرف عمل کاحکم نہیں دے دیا، بل کہ اپنے بندوں پر وہ اتنا مہربان اور شفیق ہے کہ اس نے قیامت کے اس ہولناک دن بھی گرمی کی شدت اور تمازت سے محفوظ رہنے کاراستا اور طریقہ بتادیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل اُن سات ﴿۷﴾ افراد کی نشاندہی فرمائی ہے ، جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے سایے میں جگہ پائیں گے، جس دن کہ کوئی دوسرا سایہ کسی انسان کو میسر نہ ہوگا:
﴿۱﴾عادل امام ﴿۲﴾وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ﴿۳﴾وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکارہتا ہے ﴿۴﴾ایسے دو افراد جو باہم اللہ کے لیے دوستی کرتے ہوں ﴿۵﴾وہ شخص جس کو کسی مالدار اور حسین عورت نے دعوت التفات دی ہو اور اس نے یہ کہہ کر مسترد کردیاہوکہ میں اللہ سے ڈرتاہوں ﴿۶﴾ وہ شخص جو اس اندازسے صدقہ کرے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو ﴿۷﴾وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ﴿متفق علیہ﴾ امت مسلمہ کے ہر فرد کو چاہیے کہ مذکوربالا سات افراد کی فہرست میں اپنے آپ کو تلاش کرے۔
عادل امام سے مراد محض بادشاہ یا حکمراں ہی نہیں ہیں، بل کہ وہ تمام افراد شامل ہیں جو مختلف فلاحی، دینی، مذہبی، سیاسی، سماجی تنظیموں اور اداروں اور انجمنوں پر فائز ہیں اور جن کے کم یا زیادہ افراد اطاعت میں شامل ہیں۔ ایسے افراد کو اولاً اس بات کاجائزہ لیناچاہیے کہ وہ جس منصب پر فائز ہیں، کیا واقعی اس کے تقاضوں اور ذمے داریوں کو بلاکم و کاست اخلاص نیت اور للہٰیت کے ساتھ ادا کررہے ہیں۔کیا وہ امانت و دیانت کی تمام شرائط کو پوراکرپارہے ہیں۔ دوسری چیز جس کے متعلق انھیں غوروفکر کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے زیراثر افراد کے ساتھ رویے اور معاملات حق و انصاف پر قائم ہیں یا نہیں، کیا وہ اپنے فیصلوں میں عدل و انصاف کو قائم رکھ پارہے ہیں یا نہیں۔ مزید یہ کہ خدانخواستہ ان کے فیصلوں، رویوںاور انداز میں اخلاص وللٰہیت کی بجائے کہیں اپنی پسند، مرضی، خواہش، آرزو اورتمنا تو داخل نہیں ہوگئی ہے اور یہ کہ کہیں وہ مختلف مفادات ، اثرات یا اپنے دوست احباب یا رشتے داروں کے مفاد کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ سازی کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں۔ ان کا مطمح نظر اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کے علاوہ کہیں شہرت، عزت، عظمت، وقار اور Statusکاحصول تو نہیں بن گیا؟
اللہ کے سایۂ رحمت میں جگہ پانے والا دوسرا خوش نصیب وہ نوجوان ہے، جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت اور رضا و خوشنودی کی طلب میں لگائی ہے۔ قول مشہور ہے : ’’جوانی دیوانی‘’ ہوتی ہے۔ جوانی میں انسان کے اندر بے شمارجذبات، امنگیں، خواہشیں، ارمان وآرزو جنم لیتے ہیں اور نظروں کے سامنے جب لذتیں امڈ امڈکر آتی ہوں اور ان کی تکمیل بھی آسان ہوتو پھر نوجوانوں کا استقامت پر برقرار رہنا مشکل ہوجاتاہے۔ لیکن وہ نوجوان جس نے احکام الٰہی کے اتباع میں دنیا کی تمام لذتوں کو قربانی کردیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا۔ فی زمانہ معاشرہ اور سماج جس تباہی، بربادی اور خرابی کاشکار ہے، اس میں زیادہ تردخل نوجوان نسل ہی کاہے۔ لیکن جس نوجوان کو عرش الٰہی کے سایے کی طلب اور آرزو ہوجائے، اس کے لیے دنیا اور دنیا کی لذتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور کامیاب وعقل مند نوجوان وہی ہے جو اپنی تمنائوں، آرزوئوں، خواہشوں اور جذبات کو کنٹرول میں رکھے اور اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت اور اس کی رضا اور خوشنودی میں بسرکرے۔ تاکہ اسے بھی عرش کے سایے میں جگہ مل سکے۔
عرش الٰہی کے سایے کا تیسرا حق دار وہ فرد بتایاگیا ہے، جس کادل مسجد میں اٹکاہوا ہو، وہ فرد جس کو عبادت کی لذت حاصل ہوگی، جس کو نماز سے سرور و کیف حاصل ہوتا ہو، جس کو نماز کی ادائی سے دلی تسکین اور اطمینان حاصل ہوتا ہو اور جو ہمیشہ نماز کا منتظر رہتا ہو،اس بات کا مستحق ہے کہ اسے عرش الٰہی کے سایے میں جگہ ملے۔ جو افراد دل کی مکمل آمادگی کے ساتھ نماز کو اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ، تمام شرائط کے ساتھ، تمام آداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اس انداز سے ادا کرتے ہیں کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہاہے یا میں مالک کے روبرو کھڑا ہوں، نماز کی لذت سے فیض یاب ہوتے ہیں اور ان کا دل بار بار چاہتاہے کہ نماز کے ذریعے اپنے ربط سے کلام کروں، اپنے رب سے ملاقات کروں، اس کے ساتھ مناجات کروں، ایسے لوگوںکو اللہ تعالیٰ نے عرش الٰہی کے سایے میں جگہ دینے کی خوش خبری دی ہے، جن کامعاملہ یہ ہوتاہے کہ دنیا، دنیا کی مصروفیات، دنیا کے جھمیلے اور دنیا کی دیگر بھاگ دوڑ بھی نماز سے دور نہیں کرسکتی۔
عرش کے سایے میں ان دو افراد کو بھی جگہ ملے گی جو باہم اللہ کے لیے دوستی کرتے ہیں، ان کے تعلق اور ربط کی بنیادکوئی مفاد، مطلب، جائیداد، کاروبار یا کوئی دنیوی سبب نہیں ہوتا۔ وہ خالص اللہ کی رضا کے لیے باہم جمع ہوتے ہیں اور اللہ ہی کے لیے ان کی دوستی اور تعلق برقرار رہتا ہے۔ ایسے افراد کاملنا بھی اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ کے دین کے لیے فکر مندی اور سوچ کے لیے ہوتا ہے۔ نیکی کو عام کرنے کے لیے ہوتا ہے، بُرائی کاقلع قمع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تحریک و تنظیم کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتاہے۔ اشاعت دین کی منصوبہ بندی کرنے، مختلف راہوں کو تلاش کرنے اور اس کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت اور جذبات ہی پیش نظر ہوتا ہے۔ یقینا ایسے افراد قابل رشک ہیں۔اللہ کے عرش کے سایے میں روزِ قیامت جگہ کا حق دار وہ شخص بھی ہوگا، جس نے حسن و ولت کو ٹھکرایا ہو اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کیا ہو۔ دولت و ثروت سے کون انسان ہے جو منہ پھیرے اور جسمانی نشاط سے کس کو مفر ہے، لیکن اللہ کی رضا کی خاطر جو شخص ان کو ٹھکراتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بدلے کے طورپر عرش کاسایہ عطا کرتا ہے۔ فی زمانہ مختلف وجوہ کی بنا پر دولت مند اور بااثر خواتین کی طرف سے نوجوانوں کو عیش ونشاط کی دعوت، بڑے شہروں میں عام ہوچکی ہے اور نئی نسل اس قبیح فعل میں ملوث بھی ہوتی جارہی ہے۔ جو نوجوان روزِ قیامت کی پریشانی اور روزِ قیامت کی حولناکی سے بچنے کو اولین ترجیح دے گا، وہ یقینا چند لمحوں کے سرور ونشاط سے خود کو بچائے گا۔ نئی نسل کو اس بُرائی سے بچانے کے لیے یہ خوش خبری بڑا موثر رول ادا کرتی ہے جس سے نوجوانوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ کے عرش کے سایے میں وہ شخص بھی ہوگا جو کہ صدقہ وخیرات محض رضائے الٰہی کے لیے کرتاہے۔ اسے یہ احساس ہوتاہے کہ اس کوجو دولت حاصل ہے، وہ اللہ کا انعام ہے اور اس دولت میں غریبوں اور مجبوروں کابھی حصہ ہے۔ جو اس نکتے کو سمجھ جاتاہے، وہ نہ دولت کے حصول پر اتراتا ہے اور نہ اس دولت کے سہارے نام و نمود اور شہرت کاطلب گار ہوتاہے۔ وہ تو محض انعام خداوندی کے شکرانے کے طورپر اور حق داروں کو حق ادا کرنے کی نیت کے تحت صدقہ وخیرات میں لگارہتا ہے اور لوگوں کی واہ واہ اور تعریف و توصیف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنے فضل سے نوازتاہے اور جس دن انسان کے لیے کوئی سایہ نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ اُسے اپنے عرش خاص کے سایے میں جگہ دے گا۔
اللہ کے عرش کے سایے کا ساتواں حق دار وہ خوش نصیب بندہ ہے جو تنہائی اور اکیلے میں اللہ کو یاد کرتاہے اور اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور گناہوں کو یاد کرکے آنکھیں نم کرتا ہے۔ دنیا میں اجتماعی طورپر عبادات کااہتمام، نیکیوں میں حصے داری اور دیگر خیر کے کام انجام دینا بہت آسان ہے، لیکن انفرادی طورپر اپنے خالق ومالک کو یاد کرنا اور اس کی یاد کے سہارے زندگی گزارنا، اس کے احکام کی پابندی کرنا اور منہیات سے رکنا بڑے اعلیٰ درجے کاعمل ہے۔ اکیلے میں بھی احکام الٰہی پر عمل کرنا، ریاضت و عبادت انجام دینا، اللہ کو یاد کرنا اور اللہ کی یاد میں آنسو بہانا ہر کسی کی بات نہیں، یہ چیز اللہ کے مقرب بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ، ایسے اشخاص کو اللہ تعالیٰ اپنے انعام کے طورپر عرش کا سایہ عطا کرتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش الٰہی کے سایے میں جگہ پانے والوں کی فہرست بیان فرمادی ہے۔ اب اہل ایمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس فہرست میں اپنے آپ کو تلاش کریں۔ اگر اس فہرست میں وہ خود کو موجود پاتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں اور اس پر قائم رہیں اوراگر خدنخواستہ وہ اس فہرست میں خود کو نہیں پاتے ہیں تو پھر انھیں جاگ جانا چاہیے اور اپنی زندگی اور اس کے معمولات کا احتساب کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کے لائحہ عمل میں فوری تبدیلی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ وہ شخص بڑا بدبخت اور بدنصیب ہے جسے اللہ کے عرش کا سایہ روزِ قیامت حاصل نہ ہو۔ اس شخص کی زندگی جانور سے بھی بدتر ہے جو اپنی خواہشوں کاغلام بن گیا، دنیا و مافیہا کا اسیر بن گیا، عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کا شیدا ہوگیا اور نام ونمود، شہرت اور ریاکاری میں غرق ہوگیا۔ ہر شخص کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو صحیح راستے پر ڈالے اور قیامت کے دن عرش الٰہی کے سائے کے مستحق بن سکے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ اگست 2011