وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِیرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِینَ [البقرة: 45]
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، یہ کام بہت بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جن کے دل جھکے ہوتے ہیں)
نماز اسلام میں عبادت کا وہ پہلا رکن ہے جو امیر و غریب، بادشاہ و فقیر، مرد و عورت،جوان اور بوڑھے، آقا اور غلام، بیمار اور تندرست سب پر یکساں طور پر فرض ہے۔اگر کھڑے ہو کر ادا نہیں کر سکتے تو بیٹھ کر ادا کرو، اگر اس کی بھی قدرت نہیں تو لیٹ کر ادا کر سکتے ہو۔
نماز کیا ہے؟
رب رحیم کی حمد و ثنا، اس کی یکتائی اور کبریائی کا اقرار ہے۔یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔یہ حساس واثر پذیر طبیعت کی اندرونی پکار ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی گہرائی میں کوئی ساز ہے جو نہ معلوم انگلیوں کے چھونے سے بجتا رہتا ہے۔
حضرات گرامی، دنیا کی تمام مخلوقات اپنی اپنی طرز اور اپنی اپنی بولیوں میں خدا کی حمد و ثنا اور تسبیح اور تحلیل میں مصروف ہیں۔قرآن کہتا ہے:
وَإِنْ مِنْ شَیءٍ إِلَّا یسَبِّحُ بِحَمْدِهِ [الإسراء: 44] (ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کررہی ہے)
دوسری جگہ کہتا ہے:
كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِیحَهُ [النور: 41] (سب اپنی نماز اور اپنی تسبیح سے آگاہ ہیں)
یعنی پوری کائنات نماز ادا کر رہی ہے۔ یعنی کائنات کی ہر شے تکوینی طور پر ابراہیمی مزاج رکھتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، چوپائے سب خدا کے امر و حکم کے سامنے سرنگوں ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کر سکتی۔ سورج کائنات کی سب سے روشن نشانی ہے اور انسانوں نے اسی کو سب سے زیادہ معبود بنا کر پوجا ہے۔ خود اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ شب و روز اپنے رب کے آگے قیام، رکوع اور سجدے میں ہے۔ طلوع کے وقت وہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے، دوپہر تک وہ قیام میں رہتا ہے، زوال کے بعد رکوع میں جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت وہ سجدے میں گر جاتا ہے۔ اور رات بھر وہ سجدے میں رہتا ہے۔ اسی طرح چاند اپنے گھٹنے اور بڑھنے سے، ستارے اپنے طلوع و غروب سے، درخت اور پہاڑ دریا اور سمندر سب کے سب اپنے اپنے انداز سے خدا کے سامنے سر بسجود ہیں اور شکر و سپاس کے جذبات سے معمور بھی۔
برادران اسلام، قرآن کہتا ہے پوری کائنات میں ہم آہنگی، توافق و سازگاری ہے۔ اور اسی وجہ سے وہاں عدل و انصاف اور امن و شانتی پائی جاتی ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی ٹکراؤ نہیں، سورج، چاند ستارے سب کے سب اپنے مدار میں سرگرم عمل ہیں تو اے انسان تو بھی کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہو جا۔ جب زمین کے جانوروں، جنگل کے درختوں، فضا کی چڑیوں، سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے تاروں میں سے کوئی بھی اس کا باغی نہیں تو کیوں انسان اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے اس سے بغاوت کرے؟ چناں چہ قرآن کہتا ہے:
أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ. وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ. [الرحمن: 8، 9]
تمام کائنات کی فطرت میں توافق ہے۔ یہ پورا ساز نغمہ ریز ہے پھر انسانی فطرت کا ساز کیوں خاموش ہے، کیوں نہ وہ اس بزم میں اپنا نغمہ چھیڑے کہ تمام کائنات حمد و تسبیح کے ترانوں سے گونج اٹھے!
