ہر چیز موت کی طرح خاموش اور قبر کی طرح تاریک تھی!
کالی رات چھا گئی، جس نے دن میں برپا ہونے والے شدید ترین معرکے کو چھپا لیا۔ لاشوں سے بچھے ہوئے میدان اور خون سے رنگی ہوئی سخت زمین چھپ گئی اور دردناک حادثے کے بھیانک منظر پر پردہ پڑگیا۔ وہ حادثہ جس کی تصویر انسان زندگی کے اسٹیج پر ہمیشہ پیش کرتا رہا ہے، جس میں وہ بھیڑیے کی کھال پہن لیتا اور درندوں کے ناخن اور اژدہوں کے دانت لگا لیتا ہے۔۔۔ پھر دیکھتے دیکھتے سپاہی تھک ہار کر گر پڑتے ہیں، اور مُردوں کی طرح سوجاتے ہیں ۔ وہ نہ کچھ محسوس کرتے ہیں اور نہ کوئی خواب دیکھتے ہیں ۔ ان کے خیمے اور ان کے گھر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ ان میں زندگی نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ ان سخت چٹانوں کی طرح جو انھیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتی ہیں ۔
یہ وہی جنگ ہے—جو زندگی کے لیے آفت ہے، انسانیت کے لیے شرم ہے!
یہ وہی جنگ ہے—جس کا پیٹ بھرنے کے لیے دماغ علوم و معارف کے سوتے بن کر پھوٹنے لگتے ہیں ۔ جس کے لیے ہنر مندیوں، کارخانوں، باریک سے باریک چیزوں اور سجاوٹ کے سامان تیار کرنے کے لیے ہاتھ متحرک رہتے ہیں اور والدین اپنی اولاد کو پروان چڑھانے اور انھیں مہذب بنانے کے لیے سب کچھ لٹادیتے ہیں ۔ پھر جب بیٹے جوانی اور توانائی کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، فنون ترقی یافتہ اور بار اور ہوجاتے ہیں، کارخانوں کا معیار اونچا ہوجاتا ہے اور زندگی اپنے سامانِ زینت سے آراستہ ہوجاتی ہے تو جنگ آتی ہے اور ان سب کو تہس نہس کر ڈالتی ہے اور پوری فصل کو یوں کاٹ کر رکھ دیتی ہے گویا کل اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ہائے ری جنگ کی مصیبت! یہ جنگ کتنی بڑی مصیبت ہے، اگر عزت، زندگی اور دین کے دفاع کے لیے نہ ہو!
ہر چیز موت کی طرح خاموش اور قبر کی طرح تاریک تھی، سوائے عیسائیوں کے کیمپ میں دور ایک خیمے کے، جس کے سوراخوں اور شگافوں سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اور جس کے اندر سے دھیمی دھیمی آواز سنائی پڑ رہی تھی۔ ایک عورت اپنی سہیلی سے باتیں کر رہی تھی: وہ کیا چیز ہے جو تمھیں رات میں غم گین کیے ہوئے ہے ہیلانہ، کس نے تمھارے غموں کو تازہ اور تمھاری تکلیفوں میں اضافہ کردیا ہے؟ کیا تم اس سخت معرکے سے ڈر گئی ہو جس میں کودنے اور جس کی آگ میں جلنے کے لیے ہم آئے ہیں تاکہ مسیح کی قبر کا دفاع کریں؟ یا پھر تمھارا یہ غم لوئس کے لیے ہے جو تمھارے دل پر چھایا ہوا ہے؟ تم غم نہ کرو ہیلانہ۔ کیوں کہ یہ راستہ اس کے لیے مقدّر ہوچکا تھا، جسے اس نے پہچان لیا اور مطمئن ہوکر خوشی خوشی اس پر چل پڑا تھا۔ اب تم صبر سے کام لو میری پیاری بہن، کیوں کہ لوئس آسمان میں ہے۔ کیا تمھیں اس بات سےخوشی نہیں ہو رہی ہے کہ وہ صلیب کی راہ میں مرا ہے؟ اب اس وقت جب کہ تمھیں صبر و تحمل کی ضرورت ہے تمھارے مضبوط دل پر ذرا بھی مایوسی نہ چھانے پائے!
عورت خاموش ہوگئی، اور پھر سے سناٹا چھا گیا۔ ایک لمبا وقفہ گزرگیا جس میں کسی طرح کی کوئی ہلکی آواز تک سنائی نہیں دیتی تھی۔ دھیمی روشنی ابھی بھی خیمے کے سوراخوں سے برابر پھوٹ رہی تھی۔ پھر چاند اداس چہرے کے ساتھ دنیا پر نمودار ہوا جیسے کسی سخت بیمار یا کسی دم توڑتی میت کا چہرہ ہو۔ اس کی ہلکی روشنی نے وہ سب ظاہر کر دیا تھا جسے رات چھپائے ہوئی تھی، ان شعاؤں سے وہ وحشت ناک اور ڈراؤنا منظر سامنے آگیا اور چاند کی پھیکی روشنی نے اس منظر کو کچھ زیادہ ہی وحشی اور ڈراؤنا بنادیا۔ وہ عورت خیمے سے نکلی اور اس کے پاس بیٹھ کر سوچ میں ڈوب گئی۔ وہ تیس سال کی تھی لیکن اپنی کم سنی کی طرح آج بھی وہ قابلِ دید، نازک بدن اور بے حد حسین تھی۔ وہ ان خیموں کو دیکھتی جو دامنِ کوہ اور چٹانوں پر بکھرے ہوئے تھے، اس کی نگاہیں اپنے مسلمان دشمنوں کی فوج پر پڑیں جو بلند فصیلوں پر قابض ہو چکی تھی۔ وہ اس خوف ناک زندگی کےبارےمیں سوچتی جسے وہ گزار رہی تھی، تو اپنی گزری ہوئی زندگی کی یاد میں اس کا دل بھر آتا، جب وہ اپنےگاؤں میں تھی جو الپ کی چٹانوں کے پیچھے تھا، تب اسےکچھ بھی معلوم نہیں تھا سوائے اس چھوٹی سی دنیا کےجس کی مشرقی سرحد پر وادی کا موڑ تھا اور جس کے مغربی خطے کو نہایت تنگ پتھریلا راستہ گھیرے ہوئے تھا اور شمالی و جنوبی حصے میں صنوبر کا دل کش جنگل تھا جو بستی کو اپنے آغوش میں لیے ہوئے خوب صورت بلندی پر پھیلا ہوا تھا اور پتھروں والی وہ فصیل جو ان سب کو گھیرے ہوئے تھی۔ یہ چٹانیں اور گاؤں کے قریب کی یہ چوٹیاں اس کی حد نظر تھیں، ان کےپیچھے کیا ہے اس کی جستجو اسے کبھی نہیں ہوئی۔ اب تقدیر نے اسے اس دور دراز اجنبی دنیا میں لا پھینکا تھا جس کے بارے میں وہ جانتی تک نہیں تھی۔ تقدیر نے کیسے اس کے مقدر میں یہ بات لکھ دی تھی کہ وہ اپنے محبوب شوہر کو کھو دے اور پھر ڈر اور موت کے بیچ زندہ لاش بن کر جیے؟
وہ اپنے گاؤں میں والہانہ محبت کی جنت میں جی رہی تھی۔ اپنے دل اور اپنے خدا کے سوا کسی کو نہیں پہچانتی تھی۔ وہ صبح اپنے خدا کے کلیسا میں چلی جاتی پھر اس کی طرف متوجہ ہوتی۔پھر وہ ٹہلتی اور جنگل میں چکر لگاتی، اس کاہاتھ اس کے محبوب شوہر کے ہاتھ میں ہوتا، یہاں تک کہ مقدس درخت کے نیچے اپنی محبت کے کلیسا میں پہنچ جاتی، وہاں وہ محبت والی عبادت کرتی جو والہانہ محبت والے دین کے مطابق ہوتی۔
پورا گاؤں امن اور خوش حالی کےعالم میں تھا کہ اس میں ایک آدمی آیا جس کے بعد سے آزمائشوں اور مصیبتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گاؤں کی صاف ستھری زندگی پلید ہوگئی، جیسے کوئی پرسکون جھیل میں پہاڑ سے ٹوٹ کر کوئی چٹان گر پڑے۔ اس صبح گاؤں پر سکون رات کے بقیہ خوابوں کے گھونٹ پی رہا تھا تاکہ طلوعِ آفتاب کے ساتھ اٹھے اور ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیےکوشاں ہوجائے۔ جنگل محوِ عبادت تھا۔ صنوبر کے درخت عبادت کے لیے اپنے رب کے سامنے صف در صف کھڑے تھے۔ پرندے شاخوں کی بلندیوں پر اپنے اذکار میں مشغول تھے۔ باغیچوں میں گلاب اور چمیلی کے پھول خشوع اور خاموشی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ نہریں ایک مسلسل اور خوب صورت تسبیح میں مستغرق تھیں ۔ پہاڑ اور وادی وجد کے عالم میں تھے۔ یکایک فطرت کے کلیسا کی اس عبادت میں ایک چیخ نے خلل ڈال دیا جو دونوں پہاڑوں کے بیچ گونج رہی تھی۔ چیخیں ایک تسلسل سے آ رہی تھیں، جن سے ہیبت و خوف میں اضافہ ہوگیا۔ پورے گاؤں میں دہشت کی لہر پھیل گئی۔ ان چیخوں نے گاؤں کی ہنستی مسکراتی صبح کو وحشت ناک صبح میں تبدیل کردیا۔ لوگ آواز کی جگہ معلوم کرنے کے لیے نکل پڑے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک راہب، جو ننگے سر ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، ٹاٹ پہنے ہوئے ہے، وہ کبھی ان کےسامنے لاطینی اور کبھی فرانسیسی زبان میں ایسی باتیں پیش کرتا ہے جنھیں وہ کچھ سمجھتے اور کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ رو رو کر، چیخ چیخ کر اور اپنی داڑھی کے بال نوچ نوچ کر باتیں کر رہا تھا۔ وہ عیسائیت کےمٹ جانے، دین کےضائع ہو جانے کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا اور کافر مسلمانوں کے ہاتھوں سے مقدس قبر کو بچانے کی طرف بلا رہا تھا۔ بس پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اشتعال نے عقلوں کو ماؤف کر دیا، دلوں کو بے قابو کر دیا۔ شدت غیظ نے زبانوں پر تالے لگا دیے اور لوگ سب کچھ بھول گئے سوائے اس آگ کے جو اب ان کی رگوں میں دوڑ رہی تھی اور دماغوں تک پہنچ کر انھیں کھولا رہی تھی۔ وہ سب راہب کے پیچھے ہولیے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جارہے تھے۔ بس یہ جانتے تھے کہ کافروں کے ہاتھوں سے مسیح کی قبر کو آزاد کرانے کے لیے نکلے ہیں، جنھوں نے اس کی اہانت اور تحقیر کی ہے۔ ہیلانہ اور اس کا شوہر اور گاؤں کے بہت سے نوجوان مرد وعورت راہب کی باتوں پر یقین کرتے جارہے تھے کہ مسلمان آدم خور ہوتے ہیں، وہ انسان نما بھیڑیے ہوتے ہیں، انھوں نےمسیح کی بے حرمتی کی ہے۔ آخر کار وہ دونوں اپنے نوزائیدہ بچےکو لےکر ہجوم کے ساتھ یروشلم کی طرف چل پڑے۔
‘‘*
ہیلانہ کی آہ وبکا کی آواز سے اس کی سہیلی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اسےدیکھنے کے لیے خیمے سے باہر آگئی۔
تمھیں کیا ہوگیا ہے ہیلانہ؟ تم رو کیوں رہی ہو؟ تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں؟
ہیلانہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور روتی رہی۔ سہیلی نے دوبارہ پوچھا: تمھیں کیا ہوا ہے؟جواب دو، بولو، اپنی خاموشی سےخود کو ہلاک مت کرو۔
لوئس!
اس کانام دل کی گہرائیوں سےایک لمبی آہ بن کر نکلا، ایسی آہ جو آنسوؤں میں ڈوبی تھی، اور پھر وہ رونے لگی۔
صبر کرو اے پیاری بہن۔ یقیناً وہ آسمان میں ہے۔ پھر تمھارے پاس چھوٹا لوئس تو ہے نا، کیا تم سنتی نہیں کہ وہ کس طرح رو رہا ہے؟ یہ اسی کا بیٹا ہے ہیلانہ۔ محبوب شوہر کا بیٹا۔ اب اس کی خاطر جیو۔ اسے ایسی خوشی و مسرت دو جس سے لوئس کی روح خوش ہو جائے۔ تم دیکھتی نہیں کہ تمھاری رلائی اسےتکلیف پہنچارہی ہے؟
ہیلانہ نے بچےکولےکر سینے سے چمٹا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اب بھی رواں تھے۔ اس نے بچے کی نرم گردن پر بوسہ دیا اور اپنا چہرہ اس کےسینے پر رکھ دیا۔
ہیلانہ اور اس کی سہیلی اٹھ گئیں، اور خیمے سے بکھرنے والی دھیمی روشنی گل ہوگئی، اور رات کی تاریکی اور افسردگی میں اضافہ کر گئی۔
‘‘*
مسلمانوں کا فوجی کیمپ خاموش اور تاریک تھا، اس میں صرف ایک روشنی دکھائی دے رہی تھی جو سلطان کے خیمے سے پھوٹ رہی ہے۔ فوجی سوئے ہوئے تھے۔ وہ گزرے ہوئے دن کی تھکان اتارنے کے لیےآرام کر رہے تھے، جس میں انھوں نےاپنی زندگی کی سخت ترین جنگ لڑی تھی۔ انھوں نے جنات کی طرح طاقت جھونک دی تھی، یہاں تک کہ محصور عکّہ کی طرف پہنچنے کا راستہ نکال لیا تھا۔ سمندر کے راستے دشمن فوجوں کے لیے برابر کمک آرہی تھی۔ قریب تھا کہ مسلمان فوجی امداد دیکھ کر گھبرا جاتے، لیکن سلطان کی موجودگی انھیں ثابت قدم رکھے ہوئی تھی۔ سلطان ان کشتیوں کو دیکھتے جو صلیبیوں کو خشکی کی طرف لارہی تھیں لیکن اس منظر سے ان کے دل میں ذرا خوف پیدا نہیں ہوتا تھا انھیں اللہ کی مدد پر پورا یقین تھا۔
اسی سناٹے میں دو آدمی مسلمانوں کے کیمپ کی طرف اندھیرے میں آگے بڑھ رہے تھے، دونوں ہوشیاری کےساتھ چل رہے تھے اور چٹانوں کو بڑی مہارت سے عبور کر رہے تھے، ان میں سے ایک آدمی بائیں ہاتھ سے سفید چیتھڑے میں لپیٹا ہوا کچھ اٹھائے ہوئے اور نرمی سے اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھا، وہ اپنے دائیں ہاتھ میں ننگی تلوار لیے ہوئے تھا کہ کہیں اچانک سامنےسے کسی خطرے کا سامنا نہ ہوجائے۔ دونوں خاموش تھے، جب دونوں چٹانوں سے گزر گئے اور مسلمانوں کے کیمپ میں داخل ہو گئے تو اس نے مطمئن ہوکر تلوار زمین پر رکھ دی اور دونوں بیٹھ کر سستانے لگے۔ کپڑے میں لپٹی ہوئی چیز کو بڑی احتیاط سے سینے سے لگائے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا:تمھارا کیا خیال ہے، سلطان ہم سےکیا کہیں گے؟کیا وہ ہمارےکام سے خوش ہوں گے۔ انھوں نے تو ہمیں تاکید کی تھی کہ ہم عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اٹھائیں، کسی نہتے شخص کو تکلیف نہ پہنچائیں اور راہبوں کو نظر انداز کریں، انھوں نے ہمیں جنگ جوؤں اور فوجیوں کو پکڑنے کے سوا کسی اور چیز کی اجازت نہیں دی تھی؟ اس رات جو کچھ ہم نے کیا ہےکیا وہ اسے ناپسند نہیں کریں گے؟کیا آج ہم پر ان کاغصہ اس دن کی ان کی خوشی سے زیادہ نہیں ہوگا جس دن ہم نے دشمن کے ایک بڑے کمانڈر کو اس کے بستر پر سے اغوا کرلیا تھا؟
یہ سن کر دوسرے شخص نے سر جھکا لیا۔ گویا وہ سلطان کےغیظ و غضب کے بارےمیں سوچ رہا ہو اور اس کھائی سے نکلنے کی سبیل تلاش کر رہا ہو جس میں وہ دونوں گر گئے تھے، اس نے اپنا سر اٹھایا امید کی کرن سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا، اس نےکہا: وہ غضبناک کیوں ہوں گے؟کیا اللہ نےہمارے لیے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ ہم سرکشی کا جواب سرکشی سے دیں؟ کیا انھوں نے ہمارے ساتھ اس جیسا برتاؤ کرنے میں پہل نہیں کی، ہماری عورتوں کو دکھ دیا اور ہمارے بچوں کو اغوا کیا؟ اور جب ہم نے اس پر صبر کیا اور ان کی اس حرکت کا اسی طرح کا جواب نہیں دیا تو انھوں نے اسے ہماری بےبسی اور کم زوری سمجھا اور وہ اپنی مجرمانہ اور گھناؤنی سرکشی میں حد سے آگے بڑھ گئے، تو کیا ہم انھیں چھوڑ دیں کہ وہ جوچاہیں کریں اور ہم ان کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں؟
اس دلیل سے پہلے شخص کو اطمینان ہوا، پھر دونوں اٹھے، یہاں تک کہ وہ دونوں سلطان کے خیمے پہنچ گئے جب انھوں نےخیمہ کو روشن پایا توسمجھ گئے کہ وہ ابھی سوئے نہیں ہیں، دونوں کھڑے ہوکر اجازت ملنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ ساری روداد ان کے سامنے پیش کریں، ہر چھوٹی بڑی حرکت سے آگاہ کرنا انھوں نے سب پر لازم قرار دیا تھا۔
‘‘*
سلطان کے خاص دوست قاضی ابن شداد سلطان کے خیمے کے سامنے کھڑے تھے، ان کی نظر ایک عورت پر پڑی، وہ بے پردہ تھی، اور اجنبی زبان میں چیخ رہی تھی، رو رو کر گریہ و زاری کر رہی تھی اور خوف و دہشت بھرے اشارےکر رہی تھی، وہ ہیلانہ تھی۔ ہوا یہ کہ رات کے کسی پہر اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے بچےکو نہیں پایا، بس پھر کیا تھا، وہ جنون کی حالت میں خیمے سےنکل پڑی اور اپنے بچےکانام لےکر چیخنے لگی اور بے تحاشا ادھر ادھر دوڑنے لگی، وہ ہر طرف دوڑی، جسے دیکھتی اپنے بچےکے بارے میں پوچھتی کہ کیا اس نے اس کے بچےکو دیکھا ہے، ہائے میرا بچہ کہاں گیا؟ میں کیا کروں؟میری مدد کرو، میری خاطر میرا بچہ تلاش کرو۔ وہ کہاں گیا؟کیا وہ مر گیا ہے؟کس نے اسے لیا ہے؟کیا اسے بھیڑیے کھا گئے ہیں؟کیا بھیڑیے فوجی کیمپ میں داخل ہوتے ہیں؟آیا اسے چوروں نے چرالیا ہے؟آہ! تم کہاں ہو میرے بیٹے؟تم لوگ اسےکیوں نہیں مجھے لوٹا دیتے؟مجھ پررحم کرو اےلوگو!
پھر وہ اپنے کیمپ میں ماری ماری پھرتی افسروں کے خیمے پہنچ گئی اور اس کےاندر گھس گئی، اور ان کے قدموں پر گر کر بلبلانے اور چیخنے لگی، انھیں اس پر ترس آیا، لیکن وہ اس کی مدد نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے خاموش رہے، وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اور التجا کرتی رہی، پھر یہ ہوا کہ ایک افسر نے اسے سلطان صلاح الدین کےپاس جانے کی صلاح دی۔
بہرحال وہ آدمی خود دار اور شریف ہے، ایسا نہیں لگتا کہ وہ مصیبت کی ماری اس دکھیاری عورت کی فریاد نہیں سنے گا جواس کےقدموں پر عاجزی کےساتھ روکر گرےاور اس سے اپنا اکلوتا بچہ واپس لوٹانے کی فریاد کرے۔۔۔ یہ وہی سلطان ہےجس نےکل فرانسیسی دستے کے کمانڈر کو گرفتار کیا، لیکن جب وہ اس کے سامنے آیا اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ اسےقتل کر دیا جائے گا تواس کی طرف سے تکریم اور حسن سلوک کی بارش ہوگئی؛ سلطان نے اسےخلعت عطا کی، اور اسے عزت و اکرام کےساتھ دمشق روانہ کیا، اس کمانڈر نے اپنےساتھ سلطان کے کیے ہوئے اچھے برتاؤ کو دیکھا اور پھر یاد کیا کہ خود اس نے سلطان کےقیدی فوجیوں کے ساتھ کیا کیا تھا تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگیا، اس کے پاس شکریہ کے الفاظ نہیں تھے اور نہ سر اٹھانے کی ہمت ہورہی تھی۔
خیمے کے کچھ افسر عورت کو سلطان کے کیمپ کی طرف لے کر چلے، تو وہ آگے آگے تیز دوڑنے لگی، یہاں تک کہ اس کی سانس تیز ہوگئی اور وہ ہانپنے لگی۔ مگر وہ خود کو سنبھالتی آگے بڑھتی رہی، وہ چاہتی تھی کہ ایک ہی چھلانگ میں پورا راستہ طےکرلے، جس کےبعد وہ اپنےلڑکے کو دیکھ لے یا پھر اس چھلانگ سے اس کی موت آجائے، وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں اس سے ذرا تاخیر نہ ہو جائے اور پھر اس کے بچےکو کوئی مصیبت لاحق ہوجائے۔ ماں کی ممتا بھی کیا چیز ہوتی ہے۔
اس کا جسم طغیانی بھرے سمندر کے مانند تھا جس کی ایک لہر ٹھہرتی نہیں کہ دوسری لہر اٹھنے لگتی، اس کی نگاہوں کے سامنے پے در پے تصویریں آرہی تھیں ؛ بچے سے ملنے پر اپنی خوشی کا تصور کرتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھتی جاتی۔ پَر اچانک اس کی ہلاکت کے بارےمیں سوچنے لگتی اور پل بھر کے لیے ٹھہر جاتی گویا کہ تقدیر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر تھپڑ مار دیا ہو، لیکن وہ اس تصویر کو ہٹا دیتی اور اس پر مطمئن نہ ہوتی اور دوبارہ اس کےپاس ایک مضبوط اور روشن امید آجاتی اور امید پر ڈر اور اندیشہ چھا جاتا، پھر اس کے سامنے اس کی پہلی زندگی کی تصویریں گردش کرنے لگتیں، جو بجلی کی طرح اس کی روح کی انتہاؤں سےگزرتیں اور اسے جھنجوڑ کر رکھ دیتیں، پھر وہ اپنی منزل کی طرف دوڑنے لگتی اور بچے کی تصویر لوٹ کر واپس آجاتی اور اس کے پورے خیالات پر چھا جاتی۔ یہاں تک کہ وہ خاردار بارڈر تک پہنچ گئی تو تیز آواز آئی: ٹھہرو، اور وہ ٹھہر کر دیکھنے لگی کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔
پھر وہ ان کے سامنے اپنے بچوں کو کھو دینے والی شیرنی کی طرح چیخنے لگی اور ان سے فرانسیسی زبان میں مخاطب ہو کر کہنے لگی: میرا بیٹا، میرا بیٹا اے فوجیو! اسے مجھے لاکر دے دو، مجھے میرا بیٹا چاہیے، آخر تم لوگوں نے اسےکیوں اغوا کرلیا ہے؟ تم کیوں ایک لاچار عورت کو دکھ دے رہے ہو؟ وہ کہاں ہے؟ کیا تم لوگوں نے اسے قتل کر ڈالا ہے؟ نہیں، میں تمھارےچہروں پر درندگی کی علامت نہیں دیکھتی، میں تو تمھارے چہروں پر شفقت و مہربانی دیکھ رہی ہوں، تو تم میرے بیٹے کو کیوں نہیں واپس کر رہے ہو؟
مگر وہ سب اس کی کوئی بات نہیں سمجھتے، تو وہ پھر چیخنے لگی، یہاں تک کہ ایک آدمی آیا جو اس کی زبان جانتا تھا، اس نے پوچھا: اے خاتون کون سا بچہ؟
میرا بچہ لوئس ہے۔ لوئس۔اور میں ہیلانہ ہوں ۔اسے مجھے دے دو۔ میں سلطان سے ملنا چاہتی ہوں ۔
اسے ترس آگیا اور اس نے اسے آگے جانے دیا اور سلطان کے خیمےکا راستہ بتا دیا، وہ دیوانہ وار دوڑتی ہوئی وہاں تک پہنچ گئی۔اور وہاں اس کا سامنا قاضی ابن شداد سے ہوا جو ابھی سلطان کے خیمے سے نکل کر باہر آیا تھا۔
قاضی نے اس سےکہا: دیکھو اس وقت سلطان مشغول ہے، تمھیں ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا۔
نہیں، نہیں، میں آپ سے فریاد کرتی ہوں، مجھے اندیشہ ہےکہ میرے بیٹےکو کہیں کوئی اذیت نہ پہنچ جائے، مجھے اس کےپاس جانے دیں۔
قاضی نےاس سے کہا:جاؤ اس آدمی کے ساتھ اور آدمی کو اشارے سے حکم دیا کہ اسے قیدیوں کے خیمے میں کچھ دیر کے لیے چھوڑ آئے۔ ہیلانہ نےسمجھا کہ وہ سلطان کے پاس جارہی ہےاس لیے وہ خاموشی سے تیز تیز چلنے لگی، جب اسےلےکر خیمے میں داخل ہوئے اور اس نے قیدیوں کو دیکھا تو لگی چیخنے اور بلبلانے، اس کی چیخ نے قیدیوں کو جگا دیا، پھر اس کی چیخ پھیل گئی اور سلطان کے خیمے تک پہنچ گئی اور اس نے اسے طلب کرلیا۔
خیمے کے بالکل آخری طرف ایک قیدی بیٹھا تھا، اس نے اندھیرے میں اس عورت کی آواز سنی، اور بے چین ہو اٹھا، اس کا دل تیز دھڑکنے لگا اور اس کی نگاہیں اندھیرے میں اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگیں، یہاں تک کہ وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی گئی، اس آدمی کی بے چینی بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس نے اپنا سرجھکا لیا اور اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا، لگتا تھا کہ اس کے پہلو میں کوئی آتش فشاں ہو جو چند منٹ بعد پھٹنے والا ہو، پھر وہ قیدی اٹھا اور زخمی جانور کی طرح چیخ چیخ کر کہنے لگا:میں اسےدیکھنا چاہتا ہوں، میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں ۔
اس کی چیخ نے قیدیوں کوڈرا دیا، وہ تو اسے مردہ لاش کی طرح خاموش سمجھتے تھے، وہ تو جب سے آیا تھا خاموش بت بنا ہوا تھا، کچھ بولتا ہی نہ تھا، ہمیشہ گم صم رہتا، پہرے دار تیزی سے اس کے پاس پہنچے مگر وہ چیخنے کے علاوہ کوئی جواب نہ دیتا، تب انھوں نےاس سلطان کو اس کی خبر دی اور اسے اس کے پاس لے گئے۔جب وہ سلطان سامنے پہنچا تو اس نے اپنا سر جھکا لیا اور عاجزی کےساتھ کھڑا ہوگیا۔ سلطان کا جاہ و جلال اس کے دل پر چھایا ہوا تھا، وہ جب سے یہاں قید تھا سلطان کے اچھے برتاؤ کو دیکھ رہا تھا، اس کے دل میں سلطان کے لیے نیک جذبات تھے۔ پھر اس نے اپنا سر اٹھایا اور اپنی نگاہیں مجلس کے ارد گرد دوڑانے لگا تو اس کی نظر ہیلانہ پر پڑی، وہ خوش اور مطمئن تھی اور اس کا بیٹا اس کی گود میں تھا جو ابھی اسے لوٹا دیا گیا تھا اور وہ سلطان کی طرف شکر و محبت کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، پھر اس نے دیکھا کہ اس کی آں کھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں، بچے کو پانے کی خوشی کے آنسو، وہ اپنےآپ کو کنٹرول نہیں کرپایا اور اس کی طرف بےاختیار دوڑ پڑا، پہلے بچے کی اس پر نظر پڑی اور اس نے بابا۔۔۔ کہا۔ اور اس کی طرف لپکنے لگا۔ہیلانہ ہکا بکا ہوکر دیکھنے لگی، اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا، آیا وہ بیداری کی حالت میں ہے یا پھر خواب دیکھ رہی ہے، پھر زور سے چلائی لوئس! تم زندہ ہو؟ دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے۔اور سلطان نے چہرہ دوسری طرف کرلیا۔
پھر جب سلطان نے مڑکر دیکھا تو انھیں اپنے سامنے جھکا ہوا پایا، وہ دونوں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہے تھے، دونوں کے ہونٹوں سے بس مبہم سے الفاظ نکل رہے تھے۔ سلطان نے ان سے کہا: ہمارے فوجی تمھارا بچہ اٹھالائے تھے، ہمیں شرمندگی ہے، ہم بس وہی کرتے ہیں جس کی ہمارا دین ہمیں اجازت دیتا ہے۔
عورت:کیا آپ کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے؟
سلطان: ہاں ؛ کیوں کہ اسلام دنیا والوں کے لیے رحمت ہے، پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
عورت:تو کیا یہ رحمت ایک لاچار عورت کے لیے نہیں ہے۔۔۔جو خوش رہنا اور اسلام کے سایے میں امن و سلامتی کے ساتھ جینا چاہتی ہے؟
یہ سن کر سلطان کا چہرہ کھل اٹھا اور اس نےکہا: اللہ کی رحمت تو ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
عورت: میں مسلمان کیسے بنوں؟
سلطان: تم گواہی دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کےرسول ہیں ۔لا إلٰہ إلا اللہ، محمد رسول اللہ۔
اس نے بے تابی اور شوق سے کلمہ پڑھا اور اپنے شوہر کی طرف مڑکر دیکھا تو اسے بھی وہی الفاظ دہراتے ہوئے پایا۔
وہ نکلتا ہےاور اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے، دونوں خوب صورت ماضی اور پرسکون قربت کو یاد کرتے ہیں ۔
لوئس: ہیلانہ، ہم نے بنفشہ کو خوب ہرا بھرا چھوڑا تھا تو کیا ہمارے بعد اس میں پھول آئے اور اس کی خوشبو باغیچے کے چاروں طرف پھیلی؟اور سیب کادرخت، کیا اس کے پھل لٹک گئے اور اس کی شاخیں جھک گئیں؟ اور چشمہ، کیا وہ اپنی شفاف حالت پر باقی ہے؟ اوہ ہیلانہ! کیا ہم اس بابرکت وادی کی طرف لوٹ سکتے ہیں؟کیا ہم اس جنگل میں واپس جاسکتے ہیں جس کی آغوش میں ہماری محبت نےجنم لیا، پلی بڑھی اور جوان ہوئی؟
ہیلانہ: نہیں لوئس۔ ہم کبھی نہیں لوٹ سکتے۔اگر ہماری محبت نےاس جنگل میں جنم لیا تھا تو مرنے کے بعد اسے یہاں پر زندہ کر دیا گیا ہے۔یہاں تم میرے پاس لوٹ آئے ہو اور یہاں میں نے اللہ کو پہچانا ہے اور یہیں میں نے شرافت، پاکیزگی اور انسانیت کا مشاہدہ کیا ہے۔ تو ہمیں یہیں رک جانا چاہیے۔ کیا یہ وہی زمین نہیں ہے جہاں مسیح پیدا ہوئے تھے؟ ہم نےمسیح کو کھویا نہیں بلکہ مسیح کے ساتھ محمد کو بھی پالیا ہے!
چند لمحے بعد اسلامی فوج تکبیر و تہلیل کے ساتھ آگے بڑھی، مسلمان لوئس اس فوج میں پیش پیش تھا!
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021