تحریکی حمیت، تعلقات کی خوش گواری اور جماعتی استحکام

اللہ تعالی اور اس کے رسول سے سچی محبت، مکمل اطاعت و فرماں برداری کے بعد افراد تحریک کے لیے سب سے بڑھ کر محبوب تحریک اسلامی ہے۔ جس طرح کوئی اپنا یا کسی عزیز و محبوب کا ذرا سا نقصان گوارا نہیں کر سکتا اسی طرح کسی بھی قیمت پر وہ تحریک کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ دین، دعوت دین اور اقامت دین کی تحریک کے لیے افراد تحریک سے یہی مطلوب ہے کہ ان کے اندر دینی حمیت کا بے پناہ جذبہ موجود ہو اور وہ حمیت جاہلیہ سے بالکل پاک ہوں۔ تحریک اسلامی کا اپنے افراد پر حق ہے کہ وہ تحریک کی بہتر سے بہتر شبیہ اس ملک کے انسانوں کے سامنے پیش کریں۔ تحریک اسلامی کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ اس تحریک کا مقصد تمام انسانوں کے لیے خیر و فلاح، امن و سلامتی، عدل اور رحمت و محبت ہے۔ اس اہم پہلو کا مظاہرہ افراد تحریک کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ذریعے پیش کرنا ہوگا۔ یقینًا یہ ایک انتہائی دل کش اور پرکشش تصویر ہوگی۔ تحریک اسلامی کی ظاہر و باطن میں مطابقت کی یہ تصویر برادران ملت ہی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں برادران وطن کو تحریک سے قریب کرے گی۔

تحریکی حمیت

کوئی شخص کسی کے ماں باپ یا بزرگوں کی توہین کرے، کوئی کسی فرد کے خاندان، وطن یا علاقے کا غلط انداز میں تذکرہ کرے تو اس فرد کے اندر حمیت و غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس کی تردید کرے۔ اعتراضات کا جواب دے۔

تحریکی حمیت کا اہم تقاضا یہ ہے کہ دین کی مظلومیت اور مغلوبیت کا شدید احساس ہو اور یہ احساس جذبہ عمل کو بیدار کرے۔ طاغوت سے شدید نفرت ہو۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی کی محبت ہو اور طاغوت سے بھی محبت ہو۔ دین کو غالب نہیں کیا جاسکتا اگر دلوں میں باطل اور طاغوت کے لیے نرم گوشہ ہو۔

باطل پرست اور طاغوت کے پجاری باطل کے لیے اور جاہلیت پسند اپنی جاہلیت کے لیے بہت زیادہ باحمیت ہوتے ہیں۔ باطل کی حمایت اور جاہلیت کے دفاع کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں وہ اپنی تحریک اور قائدین سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔

اگر کوئی فرد تحریک کی بنیادی فکر کو غلط قرار دے، نصب العین کو غیر اسلامی قرار دے اور تحریکی جدوجہد کو دنیا داری یا محض سیاسی قرار دے تو تحریکی حمیت کا تقاضا ہے کہ افراد تحریک دلائل کی روشنی میں اپنے نصب العین اور تحریکی سرگرمیوں کو سمجھائیں۔ مخالفین اور معترضین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کریں، حقائق کو سامنے لائیں، عام حالات میں تحریکی حمیت کیا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی بتاتے ہیں کہ:

’’ایک آدمی اگر ایک امر کو حق سمجھ گیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کے لیے ہر طرح کی زحمتیں اٹھائے اور ساری صعوبتیں جھیلے۔ جو شخص حق کو پامال ہوتے دیکھتا ہے اور اس کے لیے اس کے دل میں حمیت پیدا نہیں ہوتی تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں یا تو اس کے اوپر حق کی اصلی قدر و قیمت واضح نہیں ہوتی ہے اور یہ علم و معرفت کی خامی ہے یا اس کے اندر باطل کا رعب بیٹھا ہوا ہے اور یہ دل کا تضاد ہے۔ ایک عاقل اور سلیم الطبع انسان سے سب سے پہلے جس بات کی توقع ہونی چاہیے، وہ یہی ہے کہ وہ کبھی حق کو مظلوم اور پامال دیکھنے پر راضی نہ ہو۔ اگر آدمی میں علم کی کمی ہے تو اس کا فرض ہے کہ اللہ کی کتاب کے ذریعے سے علم بڑھائے اور اگر ہمت کی کمی ہے تو چاہیے کہ اللہ سے دعا کرے کہ خدا اسے توفیق عمل دے، پست ہمتی اور بزدلی کی بیماریوں سے نجات بخشے۔ جماعت اسلامی کا قیام بالکل بے سود ہوگا اگر اس کے بعد بھی ہمارا علم صحیح نہ ہو اور ہمارے دلوں میں بزدلی کا شیطان بیٹھا ہی رہے، اور ہم طاغوت سے مرعوب ہوں۔‘‘ (روداد حصہ سوم، ص173-174)

