’’پہلی بار یہ بحث چھیڑی گئی ہےکہ مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کی جڑ کیا ہے اور اب یہ مطالبہ رفتہ رفتہ اُبھر کر سامنے آرہا ہے کہ شریعت کی پابندی پر مبنی بینکنگ کی شروعات ہونی چاہئے جسے اسلامک بینکنگ کاعنوان دیاگیاہے اور یہ سود سے پاک صاف بنیادوں پر استوار ہوگا۔ اس طرح کی بینکنگ کی تشکیل کامطالبہ خود مسلمانوں کے اندر اُبھررہا ہے۔ مسلم دانشوروں اراکین پارلیمان، بینکرس اور اسلامک اسکالرس کا ایک فورم جس کانام انڈین سنٹر فاراسلامک فائنانس ہے اس مطالبہ کو پیش کرتا ہے جواب دھیرے دھیرے عوامی تحریکPopular movementکی شکل اختیار کرتاجارہا ہے۔‘‘
یہ اقتباس ملک کے ممتاز قومی جریدہ فرنٹ لائن (Front line)کے اکتوبر (10-23) 2009ء کے شمارہ میں نامور صحافی پورنیما ترپاٹھی کے مضمونInclusive Bankingکا ہے جس نے ICIFکے قیام کے ایک سال ہی میں اس ادارہ کے موثر کردار کا خاکہ کھینچتے ہوئے کیاہے۔ یہ دراصل تحریک اسلامی کے دو قد آور اسلامی معیشت کے ماہرین ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب فریدی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے کام اور کاز کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ انہوں نے اس ادارہ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مرکز جماعت میںامیر جماعت اور دیگر ذمہ داروں کے سامنے پرزور طریقے سے وکالت کی اور ملک بھی میں اس ضمن میں کام کرنے والے ممتاز افراد اور اداروں کے ذمہ داروں پر مشتمل اس ادارہ کی تشکیل کی اور اس کی بھرپور اور مسلسل رہنمائی فرمائی۔ ڈاکٹر فریدی مرحوم نے ICIFکے لیے ایک علیحدہ آفس اور ایک باصلاحیت ایکزیکٹیو کےتقرر کے ساتھ ایک مناسب بجٹ منظور کروایا۔ اس کے علاوہ دونوں بزرگوں نے یقین دلایا کہ وہ ہر ماہ دہلی میں ہفتہ عشرہ قیام کریں گے اور موثر رہنمائی فرمائیں گے لیکن بعض مخصوص وجوہ اور پھر خرابی صحت کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکے۔
آج جب کہ اسلامی فائنانس اور بلاسودی بنکاری کی بازگشت میڈیا، پارلیمنٹ، وزارت خزانہ، ریزوبنک، مدارس اسلامیہ یونیورسٹیز اور کالجز اور کاروباری حلقوں میں اپنی رائے اور راہیں ہموار کررہا ہے اور مستقبل قریب میں ملک عزیز میں اس پر ان شاء اللہ عمل درآمد ہوگا۔ جس سے ملک وملت کے Face & fortuneمیں نمایاں اور مثبت تبدیلی ہوگی۔ اس میں اس ادارہ کے چیئرمین ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی کا نام سرفہرست ہوگا اور ان کے ایک عظیم صدقہ جاریہ بھی ثابت ہوگا۔
انڈین ایسوسی ایشن فاراسلامک اکنامکس(IAIE)ستمبر1990ء میں علی گڑھ میں قائم ہوا جس کے اہم ارکان ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی، ڈاکٹر جاوید احمد خاں اور ڈاکٹر ولید احمد انصاری تھے اور اس کے سرپرست کی حیثیت سے ڈاکٹر فریدی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی رہنمائی کررہے تھے۔ نہ صرف اس ایسوسی ایشن نے ملک کے کئی علاقوں میںاپنی شاخیں قائم کیں اور ایک نیوز بلیٹن کا اجرا کیا بلکہ کئی نوجوان جو آج ملک وبیرون ملک اسلامی معیشت وبنکاری میں نمایاں کام انجام دے رہے ہیں، ان کی ہمت افزائی اور مناسب رہنمائی کی۔
