پچھلی دہائیوں سے ہوم اسکولنگ‘‘ کا لفظ ہمارے ماحول میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ مختلف اسکولنگ بورڈ تعلیمی معیار کو بڑھانے کی دوڑ میں سائنسی اور تکنیکی نصاب پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم کاروبار بن کر رہ گئی۔جہاں زندگی کے ابتدائی پانچ سال جسمانی نشوونما کے لیے اہم ترین دور مانا جاتا ہے وہیں اعلی اقدار کی منتقلی بھی اسی دور میں انجام پاتی ہے۔ جدید تعلیمی نظام انسان کو محض پیسوں کے پیچھے دوڑنے والی مشین بنارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان، انسانیت کے جذبات سے کھوکھلا مٹی کا پتلا بنتا جارہا ہے۔ یہ بات جیسے جیسے مشاہدہ میں آتی جارہی ہے ہوم اسکولنگ کا تصور نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ ہوم اسکولنگ بنیادی طور پر اس ابتدائی وقت کو کارآمد بنانے کا نام ہے جس پر بچے کے کردار کی تعمیر منحصر ہے۔ کورونا کے دور نے اس کی افادیت اور بڑھادی ہے۔
ہوم اسکولنگ، دنیا بھر میں ایک ترقی پسند تحریک ہے، جس میں والدین اپنے بچوں کو روایتی سرکاری یا نجی اسکول میں بھیجنے کے بجائے گھر پر ہی تعلیم دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہوم اسکولنگ کی تحریک کا آغاز ۱۹۶۰/۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہوا۔ جب کچھ مشہور مصنفین اور محققین جیسے روساس جان رشڈونی، ہوریس مان، جان ہولٹ، ڈوروتھی جان ڈیوی، اور ریمنڈ مور نے تعلیمی اصلاحات کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کیں۔ ١٩ویں صدی میں ہوم ایجوکیشن تعلیمی نظام کی بنیاد تھی مگر ٢٠ ویں صدی میں اسکول اور اس میں حاضری لازمی ہونے لگی۔ اسکول خاطرخواہ تربیت کرنے میں ناکام ہوئی تب ماہر تعلیم نے پھر سے ہوم ایجوکیشن کو ہوم اسکولنگ بناکر پیش کرنا شروع کیا۔ امریکا کے نیشنل ہوم ایجوکیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق، امریکا میں ۲۰لاکھ سے زائد بچوں کو گھروں پر ہی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کی شرح ہر سال تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یورپ، افریقہ اور دولت مشترکہ کے بہت سے ممالک میں بھی ہوم اسکولنگ کا رجحان ایشیا کے مقابلے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ابھی بھی کئی ممالک میں ہوم اسکولنگ “لیگل “legal نہیں ہے۔ یعنی ابھی اس طریقہ کار کو قانونی اجازت نہیں ملی ہے۔ہندوستان میں RTE (رائٹ تو ایجوکیشن)کے بعد سے ہوم اسکولنگ کا موضوع ماہر قانون، ماہر تعلیم اور والدین کے زیر بحث رہا۔ کپل سبل، وزیر تعلیم نے ٹائمز آف انڈیا کے ذریعے ایک بیان دیا کہ “آر ٹی ای ایکٹ چاہتا ہے کہ ہر بچہ اسکول میں ہو، لیکن اگر کوئی اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو ہم [حکومت] مداخلت نہیں کرے گے۔ ریاست کے لیے سختی ہے والدین کے لیے نہیں۔ والدین آزاد ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجتے ہوئے گھر پر پڑھائیں۔ ہم مائیکرو مینجنگ نہیں کر سکتے۔” ہندوستان میں ہوم اسکولنگ کو قانونی قرار نہیں دیا گیا لیکن دوسری طرف اگر والدین اپنے بچوں کو گھر پر تعلیم دینا چاہتے ہیں تو وہ دے سکتے ہیں، حکومت ان کے خلاف مداخلت یا کارروائی نہیں کرے گی۔ حالیہ چند برسوں میں میٹرو پولیٹن شہروں مثلاً پونے، ممبئی، احمد آباد، بنگلور، چینئی، دہلی اور کیرلا کے کچھ شہروں میں یہ تعلیمی نظام مقبول ہوا ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے ۱۰ جنوری، ۲۰۱۹ کو، ‘اوپن ایس ایس سی بورڈ’ کا آغاز کیا، جس کے بعد طلبا کو گھر سے اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب ملی ہے۔
ہوم اسکولنگ ایک ایسا معروف طریقہ تعلیم ہے جس میں اسکول جانے والے عمر کے بچوں کو بجائے اسکول کے گھر پر ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ عموماً یہ سرگرمی والدین، ٹیوٹر یا آن لائن ٹیچر انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ہوم اسکولنگ فراہم کرنے والے ادارے بھی ہیں جو رائج رسمی تعلیمی طریقوں کو بہت ہی کم استعمال کرتے ہوئے والدین کا تعاون کرتے ہیں۔ یہ ادارے انفرادی تعلیم و توجہ کے ایسے متعدد تدریسی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں جو بیشتر اسکولی نظام میں مستعمل و رائج نہیں ہوتے۔ جان ہولٹ ایک امریکی مصنف اور معلم، ہوم اسکولنگ اور خصوصاً غیر اسکولی طریقہ کار کے نظریہ کے علم بردار تھے۔ انھوں نے پہلے تعلیمی نظام پر تنقید کیں پھر انھیں یقین ہو گیا کہ اسکولی نظام کی اصلاح ممکن نہیں ہے اور پھر انھوں نے ہوم اسکولنگ کی وکالت شروع کر دی۔ ان کی بیسٹ سیلنگ کتاب Teach Your Own” ابتدائی ہوم اسکولنگ تحریک کی ‘بائبل‘کہلاتی ہے۔ ان کے مطابق، ’’ اپنے بچوں کو اسکول دینے کی کوششوں میں خاندان کو گم نہ ہونے دیں۔ اساتذہ کو تبدیل کرنا آسان ہے، لیکن والدین کا کوئی متبادل نہیں۔ ” جدید تعلیمی نظام نے اچھے نمبرات کی دوڑ شروع کی ہے جس کی وجہ سے مختلف قسم کی زائد کلاس اور ٹیوشن نے ننھے منے بچوں کو کچھ اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا وقت گزارنے سے محروم ہیں۔ اس لیے کسی اور ٹیچر کے بجائے والدین ہی ہوم اسکولنگ کے لیے کاوش کریں تو ساتھ وقت گزار کر خاندان بھی خوشحال ہوگا اور تربیت بھی عمدہ ہوگی۔ بچہ گھر میں ہی ہوتا ہے تو والدین اپنی پوری نگرانی میں اس کی شخصیت کو تعمیری انداز میں پروان چڑھا سکتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ پہلے یہ جان لیں کہ ان کے علاقے میں ہوم اسکولنگ legal ہے یا نہیں؟ پھر ایک تعلیمی بورڈ مختص کرکے نصاب کی طرف توجہ دیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق پانچ سے چھ سال کی عمر تک مخصوص صلاحیتیں اور خوبیاں پہچانی جاسکتی ہے جس کے بعد انھی کی بنیاد پر آگے چل کر کرئیر بنایا جاتا ہے۔ اور آج کل ہوم اسکولنگ کے ورکشاپ یہی مشورہ دیتے ہیں کہ نصاب کے علاوہ نصاب سے ہٹ کر کسی ایک فیلڈ پر شروع سے ہی محنت کی جائے۔ والدین بچے کے شوق اور ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کام بہ آسانی کرسکتے ہیں۔عمر کے اس حصے میں بچے کی جسمانی ضروریات پورا کرنے پر تمام تر زور دیا جاتا ہے۔ ملبوسات، کھلونوں اور غذائیت بہم پہنچانے میں والدین پوری پوری کوشش کرتے ہیں لیکن کم ہی والدین جانتے ہیں کہ اس عمر میں جذباتی ضرورتیں emotional needs بھی ہوتی ہیں۔ جنھیں سلیقے سے ایک پروگرام کے تحت پورا کرنے پر بچہ ایک با صلاحیت اور مثبت کردار شخصیت بنے گا۔بینش ضیاء ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان سے بھی جڑی ہیں۔اور وہ اپنے بچوں کی ہوماسکولنگ کرتی ہیں۔ اپنی تحقیق اور تجربات کی بناپر انھوں نے بچوں کی مندرجہ ذیل چار بنیادی ضروریات (emotional needs) کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔
unconditional love ( غیر مشروط محبت)
sense of security (تحفظ کا احساس)
exposure to new experiences (تجسس)
need to be disciplined (نظم و ضبط کی پابندی)
بچے کی ان بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے والدین کو ہوماسکولنگ کی مکمل منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ والدین کو اخلاقی تربیت اور ذہنی نشو نما پر بھی دھیان دینا ہوگا۔ہوم اسکولنگ کے ماہرین کے مطابق باہمی مشاورت یا ماہرین (نفسیات یا تعلیم) سے مشورے کے بعد ایسے تمام تصورات کی فہرست بنا لیں جو آپ بچوں کے ذہن کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ جو بچے کے لیے رہ نما اصول ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر رب العالمین کا تعارف، زندگی کا مقصد، رول ماڈل، کام یابی کا پیمانہ، جنت کی نعمتیں،دیگر افراد سے تعلق کی نوعیت، قدرت پر تدبر، فرشتے، شیطان وغیرہ۔ان تصورات کا استعمال پھر ان کی سرگرمیوں اور نتائج کو مرتب کرنے میں استعمال کیا جائے۔بہترین اور نتیجہ خیز ہوم اسکولنگ کے لیے ایسی صلاحیتوں، قابلیتوں اور استعداد کی فہرست بنا لیں جو والدین میں لازماً ہونی چاہیے تاکہ وہ بچے کے استاد اور مشیر (Mentor) بن سکیں۔ کچھ علاقوں میں ہوم اسکولنگ کے لیے والدین کی مخصوص تعلیمی لیاقت بھی مطلوب ہوتی ہے، اس بارے میں معلومات حاصل کریں۔ والدین کو چوں کہ گھر اور باہر کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے یہ سرگرمی کرنی ہے اس لیے انھیں نظم و ضبط کا پابند ہونا ہوگا۔ ایک اچھے روٹین کو اپناتے ہوئے یہ سرگرمی کارخیر ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ والدین کو بچوں کو پڑھانے کا طریقہ بھی جاننا ہوگا۔ بچوں کی نفسیات، صحت، دل چسپی، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی تدابیر کی معلومات بھی ہونی چاہیے۔ نیز کہانی کہنے کا فن، نظم خوانی، بچوں کے ذہن میں سولات اجاگر کرنا اور تجسس سے بھرپور بارہا پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی آنا چاہیے۔ والدین کو بہت صبر کرنا ہوگا، جوش اور خوشی کا اظہار کرنا ہوگا اور غصہ پر قابو رکھنا ہوگا۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اور اپنے انداز میں سیکھتا ہے۔ والدین کو بچے کو سیکھنے، سمجھنے اور سیکھی ہوئی چیزوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے وقت دینا ہوگا۔ اسکول میں مخصوص مدت تک طے شدہ نصاب ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اکثر بچوں کے ذہن میں ابھی کچھ چیزیں اتری بھی نہیں ہوتیں کہ انھیں نئی باتوں سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ امتحانات اور رزلٹ کا خوف دماغ پر حاوی ہوتا ہے۔ چوں کہ ہوماسکولنگ اسی طرح کے نقائص سے بچوں کی حفاظت کے لیے کی جاتی ہے اس لیے بچے کو اس کی ذہانت کی مناسبت سے مکمل وقت ملنا چاہیے۔ ذہنی دباؤ سے مکمل آذادی کے بعد ہی اچھا نتیجہ مل سکے گا۔ اس لیے والدین کو جلدبازی ا سے گریز کرنا ہوگا۔ تاریخ کی کئی زریں شخصیات نے بچپن میں ہی قرآن حفظ کرلیا اور عربی زبان پر عبور حاصل کرلیا۔ صبح اٹھ کر اسکول کے لیے تیار ہونے، بس کا انتظار کرنے اور اسکول ٹیوشن کے تھکا دینے والے روٹین وغیرہ سے بچہ بچ جاتا ہے۔ والدین اور بچے کے پاس وقت اور توانائی استعمال کرنے کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ والدین دینی شعور کے بیج بو کر اپنی اور اپنی نسلوں کی آخرت سنوار سکتے ہیں۔ قرآن حفظ کروانا، اردو اور عربی زبان سکھانا، سیرت سے متعارف کروانا، روزمرہ کے کاموں کو سنت کے مطابق سنوارنا وغیرہ مفید سرگرمیوں پر والدین خصوصی توجہ دے سکتے ہیں۔ ان میں انسانیت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھائے جاسکتے ہیں۔ انھیں مل جل کر رہنا، لڑائی سے دور رہنا، اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا، حسد سے بچنا یہ اسباق صرف کہانیوں کے ہی ذریعے نہیں بلکہ عملی طور پر بھی بتانے ہوں گے،جس کے بعد وہ زندگی بھر کے لیے محبت و اخوت کا درس ذہن نشین کرسکیں گے۔ بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت،خدمت گزاری، دادرسی، تیمارداری، جیسے نمایاں اخلاقی پہلوؤں کو مختلف تدبیر و ترکیب کی مدد سے بچوں کے کردار کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ کارآمد پروگرام کے ذریعے ان میں اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ نیک اولاد ثواب جاریہ ہیں، ان پر کی گئی تھوڑی سی بھی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ مثال کے طور پر سورة الفاتحة نماز میں روزانہ پڑھی جانے والی سورہ ہے۔ اس سورہ کے بنا نماز مکمل نہیں ہوتی۔ اپنے بچوں کو یہ سورہ والدین ہی یاد کرائیں (کسی مولانا اور آپا سے پہلے) تاکہ ان کو اس کا ثواب روزانہ ملتا رہے۔ہم اور آپ قبر میں بھی لیٹے ہوں اور نسلوں سے روزانہ نیکیاں مو صول ہوتی ہو، یہ ایک ایسا احساس ہے جیسے گرم علاقے میں شدید گرمی کا موسم ہو اور اے سی کی سہولت ہو۔ نیک اولادlong lasting investment بہترین سرمایہ کاری ہے۔ دماغ کا صحیح استعمال، ترکیبات اور کاوشوں کا انویسٹمنٹ ہمارے لیے منافع بخش ثابت ہوگا۔
آج کل بہت ساری کتابیں اور ویبینار اس موضوع کے تحت منظرعام پر آرہے ہیں۔ والدین اگر بچوں کی تربیت سے پہلے خود کی تربیت کی بھی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ہوم اسکولنگ کا فیصلہ کام یاب ہوگا۔ شیخ اسماعیل کامدار، اسلامک سیلف ہیلپ کے بانی جنھوں نے درجن سے زائد کتابیں اسلامی تعلیمات اور شخصی ارتقا پر لکھی ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے بچوں کے لیے ہوم اسکولنگ پسند کی ہے۔ ان کی کتاب ہوم اسکولنگ ١٠١ بہت مشہور ہے، جس میں انھوں نے اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے تدابیر و تجاویز پیش کی ہیں۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں ہوم اسکولنگ کو لے کر والدین کے سوالات اور ان کے جوابات بھی درج ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم اور بھی ایسی کئی ساری شخصیات کے زیراہتمام ہوم اسکولنگ کے فن کو سیکھ کر اپنے بچوں کو کام یاب شہری اور دیندار انسان بنا سکتے ہیں۔
بہرحال ہندستان میں بھی ہوم اسکولنگ کی ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے جو حکومت سے مطالبہ کرے کہ ہوم اسکولنگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور افادیت کے پیش نظر اس طریقے کو بھی تسلیم کرنے کا کوئی نظام وضع کیا جائے۔ دوسری طرف والدین اس پہلو پر غور کرسکتے ہیں کہ اسکول کی تعلیم کے ضروری قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے وہ ہوم اسکولنگ جیسا کوئی انتظام کس طرح شروع کریں، جس سے ان کے بچے کسی حد تک مستفید ہوسکیں۔
چوں کہ ہندوستان میں مارک شیٹ اور اسناد کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی اس لیے آبادی کا بڑا حصہ ہوم اسکولنگ سے متعارف نہیں ہوسکا۔ پھر بھی کورونا میں آن لائن اسکول کی وجہ سے کسی حد تک واقفیت بڑھتی جارہی ہے۔بہرحال ہندستان میں بھی ہوم اسکولنگ کی ایسی تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے جو حکومت سے مطالبہ کرے کہ اس طریقے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور افادیت کے پیش نظر ہوم اسکولنگ کو بھی تسلیم کرنے کا کوئی نظام وضع کیا جائے۔ دوسری طرف والدین اس پہلو پر غور کرسکتے ہیں کہ اسکول کی تعلیم کے ضروری قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے وہ زیادہ ہوم اسکولنگ پر کیسے توجہ دیں۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2022