مسلمانوں کے عہد زوال کی تاریخ سے ملی بے غیرتی اور بے حمیتی کا ایک واقعہ بطور نمونہ درج کیا جاتا ہے۔ جب چنگیز خان نے مسلمانوں پر حملے کیے تو مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ مقابلے میں کم ہمتی کا مظاہرہ کیا بلکہ مورخ حافظ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں کہ

’’بے غیرتی و بے حمیتی کی انتہا یہ تھی کہ ایک اکیلا تاتاری فوج مسلمانوں کے بھرے پرے گاؤں میں چلا جاتا ہے اور لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بے دریغ ذبح کرنے لگتا، کوئی اس کی مزاحمت نہ کر سکتا، کسی کو ہمت نہ ہوتی کہ اکیلے تاتاری کا قصہ تمام کر دے۔‘‘ (تاریخ زوال امت ص20)

اہل باطل سے کہیں زیادہ وابستگان تحریک کے اندر اپنی تحریک کے لیے حمیت و غیرت ہونی چاہیے۔ دین اسلام کے لیے حمیت و غیرت، دینِ اسلام کی اقامت کے لیے برپا ہونے والی تحریک کے لیے حمیت و غیرت، اس تحریک کے ایک ایک فرد اور قائد کے لیے حمیت و غیرت، یہ سب ایک مسلم کی شان ہونی چاہیے۔ حضرت علیؓ نے ان لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا جن کی رگ حمیت حق کے لیے نہیں پھڑکتی:

’’انھوں نے باطل کی نصرت تو نہیں کی لیکن حق کا ساتھ بھی نہیں دیا۔‘‘

تحریک سے محبت اور تحریک کے لیے حمیت یہ خاموشی گوارا نہیں کر سکتی۔ ہم تحریک اسلام سے اس بنیاد پر وابستہ ہوئے ہیں کہ یہ حق کا راستہ ہے، حق کی دعوت ہے۔ اس تحریک سے وابستگی اور اس کی حمیت و غیرت کا تقاضا ہے کہ اس کی نیک نامی سے خوشی اور بدنامی پر غم ہوگا۔ اگر تحریک اور تحریک کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو حمیتِ تحریک کا تقاضا ہے کہ سنجیدگی سے صحیح بات کی وضاحت کی جائے۔اس دور میں سوشل میڈیا تحریک کی خدمت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اگر سوشل میڈیا پر ہماری کسی تحریر یا تحریروں کی وجہ سے تحریک کے بارے میں غلط فہمی پھیل رہی ہے تو سنجیدگی سے جواب دینا ضروری ہے لیکن ان باتوں کو پھیلانا خود تحریک کو سخت نقصان پہنچانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کا خلاصہ ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی تمام باتوں کو آگے بڑھائے، دوسروں کو بتائے، حالاں کہ اس نے کوئی تحقیق ہی نہیں کی۔ تحریک میں افراد کے درمیان کوئی شکایت یا غلط فہمی ہوسکتی ہے، اس کی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ متعلق فرد یا قیادت سے راست رابطہ کرکے وضاحت چاہی جائے۔ اگر کسی بات پر اعتراض ہو تو مناسب پلیٹ فارم پر رکھی جائے لیکن عام رفقا میں ان باتوں کا چرچا ہونے لگے تو تحریک کی شبیہ داغ دار اور ساکھ مجروح ہوگی۔

