کوئی نظریہ خواہ اچھا ہو یا برا خود سے نہیں پھیلتا، اسے پھیلانا پڑتا ہے۔ نظریہ خواہ کتنا ہی طاقت ور اور انقلابی ہو اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اٹھتے ہیں اور اس نظریے کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں، نظریے کی تفصیلات اور فوائد سے واقف کراتے ہیں، مذاکرے اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں، سوالات کے جواب دیتے ہیں اور شبہات کا ازالہ کرتے ہیں اور ہر پہلو سے مخاطب کو قائل و مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تب کہیں جاکر کوئی نظریہ پھیلتا اور برگ و بار لا تا ہے۔ اس میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک طویل جد و جہد اور لگا تار کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ سخت کشمکش کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ قربانی دینی پڑتی ہے۔ قید و بند کی صعوبتیں راہ میں مزاحم ہو جاتی ہیں اور آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ دار و رسن کے مراحل تو آدمی کو ڈرا ہی دیتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ایسا شخص جسے اپنے نظریے پر پختہ ایمان اور اس سے سچی محبت نہ ہو تو وہ انقلاب کی راہ پر زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ انقلاب کی راہ پر استقامت کے لیے جان و مال اور ہر طرح کی قربانی دینے کا حوصلہ عازم انقلاب کے اندر ہونا چاہیے۔
انقلاب تو کسی نظریے کی بنیاد پر برپا ہوتا ہے، لیکن نظریہ اپنے پھیلنے اور عوام الناس تک پہنچنے کے لیے تحریک کی محتاج ہوتی ہے۔ اور تحریک اپنی زندگی، بقا اور فروغ کے لیے تنظیم کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ بغیر تنظیم کے تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ممکن ہے دس بیس قدم چل لے مگر بہت جلد دم توڑ دے گی، جب کہ انقلاب کی منزل پر پہنچنے کے لیے اسے لمبی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے ہر حال میں کسی تحریک کو اپنی کام یابی کے لیے تنظیم کے سہارے کی لازماً ضرورت ہوتی ہے۔ تنظیم جتنی مضبوط ہوگی تحریک اتنی ہی زور دار اور طاقت ور ہوگی۔ تنظیم کی مضبوطی کا انحصار اس کے نظم و ضبط اور ڈسپلن پر ہے۔ سمع و طاعت کے مستحکم نظام پر ہی تنظیمیں مثالی ہوا کرتی ہیں۔
اسلام سے زیادہ بڑا کوئی انقلابی نظریہ نہیں ہو سکتا اور قرآن سے زیادہ بڑی کوئی انقلابی کتاب نہیں ہو سکتی۔ مگر اسلام بھی خود بخود نہیں پھیلا۔ اسے پھیلانے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالٰی نے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا۔ ہر دور میں، ہر قوم میں اور ہر خطۂ زمین میں پیغمبر آئے اور انھوں نے بڑی محنت و جاں فشانی کے ساتھ اسلام کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچایا۔ اکثریت نے، بالخصوص قوم کے کھاتے پیتے اور سربر آوردہ لوگوں نے مخالفتیں کیں، الزام تراشیاں کیں، ایذائیں دیں اور اسلام کا راستہ روکنے کی ہر طرح کی کوششیں کیں مگر ان سب کے باوجود نبی نہ رکا، نہ پیچھے ہٹا بلکہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے مشن پر ڈٹا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر نبی نے غیر معمولی استقامت کا ثبوت دیا۔
اس سے یہ پتہ چلا کہ سچے سے سچا نظریہ بھی اپنی کام یابی اور فروغ کے لیے سخت محنت و جاں فشانی، مسلسل تگ و دو اور قربانیاں چاہتا ہے۔ کسی نظریے کا اچھا ہونا اس کے پھیلنے کی ضمانت نہیں ہے۔ بلکہ کسی نظریے کی کام یابی اور کسی انقلاب کے برپا ہونے کے لیے سنت الہی کے تحت جو قوانین بنا دیے گئے ہیں اور جو طریقہ کار طے کردیا گیا ہے اس کا بروئے کار آنا ضروری ہے۔ نظریہ کے اچھے اور برے ہونے سے اس کی کام یابی اور ناکامی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ برے سے برا نظریہ بھی کام یابی کے اصولوں کی پاس داری کر کے آج ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ جو اہل حق اور اہل اسلام ہیں وہ ان اصولوں کی پاس داری کرنے میں اہل با طل کے مقابلے میں کم زور ہیں اس لیے ناکام ہیں اور ان کا نظریہ مغلوب ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022