علم سماجیات میں تصور تہذیب کا مطالعہ ایک اہم عنوان ہے۔ علم نفسیات، معاشیات اور سیاسیات کے علوم کی بھی دل چسپی تہذیب سے ہوتی ہے۔ علم بشریات اور علم سماجیات میں تہذیب کا مطالعہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جب بھی انسانی سماج کی پیچیدگیاں، انسانی گروہوں کے طور طریقے، ان کے درمیان باہمی اشتراک و تعاون، اختلافات و نزاع کا مطالعہ ہوتا ہے تو لازمی طور پر تہذیب زیر بحث آتی ہے۔ کسی بھی انسانی گروہ، سماج اور مذہبی طبقوں کی صحیح سمجھ کے لیے تہذیب کا فہم لازمی ہے۔ سماج اور تہذیب ایک سکے کے دو رخ کہے جا سکتے ہیں۔ انھیں کسی بھی شکل میں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ سماج میں جولوگ کوئی خوشگوار تبدیلی لانا چاہتے ہوں یا کسی صالح انقلاب کے نقیب ہوں، ان کے لیے خود اپنی تہذیب و تمدن کی صحیح واقفیت اور جن اقوام کے درمیان کام کرنا ہو ان کی تہذیب و تمدن کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ جس دنیا میں ہم رہتے بستے ہیں اس کے آس پاس مسائل کا ایک جنگل ہے اور ایک دردمند شہری کی حیثیت سے ہم ان مسائل کا حل اس وقت تک تجویز نہیں کر سکتے جب تک کہ مسائل کی جڑ میں موجود تصورات اور تہذیبی اثرات کو نہ جان لیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی بنیادوں اور باریکیوں کوجانے بغیر انسانی رویوں میں تبدیلی لانا اور سماج کے مسائل پربحث کرنا بے معنی اور غیر موثر ہوگا۔ کسی تہذیب سے کماحقہ واقفیت کے بغیر ان کے عقائد اور مذہب کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار درست ہو، یہ یقینی نہیں۔ کثیر تہذیبی سماج میں تہذیبوں کا فہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کے ساتھ اشتراک و تعامل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان وجوہات سے ضروری ہو جاتا ہے کہ دیگر تہذیبوں کی بنیادوں کا صحیح فہم ہو۔ ہم دوسروں کے نقطہ نظر کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک کہ دوسری تہذیبوں کو اپنی عینک سے دیکھنے کے بجائے راست ان کے ذرائع سے ان کے دلائل اور توجیہات کو سمجھ نہ لیں۔ تہذیب و تمدن کی بحث کا از سر نو جائزہ لینا Revisit اس لیےبھی ضروری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اسلامی تہذیب کے ورثے سے واقف کرا سکیں اور جن کڑیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا،انھیں از سر نوبحال کر سکیں۔ کسی قوم کی شناخت کے لیے عوام ان کے نظریات اور تصورات کا مطالعہ کرنے کے بجائے ظاہر میں نظر آنے والے تہذیبی آثار کو دیکھتے ہیں اور اس سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس تہذیب کی بنیاد کس پر رکھی گئی ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جس زمانے میں ہندوستان میں اسلام آیا اس زمانے میں اسلام کے تصور مساوات سے لوگ متاثر ہو کر اس کے نظریہ و عقائد کے دلدادہ ہو گئے۔ ان وجوہات کی وجہ سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم قدرے تفصیل سے جانیں کہ تہذیب کیا ہے ؟ تمدن کیا ہے ؟ آیا یہ دونوں الفاظ ہم معنیٰ ہیں یا مختلف؟ دونوں میں کون کس پر فوقیت رکھتا ہے۔ علمی حلقوں میں اور ماہرین سماجیات کے یہاں ان دونوں کے مفاہیم کیا ہیں ؟یہ جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ مضمون اسی تفہیم کی طرف ایک پیش قدمی ہے۔
تہذیب صرف انسانوں کی ہوتی ہے
تہذیب کا آئیڈیا صرف انسانوں سے وابستہ ہے۔ جانوروں کی تہذیب نہیں ہوتی[1]۔ کیوں کہ جانور فطری قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی کوئی سماجی تعلیمات نہیں ہوتیں جن سے دنیا میں ہر آنے والا جانور کا بچہ متاثر ہوتا ہو۔ جانور فطرت اور جبلت کی رہ نمائی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے جیتا اورمر جاتا ہے۔ نہ اس کا کوئی سماج ہوتا ہے نہ اسے ڈھالنے کی اس کے اندر کوئی تمنا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کے ساتھ ایک دوسری صورت حال پیش آتی ہے۔ انسانی زندگی کا تصور سماج کے بغیر ممکن نہیں۔ جانور کی زندگی میں کسی مقصد کا تصور نہیں ہوتا جب کہ انسانوں کی زندگی کی معنویت کا علم ان کی تہذیب کے مطالعے سے ہوتا ہے، کہ زندگی کیا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے ؟ جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو اپنے اطراف ایک سماج پاتا ہے۔ اس سماج کے کچھ تصورات اور کچھ ریت روایات ہوتی ہیں۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں اس کا سماج اور تہذیب ایک رول ادا کرتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ سماج کا تصور تہذیب کے بغیر ممکن نہیں اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان ایک تہذیبی وجود رکھتا ہے۔ انسان جس وقت دنیا میں آتا ہے اس وقت سے قبر میں پہنچنے تک اس پر سماج کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے آئیڈیاز، تصورات زندگی، طرز زندگی، اخلاقیات، اقدار، اظہار ما فی الضمیر کے طور طریقے سماج سے شعوری اور غیر شعوری طور پر وہ لیتا رہتا ہے اور اس کی توجیہ بھی کرتا ہے۔ ہر انسان بعد کی نسلوں کو مادی ورثہ کے علاوہ تہذیبی ورثہ بھی چھوڑ جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ انسان صرف سماج سے تہذیب لیتا نہیں بلکہ اپنے وقت کی تہذیب پر اپنی سوچ، فکر،خیالات اور اپنی تحقیقات کی روشنی میں اپنے سماج اور سوسائٹی کو اور زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ یہ خوش گوار الجھاؤ اور یہ پیچیدگی صرف انسانوں سے وابستہ ہے۔
تہذیب کا مفہوم
تہذیب کی تعریف کے سلسلے میں جب ہم علم سماجیات کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو سینکڑوں تعریفیں ہمیں ملتی ہیں۔ ہم یہاں مشہور ماہر سماجیات مالک بن نبی کی تعریف کا خاص طور سے ذکر کریں گے۔
تہذیب و تمدن کی اصطلاحات کے استعمال کے سلسلے میں مشہور ماہر سماجیات مالک بن نبی کا انوکھا نقطہ نظر ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی بھی بڑی تہذیبی تبدیلی جو سماج کو متاثر کرے اور ایک عالمی تمدن کے جنم کا ذریعہ بنے اس کا تقاضا ہے کہ انسانی شخصیت کی کایا پلٹ ہو[2]۔ اس کے وسیع تر مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ انسانی روح، ذہن، عادت و اطوار، سماجی تعلقات اور طرز زندگی میں تبدیلی آئے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ انسانی گروہ کے اندر جب انقلاب برپا ہوتا ہے تو نئی تہذیب کا آغاز ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور برتنے کے طور طریقے اکثر بدل جاتے ہیں۔ یہیں سے ایک نئے تمدن کا آغاز ہوتا ہے۔ تہذیب کی اصل اسپرٹ یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ون اور اس کی نفسیات کے اجزائے ترکیبی کو متاثر کرے۔ جب دنیا میں کوئی نئی تہذیب رونما ہوتی ہے تو اس کے سائے تلے ایک نئے تمدنی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جب کوئی تہذیب زوال کا شکار ہوتی ہے تو اس کے تمدنی آثار کے نقوش بھی یکے بعد دیگرے مٹتے چلے جاتے ہیں، اور اس کے تمدنی اثرات کا سورج بھی زمانے کی رفتار کے ساتھ نہ چلنے کی وجہ سے غروب ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا تعریف کی روشنی میں تہذیب کے سلسلے میں کچھ بنیادی نکات ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
تہذیب کا تعلق اصل میں انسان کی ذات سے ہے۔ کیوں کہ انسان سماجی جانور ہے اس لیے سماج سے وہ سیکھتا ہے اور سماج پر اثرات چھوڑتا ہے۔ تہذیب کا وجود کہیں تنہائی میں نہیں ہوتا۔ وہ سماج کا پروڈکٹ ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی ابتدا کسی ایک فرد سے ہوئی ہو مگر اس فرد نے ایک جماعت بنائی۔ اس جماعت نے ایک سوسائٹی تعمیر کی۔ اس سوسائٹی نے ایک ریاست کو وجود بخشا۔ وہ تہذیب اس سیاسی سر پرستی میں پروان چڑھتی، آگے بڑھتی اور دوسری تہذیبوں کو متاثر کرتی ہے۔
تہذیب کا تعلق سیکھنے سے ہوتا ہے۔ سیکھنے کا عمل دنیا میں آنے کے بعد روز اول سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے سیکھنا شعوری بھی ہو سکتا ہے اور لاشعوری بھی۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس کا ایک بڑا حصہ غیر شعوری طور پر حاصل کرتا ہے۔ زبان، لباس، طرز تعلیم، طرز تعمیر،خوشی اور غم کے مواقع پر سماج کی نگاہ میں پسندیدہ اور مقبول عمل، صحیح اور غلط کے معیارات اور ان سب میں سب سے اہم ترین نکتہ کائنات، الوہیت، حیات اور انسان کے بارے میں تصور۔ عموما یہ تمام امور سماج سے غیر شعوری طور پر سیکھے جاتے ہیں الا یہ کہ شعور آنے کے بعد اپنی ہی تہذیب کے بعض امور پر کوئی سوال کھڑا کرے جس کی جرأت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔
گو کہ ہر تہذیب کی کچھ تصوراتی بنیادیں ہوتی ہیں مگر بہت سی تہذیبیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے نتیجے میں تاثیر قبول بھی کرتی ہیں اور اپنے اثرات بھی چھوڑتی ہیں۔ اس کائنات میں تصور خدا اور تصور انسان یعنی ورلڈ ویو کے مختلف ہونے کے باوجود اپنے اصولوں پر رہتے ہوئے دوسری تہذیبوں کے قالب میں ڈھل جانے کا عمل باہمی اشتراک و تعامل سے ہوتا رہتا ہے۔ اس کا ہم ہندوستان میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بہت سے علاقوں میں مختلف تہذیبوں کے ایک ہی سوسائٹی میں اپنا وجود رکھنے کے نتیجے میں زبان،لباس طرز معاشرت، طرز سیاست وغیرہ میں ظاہری طور پر بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔
تہذیبوں کا تسلسل ہزاروں سال تک طویل ہوتا ہے۔ علاقے اور آب و ہوا کے بدلنے کے ساتھ ساتھ کچھ جزوی تبدیلیاں ضرور ہو جاتی ہیں مگر نسلاً بعد نسل اصولوں کو باقی رکھا جاتا ہے۔ تہذیب کو ہم ایک ندی سے مشابہ سمجھتے ہیں کہ ندی جس طرح سے مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی چلی جاتی ہے،اسی طرح تہذیب مختلف نسلوں سے گزرتی چلی جاتی ہے۔
تمدن کی تعریف
