حدیث کی تشریعی حیثیت

گذشتہ قسط میں مذکورآیات میں سے سورہ حشر کی ساتویں آیت (59:7)اس بات کا کم از کم پختہ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ قرآن مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ قدیم زمانے میں بعض علما کا کہنا تھا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ نبی ﷺ تمھیں دے [یعنی جو کچھ قرآن میں ہے] اسے لے لو ، جب کہ بعض کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ “جو کچھ نبی ﷺ تمھیں دے [جو قرآن میں نہیں ہے، مراد سنت]، اس پر بھی عمل کرو۔” لہٰذا اس آیت کا استعمال سنت پر عمل کرنے کی ضرورت کے حق میں اور مخالفت میں دونوں میں استدلال کے لیے کیا گیا۔ البتہ ان دونوں شرحوں میں اس سیاق و سباق سے صرف نظر کرلیا گیا جس میں یہ آیت اتری ہے۔ سورة الحشر کی آیات 6 تا 9 میں ‘اہل کتاب’ کے ساتھ جنگ کے بعد مسلمانوں کو ہاتھ ہائے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اس بات پر زور دیتا ہے کہ مال غنیمت “اللہ اور اس کے رسول ﷺ’نیز شہدا کے اہل خانہ، یتیموں، ضرورت مندوں اور مسافروں کے لیے ہے، اور یہ کہیں “تمھارے امیروں کے درمیان گردش کرنے والی چیز نہ بن جائے۔”‘ چناں چہ اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ “جو کچھ رسول تمھیں دے اسے قبول کرو، اور جس چیز کے لینے سے وہ تمھیں روکے، اس سے باز رہو۔” اس آیت سے سنت کی پابندی کی فرضیت اخذ کرنے کے لیے کافی تفسیری توسیع کی ضرورت ہوگی، جیسا کہ احادیث کے مجموعوں میں مذکور ہے۔ جب کوئی اصول قرآنی نظیر سے اخذ کیا جائے تو اخذ کردہ اصول اور قرآن مجید میں متعلقہ حکم مماثل سروکار کو ایڈریس کرے اور مماثل رسپانس فراہم کرے، بصورت دیگر نظیر اور مجوزہ قانون کے مابین کوئی منطقی ربط نہیں ہوگا۔ کوئی چاہے تو قرآن میں بکھرے ہوئے الفاظ اور فقرے چن کر، سیاق و سباق سے قطع نظر، ایک ایسے بیان میں تبدیل کر سکتا ہے جو اس کے من مانے کسی بھی اصول کی حمایت کرتا ہو۔ مثال کے طور پر، ہم کسی حد تک جائز طور پر آیت 59:7 سے یہ اصول تو لاسکتے ہیں کہ حکومت کی آمدنی کو امیروں اور طاقتوروں کے سرمایہ دارانہ منصوبوں کو مراعات دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن 59:7 اس بات کا قابل یقین ثبوت فراہم نہیں کرتی کہ حدیث کی پابندی کرنا لازمی ہے، کیوں کہ ضرورت مندوں میں مسلمانوں کے اجتماعی مال کی تقسیم اور نبی ﷺ کے ارشادات کی اشاعت یکسر غیر مماثل (non-analogous)سروکار ہیں۔

سورۂ احزاب کی اکیسویں آیت مومنین کو نبی کریم ﷺ کے نمونے کی پیروی کرنے کی تلقین کرتی ہے:

“در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔” (الاحزاب:21)

ہر چند کہ نبی ﷺ کے اسوے کی اس سے زیادہ واضح الفاظ میں توثیق کا تصور کرنا مشکل ہے، لیکن کیا یہ بیان رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے یا کسی خاص طرز عمل کی طرف؟ ہم یہ سوال اس لیے کر رہے ہیں کہ قرآن میں اسی طرح کا بیان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی موجود ہے:

“تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا “ہم تم سے اور تمھارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بے زار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔” (الممتحنة: 4)

یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی “ایک اچھا نمونہ” قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ حوالہ ان کے روز مرہ کے کاموں کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہ سنتیں مرتب نہیں کی گئی تھیں۔ مزید برآں، اس آیت میں خاص طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ان کی اور ان کے پیروکاروں کی تقلید کس لحاظ سے کی جائے۔