IAIEکی کرناٹک شاخ 1993ء میں شروع کی گئی اور پہلی آل انڈیااکنامکس کانفرنس بھی27؍جون کو ہوٹل ہالڈے ان میں منعقد ہوئی وہیں پہلی بار مجھے قریب سے ڈاکٹر فریدی کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ موصوف نے اس موقع پر ایک کلیدی خطبہ A case for Islamic Economicsکے عنوان پردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسٹاک مارکٹ میں ہرشدمہتہ کے گھٹالہ کا بڑا چرچا تھا اور اسی پس منظر میں یہ تاریخی کانفرنس ہورہی تھی۔ میڈیا نے اس کانفرنس کا خاص نوٹس لیااور دوسرے دن ٹائمز آف انڈیا نے ڈاکٹر فریدی کے خطبہ کا بڑا حصہ شائع کیا اور اس کا ٹائٹل لگایاInterest based economics is behind scom(سود پر مبنی معیشت ہی اس گھٹالہ کی ذمہ دارہے)
اس کے دوسال بعد ڈاکٹر فریدی مرحوم چنئی تشریف لائے! اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چمڑے کے کاروباریوں کے ایک گروپ سے بھی موصوف نے ملاقات کی اور ان میں بلاسودی معیشت وبنکاری کی تفصیلات کے علاوہ تجارت میں دیانت وصداقت ، سچائی وصفائی اور عہد وپیمان کی پاسداری کی ضرورت کا احساس دلایا۔ ایس آئی او کے سابق سکریٹری جنرل برادرم کریم اللہ نے بتایا کہ ان دنوں وہ Foreign Exchange Managementکی ایک Adursony Companyسے وابسطہ تھے جو بیرونی کرنسیوں کی خریدوفروخت بڑے پیمانہ پر کررہی تھی۔ ڈاکٹر فریدی سے گفتگو کے بعد انہیں واضح طور پر معلوم ہوا کہ یہ کاروبار شرعی نقطۂ نظر سے صحیح نہیںہے، تو اسی وقت انہوں نے متبادل ذریعہ معاش کی طرف اپنی توجہ مرکوز کردی۔
اسلامیہ کالج وانمباڑی میں جنوری ۲۰۰۱ء میںایک UGC Seminarبلاسودی بنکاری ہندوستان میں کے عنوان پر ڈاکٹر غالب حسین نے کروایا، جس میں ملک بھر سے سینکڑوں ماہرین، اس فیلڈمیں بلاسودی سویٹس میںخدمات انجام دینے والے افراد اور طلبہ نے شرکت کی، ڈاکٹر فریدی مرحوم نے اس میں کلیدی خطبہ پیش کیا اس سمینار سے کئی ایک احباب کو آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ ملا جناب ایم اے مجید صاحب حیدرآباد کے ڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنک اینڈ فائنانس نے راقم کو بتایا کہ اس سمینار کے بعد انہوں نے بینکنگ پر کورس کا آغاز کیا۔
آخری ملاقات
جولائی ۲۰۱۱ء کے تیسرے ہفتہ جناب رحمن خان صاحب ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا اور جناب وجاہت حبیب اللہ صاحب چیئرمین نیشنل مینارٹی کمیشن سے دہلی میں ملاقات اسلامی بینکنگ کی پیش رفت کے ضمن میں طے تھی، اسکے لیے میں نے دہلی کا سفر کیا۔ مرکز جماعت میں جناب نصرت علی صاحب قیم جماعت نے اپنے علی گڑھ کے دورہ اور فریدی صاحب سے ملاقات کی تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ ڈاکٹر موصوف نے مجھے یاد کیاہے تو ۲۳؍جولائی کی صبح علی گڑھ روانگی ہوئی اور ان کے گھر میری اور میرے دورفقاء کار برادرم علی جاسم اور برادرم انیس الرحمن ندوی گھنٹہ بھرکی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ موصوف مرحوم نے ICIFکے کاموں کی تفصیلات معلوم کی، چائے اور دوسرے لوازن پیش کئے اور بڑی اپنائیت کا اظہار فرمایا اور مزید کہا کہ وہ جلد ہی دہلی آکر ICIFکی آفس میں قیام کریں گے۔ ان کے بڑے فرزند شاہد فریدی نے بعد میں تین دن بعد ان کے انتقال پر ملال کی خبر سناتے ہوئے کہا کہ وہ اس ملاقات سے بڑے خوش تھے اور دہلی آکر کام کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کیاتھا۔ حسن اتفاق سے علی گڑھ کے اس سفر میں ادارۂ ادب اسلامی کے صدر ڈاکٹر عبدالباری شبنم سبحانی بھی شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کے قریبی مراسم 1955ء ہی سے رہے اور ان کے درمیان خط وکتابت کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا اور خود ان کے پاس ان کے ڈیڑھ سو سے زیادہ خطوط محفوظ ہیں۔ افسوس کہ یکم ستمبر ۲۰۱۳ء کو شبنم سبحانی صاحب بھی اللہ کو پیار ےہوگئے۔