تمدن civilization لاطینی لفظ civitas سے نکلا ہے جس کا معنی شہر ہے۔ اس لیے تمدن کی بنیادی تعریف یہی کی گئی ہے کہ ایک ایسی سوسائٹی جو شہروں سے بنی ہو۔ اس لفظ میں وہ تمام ہنر اور قابلیت، خصوصیات اور نمایاں صفات شامل ہیں جو ایک منصوبہ بند شہر میں پائی جاتی ہوں۔ کیوں کہ شہر ماضی قریب کی تاریخ میں وجود میں آئے۔ اس لیے تمدن کی تاریخ بھی تہذیب کے مقابلے میں بالکل نئی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ صدی شہروں کی صدی مانی جاتی ہے۔ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اور بڑی وسعتوں کے ساتھ ساری دنیا میں شہر بنائے اور بسائے جا رہے ہیں جن میں حاصل تعیشات اور سہولیات حیران کن ہیں۔ 1850 میں صرف 4 شہر ایسے تھے جن کی آبادی دس لاکھ سے متجاوز تھی۔ 1900 کی شروعات میں ایسے شہر صرف 19 تھے۔ 1960 میں 141 شہر روئے زمین پر آباد ہو چکے تھے[3]۔ آج ہندوستان میں ایسے 40 شہر پائے جاتے ہیں جن کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہے۔ ساری دنیا میں آج 508 شہر پائے جاتے ہیں اور اندازہ ہے کہ 2030 تک ایسے 706 شہر ہوں گے جن کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہو گی۔
تہذیب و تمدن میں فرق
یہاں پہنچ کر ہم وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے کہ تہذیب اور تمدن میں کیا فرق ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ تہذیب اور تمدن دو الگ الگ عنوانات ہیں،گوکہ دوسرے عنوان کا گہرا تعلق پہلے موضوع سے ہے۔ ان دونوں حصوں میں اصل فرق وہی ہے جو انسان کے اندرون اور بیرون میں ہے۔ ہمارا اندرون تسلیم کرتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے، اس کا ہم سے گہرا رشتہ ہے، اسی نے ہمیں پیدا کیا اور اسی کے سامنے ہم جواب دہ ہیں۔ اس نے ہمیں بہترین مخلوق بنایا۔ بعض بنیادی اوصاف اور اقدار ہیں جسے انسان ہر زمانے اور ہر علاقے میں کسی بھی مذہب کو اپناتے ہوئے یکساں طور پر پسند کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے۔ کچھ بنیادی خرابیاں ہیں جنھیں ہر زمانے کا،ہر علاقے کا اور ہر مذہب کا انسان برا مانتا تھا اور آج بھی اسے برا تسلیم کرتا ہے۔
انسان کی بیرونی دنیا میں انسان کی بقا کا سامان بکھرا ہوا ہے۔ اسے خوراک کی ضرورت پڑتی ہے، لباس اس کی ضرورت ہے، چھت کے سائے میں وہ آرام کی نیند سوتا ہےاور قدیم زمانے سے آج تک اپنے دفاع کے لیے وہ کچھ نہ کچھ انتظامکرتا رہا ہے تاکہ جانوروں سے محفوظ رہ سکے۔ جب انسانی قبیلے بڑھنے لگے تو ایک دوسرے کی دست درازیوں سے محفوظ رہنے کے لیے اس نے اوزار بنائے۔اور جب ریاستیں بن گئیں تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے جذبے کو کنٹرول کرنے، اپنا دفاع کرنے اور دوسروں کے ظلم کا تدارک کرنے کے لیے اسے ہتھیار کی ضرورت پڑی۔
انسان کھیتی باڑی سے کارخانوں کے دور میں جب داخل ہوا تو انسانی ضروریات کے تحت بہت سی چیزیں ایجاد ہوئیں اور زندگی کو آسان بنایا گیا۔
ہر زمانے میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ کمیونیکیشن کرتا رہا۔فاصلے بڑھنے کے ساتھ کمیونیکیشن کے نت نئے طریقے بھی دنیا میں وجود میں آتے رہے۔
پہلے کا تعلق فلسفہ،عقیدہ اور مذہب سے ہے جسے ہم تہذیب کہیں گے اور دوسرے کا تعلق اوزار، ہتھیار اور ایجادات سے ہے جسے ہم تمدن کہیں گے۔
