کتاب: خاندانیت (Familyism)
مصنفہ: ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
صفحات: ۵۱۲
مبصر: محی الدین غازی
خاندان کو لاحق خطرہ اس وقت انسانیت کو لاحق خطرات میں ایک سنگین ترین خطرہ ہے، پروفیسر نجات اللہ صدیقی کے مطابق:
’’سب جانتے ہیں کہ انسانوں کی اگلی نسلوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ بچوں کو ماں باپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملے۔ اب طلاق کی کثرت کے سبب خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور بچوں کو ادھر ادھر بانٹا جانا ناگزیر ہورہا ہے۔ ماضی میں یہ بھی اچھا رواج تھا کہ دادا، دادی، نانا، نانی، بچوں کے ساتھ رہتے تھے، مگر اب شہری رہائش میں شاذ و نادر ہی ایسا ہو پاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچوں میں ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں اور ان کی شخصیتیں بکھر رہی ہیں۔ سماجی رشتے زیادہ تر مفادات کی روشنی میں جوڑے اور توڑے جا رہے ہیں، جو مفادات کے بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، چناں چہ رشتے پائداری سے محروم ہیں۔ دولت کی حرص اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیار زندگی کی طلب ہر چیز پر غالب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سارے جتن کر کے بھی انسان خوشی سے محروم ہے۔ ایسے لوگ نایاب ہیں جو دوسرے کی بھلائی کے لیے کچھ قربانی دینے کو تیار ہوں۔ ہر طرف ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو دوسروں سے تعلق صرف اس لیے قائم کرتے ہیں کہ ان سے کچھ کام لے سکیں۔ سیاست ہو یا معیشت، غیر سرکاری ادارے ہوں یا سرکاری، ہر جگہ ذاتی مفاد کو سماجی بہبود پر ترجیح دینے والے افراد بھرے ہوئے ہیں۔‘‘ (مقاصد شریعت، نظر ثانی شدہ ایڈیشن۔ ص: ۳۱۶)
اس کے علاوہ اسلام اور مغرب کی کشمکش کا ایک اہم میدان خاندان ہے۔ مغربی تہذیب کا بہت گہرا اور تباہ کن اثر خود اس کے نظام معاشرت اور خاندان پر پڑا ہے، نیز مغربی تہذیب کی مسلم معاشرے پر یورش کا بڑا نشانہ مسلمانوں کا خاندانی نظام ہے۔
جس طرح مغربی تہذیب کی خرابیوں کاآسان اور نمایاں مشاہدہ مغربی خاندان کو پہنچنے والے بڑے نقصان سے کیا جاسکتا ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو بتانے کے لیے اسلام کے خاندانی نظام اور خاندان کی حفاظت و ترقی کے لیے اسلام کی روشن تعلیمات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
مغرب کی موجودہ خاندانی صورت حال مغربی تہذیب کے خلاف بہت بڑی دلیل ہے اور خاندان سے متعلق اسلام کی رہ نمائی اسلام کے حق میں بہت روشن دلیل ہے۔
خاندانیت دورِ حاضر کا اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کا وسیع فہم ایک طرف اسلام کی عظمت کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے، دوسری طرف مغربی تہذیب کےاصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے اور تیسری طرف مغربی تہذیب کی عالمی اسلامی معاشرے پر یلغار کے سنگین پہلو سامنے لاتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اپنی کتاب ’خاندانیت‘ میں ان سب پہلوؤں پرتوجہ دی ہے۔
کتاب کے مقدمے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب اسلام میں خاندان کے ادارے کی اہمیت کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلامی معاشرے اور تمدن کے قیام و دوام کا انحصار جن اداروں پر ہے ان میں سب سے پہلا اور اہم ترین ادارہ خاندان کا ادارہ ہے۔ بلاشبہ خاندان کے ساتھ مسجد و مدرسہ (اقامتِ صلوٰة)، بیت المال اور نظام تکافل (ایتائے زکوة )، نظام امر کا قیام اور عدل و قضا کا اہتمام (امر بالمعروف و نهى عن المنكر ) اور امت کی وحدت اور خلافت کی بنیاد پر اس کی تنظیم اور استحکام دوسرے اساسی ادارے ہیں۔ ان اداروں کی تقویت اور ترقی کے لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں بہت سے دوسرے اہم ادارے قائم کیے ہیں۔ لیکن اداروں کے اس جھرمٹ میں خاندان کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ انسانیت کے سفر کے آغاز ہی میں آدم و حوا کے رشتہ ازدواج کے نتیجے میں وجود میں آیا اور اسے ہر اعتبار سے ایک ربانی ادارہ (Divinely established institution) کہا جا سکتا ہے۔ باقی تمام اداروں کی ضرورت انسان کے اپنے تاریخی تجربات کے دوران محسوس کی گئی اور ان میں سے کچھ اشارے ہدایت ربانی میں بھی بلاشبہ موجود تھے لیکن اس ربانی نقشہ کار (Scheme of things) میں جو اولیت اور مرکزیت خاندان کے ادارے کو حاصل ہے وہ منفرد ہے۔‘‘(ص ۲۴)
خاندان کے ادارے کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد صاحب ایک فکر انگیز پہلو اجاگر کرتے ہیں:
’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں پر نشیب و فراز کے بے شمار دور آئے ہیں اور عروج و زوال سب ہی ہماری قسمت کا حصہ رہے ہیں لیکن خواہ ترقی کا دور ہو یا تنزل اور ابتری کا۔ ترقی انھی ادوار میں ہوئی ہے جب خاندان کا ادارہ مضبوط تھا اور مسلمان عورت اپنا کلیدی کردار بخوبی انجام دے رہی تھی، اور زوال، تنزل اور تباہی کے ایام میں بھی اگر ہماری قوت کا کوئی آخری منبع اور پناہ کے لیے آخری حصار تھا تو وہ ماں کی گود اور خاندان کا ادارہ ہی تھا۔ یہ شیر مادر کی پا کی تھی جس نے نئی نسلوں کو ہر نشیب کو فراز سے نمٹنے کا حوصلہ اور صلاحیت دی۔ اس میں بھی ذرا شک نہیں کہ انسانیت کی پوری تاریخ میں عروج و زوال کی داستان کو خاندان، گھر اور عورت کے کردار کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آج جو انتشار اور بگاڑ تمام تر سائنسی ترقی اور معاشی فراوانی کے باوجود مغربی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے، اس کی اہم ترین وجہ روح پر بدن کے غلبے کے ساتھ عورت کے کردار کی قلب ماہیت اور خاندان کے نظام کا انہدام ہے۔‘‘ (ص ۲۵)
اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کے لیے خاندان کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، ڈاکٹر سمیحہ کا یہ اقتباس اس کی خوب صورت ترجمانی کرتا ہے:
’’خاندان تہذیب کا گہوارہ، انسان کا پہلا مدرسہ و مکتب اور اہم ترین مورچہ اور حفاظتی قلعہ ہے۔ یہ ایسی پناہ گاہ ہے جہاں تہذیب و تمدن پناہ لیتی ہے۔ خاندان کو ماں اور باپ قائد بن کر رہ نما کے طور پر محبت کرنے والے اور پناہ دینے والے کے طور پر تقویت پہنچاتے ہیں اور اسے محفوظ اور متحد رکھتے ہیں۔ اس کی تربیت اور تہذیب کرتے ہیں۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مرغی اپنے چوزوں کو بلی سے بچانے کے لیے پروں میں چھپالیتی ہے اسی طرح والدین خارجی خطرات اور داخلی تنازعات سے خاندان کو بچانے کے لیے ہر اول دستے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ خاندان کے سایے میں انسان زندگی کے حسن کو محسوس اور حاصل کر سکتا ہے، پھر اسے دو چند کر کے معاشرے کے دوسرے افراد کو خوشی اور مسرت سے ہم کنار کر سکتا ہے۔ اسلام نے خاندان کو زندگی گزارنے، معاملات طے کرنے اور مسائل کو حل کرنے ہی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ انسانی معاشرے میں خاندان کو انفرادی کرداروں کی قیادت سونپی ہے اور یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ ان انفرادی کرداروں کو معاشرے کے اجتماعی مفاد کے لیے تیار کریں۔‘‘ (ص ۳۳)
خاندان کے ادارے سے مغرب کی بے نیازی اس کے لیے کتنی بڑی محرومی کا سبب ہے، اسے بیان کرتے ہوئے مصنفہ لکھتی ہیں:
’’اسلام کے خاندانی نظام میں ماں باپ، بچے، نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، خالہ زاد، چچازاد، ماموں زاد، ہم سائے، ملازم اور عزیز واقارب کو خاندان کہا جاتا ہے، جب کہ مغرب اس وسیع اکائی سے محروم ہو چکا ہے۔ وہاں خاندان صرف ماں باپ اور دو بچوں پر مشتمل اکائی ہے۔ اب تو یا کائی بھی ٹوٹ رہی ہے اور روایتی خاندان اور فطری خاندان (Natural Family) جیسی چھوٹی سی اکائی بھی اس قدر شکست وریخت کا شکار ہے کہ ایک ہی صنف کے دو افراد بھی شادی کے ذریعے خاندان بنا رہے ہیں یا صرف ماں پر مشتمل خاندان وجود میں آ رہے ہیں۔ بکھرے ہوئے خاندانوں ( Seprated Families) کے بچے ایک ایسی نسل کے طور پر پروان چڑھ رہے ہیں جس کے نزدیک انسانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ اول و آخر لذت پرستی کو اپنا مقصد حیات اور دین و ایمان بجھتی ہے۔ یہ نسل اب مغربی معاشرے میں جرائم کے وقوع کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔‘‘(ص ۳۵)
مغرب جن مادی عوامل کو اہمیت دیتا ہے اور جن کے مقابلے میں انسانی رشتوں کو نظر انداز کرتا ہے، مذہب ان رشتوں کو اہمیت بھی دیتا ہے اور مضبوط بھی کرتا ہے، اس کے نتیجے میں انسان کی خوش نصیبی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مصنفہ اس حقیقت کو پوری بے باکی سے بیان کرتی ہیں:
’’ان رشتوں کو جس انداز، جس قوت جس محنت اور جس جذبے سے مذہب مضبوط کرتا ہے کوئی معاشی خوش حالی، ٹیکنالوجی کی ترقی، سائنس کا عروج یا سول سوسائٹی کا کسی طرح کا کردار ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں خاندان کو متاثر کرتی ہیں اور خاندان پر مختلف اثرات بھی مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے صدمات انسان کو پریشان کرتے ہیں۔ اگر انسان اکیلا ہو تو ان کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ خاندان Shock Absorber کا کام کرتا ہے۔ مذہب وعقیدہ اس میں معاونت کے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک ہی مذہب اور مکتب فکر پر مشتمل خاندان بہت سکون اور طمانیت بھری زندگی گزارتے ہیں اور جن افراد کی زندگی میں لامذہبیت اور لادینیت کارجحان ہو وہ غیر مطمئن اور پریشان زندگی گزارتے ہیں۔‘‘(ص ۲۵۴)
خاندان کی حفاظت میں ماں کا رول بہت اہم ہوتا ہے، اس عظیم کردار سے بہت سی مائیں بھی بے خبر سی رہنے لگی ہیں، مصنفہ اس کردار کو بیان کرتی ہیں:
’’خاندان کا مستقبل بچانے کے لیے ممتا اور ماں کو محفوظ رکھنا اور بچانا معاشرے کا بنیادی فرض ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ مشاہدہ عام ہے کہ اگر ماں وفات پا جائے تو خاندان منتشر ہو جاتا ہے، بکھر جاتا ہے مگر باپ وفات پا جائے تو عورت خود تو دکھ کی چادر اوڑھ لیتی ہے، مگر یہ غم اسے اور بھی مضبوط بنادیتا ہے اور وہ اپنی اولادکو سنبھال کر خاندان بچا لیتی ہے۔ قدرت نے یہ صلاحیت صرف عورت ہی کو دی ہے کہ وہ خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ مرد میں اس قدر قوت برداشت ہی نہیں ہے کہ وہ مختلف دباؤ برداشت کر کے خاندان کو جوڑ سکے۔ ‘‘(ص ۲۵۹)
مغربی تہذیب سے متاثر نئی نسل کی نکاح بے زاری پر مصنفہ سخت بیان دیتی ہیں، وہ لکھتی ہیں:
’’ہر سال نسل انسانی کو اپنی بقا اور ارتقا کے لیے ایسے لاکھوں اور کروڑوں جوڑوں کی ضرورت ہے جو رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو اس خدمت اور اس کی ذمہ داریوں کے لیے پیش کریں۔ نکاح ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ یہ فرد پر جماعت کا حق ہے اور فرد کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود اپنے لیے محفوظ رکھے۔ جولوگ بغیر کسی معقول وجہ کے نکاح سے انکار کرتے ہیں وہ جماعت کے نکھٹو افراد، یعنی Parasites ہیں بلکہ غذار اور لٹیرے ہیں۔ کیوں کہ جماعت نے اس امید پر اس کی ناقص قوتوں کی تحمیل میں اپنا سرمایہ اور قوت صرف کی کہ وہ جب کچھ دینے کے قابل ہوگا تو دے گا۔ اب اگر وہ فریضہ سرانجام نہیں دے رہا بلکہ صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگ گیا تو وہ اس جماعت کے ساتھ غداری اور دھو کے بازی کرتا ہے۔‘‘ (ص ۴۰۸)
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ کتاب مغرب کے خلاف محض کوئی سخت تقریر ہے، یا مسلمانوں کے سامنے پند و نصائح کا مجموعہ ہے۔ یہ اقتباسات صرف یہ بتانے کے لیے نقل کیے گئے ہیں کہ مصنفہ کا موقف بہت واضح اور دو ٹوک ہے، وہ مغرب پر تنقید اور اسلامی موقف کی وضاحت میں کسی قسم کی مداہنت کی قائل نہیں ہیں۔
کتاب میں موضوع کے بہت سے پہلوؤں پر علمی گفتگو کی گئی ہے، بہت سی رپورٹوں اور دستاویزات کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں اسلامی موقف کی وضاحت ہے وہاں قرآن مجید کی آیتوں اور احادیث سے خوب استدلال کیا گیا ہے۔ کتاب کی فہرست مضامین اور پھر کتاب کے مشمولات اس بات کے گواہ ہیں کہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کے الفاظ میں:
’’یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مستند دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی معلومات سے بھی مالا مال ہے جو صرف خاندان اور سماج ہی نہیں بلکہ دوسرے معاشرتی اور تہذیبی ایشوز پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقالے کا کینوس بہت وسیع ہوگیا ہے اور اپنے موضوع پر اس کی حیثیت ایک انسائیکلوپیڈیا کی ہوگئی ہے۔‘‘
کتاب کی بے شمار خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ کچھ ایسے پہلو ؤں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے، جن پر مزید توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
مصنفہ نے خاندان کی وسیع اکائی کی بات کی ہے، وہ لکھتی ہیں:
’’اسلام کے خاندانی نظام میں ماں باپ، بچے، نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، خالہ زاد، چچازاد، ماموں زاد، ہم سائے، ملازم اور عزیز واقارب کو خاندان کہا جاتا ہے‘‘
خاندانیت پر گفتگو کرتے ہوئے اس وسیع اکائی کے عناصر کی معنویت وافادیت پر گفتگو بھی ضروری محسوس ہوتی ہے۔ کتاب میں اس پہلو سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ دورِ حاضر میں اس وسیع اکائی کو ایک بوجھ کے طور پر دیکھاجانے لگا ہے، ایسے میں اس کے افادی پہلو کو سامنے لانا ضروری ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کس طرح چھوٹی اکائی کے حقوق اور بڑی اکائی کے حقوق کے درمیان توازن قائم رکھا جائے۔
خاندانیت کے حق میں دلائل دیتے ہوئے مصنفہ کا زیادہ زور مغرب کی صورت حال کے اعداد و شمار پر ہے۔ خاندانیت کے اپنے فطری اور عقلی دلائل کو قوت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہنوز باقی ہے۔
مصنفہ کے نزدیک اس وقت عالم اسلام کو مغرب کی جن یورشوں کا سامنا ہے ان میں ایک سنگین ترین یورش وہ ہے جو اسلام کے نظام معاشرت پر ہورہی ہے۔ کتاب کو دراصل اسی تناظر میں لکھاگیا ہے اور اس وجہ سے اسلام و مغرب کی کشمکش کا پہلو اس کے مباحث پر غالب ہے۔ پوری توجہ مغربی خطرے کی طرف مرکوز ہونے کی وجہ سے یہ پہلو نظر انداز ہوگیا کہ مقامی رسوم و رواج نے اسلام کے خاندانی نظام کی ہیئت اور شبیہ پر کیا منفی اثرات مرتب کیے، جن کی وجہ سے مغربی یلغار کے لیے اپنے ہدف کا حصول آسان ہوگیا۔
بہرحال اس موضوع کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام کا تصور خاندان اسلام کی خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے، خاص اس تناظر میں جو کام ہوگا اس کی اپروچ کچھ مختلف ہوگی۔
’خاندانیت‘ اپنے موضوع پر اہم کتاب ہے، اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اس موضوع کو مزید آگے بڑھانے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی کام کرنے کی شدید ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ امید ہے یہ کتاب اس موضوع پر ہونے والے بہت سے کاموں کے لیے محرک بھی بنے گی اور اہم ماخذ بھی۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2023