لفظ انتخاب یا الیکشن کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں جلسے جلوس، نعرے بازی، ریلیاں دھرنے، تقاریر، جھوٹے وعدے، طاقت کااستعمال، گٹھ جوڑ، غنڈہ گردی، دھوکے بازی، بداخلاقی ، بدکرداری اور اسی طرح کی دوسری تصاویر سامنے آنے لگتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ اس صورت حال میں :’اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتاہو اور فساد کو اصلاح سے ، اضطراب کو امن سے، بداخلاقی کو اخلاق صالحہ سے اور بُرائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کاخواہش مند ہو تو اس کافرض ہے کہ نوع انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انھیںملاکر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے۔ ہم ایک بڑے انقلاب کے لیے اُٹھے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قیادت کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جن کی صفات درج ذیل ہیں:
۱- وہ خود نیکوکار ہوں اور بُرائیوںکو بھلائیوںسے تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
۲- وہ مقصد اور نصب العین سے واقفیت رکھنے والے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے ہوں۔
قائد کی خصوصیات
قائد کی خصوصیات کاپہلا ماخذ قرآن کریم ہے۔ اس سلسلے میں ہم صرف ایک واقعے کو لے کر اپنی بات آگے بڑھانے کی کوشش کریںگے۔ حضرت سلیمان(ع) اور ہُدہُد کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن کہتاہے :
وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا أَرَی الْہُدْہُدَ أَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنo لَأُعَذِّبَنَّہُ عَذَاباً شَدِیْداً أَوْ لَأَذْبَحَنَّہُ أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍo فَمَکَثَ غَیْْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِن سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَقِیْنٍ oاِنِّیْ وَجَدتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ وَأُوتِیَتْ مِن کُلِّ شَیْْئ ٍ وَلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ oوَجَدتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّہِ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُونَ o أَلَّا یَسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئ َ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ oاللَّہُ لَا اِلَہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ oقَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ کُنتَ مِنَ الْکَاذِبِیْنo ﴿نمل:۲۰،۲۷﴾
’﴿سلیمان نے جب ﴾پرندوں کی حاضری لی تو کہاکیابات ہے جو میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا کیا وہ غیرحاضر ہے۔ میں اسے سخت سزا دوںگا یا اسے ذبح کردوںگا یا وہ میرے پاس کوئی صاف دلیل بیان کرے۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہُد ہُد حاضرا اور کہاکہ میں حضور کے پاس وہ خبر لایاہوں جو حضور کو معلوم نہیں اور سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی خبر لایاہوں۔ میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر بادشاہی کرتی ہے اور اسے ہرچیز دی گئی ہے اور اس کا بڑا تخت ہے۔ میں نے پایاکہ وہ اوراس کی قوم اللہ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو انھیں آراستہ کردکھایاہے اور انھیں راستے سے روک دیاہے سو وہ راہ پر نہیں چلتے۔ اللہ ہی کو کیوں نہ سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہرکرتا ہے اور جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو سب کو جانتاہے۔ اللہ ہی ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کامالک ہے۔ کہاہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتاہے یا جھوٹوں میں سے ہے۔‘
