ایک دوست نے دعوت اسلامی کی پیش رفت کے مختلف گوشوں کے سلسلے میں اپنے سوالات ارسال کیے ہیں۔ان کا جواب ذیل میں درج کیا جا رہا ہے :
انقلاب كی تلاش:
سوال: آج دنیا میں چاروں طرف جو ایک اتھل پتھل مچی ہوئی ہے، کیا آپ کے مطابق اس کے حل کے لیے ہم ایک بڑے انقلاب کی امید کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس کا رنگ کیا ہوگا؟ تفصیل سے سمجھائیں۔
جواب: دنیا میں چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں بے انصافی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے لوگوں کے اندر انصاف کی طلب پیدا ہونا فطری بات ہے۔ چنانچہ ہم بڑی تبدیلی یا انقلاب کی امید کر سکتے ہیں۔ لیکن انقلاب خود نہیں آئے گا۔ اس کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔
انقلاب اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔ ایسا انقلاب جو انسانیت کو فائدہ پہنچائے، ان اصولوں کو اپنا کر لایا جا سکتا ہے، جو اسلام نے دیے ہیں۔ ایسے انقلاب کے لیے مسلمانوں کو کوشش کرنی ہوگی۔ وہ صرف اپنے مسائل حل کرنے میں نہ لگے رہیں، بلکہ دنیا کی رہ نمائی کے لیے آگے بڑھیں۔
سوال: آج بین الاقوامی حالات كے لیے مسلمان کتنے ذمہ دار ہیں؟ کیا مسلمان اسلام کے بنیادی تصورات اور اس کی خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کام یاب رہے ہیں؟
جواب: اپنے عمل کو اسلام کے مطابق بنانا، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ دین پر جتنا پختہ یقین مسلمانوں کو ہوگا، اتنا ہی ان کا انفرادی اور اجتماعی عمل، صالح بنتا جائے گا۔ صالح عمل میں کشش ہوتی ہے اور صالح عمل کرنے والے گروہ کی اچھی تصویر انسانوں کے ذہن میں ابھر تی ہے۔ یقیناً مسلمانوں کو اپنے عمل کو بہتر بنانا چاہیے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ اسلام پر مکمل عمل، مسلمانوں کی زندگی سے نہیں جھلکتا۔ اس لیے علم کو پھیلانے، ایمان کو تازہ کرنے اور کردار کی تعمیر کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ مسلمان سماج پورے دین کو اپنائے۔
عالمِ اسلام
سوال: بین الاقوامی سطح پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی (OIC) آپ کی رائے میں كتنی فعال هے؟
جواب: OIC کا فورم محض رسمی کام کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو سرگرم اور فعال بنایا جائے۔ اس کے لیے مسلمان حکمرانوں کو توجہ کرنا چاہیے۔ ہماری تنظیمیں اور اہلِ علم و دانش ، حکمرانوں کو نصیحت کر سکتے ہیں اور یہ کام انهیں ضرور کرنا چاہیے۔
سوال: مستقبل کےاندیشوںکو مد نظر رکھتے ہوئے ، اس ملک کے مسلمانوںكے لیے اسلامی قوانین و اصولوں پر عمل پیرا ہونا کتنا مشکل ہوگا؟
جواب: ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلم دشمن عناصر کی طاقت بڑھ گئی ہے۔ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان پریشان ہیں۔ یہ پریشانی فطری ہے۔ لیکن مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حق کے راستے پر چلنا کبھی آسان نہیں رہا۔ اس لیے اس وقت جب کہ حالات مشکل ہیں، مسلمانوں کو ہمت سے کام لینا چاہیے اور دین کے اصولوں پر جم جانا چاہیے۔ جو بھی مشکلات آئیں گی ان کا مقابلہ پختہ ایمان، صالح کردار اور مسلسل محنت کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ اہل حق کے حوصلے بلند کرے اور ان کی مدد کرے۔