بین الاقوامی سمینار
جولائی ۲۰۰۵ء کو حکومتِ ہند کی ایما پر ریزروبنک آف انڈیا نے اپنے بینکنک ڈیپارٹمنٹ میںایک ورکنگ گروپ شری آنند سہناکی سرکردگی میں تشکیل دیا جس کا کام یہ تھا کہ وہ ان مالیاتی اُمور اور طریقوں کا جائزہ لے جو اسلامی بینک میںاستعمال ہوتے ہیں۔ جیسے ہی یہ اہم خبر میڈیا میں آئی میںنے ڈاکٹر فریدی سے ربط قائم کیا اور پھر اس پر مرکزی مجلس شوریٰ میں گفتگو کی گئی۔ طے ہوا کہ اسلامی معیشت وبنکاری کے لیے ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کرنے، ملک کے سیاسی حلقوں، بنکرس اور کاروباری حلقوں کو اس کی طرف متوجہ کرانے کے لیے ایک بین الاقوامی سمینار Justice & Eguity: Message of Islamic Banking(عدل وقسط: اسلامی بنکاری کا پیغام) کے عنوان سے نئی دہلی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ ڈاکٹر فریدی کو اس کا کنوینر مقرر کیاگیا اور شوریٰ کے ارکان پر مشتمل چارافراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس (منعقدہ ۱۸؍۱۹؍فروری ۲۰۰۶ء) جو فِکّی Ficciکے وسیع آڈیٹوریم نئی دہلی میں ہوئی ملک میں اسلامی بنکاری کے پیش رفت کی تاریخ میںایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے اس میں عالمی شہرت یافتہ اسلامی بنکرس، اقتصادی ماہرین اور سرکردہ professionalsنے شرکت کی۔ مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ شری ہلانی مانکم نے اس کا افتتاح کیا۔ جناب کے رحمن خان ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا نے بحیثیت خصوصی مہمان خطاب کیا۔ ڈاکٹر فریدی نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اسکے علاوہ ڈاکٹر عمر چھاپرا، ڈاکٹر معابدالجہری، ڈاکٹر منذرکہف، ڈاکٹر منصور درانی، عرفان صدیقی اور اسماعیل شریف وغیرہ نے شرکت کی۔
ریزروبنک کے آنند سہنا گروپ نے اپنی رپورٹ میںاسلامی بنکاری کے تعلق سے اچھا تجزیہ تو کیا لیکن آخر میں ٹیکسوں کے سسٹم میں اصلاحات کے علاوہ انڈین بینکنک ریگولیشن کے حوالہ سے بتایا کہ ان قوانین میںجب تک مناسب ترمیم وتبدیلی نہیںکی جاتی ملک میں اسلامی بنکاری کا قیام ممکن نہیںہے۔ اس رپورٹ کو رائٹ ٹوانفارمیشن(RTI)کے تحت پہلی بار حاصل کرنے میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور اسے ملک اور بیرونی ممالک کے بنکروں اور اسلامی ماہرین کو بھیجاگیااور اس کے نتیجے میں ایک اہم ورکشاپ Roadmap on Islamic Banking in India کے عنوان کے تحت ۱۶؍۱۷؍ستمبر ۲۰۰۶ء کو ممبئی کے اسلام جم خانہ میں انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے تقریباً پچیس ماہرین اور بیرون سے برطانیہ کے اسلامک بنک آفس برٹن کے شریعہ ایڈوائزر مفتی برکت اللہ اور جناب محمد طلحہ قطر انٹرنیشنل اسلامی بنک نے شرکت کی۔
اس اہم ورکشاپ کی صدارت ڈاکٹرفریدی نے کی۔ ریزروبنک کے سابق لیگل مشیر جناب انور بٹکی نے کنوینر کے فرائض انجام دیئے حسن اتفاق سے ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی بھی امریکہ سے ملائشیا جاتے ہوئے ممبئی میں اس ورکشاپ میں شرکت کے لیے رُکے، کئی Panel Discassionsکے بعد اہم قرار دادیں منظور کی گئیں جن میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی کہ اسلام بنکاری ملک عزیز کے لیے اکیسویں صدی کےگلوبل مالیاتی تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے لیے برطانیہ، ملیشیا اور سنگاپور میں ہوئی پیش رفت کو سامنے رکھا جائے گا اور عوامی بیداری، قانونی ترامیم اور سیاسی حلقوں کے ذریعہ اس کے لیے پذیرائی کے لیے ہمہ جہتی کوشش کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔
ICIFکا قیام
جب یہ دیکھا گیا کہ اسلامی معیشت وبنکاری کے ملک میں قیام کے لیے ہمہ گیر اور جامع انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے تو یہ بات محسوس کی گئی کہ ملک کے ان تمام افراد اور اداروں کو شامل کیاجائے جو مختلف انداز سے اس میدان میں کام کررہے ہیں۔ الحمدللہ اکتوبر ۲۰۰۸ء میں انڈین سینٹر فاراسلامک فائنانس کا قیام عمل میں آیا جس کا چیئرمین ڈاکٹر فریدی کو جنرل سکریٹری راقم کو خزانچی رفیق احمد صاحب کو بتایاگیا۔ ٹرسٹیوں میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر اوصاف احمد، ڈاکٹر رحمت اللہ اور ڈاکٹر شارق نثار کے علاوہ جناب محمد جعفر، جناب غلام اکبرمرحوم، ڈاکٹر وقار انور ، عبدالسلام کو چین، ڈاکٹر عبیداللہ، عبدالرشید ممبئی اور جناب نور اللہ صدیقی کو شامل کیاگیا۔
ICIFکے قیام کے لیے منعقدہ مشاورتی کمیٹی کی نشست میں کلیدی تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر فریدی نے کہا:
’’اس نشست میں کچھ ابتدائی اقدام کئے جائیں گے، جو بظاہر آسان اور غیر مفید نظر آتے ہیں لیکن واقعتاً یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ اسلام کا نظام معیشت سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف ہے۔ اسلام انسانوں کی فلاح وبہبود کو مقصود بناتا ہے جب کہ سرمایہ دارانہ نظام دولت کی پیداوار اور اس کی زیادتی کو مقصد قرار دیتا ہے ۔وہ مادّی نتائج ہی کو ترقی کا معیار قرار دیتا ہے اور اخلاقی اقدار کو نظر انداز کرتا ہے اسلامی معیشت تمام انسانوں کے لیے ہے اور وہ ہمہ جہتی ، ہمہ گیر ترقی Inclusive growthکا قائل ہے نہ کہ کسی خاص گروہ اور طبقہ تک محدود ہے ازالۂ ظلم اور استحصال کے خلاف جدوجہد مومن کی زندگی کا مشن ہے اور توحید کی دعوت کا جز بھی۔‘‘
ویب سائٹ
اسلامی بنکاری کے قیام کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے جہت میں ایک اہم پیش رفت ICIFکی ویب سائٹ کی تیاری اور اس کا اجرا بھی ہے، جس کے بنانے میں ادارہ کے رفیق برادرم محمد سعادت نے بڑی محنت کی۔ ڈاکٹر فریدی کی ناسازیٔ صحت کی وجہ سے اس کااجرا دہلی کے گنگارام اسپتال کے کرہ میں انہی کے ہاتھوں کیاگیا ۔ الحمدللہ یہ ویب سائٹ پوری دنیا میں مقبول ہے اور تقریباً ساٹھ سے زیادہ ممالک کے افراد اور اداروں کے علاوہ ملک عزیز ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہا جاسکتاہے کہ یہ ویب سائٹ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کرنے میں معاون ثابت ہورہی ہے، بلکہ اس معیشت وبنکاری کے تعلق سے معلومات فراہم کرنے کے ضمن میں ایک اہم ویب سائٹ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔(www.icif.in)
دوسرے اداروں میں شرکت اور اس میں فعال کردار
اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا) ہو یاآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، ڈاکٹر فریدی مرحوم نے بڑا فعال اور کلیدی کردار ادا کیا، فقہ اکیڈمی نے مختلف معاشی پہلوؤں، مثلاً اسلامی بینکنک، زکوٰۃ اور دیگر اقتصادی اُمور میں نئی ترقیات نے جو نئے مسائل کھڑے کئے ہیں اس کے علمی جائزہ اور عملی صورتحال کے رہنمائی میں بڑا اہم رول ڈاکٹر فریدی کا رہا۔ اسی طرح مسلم پرسنل لا بورڈ کی کارروائیوں میں بھی انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ پرسنل لا بورڈ کا قیام تو ۱۹۷۳ کے مبنی بل کی مخالفت کے دوران تشکیل دیاگیاتھا، لیکن ڈاکٹر فریدی اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ۱۹۶۷ء میں ہی میں علی گڑھ میں یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ مل کر اس پر باقاعدہ آغاز ایک سمپوزیم منعقد کرکے کردیا تھا۔ سمپوزیم کی کامیابی کےبعد اسلامک ریسرچ سرکل، علی گڑھ کے تحت علی گڑھ میں ۱۹۶۸ء میں ایک عظیم الشان کانفرنس مسلم پرسنل لا بورڈ کے عنوان کے تحت منعقد کی گئی تھی، جس میں نہ صرف تحریک اسلامی کے نمائندہ شریک ہوئے، بلکہ ملک بھر سے مشہور شخصیات نے اس میںشرکت کی گویا کہ یہ پرسنل لابورڈ کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس پورے سمینار کی رپورٹ ، تقاریر اور مقالات کو ڈاکٹر صدیقی اور ڈاکٹر فریدی نے کتابی شکل میں بزبان انگریزی Muslim Personal Low, Papers & Proceedings of a Semenarکے عنوان سے مرتب کیاہے اور مرکزی مکتبہ اسلامی نے اسے شائع کیا ہے جو کہ
ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس دور میں ڈاکٹر فریدی اور ڈاکٹر صدیقی جیسے تحریک سے وابستہ اور ثانوی درس گاہ سے تربیت یافتہ نوجوان مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا ادراک رکھتے تھے اور اقدامی منصوبہ (Proactive)رول ادا کرتے تھے اور اکابر وقائدین تحریک بھی ان کی مناسب حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اس سمینار اور کانفرنس کی اہمیت کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ملک کے مشاہیر علماء میں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ، مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ، مولانا منت اللہ رحمانیؒ ، مولانا حامد علیؓ، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ، صدردارالمصنفین، مولانا سیداحمد عروج قادری کے علاوہ مجتہد الصدر مولانا سید علی نقوی کے ساتھ مسلم دانشوروں میں پروفیسر حفیظ الرحمن ظفر احمد ایڈوکیٹ، سید عزیز الشفیع، انور علی خان سوز، مسرزنیر حیدر نے اس میں حصہ لیا تھا گویا کہ تحریک نے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے قیام سے پانچ سال قبل ہی اس کے لیے نہ صرف زمین ہموار کی بلکہ ایک پورا لائحہ عمل اور منصوبہ کا خاکہ ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کردیاتھا۔
مدیرزندگی نواور ایڈیٹر ریڈینس
مدیر ماہنامہ زندگی نوکی حیثیت سے ڈاکٹر فریدی نے تحریک اسلامی کی فکری اور عملی رہنمائی میں اہم رول ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب ۱۹۹۱ء میں زندگی سے وابستہ ہوئے اور تقریباً دو دہائیوں تک انہوں نے اپنے مضامین اور خاص طور پر اپنے جاندار اشاریوں سے جوزمانہ کے نبض پر انگلیاں رکھ کر، آپ نے تحریر فرمائے تھے نہ صرف تحریک کے اندر کارکنوں بلکہ تحریک کے باہر بھی قارئین کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا۔ الحمدللہ ان اشارات کو کتابوں اور کتابچوں کی شکل میںمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ جن میں ’عدل کی تلاش‘ اقامت دین کا سفر، تحریک اسلامی اور خواتین کا کردار، دعوت اسلامی اور ہمارا طرز عمل، سرمایہ دارانہ نظام ایک چیلنج، دعوت دین، انفرادی زندگی، عائلی صلاح اور قریبی ماحول، کیا دنیااسلام کی منتظر ہے؟ اسلام اور صنفی تفریق، گلوبلائزیشن اور اس کے معاشی وثقافتی اثرات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض کو ہمارے ارکان اور کارکنوں کے مطالعہ کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013