سورہ احزاب کی اکیسویں آیت بھی اسی طرح کا معاملہ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک طویل پیرایے کے دوران آئی ہے جو غزوۂ احزاب (33:9-27) کے نازک ایام کو بیان کرتی ہے، جب مختلف قبائل نے متحد ہوکر مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ آیت11 بحران کے اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا:”اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے۔” اکیسویں کے فوراً بعد آنے والی عبارت کے بعد ، اس نازک دور میں اہل ایمان کی جرأت اور ثابت قدمی کے بیان سے  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید جس “اسوۂ حسنہ”کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا محاصرے کے دوران والا رویہ ہے، نہ کہ ان کا عام طور پر طرز ِعمل۔

البتہ حضرت محمد ﷺ کے نمونے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوے کے بارے میں بیان کے درمیان ایک لطیف اور شاید اہم فرق ہے۔ مؤخر الذکر فوری طور پر اور براہ راست ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی طرف ایک خاص عمل سے وابستہ ہے، جب کہ سورة احزاب کی اکیسویں آیت صرف جنگ کے دوران حضور ﷺکے ساتھیوں کے طرز عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غزوۂ خندق میں شریک ہونے والے مؤمنین کو رسول اللہ کے اسوے کے حوالے سے یقیناً محاصرے کے دوران رسول اللہ ﷺ کی شجاعت اور ثابت قدمی یاد آئی ہوگی جنھوں نے اس کا بہ چشم سر مشاہدہ کیا تھا، البتہ قرآن ہمیں اس سے آگاہ نہیں کرتا، بلکہ یہ واقعات حدیث میں ملتے ہیں۔ چوں کہ قرآن میں—حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح—حضرت محمد ﷺ کے قابل تقلید اسوے کے حوالے سے عمل کی وضاحت نہیں ملتی، اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ سورة احزاب کی اکیسویں آیت محض جنگ کے دوران نبی ﷺ کے اسوے کی تقلید تک محدود نہیں ۔ بالفاظ دیگر، اگر قرآن ہمیں محاصرے کے دوران رسول اللہ ﷺ کے اسوے سے آگاہ کرتا تو ہم اس آیت سے عین اس نتیجے پر پہنچتے، لیکن چوں کہ یہ جان بوجھ کر اس طرح کی معلومات کو حذف کرتا ہے، لہذا یہ ہمیں آیت کی محدود معنی میں تشریح کرنے سے باز رکھتا ہے۔ کم از کم، ہم روایتی تشریح سے تو انکار نہیں کر سکتے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اس قسم کی ٹھوس دلیل نہ ہو جو ہم حدیث پر عمل کرنے کی ضرورت کے بارے میں تلاش کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں امام شافعیؒ کے مضبوط ترین نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

“اسی طرح ہم نے تمھارے اندر تمھیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمھیں پاک صاف کرتا ہے اور تمھیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمھیں وہ سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔”(البقرة:151)

“درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔” (آل عمران: 164)

“اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا اور اس کا فضل تم پر بہت ہے ۔”(النساء:113)

“وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اٹھایا، جو انھیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالاں کہ اِس سے پہلے وہ کھلی گم راہی میں پڑے ہوئے تھے۔” (الجمعة:2)

امام شافعی رحمہ اللہ کا ‘کتاب ‘کو قرآن قرار دینا فطری معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ یہی واحد کتاب ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی، لیکن اگر ہم اس شناخت کو قبول کرلیں تو پھر سنت نبوی ؐکو ‘حکمت’قرار دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ چوں کہ حکمت ایک ایسی چیز ہے جس کی تعلیم کی ذمہ داری نبی ﷺ کو کتاب کے علاوہ اور اس کے ساتھ دینے کی دی گئی تھی، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے قرآن کے علاوہ ایسی تعلیمات بھی اپنے پیچھے چھوڑیں جن پر اہل ایمان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ انسان اپنے قول اور فعل کے ذریعے تعلیم دیتا ہے اور چوں کہ نبی ﷺ کی سنت ان کے اقوال اور اعمال پر مشتمل ہے جیسا کہ آپ کے صحابہ نے مشاہدہ کیا، اس لیے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ہدایت کے لیے ان کی سنت کی طرف رجوع کریں۔ اس کے بعد بھی چند اہم مسائل ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے، جیسے احادیث کی سند اور رسول اللہ ﷺ کے اعمال کا سیاق و سباق- لیکن اب تک ہم نے جو کچھ غور کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی سنت پر، اور اسی بنا پر ارشادات نبوی پر، عمل پیرا ہونے کا پابند کرتا ہے۔