سوال: آج بھی اس دیش میں آزادی نسواں، طلاق، پرسنل لاجیسے موضوعات كے بهانے اسلام پر تنقید كی جاتی ہے۔ آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
جواب: مسلمانوں کے عوام اور ان کے پڑھے لکھے لوگ، دونوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میںیہ سبھی موضوعات اهمیت كے حامل ہیں۔ یعنی آزادی نسواں، عورتوں کے حقوق اور ذمہ داریاں، نکاح اور طلاق کے اسلامی احکام، مسلم پرسنل لا کی اہمیت اور یکساں سول کوڈ کی نامعقولیت۔ ان باتوں کو عوام کے سامنے رکھنے کے لیے جلسے اور عام پروگرام ركھنے چاهئیں۔ لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی دینا چاہیے۔ ان جلسوں کی تقریروں کے ویڈیو تیار کیے جائیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ان کےالگ جلسے ہوں۔ ساتھ ہی کتابیں پڑھنے کے لیے دی جائیںاور فولڈر تقسیم کیے جائیں۔ وکیلوں کے ساتھ الگ جلسہ کر کے اسلامی قانون سمجھایا جائے۔ ان جلسوں میں غیر مسلم احباب كو بھی بُلایا جائے۔
مّلی مسائل:
سوال: جماعت اسلامی ہند نے تعلیم کی بات تو خوب کی، لیکن اچھے ادارے قائم نه هوسكے۔ اس كا سبب كیا هے؟
جواب: جماعت اسلامی ہند نے تعلیم، اس کی اہمیت اور اس کے اصولوں کے سلسلے میں بات کی ہے۔ جماعت کا نقطۂ نظر کتابوں کے ذریعے اور کبھی کبھی مہم کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اب تک جو کچھ ہوا ہے، وہ ضرورت سے بہت کم ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں منصوبہ بنا کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری کام چار ہیں: (۱) تعلیم کا اسلامی تصور پیش کرنا (۲) نصابی کتابیں تیار کرنا (۳) اساتذہ کی تربیت کرنا (۴) اچھے تعلیمی ادارے قائم کرنا اور چلانا۔ جماعت کو زیادہ تر توجہ پہلے تین کاموں پر دینی چاہیے۔ چوتھے کام کے لیے مسلمانوں کے اہل خیر افراد، اداروں اور انجمنوں کو متوجہ کرنا چاہیے۔
سوال: بامقصدسیاست كی بڑی اهمیت ہے، لیکن جماعت اسلامی ہند کے اندر بھی اس سلسلے میں تردّد رہا ہے۔ مستقبل کے چیلنجوں کو مد نظر رکھتے ہوئےكیا كرنا چاهیے؟
جواب: اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ، زندگی کے دوسرے گوشوں کی طرح سیاست میں بھی اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنی ضروری ہے۔ چنانچہ سیاسی سرگرمیوں کو اچھے مقاصد کا اور صالح قدروں (Values) کا تابع ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں سیاسی سرگرمیوں کا ایک رخ یہ ہے کہ اسلام کے تصور حاکمیت الٰہ کی وضاحت کی جائے اور اسلام کی اصطلاحات یعنی، خلافت، امانت، اطاعت فی المعروف، شورائیت اور عدل کی تشریح کی جائے۔ یہ کام بنیادی ہے اور اسلامی دعوت کا اہم حصہ ہے۔ اس کو توجہ کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔ سیاسی سرگرمیوں کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومت کے قوانین ، پالیسیوں اور اقدامات پر نظر رکھی جائے، ان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ پھر معروف کی تلقین کی جائے اور منکر سے روکا جائے۔ اس کے لیے اپنا نقطۂ نظر ، عوام اور ذرائع ابلاغ (میڈیا) کے سامنے رکھنا ہوگا۔ ساتھ ہی جو لوگ حکومت کو چلا رہے ہیں (مقننہ، Legislature کے ہوں یا انتظامیہ اور بیورو کریسی کے) ان سے مسلسل ربط رکھ کر اسلامی دعوت کا تعارف بھی کرانا ہوگا اور وقتی مسائل میں اسلام کے نقطۂ كی وضاحت بھی كرنی هوگی۔