اس واقعے کی روشنی میں ایک مسلم قائد کی خصوصیات جو ابھرکرسامنے آتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
﴿۱﴾اپنے لشکر پر وہ مکمل دسترس رکھنے والا ہو ﴿۲﴾افرادِتنظیم سے اور ان کی صلاحیتوں سے واقفیت رکھنے والا ﴿۳﴾احتساب لینے والا اور سزا دینے کی اہلیت رکھنے والا ﴿۴﴾رپورٹ لینے، اسباب جاننے اور دلائل سننے والا ﴿۵﴾سچ اور جھوٹ کے فرق کو واضح کرنے والا ﴿۶﴾ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے کوشاں رہنے والا ﴿۷﴾اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے والا ﴿۸﴾اپنی حیثیت کا صحیح علم رکھنے والا ﴿۹﴾تکبر، گھمنڈ اور بڑائی سے گریز کرنے والا اور ﴿۰۱﴾ہرلمحہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والاہو۔
قائد کی خصوصیات جاننے کا دوسرا اہم ترین ماخذ نبی کی ذات ہے۔ آئیے اس ذاتِ مقدس کے ان پہلوئوں کامختصراً تذکرہ کریں جو ایک اسلامی قائد کے اندر بہ درجہ اتم موجود ہونے چاہییں:
صلہ رحمی، مہمان نوازی اور صداقت وامانت
نبی کریم ﷺ نے پہلی مرتبہ وحی کے نزول کے بعد سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ کو اس کی اطلاع دی۔ آپ پر غیرمعمولی خوف طاری تھا۔ اس حالت کو دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے فرمایا: ’بہ خدا! آپ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کابوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کابندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔‘ پھر آپ نے جب اپنے رسول ہونے کااعلان کیا تو آپ کے سب سے قریبی ساتھی حضرت ابوبکرؓ نے شہادت دی اور ایمان لے آئے۔ اسی طرح جب آپ نے اسلام کی دعوت کو عام کیا اور کوہ صفا پر کھڑے ہوکر مکہ کے لوگوںکو تمثیلی انداز میں پیچھے سے حملہ آور فوج کی اطلاع دی تو سب نے بہ یک زبان کہا: ’ہاں ہمیں آپ کی بات کا یقین ہے۔ کیوںکہ آپ صادق اور امین ہیں۔‘ معلوم ہواکہ ایک قائد کی بڑی خصوصیت اس کے قول وعمل کی یہ صداقت ہے۔ یہ بلندی کردار ہے اور یہ پاکیزگی اخلاق کی غماز ہے۔
حکمت معقولیت اور سمجھ بوجھ
کعبہ کی تعمیر اور حجراسود کے تنازعے کامسئلہ جب اٹھاتو ایسا لگنے لگاکہ خون خرابہ ہوجائے گا۔ لیکن ابوامیہ مخزومی کافیصلہ کہ مسجد حرام کے دروازے سے دوسرے دن جو سب سے پہلے داخل ہوگا۔ اسے حَکَم مان لیںگے۔ اللہ کی مشیت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لوگوںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتو چیخ اٹھے: ’یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، یہ محمدﷺ ہیں۔ اس واقعے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمجھ بوجھ اور معقولیت کی شہادت ثبت کردی۔
شجاعت و پامردی
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بااخلاق، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ ڈرگئے۔ چنانچہ کچھ لوگ آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آرہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوںسے پہلے خبر کی تحقیق کرنے نکل چکے تھے ۔ ابوطلحہؓ گھوڑے پر بغیر زین کے سوار تھے اور تلوار آپ کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ تسلی دے رہے تھے کہ گھبرائو نہیں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
کامل یقین
طائف کاواقعہ سامنے رکھیے۔ آپﷺ لہولہان ہیں۔ اس حالت میں حضرت جبریل(ع) کے ساتھ پہاڑوں کافرشتہ آیااور کہاکہ آپ کہیں تو ہم انھیں پیس ڈالیں۔ آپ نے فرمایا:’نہیں! مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘ اس واقعے سے ایک طرف رسول ﷺ کا یقینِ کامل ظاہرہوتاہے تو دوسری طرف اس سے آپ کی انسانوں سے ہمدردی اور محبت واضح ہوتی ہے۔
