زندگی نو ماہ جنوری کا شمارہ موصول ہوا اور بہت مفید اور فکرونظر پر ابھارنے والے مضامین پڑھنے کا موقعہ ملا۔ سیاسیات اسلام اور مغرب کی منہاجیات نامی مضمون بھی اس لحاظ سے اہم ہےکہ اسلامی سیاسی فکر کے حوالے سے ایک مستشرق مفکر کی تحریر کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ البتہ اس مضمون پر چند نکات قابل ذکر معلوم ہوتے ہیں۔
مضمون کے سرنامےسے لے کر جگہ بجا لفظ ‘مغرب’ کا صحافیانہ استعمال مضمون کی معنویت کو بہت متاثر کر رہا ہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مغرب ایک بہت ہی متنوع اور کثیر الجہات افکار کا مجموعہ ہے اور اس میں سے کسی ایک مخصوص فکر کو پورے مغرب کی فکر کے طور پر پیش کرنا گفتگو کو صحیح رخ پر لے جانے کا موقع کم کردیتا ہے۔ یہ دراصل اسی ریڈکشنسٹ (reductionist) اپروچ کا نتیجہ ہے جس کے تعلق سے ہم مستشرقین اور دوسرے بہت سے اسکالرز پر اعتراض اور سوال کرتے رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض غیر مسلم مفکرین اسلامی روایت کے کسی ایک فرد کی رائے کو پورے اسلام کی رائے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
لفظ مغرب کے اس ریڈکشنسٹ یا تعمیم (اس طور سے کہ کسی ایک مخصوص فکر کو ہی عام قرار دے کر سب سے منسوب کردیا جائے) والی اپروچ سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی ایک مثال خود نفس مضمون سے سمجھی جا سکتی ہے۔ مضمون نگار مزعومات مغرب کی سب ہیڈنگ کے تحت لکھتے ہیں کہ مغربی مفکرین کا یہ ماننا ہے کہ تہذیبی بالا دستی اور تہذیبی بقا و تسلسل صرف مغربی تہذیب کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تہذیب کے حوالے سے اس طرح کا موقف مغرب میں ایک مخصوص طبقے کے پاس ضرور رہا ہے لیکن خود مغرب کے ایک بہت بڑے طبقے نے اس پوری فکر کو نہایت مضبوط استدلال سے کم زور کر دیا ہے اور اس کے مقابلے میں ایسے نظریات پیش کیے ہیں جہاں ہر تہذیب کی اہمیت کو پورا مقام ملے۔ اسی طرز فکر کے نتیجے میں (multiple modernities) اور تہذیب کا تکثیری تصور (pluralistic view of civilization) جیسے نظریات وجود میں آئے اور بہت بڑے پیمانے پر گفتگو کا حصہ ہیں۔
بہتر یہ ہوتا کہ مضمون نگار پیش نظر مستشرق روزنتھال کی تحریر کا معروضی جائزہ لیتے اور اگر کچھ دوسرے مصنفین کے یہاں بھی ملتے جلتے افکار تھے تو ان میں سے بھی کچھ کا حوالہ پیش کر دیتے۔
‘بھارت کا آئینی نظام اور اس سے تعامل کی شرعا جائز صورت، بہت ہی معنی خیز اور معلومات افزا مضمون تھا۔ جس میں ہندوستان کے دستور کے حوالے سے بہت تفصیلی گفتگو پیش ہوئی اور یہ دیکھنے کا موقعہ ملا کہ ہندوستانی دستور میں اصولی طور پر کوئی چیز شریعت سے مطلوبہ تعلق قائم رکھنے میں مانع نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک بات کی اور وضاحت کی جاسکتی ہے کہ عام طور سے عوامی اقتدار (popular sovereignty) کو لوگ حاکمیت الہ سے متصادم سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دراصل عوامی اقتدار بنام شخصی اقتدار کی جنگ تھی جس میں بالآخر عوامی اقتدار کو پسند کیا گیا۔ اور عوامی اقتدار میں لوگوں کو آزاد ماحول میں گفتگو کا جو ماحول میسر آتا ہے وہی دراصل کسی معاشرہ اور سماج کی کامیابی کی پہلی اور بنیادی شرط ہے۔
ذو القرنین حیدر، ریسرچ اسکالر،انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، ملیشیا
مشمولہ: شمارہ فروری 2020