تحریکات اسلامی کے ۲۵ سال

اکیسویں صدی کا پہلا ربع یعنی پچیس (25) سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس موقع سے بہت سی عوامی بحثیں ابھر رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز جست سے متعلق ہیں۔ میں یہاں صرف ایک بحث کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں جو گذشتہ چوتھائی صدی سے مسلم دنیا کے حوالے سے جاری ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آیا دنیا بالخصوص مسلم دنیا ’پوسٹ اسلام ازم‘ کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے؟

درحقیقت یہ بحث مسلم ممالک میں شروع نہیں ہوئی، جنھیں اسلام پسندوں کا اصل گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے مغرب کے نومستشرقین نے اپنے تجزیاتی ٹول (Tool) کے حوالے سے یہ بیانیہ پیش کیا کہ اسلامی تحریکوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ بیانیہ اس وقت مزید مضبوط ہوا جب اس صدی کی دوسری دہائی کے اوائل میں رونما ہونے والے عرب بہار کے انقلابات کو ڈیپ اسٹیٹ نے سبوتاژ کیا۔ نومستشرقین نے اس کو اسلام پسندی کی ناکامی کے طور پر دیکھا۔ بعد ازاں مسلم دنیا کے کچھ معروف ماہرین تعلیم بھی اس بیانیے کو سہارا دینے کے لیے آگے آئے۔ اس وقت یہ بیانیہ علمی طور پر قائم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس کا تنقیدی تجزیہ کرنے والا کوئی قابل قدر مطالعہ نہیں مل سکا۔

اس بیانیے کا دعویٰ یہ ہے کہ عرب بہار کے انقلابات کو کچلنے یا دبانے کے بعد، ’سیاسی اسلام‘ کے حامیوں کو حکمراں طبقوں کی طرف سے شدید زد و کوب کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ان کی تنظیمی صلاحیت کو توڑ کر رکھ دیا۔ اسلام پسند سیاسی دھارے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ وہ اپنی پچھلی کمائی کو بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ ان کی مقبولیت میں بھی نمایاں کمی آئی۔ اب ان کا اتنا اثر ورسوخ نہیں ہے جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ تمام اسلامی منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ حالات کے دباؤ میں وہ تحریکیں بنیادی تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔

بہرحال اسلام پسندی کے ختم ہونے کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ کتنے غیرحقیقی اور کم زور ہیں اسے سمجھنے کے لیے غزہ کا طوفان الاقصیٰ ہی کافی ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حماس اخوان المسلمون کے نظریات کی حامل ہے اور انھیں برقرار رکھتے ہوئے منظرعام پر آئی۔ اقصی کے نام سے جو طوفان انھوں نے برپا کیا، اس نے اسلام پسندی کو دوبارہ توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ غزہ میں اس تاریخی مزاحمت نے تمام اسلامی تحریکوں کو نئی زندگی بخشی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ ستمبر میں اردن میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی اسلامک ایکشن فرنٹ 138 رکنی پارلیمنٹ میں 31 نشستیں جیت کر پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ یہ انتخاب مکمل طور پر شفاف نہیں تھا اور اس کے عمل پر مختلف پابندیاں عائد تھیں۔ تب بھی اس انتخاب کے نتائج نے صاف دکھا دیا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ مخالفین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ خطے میں جہاں بھی آزادانہ انتخابات ہوں گے اسلام پسند سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھریں گے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست نہیں کہ اسلام پسند تحریکات کے افراد آمروں کے جبر کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ شام نے ہمیں دکھایا ہے کہ کس کو بھاگنا پڑا۔