بایں ہمہ، ضروری ہے کہ ہم اس ثبوت کا زیادہ احتیاط سے مطالعہ کریں۔ چوں کہ اس کا دار و مدار قرآن میں ‘کتاب’ کی شناخت پر ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس قرآن حکیم میں ‘کتاب ‘کے دیگر حوالوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کی ہمواری (consistency)کی جانچ ہوسکے۔ قرآن مجید میں لفظ کتاب (الکتاب) ڈیڑھ سو سے زائد بار وارد ہوا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ اکثر و بیشتر اس سے مراد قرآن حکیم ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل مثالوں سے واضح ہے:

“یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے۔ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔” (البقرة:2-4)

“وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلو ں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، حالاں کہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔” (آل عمران:7)

“اللہ اِس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ا ن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ ” (النساء:140)

“اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے ۔”(یونس: 37)

“یہ آیات ہیں کتاب الٰہی اور قرآن مبین کی ۔”(الحجر:1)

“یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے۔” (النمل:1)

“یہ خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے۔ ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں، عربی زبان کا قرآن، اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں بشارت دینے والا اور ڈرا دینے والا ۔مگر اِن لوگوں میں سے اکثر نے اس سے رو گردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے۔ ” (حم السجدة:1-3)

تاہم ‘کتاب ‘سے مراد ہمیشہ قرآن مجید نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اس سے دوسرے انبیائے کرام پر بھیجی گئی وحی بھی مراد لی گئی ہے۔

“یاد کرو کہ (ٹھیک اُس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔” (البقرة:53)

“ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے ۔”(البقرة:213)

“ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا (النساء:54)

اے یحییٰؑ، کتابِ الٰہی کو مضبوط تھام لے ” ہم نے اسے بچپن ہی میں “حکم سے نوازا (مریم:12)

بچہ بول اُٹھا ” میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا۔” (مریم:30)

“اور ہم نے اسے اسحاقؑ اور یعقوبؑ (جیسی اولاد) عنایت فرمائی اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔” (العنکبوت:27)

بعض اوقات کتاب کا مفہوم متعین کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر جب یہ خدا اور اس کے عمل سے متعلق ہو۔ بعض اوقات اس سے خدا کا لامحدود علم، یا اس کی تخلیق میں نظم، یا الوہی قوانین یا احکامات کی علامت مراد ہوتی ہے۔

“زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمھاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔” (الانعام:38)

“اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحرو بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔” (الانعام:59)

“اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب نہ دیں، یہ نوشتۂ الٰہی میں لکھا ہوا ہے ۔”(بنی اسرائیل:58)

“موسیٰؑ نے کہا : اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے ۔” (طٰہٰ:52)

“کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہواور ہم نے اُس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو۔ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔” (الحدید:22)

اکثر و بیشتر قرآن لفظ کتاب کا ذکر اس طرح کرتا ہے جس سے کوئی ایک کتاب مراد نہیں ہوتی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر خدا کی مجموعی وحی کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان آیات میں آیا ہے جن میں “خدا کی کتاب”کا ذکر آیا ہے، یا وہ آیات جو ماضی کی اقوام کو “کتاب کا ایک حصہ” دیے جانے کا ذکر کرتی ہیں، یا جو نبی کو کی گئی وحی کو “کتاب سے” ہونے کی بات کرتی ہیں۔

“اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمتِ عظمیٰ سے تمھیں سر فراز کیا ہے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔” (البقرة:231)

“تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، تو اُن کا حال کیا ہے؟ انھیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو اُن میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے۔”(آل عمران:23)

“تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنھیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو۔ ” (النساء:44)

“کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔”(النساء:51)

“ہم نے توراة نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی (علما) اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیوں کہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے ۔”(المائدة:44)

“اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمھارے ساتھ مل کر جدو جہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، یقینًا اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ “(الانفال:75)

“حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے ۔”(التوبة:36)

“اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اُمُّ الکتاب اسی کے پاس ہے۔ “(الرعد:39)

“اے نبیﷺ ! تمھارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ آپ پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کامجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّو بدل کرو گے تو) اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔”(الکہف:27)

“(اے نبی ﷺ) جو کتاب ہم نے تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اس سے پہلے آئی تھیں۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے ۔”(فاطر:31)