تہذیب اور تمدن : دو انسانی ترتیبیں
انسان کی دو ترتیبیں (orders)پائی جاتی ہیں۔اس لیے کہ ہمارے اطراف کی دنیا میں بھی دو ترتیبیں پائی جاتی ہیں۔ ایک ترتیب انجن (engine)سے متعلق اور دوسری ترتیب خوش الحان آواز(melody) سے متعلق۔ اپنے آخری تجزیے میں دونوں الگ ہیں اور ان دونوں کا ایک ماخذ نہیں ہے[4]۔ ایک جہان دیگر کی طرف اور دوسری موجودہ دنیا کی طرف۔ موجودہ دنیا سے پرے ایک اور دنیا ہے جو ابدالآباد تک رہے گی، اس کا احساس انسان کے اندرون میں ہمیشہ سے پایا گیا ہے۔ اس آنے والی دنیا کے بارے میں انسان کا خیال ہے کہ وہاں اچھے اعمال کی جزا ملتی ہے اور برے اعمال کی سزا ملتی ہے۔انسانی نجات ہی اس زندگی کا اہم ترین مقصد ہے جس کے لیے انسان دوڑ دھوپ کرے۔ اس کے نتیجے میں انسان جب زندگی بسر کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ بھلائی کرے، اچھے خیالات کا اظہار کرے، ضمیر کی آواز کو سننے کی طرف متوجہ ہو، ظلم و نا انصافی سے بچے، انسانوں کی مدد و تعاون کرے، لطیف اور خوشگوار جذبات و احساسات کو پروان چڑھائے، تخیل کی ایسی دنیا آباد کرے جس میں سکون ہو،خوشی ہو اور حقیقی سرور ہو۔ اسی فکر کے مظاہر ہیں: خدا کی تعریف، اپنےخیالات کے اظہار کے لیے شاعری، اشعار کی نغمگی، نغمگی کےحسن کو دوبالا کرنے والی موسیقی۔ انھی کو ہم مظاہر تہذیب کہتے ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب کے اظہار میں یہ اجزائے ترکیبی لازماً پائے جاتے ہیں۔ کہانیاں افسانے اور نا ول انسانی تخیل کی پرواز ہوتے ہیں جن میں فرضی اور غیر حقیقی کردار کے ذریعے دنیا کے سامنے اس تہذیب کا ورلڈ ویو پیش کیا جاتا ہے۔ انا فسانوں میں ہیرو اس کو کہا جاتا ہے جو ان اقدار کی خاطر جسے وہ تہذیب دنیا میں پروان چڑھانا چاہتی ہے جان تک کی قربانی دے دیتا ہے۔ اور اس کے بالکل برعکس ولن وہ کردار ہوتا ہے جس کے پاس اپنے مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں، جس کا ضمیر مردہ ہو چکا ہوتا ہے، انسانوں کے ساتھ کوئی بھلائی اس کے کیریکٹر کا جز نہیں ہوتے۔ ان افسانوں کہانیوں اور ناولوں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بے گناہ فرد اپنے ناکردہ جرم کی سزا پاتا ہے اور ایک ظالم بچ کر نکل جاتا ہے۔ پڑھنے والا پہلے کردار پر افسوس کرتا ہے اور دوسرے کردار سے اسےنفرت ہونے لگتی ہے، اس لیے کہ اس کی فطرت چاہتی ہے کہ جس نے غلط نہیں کیا اسے سزا نہیں ملنی چاہیے تھی اور جس نے غلط کیا اسے عدالتوں سے بری نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کہانی کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ہمارے ضمیر کی آواز کے مطابق انصاف نہیں ملتا تو ایک ایسی دنیا لازماً وجود میں آئے گی جہاں ہماری ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ ضمیر کی آواز دراصل اندرون میں خدا کی آواز ہوتی ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے ناول ہوں یا ایچ جی ویلز کی کہانیاں ہوں یا لیوٹالسٹائی کے افسانے، اسی طرح باغ و بہار کی سیریز ہوں یا نسیم حجازی کے ناول ہوں ان سب میں یہ مشترکہ تھیم/ پلاٹ پایا جائے گا۔ اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تہذیب کا تعلق آسمانی دنیا سے ہے جس کے سگنل انسان کے اندر میں پائے جاتے ہیں۔ جب کہ تمدن شہریت زدگی کو کہتے ہیں۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے[5]۔ منظم طریقے سے شہری زندگی میں انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے، جو کچھ بناتا ہے اور جس طرح کی آسائش کی زندگی اختیار کرتا ہے وہ سب تمدن کہلاتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں شہروں کا وجود بہت بعد کی بات ہے۔ جب کہ تہذیب انسان کے ساتھ روز اول سے لگی ہوئی ہے۔ علم بشریات کے مطابق انسانی وجود کی تاریخ کم از کم ستر ہزار سال بتائی جاتی ہے۔ آلون ٹافلر (Alvin Toffler)نے انسانی تاریخ میں تہذیب اور تمدن کے وجود کو ایک اسکیل میں سمجھایا ہے۔ اس نے انسانی تاریخ کے گذشتہ پچاس ہزار سال کے تجربات کو “مدت حیات” Life-time سے تقسیم کیا ہے۔ اس نے ایک انسان کی مدت حیات 62 سال پکڑی ہے۔ آج انسان “مدت حیات” کے 800 ویں دور سے گزر رہا ہے۔ اس اسکیل میں 650 مدت ہائے حیات وہ گپھاؤں اور غاروں میں بسر کر چکا۔ تحریر کی زبان کو منصہ شہود پر آئے ہوئے صرف 70 مدت ہائے حیات گزری ہیں۔ پرنٹ کی دنیا صرف گذشتہ 6 مدت ہائے حیات سے آباد ہے۔ آج دنیا کی رونق کی ایک بڑی وجہ الیکٹرک موٹر ہے۔ اس کی ایجاد کو اج صرف دو مدت ہائے حیات گزری ہیں۔ ٹیلی ویژن، ہوائی جہاز،موٹر گاڑیاں، نیوکلیائی ہتھیار آخری مدت حیات کی ایجاد ہیں۔ 800 مدت ہائے حیات صرف آخری مدت حیات میں دنیا کے 90 فی صد سائنس دان پیدا ہوئے ہیں۔ ماڈرن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی وجود کا دورانیہ نصف مدت حیات ہے[6]۔
اس وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ روز اول سے انسان اندر کی دنیا کی ترتیب پر مستقل چلتا رہا۔ مگر بیرون کی دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہونے اور مادی دنیا کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی تاریخ انسانی تاریخ کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ اس گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تہذیب در اصل نام ہے انسانی زندگی پر انسان یا مذہب کے اثرات کا۔ اس کے برعکس تمدن نام ہے انسانی ذہانت کے اثرات کا جو بیرونی دنیا پر پڑے یا نیچر کو سمجھنے اور اس میں پوشیدہ قوتوں کے استحصال کی صورت میں ہو۔
انسان کے اندر بہ یک وقت ملکوتی اور بہیمی صفات ودیعت کی گئی ہیں اور اس سے ہمیشہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ دائرہ شرافت سے باہر نکل کر بہیمیت کے دائرے میں داخل ہو جائے۔ ہمیشہ سے تہذیب کا یہ کام رہا ہے کہ انسان کو انسان بنائے رکھے اور یہ ایک عظیم فن ہے۔ جو لوگ اس فن سے عاری ہیں وہ انسانی سماج پر بھاری ہیں اور وہ انسان نما جانور بنے پھرتے ہیں جن سے سماج کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
انسان کو اللہ تعالی نے عقل کی بنیاد پر اپنی تمام مخلوقات میں بلند درجہ عطا فرمایا۔ اس عقل کے استعمال سے انسان دنیا کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے جتن کرتا ہے۔ زندگی کے قوانین وضع کرتا ہے، اپنی سہولت کے لیے نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے اور نظم و انصرام اور سیاست کے ذریعے سے انسانوں کی سماجی زندگی کو منضبط کرتا ہے۔یہ بھی ایک فن ہے۔ اور اس کا تعلق انسانی وجود کی اس ترتیب سے ہے جو اس دار فانی کی طرف ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ تہذیب کا بڑا گہرا رشتہ تصور خدا اور تصور انسان سے ہوتا ہے جس کا مرتب شدہ نسخہ مذہب ہوتا ہے۔ ہر مذہب کے عقائد ہوتے ہیں اور اس تہذیب میں پلنے والا انسان شعوری اور غیر شعوری طور پر ان عقائد کا ماننے والا ہوتا ہے۔ اس تصور خدا اور تصور انسان کی بنیاد پر شاعری کی جاتی اور ڈرامے لکھے جاتے ہیں، انھی تصورات کی بنیاد پر لوک گیت اور لوک کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور اسی ورلڈ ویو سے میتھالوجی وجود میں آتی ہے۔ ہر تہذیب کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ انسان کے لیے رہ نما خطوط ہوتے ہیں اور انسان کی قدر و قیمت انھی اخلاقیات کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔ تہذیبیں جمالیاتی ذوق کی قدریں بھی فراہم کرتی ہیں۔ بعض کے لطیف ذوق ہوتے ہیں اور بعض تہذیبوں کے ذوق بھونڈے ہوا کرتے ہیں۔ ان کے ذوق کا اظہار لباس کھانے، گانے، تفریح اور فن تعمیر سے ہوتا ہے۔
تہذیب کے ضمن میں اوپر جتنی باتوں کا تذکرہ آیا ہے دراصل انسان کی اندرونی ضرورتوں اور فطرت کے تقاضوں کے تحت یکے بعد دیگرے امر ہوتی چلی گئیں، جیسے شاعری کے ذریعے حمد باری تعالی، ترنم سے اس کی تسبیح و تہلیل، اس کا سریلی آواز میں پڑھے جانا، تعریفی کلمات کا حسن بڑھانے کے لیے ان آلات کی ایجاد ہوئی جو خوش کن آواز پیدا کرکے نغمگی کی سریلی آواز کی تاثیر بڑھاتے تھے۔ یہ انسان کے اندرون کی ضرورت تھی جو ان شکلوں میں ظاہر ہوئی۔
تمدن کے مظاہر
تمدن سے نیچر پر انسانی قدرت اور کمال کا اظہار ہوتا ہے۔اس کا ایک تسلسل ہے اور ہر مرحلے میں اس میں نمایاں ترقی ہوتی رہی ہے۔ سائنس اس کی کارفرما قوت ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی زمانے میں انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ اس زمانے میں جانوروں کے حملے سے دفاع کے لیے اس کے پاس ایک نوکیلی لکڑی ہوا کرتی تھی۔ جو قریب ہی سے استعمال کی جاسکتی تھی۔ پھر جب اس نے کچھ اور ترقی کی تو بھالا بنا لیا۔ اس کے بعد جب انسان نے لوہے کو کہیں پا لیا تو اس کا ایک نوکیلا حصہ بھالے کے ایک سرے پر لگا کر جانور پر حملہ کرتا تھا جسے نیزہ کہا جانے لگا۔ پھر انسان نے لوہے کا استعمال سیکھ لیا تو تلوار بنائی۔ تلوار حملہ کرنے کا ہتھیار ہے تو لوہے کی زرہ انسان پر ہونے والے وار کا دفاعی اسلحہ ہے۔ جب انسان کائنات میں پنہاں اصولوں کو اور مٹیریل کو ایجاد کرتا گیا تو بم اور بارود سے بنے گولے داغنے والے آلات ایجاد کر لیے۔ جس دن بندوق کی ایجاد ہوئی اس دن اس نے اس سے پہلے کے تمام ہتھیاروں کو مات دے دی۔ پھر بندوق کی جگہ جلد ہی کلاشنکوف،مشین گن اور ٹینکوں نے لے لی۔ یہ تو زمینی لڑائی اور دفاع کے ہتھیار تھے۔ انسان نے جب ہوا پر بھی دسترس حاصل کرلی اور اس میں اڑنے کا ہنر سیکھ لیا تو اس نے بم راکٹ اور میزائل بنائے۔ میزائیل کا توڑ کرنے کے لیے اس نے پیٹریاٹ میزائل بنائے۔ اس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں تمدن بھی قریب کے چند برسوں میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کرنے لگا۔ یہ پوری داستان تمدنی ترقی کے ایک پہلو کی چھوٹی سی مثال ہے۔ ایسے ہزار ہا میدانوں میں روز نت نئی ایجادات کے نتیجے میں تمدن ترقی کرتا جا رہا ہے۔