مغرب کا ایجاد کردہ تجزیاتی ٹول، پوسٹ اسلام ازم، اسلامی تحریکوں کا جائزہ لینے کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ فرانسیسی سماجی سائنسداںجِل کیپل (Gilles Kepel) پوسٹ اسلام ازم کے نظریہ کا ایک اہم حامی ہے۔ ایک ایسے اسلاموفوبک شخص سے اسلام پسندی کے ایماندارانہ تجزیے کی توقع رکھنا فضول ہے جو لندن کو ’لندنستان‘ کہتا ہے کیوں کہ لندن کا میئر پاکستانی نژاد ہے۔ مزید یہ کہ وہ یہ تجزیہ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کر رہے ہیں، جب کہ یہ یقینی تھا کہ الجزائر کے عام انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ برسراقتدار آئے گی تو فرانسیسی حکومت نے خود اس انتخاب کو سبوتاژ کر دیا۔ بعد کے دس سال اندرونی کشمکش کے سیاہ دور تھے۔ یہ لوگ سارا الزام اسلام پسندوں پر ڈالتے ہیں اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے والوں کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ اسی ٹول کو اپنانے والے ایک اور فرانسیسی سماجی سائنسداں اولیور رائے ہیں، اس موضوع پر ان کی کتاب کا عنوان ’ The Failure of Political Islam ‘ہے جو کہ مذکورہ الجزائر کے واقعے کے تناظر میں لکھی گئی تھی۔ ایرانی ماہر تعلیم آصف بیات اپنی تصنیف ’ Post lslamism the Changing Faces of Political Islam ‘ میں اپنے دلائل کو ایک اور سطح تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

عرب بہار کے انقلابات بذات خود اس نظریے کے غلط ہونے کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ انقلابات اسلامی تحریکوں کی ہم وار کی ہوئی سرزمین پر رونما ہوئے۔ ان کا پس منظر غیر سیاسی اسلام نہیں بلکہ سیاسی اسلام ہی رہا ہے۔ اولیور رائے اور اس کے ساتھیوں نے ثبوت کے طور پر یہ حوالہ دیا کہ اسلام پسند اس حقیقت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں کہ انھیں انتخابات میں آٹھ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے۔ حالاں کہ عرب بہار کے بعد ہونے والے آزادانہ انتخابات میں اسلام پسندوں کا تنہا اقتدار میں آنا یا سب سے بڑی واحد جماعت بننا دیکھا گیا۔ غرض یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو کئی بار غلط ثابت ہو چکا ہے اور اس کے جواز کے لیے نت نئے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ مصری ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی کے دربار کے نام نہاد علما انھیں مذہبی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی نئی تشریح یہ ہے کہ اسلام جیت رہا ہے، اسلام پسندی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جیتنے والا کون سا اسلام ہے؟ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

اسلام پسندی جدید دور میں اسلام کا سب سے طاقتور اظہار ہے۔ اسے اسلام سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ اسلام پسندی اسلام کا مترادف نہیں ہے۔ اسلام پسندی کے علاوہ اسلام کے دوسرے اظہار بھی ہیں۔ اسلام پسندی سے مراد اسلامی تحریکوں کے نظریات اور پالیسیاں ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں اسلامی تحریک کا تصور بہت زیادہ پھیل گیا ہے۔ صرف اخوان المسلمون، جماعت اسلامی یا ہم خیال تنظیمیں ہی اس کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ نئے محققین کی نظر میں اسلامی تحریک میں نہ صرف سلفی تنظیمیں شامل ہیں بلکہ تبلیغی جماعت جیسے روحانی گروہ بھی شامل ہیں۔ ان کی نظر میں ہر وہ چیز جو کسی بھی سطح پر اسلامی نظریات کی نمائندگی کرتی ہو وہ اسلامی تحریک ہے۔ یہ تمام تاثرات، کچھ غلطیوں کو چھوڑ کر، ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ یقین رکھنا بے وقوفی ہوگی کہ اخوان یا اس جیسی تنظیموں کے عارضی انتخابی دھچکے یا حکومتی جبر کے پیش نظر اسلام پسندی کا دور ختم ہو گیا ہے۔

اسلامی تحریکوں کا مطالعہ کرنے والے یمنی محقق نبیل البکیری کہتے ہیں: ’’جب کہ طوفان الاقصیٰ سے جاری طوفان کو ابھی مختلف امکانات کی راہیں کھولنی ہیں، مغرب کے لوگ اسلامی تحریکوں کا مطالعہ ان محرکات سے آگہی کے بغیر کر رہے ہیں جو ان کے ظہور اور بقا کا باعث بنے۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ اگر مغرب نے اسلام کو سیاسی طور پر غاصبانہ قبضے میں لے لیا ہوتا تو دنیا میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا ہوتا۔‘‘

