۱۹۵۷: علمائے کرام کی تائید کا سال

ملک کی تقسیم اور پھر جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے بعد جماعت کو جو بہت بڑے چیلنج درپیش تھے ان میں سے ایک چیلنج علمائے کرام کے بڑے طبقے کی مخالفت کی صورت میں تھا۔

جماعت کے علما و قائدین نے اس چیلنج کا سامنا بڑی حکمت اور بردباری سے کیا۔ اس کی ایک شان دار مثال وہ مراسلت ہے جو مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی علیہ الرحمہ کے درمیان ہوئی۔ بہرحال کچھ برسوں کی شدید مخالفت کے بعد پھر اس شدت میں کمی آتی گئی اور آخر کار مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی راہیں ہم وار ہوئیں۔

جماعت اسلامی ہند کی تاریخ میں 1957ء کا سال اس لحاظ سے اہم ہے کہ وقت کے چار اہم دینی رسالوں میں پہلی بار بہت کھل کرجماعت کے بارے میں مثبت رویے کا اظہار کیا گیا۔ ایک رسالہ دار العلوم، دوسرا برہان، تیسرا معارف اور چوتھا الحرم۔

دار العلوم مئی 1957ء کے شمارے میں مولاناقاری محمد طیب علیہ الرحمہ کا مضمون معیار حق کے عنوان سے شائع ہوا اور اسی ماہ ماہنامہ برہان کے شمارے میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی علیہ الرحمہ نے نظرات کے عنوان سے اداریے میں اپنے احساسات قلم بند کیے۔ اس کے فوراً بعد جون کے شمارے میں معارف کے مدیر مولانا شاہ معین الدین ندوی علیہ الرحمہ نے شذرات کے عنوان سے اداریے میں اور قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی علیہ الرحمہ نے ماہنامہ الحرم کے اداریے میں اس پیش قدمی کا خیر مقدم کیا۔

یہ چاروں حضرات اپنے وقت کے مشاہیر علما میں شمار ہوتے ہیں۔ مولانا قاری محمد طیب طویل ترین عرصے تک دار العلوم دیوبند کے مہتمم رہے۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی ندوة المصنفین کے بانی تھے۔ مولانا شاہ معین الدین ندوی دارالمصنفین کے ناظم تھے اور قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی جمعیة علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن تھے۔

ماہنامہ دار العلوم میں مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ کا مقالہ معیار حق کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے سب سے پہلے معیاریت انبیا کے حوالے سے لکھا:

”ظاہر ہے کہ جب اربابِ کلام نے اپنی مراد کی خود صراحت کردی تو اس کے بعد کسی کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ ان کے کلام سے ان کی مراد کے خلاف مطلب لیا جائے۔ عبارت خواہ اسلوب بیان اور قواعد لسان کی رو سے کتنا ہی خلاف مراد کو نمایاں کرے مگر مراد وہی قبول کی جائے گی جو صاحب کلام صراحت کے ساتھ خود بتلائے۔ اندرین صورت معیاریت انبیا کے بارے میں ہمارا اختلاف جماعت اسلامی سے ختم ہوجاتا ہے۔“

اس کے بعد معیاریت صحابہ کے بارے میں لکھا:

”خلاصہ یہ نکلا کہ صحابہ کے معیار حق ہونے کا مسئلہ بھی معیاریت انبیا کی طرح علما اور جماعت اسلامی کے زعما کا متفق علیہ مسئلہ ہوگیا اور اس مسئلہ میں پیدا شدہ اختلاف بھی ختم ہوگیا۔ “

آخر میں لکھتے ہیں:

”خدا کرے کہ ان دو مسائل (معیاریت انبیا اور معیاریت صحابہ) کی طرح اس قسم کے بقیہ مسائل کا اختلاف بھی جو ابھی باقی ہے، اور بعض بعض امور میں اصولی رنگ لیے ہوئے ہے، اسی طرح ختم یا کالعدم ہوجائے اور مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی میں جو رخنے پڑگئے ہیں وہ مٹ جائیں۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔“ (دار العلوم، ص 18 تا 22)

ماہنامہ برہان میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے جماعت کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کے حوالے سے لکھا:

”ہمارے ملک میں بھی نوجوانوں اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر اس جماعت کا بڑا اثر ہے۔  ان لوگوں کے انگریزی اور اردو کے اخبارات و رسائل ہیں۔  لٹریچر کی اشاعت ہو رہی ہے۔  ہفتہ وار یا ماہانہ ان کے جلسے ہوتے ہیں اور اُس میں ارکان و ہمدر دان جماعت بڑی دل چسپی اور ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں۔  مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ابھی دو سال پہلے تک اس جماعت کے ارکان بڑی اقلیت میں تھے اور اپنی اسلامی وضع قطع، داڑھیوں اور مسجد میں نماز با جماعت کی پابندی کی وجہ سے ممتاز اور الگ تھے۔ لیکن ابھی پچھلے دنوں یو نیورسٹی کے طلبہ کی یونین کے جو انتخابات ہوئے ہیں اُن میں یونین کے صدر اور سکریٹری کے لیے ان امیداروں کا انتخاب ہوا جو اسلامی جماعت کے ارکان ہیں ان لوگوں کا ایک دو ماہی انگریز ی رسا لہ بھی ہے جو ’’اسلامک تھاٹ‘‘ کے نام سے نکلتا ہے اوراس کی اشاعت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہندو پاک کے علاوہ مشرق وسطی تک اُس کے خریدار موجود ہیں۔  یہ جماعت کس چیز کی داعی ہے ؟ اُسی اسلام کی جس کا داعی قرآن ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کو لے کر مبعوث ہوئے۔  ان کا قبلہ وہی قرآن کا قبلہ ہے۔ یہ بھی نماز، روزہ، زکاة وحج اور اسلامی اخلاق و اعمال کے اُسی طرح قائل ہیں جس طرح اور دوسرے مسلمان ہیں۔ بلکہ اسلامی احکام کی بجا آوری کے معاملہ میں جو تشدد اور سختی ان کے ہاں ہے دوسروں کے ہاں نہیں ہے۔  تواب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ سینکڑوں مخالفتوں کے باوجود اس جماعت کا حلقہ اثر روز بروز وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور عام مسلمانوں کا عموماً اور تعلیم یافتہ فرزندان توحید کا خصوصًار حجان و میلان اس جماعت کی طرف بڑھ رہا اور ترقی کر رہا ہے۔“(برہان، ص 3)

ان دونوں مضامین کے حوالے سے ماہنامہ معارف کے مدیر مولانا شاہ معین الدین ندوی نے لکھا:

”جماعت اسلامی کے عقائد و خیالات اور ان کے اور اکابر دیوبند کے اختلافات کے بارے میں ہمارے پاس بھی کبھی کبھی استفسارات آتے رہتے ہیں لیکن معارف اس قسم کے اختلافی معاملات میں نہیں پڑتا، اس لیے ہم نے عمدًا اس مسئلہ پر نہیں لکھا مگر حسن اتفاق سے گذشتہ مہینے رسالہ دار العلوم، اور برہان میں دیوبند کے دو نامور علما مولانا طیب صاحب[1] اور مولانا سعید احمد [2] کی تحریریں اس مسئلہ کے متعلق نکلیں، ان دونوں کا مقصد اس ناگوار اختلاف کو ختم کرنا ہے، خصوصًا مولانا سعید احمد نے جس نقطہ نظر سے اس مسئلہ کو پیش کیا ہے اور جن پہلوؤں کی جانب توجہ دلائی ہے وہ کسی حیثیت سے بھی نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہیں، ضرورت ہے کہ علمائےکرام اس پر غور فرمائیں کہ اس مضر اختلاف کا کسی طرح خاتمہ ہو۔ “

آگے لکھتے ہیں:

”جدید طبقہ کی طلب کو جماعت اسلامی پورا کر رہی ہے، اس لیے اس پر اس کا اثر برابر بڑھتا جاتا ہے جس کو کوئی قوت نہیں روک سکتی بلکہ اس کے اثرات دینی مدارس تک پہنچ گئے ہیں۔ جس سے خود دار العلوم ویوبند بھی محفوظ نہیں ہے اس کے طلبہ کی اچھی خاصی جماعت اس سے متاثر ہے۔ اور اس کےبعض علما تک جماعت اسلامی کے کاموں کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں، خود برہان کی تحریر اس کی شاہد ہے۔ برہان ندوة المصنفین کا رسالہ ہے جس کے ارکان میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مفتی عتیق الرحمن اور مولانا حفظ الرحمن جیسے علمائے دیوبند ہیں۔ خود مولانا طیب صاحب کا رویہ بھی جماعت کے ساتھ نسبتًانرم اور مصلحانہ رہا ہے، یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ علمائے دیوبند جو زمانہ کے حالات سے باخبر ہیں، جماعت اسلامی کے مخالف نہیں ہیں۔“

مزید لکھتے ہیں:

”اس تحریر کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس زمانہ میں جماعت اسلامی ہی صحیح دینی خدمت انجام دے رہی ہے۔ یا وہ نقائص سے بالکل پاک ہے۔ جو جماعتیں کسی حیثیت سے بھی دینی کام کر رہی ہیں، ان سب کی خدمات لائق تحسین ہیں، بلکہ بعض دوسری جماعتوں کے کام جماعتِ اسلامی کے کاموں سے بھی زیادہ اہم اور مفید ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کی خدمات قبول فرمائے۔ جماعت اسلامی کی بعض خامیوں سے بھی انکار نہیں، اس کے قلم و زبان کی بے باکی کی شکایت بالکل بجا ہے، اس کے بعض انتہا پسند اور پرجوش کارکنوں کے قلم اور زبان سے ایسی تحریریں اور مدعیانہ باتیں نکل جاتی ہیں، جو ہر شخص کی نگاہ میں کھٹکتی ہیں۔ انہی سے ان کے متعلق بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ جو جماعت بھی اس قسم کے اصلاحی کام کرتی ہے، اس سے اس قسم کی بے عنوانی اور الفاظ کی بے احتیاطی ہو ہی جاتی ہے۔ جس کی بنا پر تاریخ اسلام کے بہت سے اکابر کو مورد طعن بننا پڑا، دوسرے اس کے لکھنے والے اکثر نوجوان ہیں، جن کو جذبات اور قلم پر قابو نہیں ہے مگر تجربہ کے ساتھ یہ خامی دور ہو جاتی ہے، تاہم اس قسم کی خامیاں یقینًا قابلِ اصلاح ہیں، باقی جزوی اور فروعی اختلاف لائق التفات نہیں۔“

”اس کے علاوہ اگر ان کے عقائد و خیالات میں کوئی اور چیز بھی قابل اعتراض نظر آئے تو دوستانہ اور ہمدردانہ افہام و تفہیم سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے، محض مخالفت سے ضد پیدا ہوتی ہے۔

ہندوستان کی جماعت اسلامی کے امیر سنجیدہ اور سلجھے ہوئے آدمی ہیں، ان کا قلم اور زبان دونوں محتاط ہیں، اگر ان کو معقولیت کے ساتھ کسی خامی کی طرف توجہ دلا دی جائے، تو یقین ہے کہ وہ ضرور اس کو قبول کریں گے۔ خود راقم کو اس کا ذاتی تجربہ ہے، لیکن کسی فروعی اختلاف کی بنا پر جماعت کے اچھے کاموں کو بھی نظر انداز کر دینا اور اس کو یکسر مطعون قرار دینا صحیح نہیں ہے۔“ (معارف جون 1957ء)[3]

ماہنامہ برہان کے مضمون کے حوالے سے ماہنامہ الحرم کے مدیر قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی علیہ الرحمہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

”مجلہ برہان ندوة المصنفین دہلی کا ترجمان ہے ندوة المصنفین کے رئیس حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سہواروی ہیں اور اس کے ناظم مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی۔ یہ دونوں بزرگ صرف ندوة المصنفین ہی کے کرتا دھرتا نہیں ہیں بلکہ دار العلوم دیوبند کی پالیسی کا بناؤ بگاڑ بھی، بڑی حد تک انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ان حالات میں مدیر برہان کا یہ اداریہ دراصل ’’دار العلوم دیوبند کی جدید پالیسی‘‘ کا اعلان ہے۔ یہ اعلان اگرچہ بہت بعد میں ہوا، جب کئی بزرگان دیوبند کی قبائے احترام کے پرزے فضائے آسمانی میں بکھیر کر رکھ دیے گئے اور دار العلوم کی عظمت کے قصر رفیع میں اس خانہ جنگی کی بدولت ایسے شگاف پڑ گئے جو ملت کے سینہ میں زخم بن کر مدت تک رستے رہیں گے، تاہم الصلح خیر!

ہمیں یقین ہے کہ جماعت اسلامی اس دعوت صلح کو قبول کرے گی اور وہ کاغذی جنگ جو کچھ عرصہ سے دراصل ایک ہی مدرسہ فکر کے افراد میں بعض غلط فہمیوں کی بنیاد پر جاری تھی ختم ہو جائے گی۔“ (دعوت:28 جون 1957)[4]

غرض یہ ایک خوش آئند پیش رفت تھی۔ جماعت اسلامی ہند کے ذمے داروں نے اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ ا ن مضامین کو دعوت اخبار کے صفحات میں شائع کیا گیا اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی کچھ وضاحتیں بھی پیش کی گئیں۔

حوالہ جات

[1] دار العلوم کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ فرمائیں:
https://www.rekhta.org/ebooks/darul-uloom-deoband-shumara-number-002-syed-mohammad-azhar-shah-qaisar-magazines-5

[2] برہان کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ فرمائیں:
https://archive.org/details/Burhan-Magazine/Burhan-Vol-038-Jan-June-1957/page/n267/mode/2up

[3] معارف کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ فرمائیں:

https://www.rekhta.org/ebooks/maarif-shumara-number-006-shah-moinuddin-ahmad-nadvi-magazines-44?lang=ur

[4] ریکارڈ کے مطابق ماہنامہ الحرم کا مذکورہ شمارہ دار العلوم ندوة العلما کے کتب خانے میں موجود ہے۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2025

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223