در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی نا جائز خواہشوں کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجالانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اور قابلیتیں، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا، ہر اس لالچ اور ترغیب کو ٹھکراد ینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے، ہر اُس خطر ے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہ راست پر چلنے میں پیش آئے، ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہوجانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے، دائمی صبر ہے، ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے۔
(تفہیم القرآن، ج۶ص۱۹۸، تفسیر سورۃ الدھر، حاشیہ۱۶)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2025