مصری محقق احمد سلطان بھی اس رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’پوسٹ اسلام ازم کے بارے میں جو کچھ عرب تحقیقی اداروں میں دیکھا جاتا ہے اس میں سے زیادہ تر مغربی میڈیا اور علمی مراکز سے نقل کیا جاتا ہے۔ جب سے اخوان کی بنیاد مصر میں 1928 میں رکھی گئی تھی، اس کی جڑیں معاشرے میں بہت گہری ہیں اور یہ تحریک آزمائشوں کے کئی مراحل سے گزری ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا اثر ختم ہو گیا ہے، بلکہ سیاسی، مذہبی، سماجی وجوہات اس کے وجود کو مضبوط کرتی رہیں گی۔ اس لیے مغربی اصطلاح ’پوسٹ اسلامک‘ بنیادی طور پر غلط ہے۔ یہ ٹول اسلام پسندی کی پیمائش اور تشخیص کے لیے کافی نہیں ہوگا۔‘‘

ناکامیاں، جائزے

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی تحریکوں کو ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یقینًا کرنا پڑا ہے۔ انتخابی شکست بھی ناکامیوں کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ جب سیاسی حالات بدلتے ہیں، خود ساختہ پابندیوں کی وجہ سے یا بیرونی طاقتوں یا ڈیپ اسٹیٹ کی مداخلت کی وجہ سے پارٹی کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جب آمریتیں جمہوری نظاموں پر حملہ آور ہوتی ہیں، دوسری جماعتوں کی طرح اسلام پسند جماعتیں بھی دبا دی جاتی ہیں یا پس دیوار زنداں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر حکمراں جماعت اپنے قابو سے باہر وجوہات کی بنا پر بہتر حکومت فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام حکمراں جماعت کو سزا دیں۔ دنیا کی غالب اسلام پسند جماعتیں بھی ان حالات سے مختلف درجوں پر گزری ہیں۔ لیکن شکستوں اور بغاوتوں کو اس بات کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سیاسی مکتب فکر ڈوب رہا ہے۔ وہ جماعتیں ایک اور سازگار تناظر میں مضبوطی کے ساتھ واپس آ سکتی ہیں۔

مصر میں اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (FJP) کے تجربات کو اکثر اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام پسند سیاست پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، یہ تجزیہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ مصر کی تاریخ کے پہلے آزاد پارلیمانی انتخابات (2011.12) میں، FJP نے %42 نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی کے امیدوار محمد مرسی نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔ اگلے سال، سیسی کی قیادت میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اخوان کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ یہ اب بھی جاری ہے۔ سیسی کی دھمکی ہے کہ وہ اخوان کا کوئی نام و نشان نہیں رہنے دے گا۔ یہ اسلام پسندی کی پسپائی نہیں بلکہ ریاستی دہشت گردی کی کارفرمائی ہے۔ تنقید کی جاتی ہے کہ اخوان نے مصر میں ڈیپ اسٹیٹ کو سمجھنے میں اسٹریٹجک غلطی کی، انھیں پہلے صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرنا چاہیے تھا اور ایک مشترکہ امیدوار ہی کافی تھا۔ یہاں تک کہ تیونس کے شیخ راشد غنوشی نے بھی، جو کہ اسلام پسندی کے سرکردہ نظریہ سازوں میں سے ایک ہیں، یہ تنقید کی ہے۔ اسی لیے تیونس میں، جہاں پہلا عرب بہار انقلاب برپا ہوا، اسلامی تحریک النہضہ دیگر سیکولر جماعتوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھی۔ تیونس کی سب سے بڑی سیکولر جماعت ندائے تونس کے رہ نما باجی قاید سبسی النہضہ کی حمایت سے تیونس کے صدر بن گئے۔ غنوشی نے 2014 میں ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام بڑی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے عمل کی بھی قیادت کی۔ لیکن حالات اس وقت بدل گئے جب قیس سعید، جس کی اپنی پارٹی بھی نہیں تھی، صدر منتخب ہوگیا، النہضہ نے بھی آخری مرحلے میں اس کی حمایت کی تھی۔ اب وہ مکمل آمر بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے 82 سالہ غنوشی کو بھی جیل میں ڈال رکھا ہے، جو پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی تھے۔ فرانس اور خطے کے کچھ ممالک اس کے پیچھے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس صورت حال کے پیچھے اسٹریٹجک غلطیاں ہی نہیں ہیں۔ جیسا کہ ایک اور سیکولر سیاسی رہ نما، منصف مرزوقی نے، جو النہضہ کی حمایت سے تیونس کے صدر بنے تھے، کہا کہ ان بغاوتوں کی خفیہ منصوبہ بندی ایک عالمی گروپ کر رہا ہے۔