تحریکی حمیت خوش گمانی کا تقاضا کرتی ہے۔ افراد تحریک کے دلوں میں اپنے ساتھیوں اور اپنی قیادت کے لیے خوش گمانی ہونی چاہیے۔ خدانخواستہ کہیں قیادت یا کسی فرد جماعت کی کردار کشی کی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس سے متاثر ہو کر فوراً کوئی منفی رائے قائم کر لینا درست نہیں ہے کیوں کہ جن کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے ان کا موقف سامنے آیا ہی نہیں۔ خاص طور سے سوشل میڈیا میں ذرا سی بے احتیاطی تحریک کے داخلی ماحول کو سنگین مسائل سے دو چار کرکے استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہے اس کا نتیجہ داخلی انتشار کے سوا کیا ہوگا۔

روداد جماعت اسلامی سے درج ذیل اقتباس ہم سب کو اپنے احتساب کی دعوت دیتا ہے:

’’اآزمائش کے مختلف مواقع پر گر ہم عمل سے یہ ثبوت بہم پہنچادیں کہ ہماری زندگی کسی خاص گروہ یا جماعت یا کسی قوم کے فائدے کے لیے نہیں ہے بلکہ حق کے نصب العین کے لیے ہے تو ذہنوں کو فتح کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ساتھ بے شمار عصبیتیں چمٹی ہوئی ہیں اور ان کا ایک اچھا خاصا موٹا خول خود ہمارے گرد لپٹا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ خود اپنی دعوت کی راہ کی پہلی اور سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ خول ہمیں جتنا جلد ممکن ہو اتار دینا چاہیے اور حق کو بالکل بے نقاب کرکے لوگوں کے سامنے لانا چاہیے۔ تاکہ لوگ صاف صاف پہچان لیں کہ صداقت و حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم اپنی بیوی، بچوں، اپنے احباب، اپنی جماعت اور قوم کی غلط عصبیت کی آلودگیوں سے اپنا دامن پاک کر لیں تو اگرچہ دنیا کی زبان طعن کبھی بند نہیں ہو سکتی مگر ہمارے خلاف حجت و دلیل کی زبان بند ہو جائے گی۔ صرف یہی طریقہ ہے دنیا کو انکار حقیقت سے روک دینے کا۔ عصبیت کی بو بھی اگر باقی رہے گی تو ہم خود اپنے لیے حجاب بنے رہیں گے اور اپنی دعوت کے راستے میں چٹان بن کر حائل رہیں گے۔ گھروں میں، بازاروں میں، جلسوں میں، خانقاہوں میں اور مسجدوں میں ہر پہلو سے اپنے آپ کو ادنی اغراض سے بالاتر دکھانا ناگزیر ہے۔

اللہ کی طرف سے جتنے داعی اللہ کے کلمے کو اونچا کرنے کے لیے آئے ان میں سے ہر ایک نے رشتہ حق کے سوا ہر رشتے کو توڑ دیا۔ حمیت جاہلیت کے سارے بندھن کاٹ ڈالے، تعصبات کی موٹی موٹی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی دعوت بغیر کسی فرق و امتیاز کے ہر حق آشنا کو اپیل کرتی اور جو لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہتے ان کے سینوں میں گروہوں اور جماعتوں کی برتری کے بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ مشتعل ہوتا۔ اگر انھی داعیان ہدایت کے اسوہ کا اتباع کہا جائے تو ہماری تبلیغی مشکلات معًا حل ہو جاتی ہیں۔

اپنی پرائیویٹ اور پبلک زندگی میں یہ ثابت کردینے کی فکر کیجیے کہ آپ کی ساری مساعی صرف اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہیں۔ (روداد دوم ص 33)

تعلقات کی خوش گواری

انسان دیگر تمام مخلوقات سے اس حیثیت سے ممتاز اور منفرد ہے کہ وہ تنہا زندگی بسر نہیں کرتا بلکہ خاندانی اور سماجی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس بنا پر اس کے تعلقات خاندان، سماج اور عام انسانوں تک پھیل جاتے ہیں۔ جس طرح انسان کی شخصیت کی تعمیر اور استحکام میں خوش گوار تعلقات کا اہم رول ہوتا ہے اسی طرح جماعت کے افراد کے درمیان تعلقات کی خوش گواری کا معاملہ ہے۔ خوش گوار اور مضبوط تعلقات، جماعت کی توسیع اور استحکام میں بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ خدانخواستہ تعلقات اگر خراب ہوں، کم زور اور ڈھیلے ڈھالے ہوں تو اس کے منفی اثرات ہوں گے اور جماعت کے استحکام کو خطرہ پیدا ہوگا۔ افراد جماعت کے درمیان تعلقات عارضی، ہنگامی اور وقتی نوعیت کے نہیں ہیں۔ یہ تعلقات مستقل اور دائمی ہیں۔ یہ دنیا ہی نہیں آخرت اور جنت میں بھی برقرار رہیں گے کیوں کہ یہ انسانی، مادی اور دنیوی نہیں ہیں بلکہ ربانی، اخلاقی اور روحانی ہیں۔

قرآن و سنت رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں خوش گوار اور مضبوط تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں اصولوں اور آداب کی رہ نمائی ملتی ہے۔ ہمارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں ان کی پابندی ناگزیر ہے۔ تعلقات میں خرابی اور کم زوری جن وجوہات سے پیدا ہوتی ہے خلوص و للّٰہیت کے ساتھ ان سے شعوری طور پر چھٹکارا پانا ضروری ہے۔

تحریک اسلامی کے افراد کے درمیان تعلقات کی بنیادیں آفاقی نوعیت کی ہیں۔ عقیدہ و ایمان کا گہرا رشتہ، اقامت دین کا نصب العین، دعوتِ دین کا فریضہ منصبی، رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کے حصول کا محرک، یہی ہمارے باہمی تعلقات کی بنیادیں ہیں۔

افرادِ جماعت کے اندر تعلقات کو قرآن کی آیت کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَینَ أَخَوَیكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [الحجرات: 10] (مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا)

سورہ الحجرات میں اس آیت کے بعد اہل ایمان کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے، رشتہ محبت و اخوت کو ختم کرکے دلوں میں نفرت، بغض او دشمنی پیدا کرنے والی کچھ بڑی خرابیوں سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہ تعلیمات یہ ہیں:

آپس میں ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ

دوسروں کے عیوب تلاش نہ کرو، عیب چینی سے بچو

ایک دوسرے کے تحقیق آمیز نام نہ رکھو۔ برے القاب سے احتراز کرو

بدگمانی سے بچو

کسی کی ٹوہ میں نہ رہو۔ تجسس نہ کرو

غیبت نہ کرو۔

تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان تعلقات باہم محبت و اخوت کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ وہ اللہ کی رحمت کے مستحق اسی وقت ہوں گے جب اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے باہم تعلقات کو اخوت و محبت کی بنیاد پر قائم رکھیں۔ ان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہونے دیں۔

گویا تمام افراد جماعت ایک خاندان ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ جماعتی خاندان خون کے رشتہ پر نہیں بنا ہے۔ الگ الگ نسل و خاندان و رنگ، علاقہ و زبان کے حاملین ایک عالمگیر آور آفاقی عقیدہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور قرآنی نصب العین اقامت دین، دعوت کے منصبی فریضہ کی ادائیگی نیز رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کی پاکیزہ بنیادوں پر ایک خاندان سے جڑے ہیں۔ اس ملک کے تمام انسانوں کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ عقیدہ اور اصولوں کی بنیاد پر اس خاندان میں شامل ہو سکتے ہیں۔

تحریکی افراد کے درمیان باہم خوش گوار تعلقات کی مطلوبہ کیفیت کو قرآن نے اس طرح سے بتایا ہے۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَینَهُمْ [الفتح: 29]

(محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں)

بقول مولانا مودودیؒ:

’’ یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنانِ دین کے لیے ہے۔ اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے لیے وہ آپس میں رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد اور غم گسار ہیں اصول و مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت، ہم رنگی و سازگاری پیدا کر دی ہے۔‘‘

خوش گوار تعلقات کس لیے؟

اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر ایک صالح معاشرہ کا قیام ممکن ہو سکے۔

صالح معاشرے کے ساتھ ہی اقامت دین کا حصول عمل میں آئے۔

معاشرے میں عدل و انصاف، محبت و رحمت، اخوت اور انسانیت کا قیام ہو۔

تعلقات کی خوش گواری کے لیے حقوق و فرائض میں توازن اور ہم آہنگی کا نمونہ پیش کیا جائے۔

خوش گوار تعلقات کے ذریعے فرد، خاندان اور معاشرہ رحمتوں اور برکتوں سے کس طرح مالا مال ہوتا ہے، اس کی عملی مثال پیش کی جائے۔

ان بنیادوں پر یہ تعلقات اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔ اللہ تعالی کے عظیم انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ کسی بھی انسانی تدبیر اور منصوبے کے ذریعے ایسے تعلقات قائم نہیں کیے جاسکتے تھے۔ اس طرح کے خوش گوار اور مضبوط تعلقات کے بغیر اقامت دین کی منزل کا حصول ناممکن ہے۔

خوش گوار تعلقات کو یہ عظیم نعمت اور انسانیت کے لیے تحفہ خداوندی سب کے لیے عام ہے۔ افراد جماعت کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپس کے تعلقات کو رسمی ضابطہ بندی اور روکھے سوکھے تعلقات نہ ہونے دیں۔ ان تعلقات کو اس قدر خوش گوار، پرکشش اور دل خوش بنائیں کہ جماعت کے اس بڑے خاندان کے باہر جو افراد ہیں وہ اس خاندان کا حصہ بن کر اس میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہوں اور اس کے لیے آگے بڑھیں، اس سے الگ رہنے کو قبول نہ کریں۔

افراد جماعت کے درمیان تعلقات کو حدیث رسولؐ کی روشنی میں ایک جسم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر جسم کے ایک عضو میں کانٹا چبھ جائے یا کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔

تعلقات میں خوش گواری اور استحکام کی یہ کیفیت ہونی چاہیے کہ ایک دور دراز مقام پر کسی فرد جماعت کی خوشی سے تمام افرادِ جماعت کو خوشی محسوس ہو اور کسی ایک کا غم اور پریشانی تمام کے لیے پریشانی اور رنج و غم کا سبب بن جائے۔

وہ صفات جو خوش گوار اور مضبوط تعلقات کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناتے ہیں درج ذیل ہیں:

تحفے لینا اور دینا

ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شریک ہونا

عبادت اور تعزیت کرنا

ایک دوسرے کے ہاں فیملی کے ساتھ آنا جانا، ملنا جلنا، ساتھ کھانا

مسائل و معاملات سے باخبر ہوکر مشورے دینا، حل کرنے کی کوشش کرنا

محبت و اخوت

عفو و درگزر

نصح و خیرخواہی

ایثار و قربانی

نرمی اور رحمت

حسن ظن اور اعلی ظرفی

سلام کرنا، مصافحہ کرنا

وہ خرابیاں جن سے تعلقات خراب ہوتے ہیں:

دوسروں کو حقیر سمجھنا

طنز اور بدکلامی

تمسخر

غصہ، غیص و غضب

بحث و تکرار

ایذا رسانی

غیبت

چغلی اور حسد

بدگمانی

کبر و غرور

طنز

خودپسندی

یاد رہے کہ افرادِ جماعت کے درمیان تعلقات کا بگاڑ اور خرابی انھی کے درمیان محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہ داخلی استحکام کو متاثر کرکے نصب العین کی جانب پیش رفت کو روکنے کا سبب بن جاتی ہے۔ افراد کے درمیان تعلقات کی خرابی کا کبھی پتہ چلے تو اس کی اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ ایک حدیث میں اس کی اہمیت کو اس طرح سمجھایا گیا ہے گویا یہ نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔

تعلقات کی خوش گواری کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور فرائض پر عمل آوری ناگزیر ہے۔ ظلم، حقوق کی پامالی اور فرائض سے غفلت کے نتیجے میں تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہ سکتے۔ اپنے حق پر کم سے کم پر راضی ہونا دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینا ایک ایسا عمل ہے جو تعلقات کی خوش گواری میں نہایت موثر عامل ہے۔ ایک موقع پر رسول کریمﷺ کے ساتھ ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے ان کو عمدہ مسواک دی اور خود اپنے لیے ٹیڑھی ٹیڑھی مسواک رکھ لی۔

تعلقات کی خوش گواری اور استحکام میں ہر فردِ جماعت کا ایک اہم رول اس پہلو سے ہے کہ وہ افراد جماعت کے رویے پر انحصار نہ کرے۔ یعنی ان کے طرز عمل اور رویے کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو استوار نہ کرے۔ دوسروں کا رویہ ٹھیک نہ ہو تب بھی ان کے حقوق ادا کرنا اور اپنی طرف سے تعلقات کو بنائے رکھنا اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا راستہ ہے۔ حضورؐ ارشاد فرماتے ہیں

’’جو مجھ سے کٹے میں اس سے جُڑوں اور جو مجھ کو حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں اور جو میرے اوپر ظلم کرے میں اس کو معاف کروں۔‘‘

تعلقات کو خراب کرنے والی کوئی بات کسی فرد جماعت کے اندر پائی جائے تو اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس سے مل کر تنہائی میں بات کی جائے اور اصلاح کی کوشش کی جائے۔ دوسروں کے سامنے بتانے سے اصلاح تو ہو نہیں سکتی لیکن فرد کی کردار کشی کی وجہ سے خود اپنے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوتی ہے۔ حدیث رسولؐ ہے کہ ’’جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو۔‘‘

تعلقات میں استحکام کے لیے ہر فرد جماعت کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اس کی طرف سے کسی کو اذیت نہ پہنچے۔ درج ذیل احادیث میں اس کی وضاحت اس طرح ہوتی ہے۔

’’جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی‘‘

’’جو خدا کی جنت چاہتا ہے اور دوزخ سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ جو اپنے لیے چاہتا ہے کہ دوسرے اسے ایذا نہ پہنچائیں وہی دوسروں کے لیے بھی چاہے‘‘

تعلقات کو بگاڑنے میں سب سے بڑا کردار زبان کی بے احتیاطی اور بدکلامی کا ہوتا ہے۔ زبان پر قابو اور گفتگو میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بحث و تکرار اور دوسروں سے ناراضی کے باعث بول چال بند کردینا باہمی تعلقات کو گویا بالکل ختم کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس بارے میں احادیث رسولؐ میں واضح رہ نمائی ملتی ہے مثلا:

’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کرے۔‘‘ (بخاری)

’’جس نے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع رکھا اور اسی حال میں مر گیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ (سنن ابی داود)

قرآن میں ایک نہایت موثر دعا بتائی گئی ہے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ (سورة الحشر: 10)

(اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان میں ہم سے پہل کی، ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب بے شک تو نرمی والا نہایت رحم کرنے والا ہے)

جماعتی استحکام

تحریکی حمیت، تعلقات کی خوش گواری اور جماعتی استحکام تینوں الگ الگ عناوین ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ تحریکی حمیت اور تعلقات کی خوش گواری کے حصول میں جتنی کام یابی ملے گی اتنا ہی زیادہ جماعتی استحکام حاصل ہوگا۔

جماعت کے استحکام کے سلسلے میں جن اصولوں اور ضابطوں کو ہم جانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں ان کو ہر وقت یاد رکھیں۔ کبھی نہ بھولیں، خود بھی عمل کریں اور دوسروں سے عمل کرائیں۔ اگر اس کا اہتمام ہر سطح پر ہوتا ہے تو داخلی اور خارجی طور پر جماعت مستحکم ہوگی۔ خدا نہ کرے اس میں کوتاہی ہو تو جماعت کم زور ہوگی۔

جماعتی استحکام کی فکر اور ذمہ داری ہم سب ارکان پر ہے۔ ہم میں سے جو جس سطح کے ذمہ دار ہیں ان کی ذمہ داری اسی اعتبار سے زیادہ ہے۔

جماعت سے ہمارا تعلق کسی رشتے ناطے کی وجہ سے نہیں ہے۔ ہم ارکان جماعت، عقیدہ و ایمان، اقامت دین کے نصب العین کے لیے جدوجہد، رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کے لیے جس قدر پختہ اور مستحکم ہوں گے، اسی قدر جماعت کو استحکام حاصل ہوگا۔ جماعتی استحکام میں ہر فرد کے خاندان کا استحکام بھی مطلوب ہے۔ اگر جماعت اقامت دین کے حصول میں دنیا میں کام یاب ہو جائے لیکن کوئی ایک فرد جماعت اپنی زندگی میں دین قائم کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔

جماعتی تنظیم میں ایک اور ایک ملا کر دو نہیں بلکہ گیارہ افراد کی قوت کے حامل ہوتے ہیں۔ جماعتی تنظیم میں ارکانِ جماعت ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں۔ جماعت کا حقیقی سرمایہ ارکان ہی ہیں۔ جماعت کی حفاظت، ترقی اور استحکام کی فکر سب سے زیادہ ارکان ہی کو ہوگی۔ جس طرح ہم اپنے گھر اور گھر والوں کی فکر کرتے ہیں اس سے بڑھ کر جماعت کے استحکام کی فکر ہونی چاہیے۔ جماعت کا استحکام ایک اہم اور بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ جماعت ایک عظیم نعمت اور عظیم امانت ہے۔ ہمارے تحریکی اسلاف نے اس کی حفاظت ترقی اور استحکام کے لیے اپنی قیمتی جوانیاں، صلاحیتیں اور زندگیاں قربان کردیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس امانت کو آنے والی نسلوں کے حوالے کر دیں۔ اس عظیم امانت میں کسی خیانت کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ملت کے انتشار کے اس دور میں اللہ تعالی نے صحیح نصب العین اور صحیح اسلامی اجتماعیت سے وابستگی کا خصوصی انعام ہمیں بخشا، اس پر ہم اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں۔ اپنے لیے اور سب ارکان کے لیے استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

ہم میں سے کسی کا یہ رویہ نہیں ہوسکتا کہ وہ جماعت میں ہے لیکن بے تعلقی، غیر جماعتی دل چسپیوں اور بعض شخصی اسباب سے حقیقت میں جماعت میں نہیں ہے۔ جماعتی تنظیم میں رہ کر کوئی ذاتی نقصان بھی ہو تو گوارا کریں کہ اللہ تعالی اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن جماعت کو نقصان پہنچے، اس کی شبیہ داغدار ہو جائے، اس کے داخلی استحکام کو نقصان پہنچے یہ سب کسی قیمت پر ہمیں گوارا نہ ہو۔ جماعت کے داخلی استحکام کو نادانستہ نقصان پہنچنے دینا دراصل جماعت کو نہیں بلکہ دین کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ اللہ تعالی کو غضبناک کرنا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کی اور جماعت کی حفاظت فرمائے۔ جماعت کا معمولی نقصان بھی معمولی نہیں بلکہ بڑا نقصان ہے۔

افراد جماعت کے باہم اصلاح کے سلسلے میں مولانا سید مودودیؒ نے رہ نمائی فرمائی ہے۔ ان کی ایک تقریر کا اقتباس ملاحظہ ہو:

’’باہمی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر تخلیہ میں اس سے بات کریں۔ اس پوری مدت میں اس معاملہ کا ذکر غیر متعلق لوگوں سے کرنا اور شخص متعلق کی غیر موجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحًا غیبت ہے جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘ (تحریک اور کارکن ص129)

جماعتی استحکام کے لیے ارکان جماعت کے اندر بنیادی صفت اخلاص و للّٰہیت ہے۔ اس کے علاوہ فردًا فردًا اور اجتماعی طور پر جن صفات کو پروان چڑھانا ناگزیر ہے ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے:

باہم محبت و اخوت اور خیر خواہی

ایثار و قربانی

عفو و درگزر

احتساب و جائزہ

تنقید بغرض اصلاح

ایک واضح وژن

فکری ہم آہنگی

سمع و طاعت

شورائیت

بعض خطرات سے جماعتی استحکام کو زوال پیش آسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اقامت دین کی طرف بڑھتے ہوئے راہ میں ہنگامی، عارضی اور وقتی مسائل یا چیلنج اصل مقصد کی جگہ نہ لیں۔ ایسی صورت میں تحریک کا مقصد اوجھل ہو جائے گا اور تحریک بتدریج زوال کا شکار ہو جائے گی۔ کبھی فلاحی اور رفاہی خدمات اور ان کے لیے بنائے گئے اداروں اور ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں کو دیکھ کر تحریک کے این جی او میں ڈھل جانے کا غلط تاثر بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