مقصد سے لگن
قرآن کہتاہے :
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَیٰ اٰثَارِہِمْ اِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً﴿الکہف:۶﴾
’پس اگریہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے؟‘
داعی حق او رقائد اسلام، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تڑپ واضح کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ ان کی اخروی نجات اور ان کی ابدی فلاح کے لیے آپ کے سینے میں ہر وقت کس قدر تڑپ رہتی تھی۔
بہترین مربی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی اس طرح تربیت فرمائی تھی ، جس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کے دل ودماغ میں احساس ذمے داری اور آخرت کا یقین راسخ ہوگیاتھا۔ صحابہ کرامؓ اس بات پر غیرمتزلزل یقین رکھتے تھے کہ انھیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوناہے پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی ہر طرح کے اعمال کاحساب لیاجائے گا۔
اخوت ومحبت
صحابہ کرامؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ اپنے اصحاب سے بے انتہامحبت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے لیے دیدۂ و دل اور جان و روح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوںسے آپ کے لیے حب صادق کے جذبات اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتاہے اور ان کے دل اس طرح آپﷺ کی طرف کھنچتے تھے جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتاہے۔اس محبت و فدا کاری اور جاں نثاری وجاں سپاری کانتیجہ تھاکہ صحابہ کرامؓ کو یہ گوارا نہ تھاکہ آپ (ص)کے ناخن میں خراش تک آجائے۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹاہی چبھ جائے۔
انکساراور نرم خوئی
فاتح مکہ جب مکے میںداخل ہوتاہے تو اس کی گردن اونٹ پر اس قدر جھکی ہوتی ہے کہ پیٹھ سے کا سر لگاہوا محسوس ہوتاہے۔ نرم مزاجی اور نرم خوئی کی انتہا یہ کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہر دشمن اسلام کی عام معافی کااعلان کردیاجاتاہے۔
عبادت وخشیت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والے تھے۔ اس لیے آپ اللہ کو سب سے زیادہ جاننے اور پہچاننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ خداکاخوف علماء کو ہوتاہے۔‘ ایک عالم دین جو اللہ کی بتائی ہوئی باتوں سے خوب اچھی طرح سے واقف ہو، اس پر ایمان رکھتاہو اور اس کے عقیدے میں کسی طرح کی کمی نہ پائی جاتی ہو، وہی شخص ہوگا جو عبادت وخشیت میں ہمہ تن مصروف رہے گا۔ اس سلسلے میں اللہ کی کتاب قرآن حکیم اور اللہ کے رسول کی تعلیمات مددگا ثابت ہوںگی۔
حکمت
نبی کریم صلی اللہ نے ہرجگہ اس حکمت کو ملحوظ رکھاکہ لوگ فرائض کے پابند رہیں۔
مکارم اخلاق
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَاِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْم﴿القلم:۴﴾’بلاشبہ آپ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر ہیں‘
اسی طرح قرآن آپ کی تصویر اس شکل میں بھی پیش کرتاہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً ﴿الاحزاب:۲۱﴾
’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘
انتخاب
انتخاب اس مرحلے کو دوحصوں میں تقسیم کیاجاناچاہیے: ﴿۱﴾انتخاب کے لیے متعلقہ فرد کے اوصاف ﴿۲﴾طریقہ انتخاب۔
﴿۱﴾انتخاب کے لیے مطلوبہ صفات