جب 2021 میں مراکش کی اسلام پسند حکم ران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس وقت اسلام پسندی پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ 2011 اور 2016 میں جنھوں نے مسلسل دو بار مخلوط حکومتوں کی قیادت کی تھی، وہی اسلام پسند، صرف 12 نشستیں جیت سکے اور آٹھویں نمبر پر پہنچ گئے۔ مراکش میں اصل طاقت ابھی تک بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی خارجہ پالیسی کا فیصلہ کرتا ہے۔ فی الحال بادشاہ کی پالیسی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ وزیراعظم کو اسے ماننے یا استعفیٰ دینےکے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے وزیراعظم ڈاکٹر سعد الدین عثمانی سے بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے بادشاہ کے دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ایک جائزہ یہ بھی ہے کہ عثمانی، جو دراصل اکیڈمی کے آدمی تھے، بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کے اس جال میں پھنس گئے جو اسلام پسندوں کو کم زور کرنے کے لیے بچھایا گیا تھا۔ بہرحال پارٹی ابھی تک اس صدمے سے باہر نہ نکل سکی۔

مصر میں اخوان اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی دو اسلامی تحریکیں ہیں جن پر گذشتہ چوتھائی صدی کے دوران ریاست نے سب سے زیادہ ظلم کیا ہے۔ حسینہ واجد نے جو ایک سخت گیر ڈکٹیٹر تھی، 2013 کے بعد جماعت کے کئی رہ نماؤں کو جھوٹے الزامات کے تحت پھانسی پر لٹکا دیا اور دوسرے متعدد لیڈروں کو قید کر دیا جن میں سے کئی جیل کے اندر علاج کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے وفات پاگئے۔ جماعت کی طرف سے چلائے جانے والے سماجی خدمت کے تمام ادارے یا تو تباہ ہو گئے یا ان پر قبضہ کرلیا گیا۔ عوامی احتجاج کو برداشت کرنے میں ناکام حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد جماعت عوامی میدان میں واپس آگئی ہے۔ عام انتخابات کا سامنا کرنے کے لیے اس وقت حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ تحریک خلافت، مجلس الخلافہ، جمعیت العلماء، نظام الاسلام، حفاظت اسلام جیسی تمام ہم خیال تنظیموں کے ساتھ بات چیت شروع ہو گئی ہے، جنھیں حسینہ کے دور میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کچھ عام سیاسی جماعتوں سے بھی معاہدہ ہو سکتا ہے۔

تحریکات اسلامی کی تیسری نسل

تیسری نسل کی اصطلاح انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے سابق صدر شیخ احمد ریسونی نے متعارف کرائی ہے۔ تیسری نسل کی تحریکوں سے، مراد ترکی کی حکم راں پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی، مراکش میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP)، موریتانیا میں ’تواصل‘ (National Rally for Reform and Development) ہے۔ ان کے ناموں میں ’اسلامی‘ کا جز نہیں ملتا۔ ان کے انداز اور پالیسیاں روایتی اسلامی تحریکوں سے مختلف ہیں۔ اور وہ اسلامی تحریک ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتیں۔ انھوں نے عوامی مسائل کے راستے عوامی پذیرائی حاصل کی ہے۔

الجیریا میں اسلامی تحریک حرکۃ مجتمع السلم ’حمس‘ کے سابق صدر عبدالرزاق مقری کی قیادت میں کوالالمپور فورم فار تھاٹ اینڈ سیولائزیشن کے نام سے ایک عالمی تعلیمی اور ثقافتی پلیٹ فارم موجود ہے۔ یہ پلیٹ فارم یہ خیال پیش کرتا ہے کہ اسلامی تحریکوں کو اب اسلامی نظریات پر مبنی شہری منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ یہ ہر سال کوالالمپور میں مطالعاتی نشستوں کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ راشد غنوشی جیسے لوگ پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ مذہبی تبلیغ (دعوت) اور سیاسی عمل (سیاسیات) وہ مشن ہیں جن کو دو الگ سطحوں پر اور مختلف انداز میں انجام دیا جانا چاہیے، اور اس کے مطابق انھوں نے تنظیمی ڈھانچے پر نظر ثانی کی تھی۔ روایتی حلقوں میں اس بات پر بھی سرگرم بحث ہوئی کہ اسلامی تحریکوں کو روایتی ورثے کو برقرار رکھنے کے بجائے جو کچھ تبدیل کیا جانا چاہیے (متغیرات) اسے تبدیل کرکے اور ان اصولوں اور اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے جنھیں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی تحریکوں کی تیسری نسل کی نظریاتی سطح انھی مباحث کے نتیجے میں تشکیل پائی۔