ایک اور خطرہ تنظیم ہی کو مقصد بنالینے کا ہو سکتا ہے۔ یہ شعوری طور پر ہو نہیں سکتا لیکن روٹین کاموں کو چلاتے رہنا اور اسی پر اکتفا کرلینا تحریک کے زوال کا پیش خیمہ ہوگا۔

یہ اور ایسے بہت سے خطرات سے حفاظت اور جماعتی تنظیم کو اقامت دین کے مقصد کے لیے سرگرم عمل رکھنے کے لیے جماعت میں جائزے اور احتساب کا موثر طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ تعمیری تنقید حدود و شرائط کے ساتھ ہوتی رہنی چاہیے۔ جائزہ اور احتساب ہر رکن کو سب سے پہلے خود اپنا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ مقامی سطح سے لے کر ضلع، علاقہ، حلقہ اور مرکز کی سطح تک احتساب اور جائزہ کا عمل جاری رہنا چاہیے۔

محترم محمد جعفر صاحب لکھتے ہیں:

’’جائزے اور احتساب کا ایسا نظام ہو جس میں امیر و مامور سبھی ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہوں۔ یہ عمل ٹیم اسپرٹ کو برقرار رکھتا ہے اور اجتماعیت کو مستحکم کرتا ہے۔ یہ عمل جتنا کم زور ہوگا اجتماعیت اتنی ہی کم زور ہوگی۔

اگر قیادت کا احتساب نہ ہو تو ایسی قیادت کم زور ہوگی اور اگر ٹیم کا بھی احتساب نہیں ہوگا تو ایسی ٹیم بھی کم زور ہوگی۔ قیادت کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں جائزے اور احتساب کی فضا کو نہ صرف بحال رکھے بلکہ پروان چڑھائے۔ دوسروں کے احتساب سے پہلے خود اپنا احتساب کرے اور خود کو دوسروں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرے۔ احتساب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر فرد خواہ ذمہ دار ہو یا رکن اپنا احتساب خود بے دردی کے ساتھ کرے۔ اپنے ساتھیوں کا نرمی اور درد کے ساتھ کرے۔‘‘ (عالمی ترجمان القرآن، جون 2011، ص50)

جماعتی تنظیم میں جب افراد ایک نصب العین کے حصول کے لیے جمع ہوکر اجتماعی جدوجہد کرتے ہیں تو یہ ایک آئیڈیل کیفیت ہے۔ قرآن میں اس کو بنیان مرصوص کہا گیا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ یحِبُّ الَّذِینَ یقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْیانٌ مَرْصُوصٌ [الصف: 4]

(اللہ کو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں)

یعنی اللہ تعالی کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرے سہنے کے لیے تیار ہوں۔

جماعتی استحکام کی کوشش محض جماعتی، دستوری اور تنظیمی نہیں ہے۔ جماعت کا استحکام شرعی ذمہ داری ہے۔

جماعتی استحکام کا نمونہ اتنا حقیقت پسندانہ، مکمل اور بھرپور ہو کہ اس کے نتیجے میں الجماعت قائم کرنے میں مدد ملے۔ جماعتی استحکام کے اثرات و نتائج صرف جماعت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ امت تک پھیل جائیں گے۔

جماعتی استحکام میں ارکان جماعت کی تربیت اور تنظیم کے جن پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان سب پر فردًا فردًا علمی اعتبار سے بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ اسی کے بعد جماعتی استحکام سیسا پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن جائے گی جسے باہر سے نہ کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے نہ اندر سے کوئی کم زور کرسکتا ہے۔

جماعت میں اگر استحکام ہے تو افرادی قوت، وسائل کی کمی، ناسازگار حالات، موانع و مشکلات کے باوجود، مقصد کی طرف پیش رفت اور استقامت ممکن ہے۔ خارج میں بڑے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں خدا کی نصرت شامل رہے گی۔

إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ. وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ. [الصافات: 172، 173]

یقینًا انھیں نصرت حاصل ہوگی اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223