قائد کے لیے درج ذیل صفات ضروری بتائی گئی ہیں: وہ کسی عہدے کا خواہش مند نہ ہو۔ علم کتاب و سنت ، تقویٰ، فہم دین، دینی بصیرت، امانت و دیانت ، تدبر و اصابت رائے، عزم و جزم، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ، حلم وبردباری، تحریک اسلامی کی مزاج شناسی، اس سے وابستگی ، دستورکی پابندی، راہِ خدا میں استقامت و متعلقہ ذمے داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت کے لحاظ سے بہ حیثیت مجموعی وہ جماعت میں سب سے بہتر ہو۔
﴿۲﴾ہمارا طریقہ انتخاب
طریقہ انتخاب کی لازمی شرط شورائیت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدحضرت ابوبکرؓ کاپہلا خلیفہ ٔ اسلام منتخب ہونا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا بالترتیب خلیفہ اسلام منتخب ہونا ہمارے لیے بہترین مثالیں ہیں۔ ہم جس انتخابی مرحلے سے گزرتے ہیں وہ بھی اسلام کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے امیر کاایک معیار منتخب کیا ہے اور ہم نے بھی انھی احکام کی روشنی میں معیار طے کیاہے۔ اس معیار پر جو لوگ ہمارے درمیان قابل اعتماد ہوتے ہیں ان کو ہر حلقے میں منتخب کیاجاتاہے، جو تحریکِ اسلامی کے ناظم اعلیٰ کو منتخب کرنے کے لیے ہرحلقے سے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں۔ تمام نمائندگان ایک بڑے اجتماع میں درج ذیل مراحل طے کرتے ہوئے اپنے امیرکاانتخاب کرتے ہیں۔ ﴿الف﴾ قرآن وحدیث کی روشنی میں ابتدائی تذکیر کے بعد، جس میں قائد کی ذمے داریاں، اس کی صفات بیان کی جاتی ہیں ﴿ب﴾شرکائ سے نام تجویز کرنے کی گزارش کی جاتی ہے۔ وہ اپنی معلومات کی حدتک مجموعی طور سے بہتر شخص کا نام تجویز کرتے ہیں۔ اس طرح ایک تجویز شدہ لسٹ تیار ہوجاتی ہے ﴿ج﴾ترتیب سے ان ناموں پر مطلوبہ صفات کی روشنی میں ، ہائوس میں متعلقہ شخص کی غیرموجودگی میں خوش گوار ماحول میں تبادلہ خیال ہوتا ہے، گفتگو کرنے والے حضرات سچائی، دیانت و ایمانداری کامکمل لحاظ رکھتے ہیں اور ہر طرح کی عصبیت سے پاک ہوکر اپنی معلومات کی روشنی میں آرا پیش کرتے ہیں ﴿د﴾گفتگو کامقصدہوتاہے کہ تمام ناموں پر مکمل گفتگو کے بعد ہائوس میں شریک شرکائ کسی ایک نتیجے تک پہنچ سکیں یا اس ڈسکشن یا اس ڈسکشن کے نتیجے میں اکثریت کسی ایک نام پر اطمینان کااظہار کرسکے ﴿ہ﴾ایک بار پھر نمائندگان سے اس بات کی درخواست کی جاتی ہے کہ اپنا فیصلہ تحریری شکل میں فراہم کردیں۔ایک سے زائد ناموں کے آنے پر ﴿جب کہ لسٹ کافی کم ہوچکی ہوتی ہے﴾ ایک بار پھر ان ناموں پر انتخاب کے لیے متعلقہ صفات کی روشنی میں گفتگو ہوتی ہے اور موازنہ بھی کیاجاتاہے﴿و﴾تیسری مرتبہ عام طورپر تقابل و موازنہ کے نتیجے میں ہائوس میں شریک نمائندگان اپنے امیرکا انتخاب کرلیتے ہیں۔ اللہ اکبر۔
اس انتخابی مرحلے سے گزرنے سے قبل، دوران اور بعد میں جن باتوں کاخیال رکھا جاتاہے وہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر ان باتوں کاخیال نہ رکھاجائے تو اجتماعیت میںانتشار برپاہوسکتا ہے۔ ان میں دوباتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں: ﴿۱﴾انتخاب سے قبل ہائوس میں تجویز شدہ ناموں پر تبادلہ خیال سے قبل انفرادی یا اجتماعی شکل کسی کے لیے کنونسنگ نہیں ہوتی اور نہ پرچہ نامزدگی داخل ہوتاہے۔ ﴿۲﴾ہائوس میں تجویز شدہ ناموں پر تبادلۂ خیال ہوتاہے اور ان کی جن صفات کا وہاں تذکرہ کیاجاتاہے اور جو کمیاں بیان کی جاتی ہیں، وہ سب ایک طرح کی امانت ہوتی ہیں، ہر اس شخص کے لیے جو ہائوس میں موجود ہے۔ لہٰذا امانت میں خیانت کرنا بڑا گناہ ہے۔ یہی وہ اعتماد ہے جس کے نتیجے میں تمام افراد تنظیم کے درمیان محبت ، الفت اور ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔
قائد کی ذمے داریاں
انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد قائد پر درج ذیل ذمّے داریاںعائد ہوتی ہیں:
۱-نظم ونسق کو درست رکھنااور ارکان تنظیم کی تربیت و رہ نمائی ۲-تنظیم کے اغراض و مقاصد کے لیے خودسرگرم عمل رہنا اور دوسرے ارکان کو بھی سرگرم عمل رکھنا۔ ۳-اپنے کاموں کو شورائی طریقے سے انجام دینا۔
نظم و نسق کو درست رکھنا
اس شق کے تحت واضح ہوتاہے کہ ﴿۱﴾ہر قائد کے ماتحت ہوتے ہیں، ایسے لوگ جو اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ قائدکے احکام کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی ذمے دار تک ہر قائدخود بھی کسی نہ کسی درجے میں ماتحت کی حیثیت رکھتاہے۔ اپنے سے اعلیٰ ذمے دار کے احکام کاپابند ہوتاہے۔ ﴿۲﴾نظم ونسق کو درست رکھنا، اس طرح کے افراد تنظیم تنگی نہ محسوس کریں اور جو ذمے داریاں ان پر عائد ہوتی ہوں ان کو بہ خوشی اور بہ حسن و خوبی مقررہ وقت تک انجام دے دیں۔ ﴿۳﴾دستور تنظیم /تحریک کے پابند ہوں اور خلاف ورزی کرنے والوں کا نوٹس لیاجائے۔ ﴿۴﴾شورائیت کے تحت کیے گئے فیصلوں کو خوش دلی کے ساتھ اختیار کریں یا کم از کم اس کی خلاف ورزی نہ کریں۔ ﴿۵﴾ان سب کے علاوہ دیگر امورجن کانظم ونسق سے متعلق ہو اس کی جانب توجہ دی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ قائد خودہی اپنی ذات کے تعلق سے نظم و نسق برقرار رکھنے میںبے توجہی کااظہار کرے اور نہ ایسا ہوناچاہیے کہ اجتماعیت کے تعلق سے ان باتوں کونظرانداز کردیاجائے۔ اگرایسا ہواتو نتیجہ یہ ہوگاکہ نظم ونسق خراب ہوگا، انتشار برپاہوگا اور لوگوں کی ایک بھیڑہوگی جو جانوروں کی طرح چہارجانب منھ اٹھائے دوڑی جارہی ہوگی لیکن ان میں نہ کوئی نظم ہوگا اور نہ تنظیم۔
تربیت و رہ نمائی
تربیت و رہ نمائی میں دوالفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ﴿الف﴾ تربیت ﴿ب﴾ رہ نمائی۔
تربیت کا بہترین مظہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااسوہ ہر اسلامی قائد کے لیے نمونہ ہے۔ اس ذات اقدس کاابھرا ہوا پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تربیت جہاں تعلیم وتدریس سے کی وہیں دوسری جانب آپﷺ کاکردار اس کے عملی پہلو ئوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ پس ہمارے قائدین کے لیے بھی لازم ہواکہ علمی پہلوئوں کو تربیت کاذریعہ بنانے کے ساتھ ساتھ عملی پہلوئوں کو اپنے کردار اور اعمال کے ذریعے پیش کریں۔ ماتحت قائد کی باتوں کو تسلیم کریںاور ان کے اشارے پر دوڑ پڑیں۔
ایک شخص منزل مقصود تک پہنچنے کاخواہش مند ہے، دل میں بے انتہا تڑپ رکھتاہے، اس کے لیے کوشاں ہے، لیکن راستے کاعلم نہ ہونا اس کی اس خواہش کو تکمیل تک نہیں پہنچنے دیتی۔ بعض اوقات وہ تن تنہا نکل کھڑا ہوتا ہے لیکن مختلف مراحل طے کرنے کے بعد علم ہوتاہے کہ وہ تو راستہ بھٹک چکاہے۔ ایسے موقعے پر ایک رہ نما اس کو راستہ بتادے، بھٹکنے سے بچالے اور اس کو اس راستے کی نشان دہی کرادے جس پر چل کر وہ منزل مقصود حاصل کرلے، یہی رہ نمائی ہے۔
﴿۲﴾اغراض و مقاصد
ہم یہ کام کیوں کررہے ہیں؟اور ہم اس کام کو کرنے کے بعد کیاحاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر یہ دونوں باتیں واضح ہوجائیں تو سمجھیے کہ ہم اغراض و مقاصد سے واقف ہوگئے۔ اب ہمارا ہر کام سوچ سمجھ کرہوگا اور پھر اس کام کاطریقہ وہی ہوگا، جس سے مقصد کاحصول ممکن ہوجائے۔ دوسرے الفاظ میں ہم شعوری طورپر اپنے کاموں کی انجام دہی میں مصروف عمل ہوںگے اور ہمارے سامنے ایک واضح اور متعین کام کرنے کے لیے موجود ہوگا۔ آئیے ہم ان اغراض و مقاصد کی یاد دہانی کرتے چلیں جن کو ہم نے اس تنظیم کے اغراض و مقاصد سے تعبیر کیاہے اور ہمارا نصب العین کیاہے اور ہم کیا تبدیلی لاناچاہتے ہیں اس کو بھی تازہ کرلیں۔
خودسرگرم عمل رہنا
ایک بہت بڑے مقصد کے تحت کاموںکو انجام دیاجارہاہوتو ظاہر ہے کہ وہ بڑا مقصد خود بہ خود حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قائد خود اپنی ذات سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے وابستگان کے سامنے وہ نمونہ پیش کردے جو اس بات کی شہادت دے کہ قائد نے اپنا حق ادا کردیاہے۔ سرکلر جاری کرنا، میٹنگیں بلانا اور برخاست کرنا،ڈسپلن برقرار رکھنا ، افراد تنظیم کی تربیت کرنا اور اسی طرح کے دیگر کاموں کے علاوہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ آپ دعوت حق کو پہنچانے میں پیش پیش رہیں کہ جو آپ کی تنظیم کے فروغ اور استحکام کے لیے لازمی شرط ہے۔
دوسروںکو سرگرم عمل رکھنا
قائدکی ذاتی سرگرمی اور اس کاعملی نمونہ اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ وہ اپنے ماتحت افراد کو سرگرم عمل رکھنا چاہتاہے۔ اگرایساہوکہ قائد صرف پیپرورک کرکے یہ سمجھ لے کہ اس کے ماتحت اس کی جی حضوری میں لگ جائیںگے یا یہ سمجھے کہ کیونکہ افراد تنظیم شعوری ہم آہنگی کے تحت ہی اس تنظیم سے وابستہ ہوئے ہیں لہٰذاقائد کوئی عملی نمونہ پیش کرے نہ کرے وابستگان تنظیم اپنے کاموںکو بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہیں گے یا دیتے ہی رہنا چاہیے، تو یہ مفروضہ صرف مفروضہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بہت متحرک رہنے والے افراد اوربھی سست، کاہل اور ناکارہ بن جائیں گے۔ دوسروں کو سرگرم عمل رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے افراد تنظیم خالی نہ ہوں۔لہٰذا قوموں کی موثر تنظیم اور تقسیم بہت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس طرح قیادت سازی کاعمل پروان چڑھتاہے اور تنظیم ہر سطح اور ہرمحاذ پر مضبوط نظرآتی ہے۔
ہر شخص ذمے دار ہے
آخری بات یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ پس وہ امیر جو لوگوں کاذمے دار ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا اور وہ جو آدمی اپنے گھر والوں کاذمے دار ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال کیاجائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمے دار ہے۔ اس سے ان کے بارے میں پوچھاجائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کاذمے دارہے اس سے اس کے بارے میںپوچھاجائے گا۔ آگاہ رہوتم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھاجائے گا۔‘ ﴿صحیح مسلم﴾ معلوم ہواکہ کوئی آدمی بھی غیرذمے دارنہیں، ہر شخص کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی درجے میں ذمے دار ہے اور اس پر اپنی ذمے داری ادا کرنا نہ صرف لازم ہے ، بل کہ غیرذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے اس سے سوال بھی کیاجائے گا اور جس سے سوال کرلیاگیا بس جانیے کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر مزید بتایاکہ یہ ذمے داری جو تم پر ڈالی جارہی ہے وہ کوئی آسان ذمے داری نہیں ہے۔ کہاکہ:’اورہم ضرور تمھیں خوف وخطر ، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے توکہیں کہ ’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جاناہے۔’انھیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوںگی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘ ﴿البقرہ:۱۵۵﴾ تو یہ ہے وہ آزمائش اور یہ ہے اُس آزمائش کابدل۔ اب فیصلہ کرنے والے فیصلہ کرلیں کہ انکا نصب العین کیا ہے۔ وہ وقتی، فانی اور بے وقعت چیزکو پسند کریںگے یا دائمی اور لافانی چیز کے حصول میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرڈالیںگے۔ ذمے دار وہ بھی ہیں جو کسی نہ کسی سطح کے قائد ہیں اور ذمے دار وہ بھی ہیں جو کہیں نہ کہیں اس حدیث کی روشنی میں ذمے دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011