مغرب کے موجودہ دور کے جن علوم نے دنیا کو کافی ترقی دی وہ الحاد پر مبنی ہیں۔ اور الحاد میں روح کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ مغرب نقلی سائنسی دلائل تحقیق کے نام پر سامنے لے آیا جس نے جانوروں سے اس کا رشتہ ثابت کیا جنھیں کسی ضابطہ اخلاق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تہذیب کا تعلق روح انسانی سے ہے جب کہ تمدن کا وجود سراسر مادہ پر منحصر ہے۔ مادے کی خصوصیات کی جانچ،اس کی ایجاد، اس کے استعمال کے نئے رنگ ڈھب اور اس کی تاثیر کو بڑھانے کی تدبیروں نے دنیا کی رونق اور زندگی کی سہولیات میں زبردست اضافہ کیا۔ اور اسی مادے پر انسان قدرت حاصل کرکے دنیا میں تباہی کا سامان بھی کر رہا ہے۔
تہذیب کے اثرات
تہذیب کے گہرے اثرات انسانی شخصیت پر پڑتے ہیں۔دنیا میں آنے والا کوئی بچہ بھی ماحول کے بغیر اعلیٰ انسانی صفات اپنے اندر پروان چڑھا نہیں سکتا۔ تہذیب کا اصل ٹارگٹ انسان ہے۔ جب کسی سماج میں ایک اچھا انسان تیار ہوتا ہے تو وہ جماعت کے لیے بھی اچھا انسان ثابت ہوتا ہے۔ ہر تہذیب کے پاس انسانی شخصیت کے ارتقا کا کچھ نہ کچھ فارمولا ضرور ہوتا ہے اور اس ارتقائی پروسیس کے لیے وہ سماج فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں شخصیت کا ارتقا ممکن ہوسکے۔ ہر تہذیب اپنے ہاتھ سےخصوصی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے۔ اس پر امریکہ کے ماہر علم بشریات مارگریٹ میڈ نے لکھا ہے کہ تہذیب کردار سازی کرتی ہے اور انسانی رویوں کے خطوط کار متعین کرنے میں اہم رول اداکرتی ہے۔ اسے دوسرے معنی میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ تہذیب انسان کی تربیت کا کام کرتی ہے۔ اور تمدن مادے پر تاثیر اور اس کی خصوصیات میں تبدیلی کا کام کرتا ہے۔ تہذیب کا علم بردار فرد ہوتا ہے جب کہ تمدن کی علم بردار ایک پوری سوسائٹی ہوتی ہے۔
تہذیب کے ارتقا میں آسمانی تعلیمات کا ایک بڑا اہم رول ہوتا ہے جب کہ تمدن کے بنانے میں اسکول اور تعلیم اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مختلف تہذیبوں میں کائنات میں غوروفکر کی تربیت ایک تعبدی امر ہے جب کہ تمدن میں عقل کے استعمال اور تعلیم کے ذریعے سے انسان اس دنیا میں جینے کے لائق بنایا جاتا ہے۔
تہذیب انسان کی حریت کو باقی رکھتی ہے اور انسان کی شخصیت میں انسانیت نوازی کو پروان چڑھاتی ہے جب کہ تمدن انسان کو لائق فائق، مستعد اور سماج کے لیے مفید تر بناتا ہے۔
نیچے دیے گئے جدول میں تہذیب اور تمدن کے فرق کو نمایاں کیا گیا ہے۔
حوالے
- C.N.ShankarRao, Sociology, S. Chand Publishers, New Delhi, 1994, p. 216.
- Abdul Aziz Berghout, ’’The concept of culture and cultural transformation: views of Malik Bin Nabi,‘‘ Intellectual Discourse, 2001, Vol.9 No.1, pp. 67-83.
- Alvin Toffler, Future Shock, p. 30.
- Alija Ali Izetbegovic, Islam Between East and West, American Trust Publications, US, 1984, p. 77.
- C.N.Shankar Rao, Sociology,S. Chand Publishers, New Delhi, 1994, p. 236.
- Alvin Toffler, Future Shock, p. 22.
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2021