مندرجہ بالا دونوں کام ضروری ہیں۔ یعنی اسلام کے سیاسی نظریے کا تعارف اور ہندوستان کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر کا اظہار۔ یہ کام مسلمانوں کی ہر اس تنظیم کو انجام دینے چاہئیں جو سیاسی سر گرمیاں انجام دیتی ہو۔ مسلمانوں كی هر سیاسی پارٹی سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ جو موضوعات، ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں، ان کے سلسلے میں غوروفکر کے بعد اسلامی نقطۂ نظر متعین کرے گی اور اس کا اظہار کرے گی۔ اس کے علاوہ اسلام کی سیاسی تعلیمات کا عام فہم انداز میں تعارف بھی کرائے گی۔
سوال: جماعت اسلامی اور ایس آئی او کاقریبی تعلق ہے۔ یہ کتنانفع بخش رها ہے؟
جواب: اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا(ایس آئی او) کا دائرۂ کار طلبہ ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی ہند تمام باشندگان ملک کو خطاب کرنا چاہتی ہے۔ دونوں تنظیموں کے درمیان مضبوط ربط اور تعاون ضروری ہے۔ حلقے اور مرکز کی سطح پر ایس آئی اوکو جماعت کی باضابطہ دستوری سرپرستی حاصل ہے۔ یعنی امیر جماعت، ایس آئی اوکے مرکزی فیصلوں کی توثیق کرتا ہے، جبکہ امیر حلقہ۔ حلقے کی سطح پر ایس آئی اوکے متعلقہ زون کے فیصلوں کی توثیق کرتا ہے۔ سرپرستی کے اس تعلق کو حقیقی نگرانی کی صورت میں سامنے آنا چاہیے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ زون کی سطح پر ایس آئی اوکے منتخب ممبران کے تربیتی اجتماعات میں اس حلقے کے ذمہ دارانِ جماعت کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ اس طرح مرکزی سطح پر منعقد منتخب ممبروں کے پروگرام میں جماعت کے مرکزی ذمہ داروں کی شرکت ضرور ہونی چاہیے۔ طلبہ ان کی تقریریں سننے کے علاوہ ، غیر رسمی انداز میں بھی ان سے استفادہ کریں اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کریں۔ اسی طرح جہاں ممکن ہو، مقامی سطح پر طلباء کی تربیت میں جماعت کے افراد سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
معاشره:
سوال: اچھے سماج كی تعمیر كے لیے كس كوشش كی ضرورت هے؟
جواب: مسلمان خیر امت ہیں۔ اللہ نے ان کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ خود دین پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ، حق کی دعوت دنیا میں پھیلائیں اور انسانوں کے سامنےحق کےگواہ بنیں۔ ان کو انسانی دنیا کی رہ نمائی کرنی ہے۔ ان کا مشن یہ ہے کہ معروف اور نیکی کا حکم دیں۔ اسی طرح برائی اور منکر سے انسانوں كوروکیں۔ یقیناً یہ کام، مسلمانوں کے کرنے کا ہے ، لیکن اس کے انجام دینے میں وہ تمام انسانوں کا تعاون حاصل کر سکتے ہیں۔
زندگی کے بہت سے پہلو اور شعبے ہیں۔ ان کو آپ مورچہ اور محاذ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر شعبے میں انسان رہ نمائی کے محتاج ہیں۔ اسی طرح آج کی اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ، اصلاح چاہتا ہے۔ اسی لیے چند محاذوں یا مورچوں تک اصلاح کے کام کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ترجیح کے اعتبار سے بعض گوشے زیادہ توجہ کے مستحق ہوں گے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صالح سماج کی تعمیر کے لیے، افراد کی تربیت سب سے زیادہ اہم ہے۔ ایک فرد کے اندر اچھی شخصیت کی تعمیر ، ایمان کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک کو انسانوں سے ربط قائم کر کے ان کو اللہ کی طرف بلانے کا کام کرنا ہوگا۔ چنانچہ جس مہم کے چلانے کی ضرورت ہے، وہ انسانوں کو اللہ سے جوڑنے کی مہم ہے۔
سوال: مُلك كی آبادی میں جماعت كے اركان بهت كم هیں؟ اس كمی كی تلافی كیسے كی جائے؟
جواب: یہ واقعہ ہے کہ ملک کی آبادی کے پیش نظر، جماعت اسلامی ہند سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ البتہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر فرد اور گروہ پر اللہ نے اتنی ہی ذمہ داری ڈالی ہے، جتنی اس کی طاقت ہے۔ اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش بھی ہمیں کرنی چاہیے، لیکن جماعت کا ممبر اسی شخص کو بنائیں جو دین پر اخلاص کے ساتھ عمل کے لیے تیار ہو۔ پھر تعداد کم ہو یا زیادہ، اچھا منصوبہ بنا کر ، اللہ سے دعا کرتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ چھوٹی کوششوں سے بڑے نتیجے نکالنا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ حق کی دعوت اگر سماج میں پھیلنے لگے تو صحیح راستہ تلاش کرنے والے خود اس کی طرف آئیں گے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ بہت سے مسلمان جو جماعت اسلامی سے وابستہ نہیں ہیں، وہ بھی دین کی خدمت کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ان سے ربط رکھنا، تبادلۂ خیال کرنا ، تعاون کرنا اور تعاون لینا، یہ بھی جماعت کے افراد کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح افراد کے کم ہونے کا مسئلہ ایک حد تک حل ہو جائے گا۔ پورا مسلمان سماج ، جو اس ملک میں رہتا ہے، جاگ جائے اور متحر ک ہو جائے تو اسلامی دعوت کی رفتار بہت تیز ہو سکتی ہے۔
ذرائع ابلاغ:
سوال: آج ذرائع ابلاغ كے مضر اثرات كا مقابله كیسے كیا جائے؟
جواب: بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہم خود میڈیا( ذرائع ابلاغ) سے متأثر نہ ہوں بلکہ اپنے کان اور آنکھیں کھلی ركھیں۔ خود حقائق کو جانیں اور درست نتیجے نکالیں۔ اس کام کے لیے، جس حد تک ہمارا اپنامیڈیا موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی اور ان کے نوجوان افرادکی بھی ایسی تر بیت کریں کہ وہ میڈیا کامضر اثر قبول نہ کریں، بلکہ ہوش مندی کے ساتھ دنیا میں جینا سیکھیں۔ رفتہ رفتہ مسلمان صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ کارکنوں (Media Persons) کی ایسی تربیت ہمیں کرنی چاہیے کہ وہ دنیا کی حقیقی صورت حال سے باخبر ہونے کا ہنر سیکھیں اور پھر دنیا کو صرف سچی خبریں فراہم کریں۔ ان کا تجزیہ درست، بے لاگ اور حقائق پر مبنی ہو اور وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی جانب انسانوں کو متوجہ کریں۔ ہماری اپنی خبر رساں ایجنسیاں، وجود میں آنی چاہئیں۔ تاکہ ہم جھوٹ بولنے والے میڈیا کے محتاج نہ رہیں۔ اس مرحلے کے طے کرنے کے بعد آپ کے اخبارات و رسائل، فی الواقع دنیا کو حقائق سے آگاہ کر سکیں گے۔ میڈیا کی نامعقولیت کی شکایت کرتے رہنے کے بجائے ہمیں موجودہ میڈیا سے بے نیاز ہو جانا چاہیے اور متبادل میڈیا کو وجود میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کے ادارے اور اہل خیر افراد، اس جانب توجہ دیں تو پیش رفت ممکن ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2019