حضرات، اسلام دین فطرت ہے اور نماز پوری کائنات کا ترانہ ہے۔ اس لیے نماز اسلام کا ستون قرار پائی، اس لیے جو اسے ڈھائے گا وہ پورے دین کو ڈھا دے گا اور جو اس کو استوار کر ے گا وہ پورے دین کو استوار اور محکم کر لے گا۔ الصلاۃ عماد الدین (نماز دین کا ستون ہے) کا مفہوم یہی ہے۔
حضرات! پوری کائنات میں نظام عدل و قسط نافذ ہے اس لیے قرآن اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ انسانی سماج میں عدل و قسط نافذ کرو تاکہ یہ سماج بھی امن و سکون اور شانتی کا گہوارا بن جائے۔ قرآن کہتا ہے کہ عدل و قسط کے قیام کی راہ میں بڑی دشواریاں حائل ہوتی ہیں، مٹھی بھر لوگ عام انسانوں کی گردن پر سوار ہو کر ان کے ساتھ ہر قسم کے ظلم و فساد کو روا رکھتے ہیں۔ جب عدل و انصاف کے قیام کی آواز بلند ہوتی ہے تو ایسے لوگ اس کی راہ میں چٹان بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور عدل و انصاف کی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس وقت اہل حق و انصاف کو صبر و استقامت کی تلقین کی جاتی ہے اور انھیں نماز سے مدد چاہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
حضرت موسی نے بنی اسرائیل کو فرعونی مظالم سے مقابلے کے لیے تیار کرنا چاہا تو انھیں اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ [البقرة: 45]کی ہدایت کی۔
اسی طرح مسلمانوں کو مکی زندگی میں دعوت دین کی راہ میں مشکلات و مصائب کا ہجوم ہوا تو انھیں صبر و نماز ہی کے ذریعے مقابلہ پر ابھارا گیا۔ فَاصْبِرْ عَلَى مَا یقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ [طه: 130]۔
صبر و نماز دو ہتھیار ہیں جو حق کی راہ اور قیام عدل و قسط کی جدوجہد میں پیش آنے والے مصائب و آلام کے مقابلے کے لیے دیے گئے ہیں۔
یہ بات نہایت ہی اہم ہے کہ قرآن میں جہاں جہاں نماز کا ذکر اقامت عدل و انصاف کی جدوجہد کو کام یابی کی منزل سے ہم کنار کرنے کے لیے بطور وسیلہ اور ہتھیار کے ہوا ہے وہاں اس کے ساتھ صبر کا ذکر ہوا ہے اور بالعموم صبر کو نماز سے پہلے رکھا گیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے۔ عدل و انصاف کے قیام اور باطل کو شکست دینے کے جو چیز ضروری ہے وہ اقدام، عزیمت اور استقامت ہے اور اس کے لیے صبر اور نمازوں کا اہتمام ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح قرآن نماز کے ساتھ قربانی کا بھی ذکر کرتا ہے چناں چہ اس کا ارشاد ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ [الكوثر: 2]نماز پڑھ اور قربانی کر۔ یا : إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحْیای وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ [الأنعام: 162]
نماز کا تعلق جس طرح صبر سے گہرا ہے اسی طرح اس کا تعلق قربانی سے بھی ہے، یعنی نماز قربانی بھی چاہتی ہے۔ اگر نماز کے ساتھ قربانی کا اہتمام نہیں ہے تو گویا نماز کا اہتمام نہیں ہے۔
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
دوسری آیت میں حیات کا مقابلہ ممات سے کیا ہے یعنی آج کوئی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے تو اسے موت کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے وہ قوم جو موت سے بھاگتی ہے وہ زندگی کا استحقاق بھی کھو دیتی ہے وہ لوگ جو غزوہ تبوک میں اپنی جان بچانے کی خاطر شریک نہیں ہوئے۔ قرآن کہتا ہے وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں ’’یہلکون انفسہم‘‘
نماز کا آغاز مشہور دعا إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِی سے ہوتا ہے یہی دعا قربانی کا دیباچہ ہے۔ نماز میں قبلہ ہونا بھی شرط ہے اسی طرح قربانی کے جانور کو قبلہ رو لٹانا ضروری ہے۔۔
اس کے بعد جس طرح قربانی کا آغاز بسم اللہ اللہ اکبر سے کیا جاتا ہے اسی طرح نماز بھی اللہ اکبر سے شروع کی جاتی ہے۔
اقامت صلاۃ کام یابی کی ضمانت اسی وقت بن سکتی ہے جب کہ جماعت کا اہتمام کیا جائے۔ بلاشبہ اسلام میں فرد کی انفرادیت اور اس کی خودی کا بھی حد درجہ لحاظ کیا گیا ہے لیکن فرد کا ارتقا حقیقی معنوں میں اجتماعیت سے وابستگی میں پوشیدہ ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اسی لیے نماز کے لیے جماعت کا اہتمام ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اذان کی آواز سنتے ہی صحابہ کرامؓ مسجد کی طرف بھاگتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اپنے انفرادی مقاصد کے لیے جدوجہد ضروری ہے لیکن جب تک وہ اپنی نجی ضرورتوں کو اپنے اجتماعی مفاد پر قربان نہیں کر سکتا اس وقت تک انفرادی طور پر کام یاب نہیں ہو سکتا۔ ایک شاعر نے خوب کہا
وکم قد رأینا من فروع کثیرۃ تموت اذا لم تحیہن اصول
(ہم نے بہت سی شاخوں کو دیکھا ہے کہ جب جڑیں ان کو زندگی نہیں پہنچاتی ہیں تو وہ مرجاتی ہیں)
یہی وجہ ہے اقبال فرد کو مجاز اور قوم کو حق کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں
جاء الحق وزھق الباطل سے مراد فرد کا غلبہ نہیں ہے بلکہ جماعت کا غلبہ مراد ہے۔ نماز اسی اجتماعی غلبہ کے لیے تیار کرتی ہے اور جماعت کے اہتمام کے بغیر یہ ناممکن ہے۔
نماز کی اقامت کے ساتھ ساتھ نماز کی محافظت پر بھی ابھارا گیا ہے۔
نماز کی محافظت کیوں ضروری ہے؟
نماز کی نگہداشت اور محافظت اس لیے ضروری ہے کیوں کہ اس کی اقامت و محافظت پر تمام دین کے قیام و بقا کا انحصار ہے۔ نماز سے تمام نیکیاں نشوونما پاتی ہیں۔ اور وہی اپنے حصار میں ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔
اگر نماز وجود میں نہ آئے تو دوسری نیکیاں بھی وجود میں نہیں آ سکتی ہیں۔ اگر نماز منہدم کر دی جائے تو دین و اخلاق کا سارا چمن تاراج ہو جائے گا۔
اسی لیے فرمایا گیا جس نے نماز ضائع کر دی تو وہ باقی دین کو بدرجہ اولی ضائع کر دے گا۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2025