تیسری نسل کی سب سے قابل ذکر تحریک ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ہے، جسے اپنے مخفف اے کے پارٹی سے جانا جاتا ہے۔ رجب طیب اردوگان کی قیادت والی جماعت اپنی بنیادی تنظیموں سے مواد اور انداز میں بہت مختلف ہے، جن کی قیادت نجم الدین اربکان کر رہے تھے۔ اس تبدیلی نے اسے الٹرا سیکولر ترکی کو تھامنے کی طاقت دی۔ 2002 میں اقتدار میں آنے والی اے کے پارٹی نے آج تک بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار برقرار رکھا ہے۔ پارٹی کے پاس مسلسل سات پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے کا ریکارڈ بھی ہے۔ اس وقت وہ نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔

اگرچہ موریتانیا کی ’تواصل‘ ابھی تک اقتدار میں نہیں آ سکی، لیکن 2013، 2018 اور 2023 کے پارلیمانی انتخابات میں وہ دوسری بڑی پارٹی تھی۔ موریتانیا کے کچھ حصوں میں غلامی جیسی روایات برقرار ہیں۔ تواصل نے ایسے سماجی مسائل کو اٹھا کر عوامی پذیرائی حاصل کی۔

سینیگال میں تصویر مختلف ہے۔ پچھلے سال کے انتخابات میں، The African Patriots of Senegal for Work, Ethics, and Fraternity (فرانسیسی مخفف–PASTEF)، جسے عثمان سونکو نے 2014 میں تشکیل دیا تھا، اقتدار میں آئی۔ عثمان سونکو، جو سینیگال کے وزیر اعظم ہیں، ایک اسلامی اسکالر بھی ہیں، پہلے اسلامی تنظیموں میں کام کر چکے ہیں۔ جیسا کہ تنظیم کے نام سے ظاہر ہے، یہ مزدوروں اور دیگر پسماندہ گروہوں کا ایک بڑا محاذ ہے۔ اس پارٹی نے شہریوں کو فرانسیسی قبضے کے خلاف منظم کرکے بالواسطہ تنظیم کو مضبوط کیا جو اب بھی جاری ہے۔

انور ابراہیم ملیشیا میں چینی نسل کی نمائندہ پارٹی کی حمایت حاصل کرکے اقتدار میں آئے۔

وہ اسلامی تحریکوں کے اتحاد کے راستے سیاست میں داخل ہوئے۔ اگرچہ پہلے پہل یہ اتحاد کم زور دکھائی دے رہا تھا لیکن وہ کسی سے ٹکرائے بغیر آگے بڑھنے میں کام یاب رہا۔ انھوں نے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی، جنھوں نے ان کے ساتھ ظلم روا رکھا تھا۔ وہاں کی اہم اپوزیشن جماعت ملیشین اسلامک پارٹی، PAS پارلیمنٹ میں سب سے بڑی واحد پارٹی بھی ہے۔ اگرچہ یہ اور اسی طرح کی آزمائشوں کو اسلام پسندی کے کھاتے میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسے رہ نما اور جماعتیں اسلامی اقدار کی رہ نمائی کرتی ہیں۔ ان کے سیاسی تجربات کام یاب یا ناکام ہو سکتے ہیں۔

پچھلی ایک چوتھائی صدی میں اسلامی علوم اور تحقیق کے میدان میں بھی بڑی پیش قدمی ہوئی ہے۔ مسلم محققین نوآبادیاتی مطالعات کے لیے ایک واضح سمت فراہم کرنے کے قابل نظر آتے ہیں۔ ان محققین میں اسلامی تحریکوں کے اندر اور باہر دونوں کی شخصیات شامل ہیں۔ وہ اسلام کو جدید دور میں سب سے زیادہ قابل قبول نظریے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مثالوں میں خلافت کا نیا بیانیہ جسے سلمان سید (Recalling the Caliphate) اور امت مسلمہ کا امتی تصور شامل ہیں جسے عویمر انجم جیسی شخصیات پیش کررہی ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223