یہ تاثر دیا گیا ہے کہ تمام وحی خدا کے پاس موجود لامحدود صداقت کا ایک حصہ ہے، اور یہ کہ کتاب بعض اوقات صداقت کی اس عظیم جامعیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ خدا کی کتاب، تمام وحی کا منبع، لامحدود ہونے کی وجہ سے، کبھی بھی انسانی زبان میں کسی بھی متن سے محدود نہیں کی جا سکتی ہے، اور اس طرح اس کے رسولوں کی طرف خدا کی تمام تر وحی خدا کی کتاب کے اجزا ہیں۔ شاید یہی اس آیت کے مضمرات ہیں:

“زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔” (لقمٰن:27)

قرآن مجید کے انگریزی مترجم و مفسر عبداللہ یوسف علی نے سورة آل عمران کی آیت 23 (جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے) پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی طرح کی—لیکن مماثل نہیں—تفسیر پیش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: “میں یہ تصور کرتا ہوں کہ خدا کی وحی ہر زمانے میں ‘کتاب’ہے۔ موسیٰؑ کی شریعت اور عیسیؑ کی انجیل کتاب کا حصہ تھے۔ قرآن وحی کو مکمل کرتا ہے اور خدا کی کتاب میں سے افضل ترین ہے۔”

مندرجہ بالا جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعیؒ نے ان آیات میں قرآن کے ساتھ کتاب کا موازنہ کیا ہے کہ نبی ﷺ کو کتاب دی گئی ہے اور سنت رسول ﷺکو حکمت قرار دینا غیر ضروری ہے، کیوں کہ کتاب اکثر نبی ﷺ پر نازل ہونے والی چیزوں سے کہیں زیادہ جامع چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور یہی چیز ان کی حکمت کو سنت کے ساتھ شناخت کرنے کے بارے میں بھی درست ہوسکتی ہے۔ مفہوم کا یہ ابہام قرآن مجید کی بہت سی آیات سے مزید بڑھ جاتا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کے علاوہ دیگر انبیا کو بھی کتاب اور حکمت دی گئی تھی۔

“ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔”(البقرة:129)

“(فرشتوں نے پھر اپنے سلسلہ کلام میں کہا) اور اللہ اُسے کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا۔  ” (آل عمران:48)

“کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اُس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اُس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ ” (آل عمران:79)

“یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ :”آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ “یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا”کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اِس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اُٹھاتے ہو؟ ” (آل عمران:81)

“پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم ؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا ۔”(النساء:54)

“میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔ ” (المائدة:110)

“اے یحییٰؑ، کتابِ الٰہی کو مضبوط تھام لے ” ہم نے اسے بچپن ہی میں “حکم سے نوازا۔”(مریم:12)

اس کے باوجود کتاب اور حکمت جس کے ساتھ انبیا کو وحی کی گئی تھی، صرف قرآن اور سنت رسولﷺ سے کہیں زیادہ احاطہ کرتےہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں امام شافعی ؒغلطی پر ہیں، یعنی یہ کہ اللہ کی کتاب کا جو حصہ رسول اللہ ﷺپر نازل کیا گیا ہے وہ قرآن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یقیناً بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ‘الکتاب’کی تشریح کس طرح کرتے ہیں۔ اگرچہ اس اصطلاح کے معنی بعض اوقات مبہم ہوتے ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن مجید اکثر اپنے آپ کو واضح طور پر نبی ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کے طور پر بیان کرتا ہے، اور یہ کبھی نہیں کہتا کہ یہ بھی اسی حکمت پر مشتمل ہے جس کے ساتھ ان پر القا کیا گیا تھا۔ ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ یہ صحیح تشریح ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم عام طور پر یہ فرض کرتے ہیں کہ “کتاب و حکمت” جیسی ترکیب سے دو مختلف اشیا مراد ہیں جب تک کہ سیاق و سباق دوسری صورت میں اشارہ نہ کرے۔ چناںچہ نبی ﷺ کو جو کتاب ملی وہ قرآن ہے اور جو حکمت آپ ﷺ کو عطا کی گئی ہے وہ قرآن سے دیگر کوئی شے ہے۔

چوں کہ خدا کی طرف سے کسی نبی پر نازل کی جانے والی حکمت کا ذکر ہمیشہ اس کتاب کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے، لہذا اس کی نسبت واضح طور ہے۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے ترجمے میں بہت کچھ مفہوم زائل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہم عربی زبان میں حکمت سے کیا مراد ہے کی پڑتال کرکے معنی کی جستجو کرسکتے ہیں۔ یہ فعل ح-ک-م سے نکلاہے، جس کے لغوی معنی ہیں: فیصلہ سنانا، رائے کا اظہار کرنا، سزا سنانا، فیصلہ کرنا، قانونی فیصلہ کرنا، فیصل کرنا، رائے دینا، اصول طے کرنا، عدالتی اختیار کا استعمال کرنا، یا حکومت کرنا۔ اس طرح حکم سے مراد فیصلہ، قانونی فیصلہ، قانونی رائے، سزا، سزا کا نفاذ، عدل لاگو کرنا، ضابطہ، آرڈیننس، انصاف، دانش مندی، فیصلہ سازی، یا حکومت ہے۔ اس سے ہم دیکھتے ہیں کہ حکمۃ اکثر حکم رانی اور قانون کے پیشوں سے قریب سے وابستہ ہے۔ لہٰذا نبیوں پر نازل ہونے والی حکمت کا تعلق غالباً ان کی امتوں کی اس کتاب کے مطابق ان کی تعلیم سے ہے جو ان پر نازل کی گئی ہے۔ یعنی کسی نبی پر نازل ہونے والی حکمت کا تعلق ان کے نفاذ اور متعلقہ کتاب کی وضاحت سے ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے معاملے میں جو حکم ان کو عطا کیا گیا ہے اس کا تعلق ان کے نفاذ اور قرآن کی تشریح سے ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ چوں کہ نبی ﷺ پر قرآن اور حکمت دونوں کی تعلیم دینے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی، اس لیے مؤخر الذکر کو صرف ان کے اقوال اور اعمال کے ذریعے یا عربی میں ان کی سنت کے ذریعے ہی سیکھا جا سکتا تھا، جس پر ان کے پیروکار عمل پیرا ہیں۔

ہم نے اس حصے کا آغاز رسول اکرم ﷺ کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کے لیے قرآنی حکم کی جستجو میں کیا تھا۔ اس طرح کا مقدمہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس حوالے سے قرآن مجید سے روایتی طور پر پیش کیے جانے والے دلائل اتنے قائل کرنے والے نہیں ہیں۔ قرآن مجید سے سب سے معتبر دلیل امام شافعیؒ کی ہے جس کا خاکہ حسب ذیل ہے:

قرآن اہل ایمان کو نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں ان کے فرمودات و ارشادات پر عمل کرنا چاہیے۔ ان کی تعلیمات میں وہ کتاب اور حکمت شامل ہیں جو نبی ﷺ پر نازل کی گئیں۔ کتاب سے مراد قرآن حکیم ہے۔ اور حکمت جو ودیعت کی گئی وہ قرآن کے علاوہ ہے جو ان کی حیات طیبہ کے نمونے میں رکھ دی گئی۔ قرآن مجید میں ‘کتاب’ اور ‘حکمت’کی اصطلاحات کے استعمال کے بارے میں ہمارا جائزہ بتاتا ہے کہ عام طور پر یہ مصطلحات قرآن اور سنت رسول سے کہیں زیادہ جامع چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن نبی ﷺ کے معاملے میں یہ تشریحات درست ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ واضح دلیل نہ ہو جس کی ہمیں جستجو ہے کیوں کہ اس کا دارومدار معتبر تاہم مبہم تفسیروں پر ہے، البتہ یہ دلیل قرآن کی طرف سے رسول کی اطاعت کی بہ تکرار تاکید کا ایک مربوط رسپانس پیش کرتی ہے، جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے، کہ یہی صحابہ کرام ؓکا رسپانس بھی تھا۔

بایں ہمہ اگر اس تفسیر کو قبول کر بھی لیا جائے تب بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ مسلمانوں پر رسول اللہﷺ کی کتنی سنت کی اتباع واجب ہے۔ چوں کہ نبی کریم ﷺ پر نازل کردہ حکمت کا ذکر ہمیشہ کتاب کے ساتھ کیا گیا ہے، اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ان سنتوں پر عمل کریں جو قرآن مجید کے احکامات سے متعلق ہیں، لیکن آپ ﷺ کی ان تعلیمات کا کیا ہوگا جو قرآن مجید سے براہ راست مربوط نہیں ہیں؟ آئندہ اس پر بحث کی جائے گی۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2022

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau