مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ(۱۹۰۳-۱۹۷۹ء)موجودہ صدی کے عظیم مفسر،مفکر اورکارِ تجدید انجام دینے والی شخصیت ہیں۔انہوں نے احیائے اسلام کی جد وجہد میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔جب انھوں نے رسالہ ترجمان القرآن ازسرِنو جاری کیا(۱۹۳۲ء) تو ان کی صدا یہ تھی کہ ’’اے اسلام کا نام لینے والو!قرآن کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ۔‘‘
وہ عصر حاضر کی ایک اہم اسلامی تحریک کے علمبردار تھے ۔ ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام کا آفاقی پیغام پوری نوع انسانی کے لئے ہے۔یوں تو مولانا کی تصانیف کی تعداد بہت ہے اور ہر تصنیف اپنے موضوع پر مستند ہے لیکن ان میں’’ تفہیم القرآن ‘‘ کو خاص مقام حاصل ہے ،یہ تفسیر مولانا کی زندگی کے مشاہدہ،مطالعہ اورغور وفکر کا نچوڑ ہے جس کی تکمیل میں مولانا نے عمر عزیز کے تیس سال صرف کئے۔یہ تفسیر بڑے سائز کی چھ ضخیم جلدوں اور چار ہزارسے زائدصفحات پر محیط ہے۔
اس تفسیر میں قرآن مجید کی تفسیر و ترجمانی عام فہم اسلوب میں کی گئی ہے جو دل و دماغ کو مسخر کرتاچلاجاتا ہے ۔ مولانا نہ تو جدیدیت کا رنگ اختیار کرکے مغرب زدہ معذرت خواہی کی راہ پر چلے اور نہ مجرد قدامت پسندی سے چمٹ کرعصری تقاضوں سے بے خبررہے۔بلکہ اپنے اس پورے علمی سفر میں انہوں نے قرآن و سنت کی اساس کو مضبوطی سے تھامے رکھااور جدید زمانہ کے سوالوں کا جرات ایمانی کے ساتھ اور دانش برہانی کی مدد سے جواب فراہم کیا۔ مولانا نے اس تفسیر کو لکھنے کے دوران ارض القرآن کا دورہ بھی کیا اور اس سفر کے مشاہدات سے اپنی تفسیر میں فائدہ اٹھایا۔ اس کا تذکرہ’’ارض القرآن ‘‘ نامی تصنیف میں موجود ہے۔اس تفسیر کی خاص صفت یہ بھی ہے کہ اس سے ہر خاص وعام یکساں طور پر مستفید ہوتاہے ، اب تک صرف اردو زبان میں اس کے چھ لاکھ سے زائد نسخے طبع ہوچکے ہیں جس سے اس کی مقبولیت کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس کے ترجمے دنیا کی حسب ذیل زبانوں میں ہوچکے ہیں: انگریزی، ترکی، بنگالی، روسی، فارسی،پشتو،جرمن،اور سندھی۔جن زبانوں میں ترجمے تکمیل کے قریب ہیں ان میں ہندی، کشمیری، چینی،جاپانی،انڈونیشی،ہسپانوی،اور عربی شامل ہیں۔ تفہیم القرآن ایک دعوتی،انقلابی،اور تحریکی تفسیر ہے ،اس میں قرآن پاک کا حقیقی مدعا پیش کیا گیا ہے۔اس میں قدیم تفسیروں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ بھی ہے۔مزید برآں قرآن کے پیغام کو عصری تقاضوں کے سیاق میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے،اسلوب و انداز دلکش اور سادہ اختیار کیا گیا ہے ،باطل افکار کا ابطال اور اسلام کے مکمل نظام حیات ہونے کا اثبات کیاگیا ہے۔مسلمانوں کو شہادت حق اور غلبہ دین کی جد وجہد پر آمادہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ تفہیم القرآن کی مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے شاگرد خاص مولانا چراغ محمد لکھتے ہیں: ’’تفہیم القرآن کا تہذیب جدیدکے اسلام کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شبہات کو رد کرنے میں بہت بڑا حصہ ہے ۔میں ان نوجوانوں کو جنہیں اسلام کے ہمہ گیر نظام حیات سے دلچسپی ہے اور جو اسے سمجھنا چاہتے ہیں ، مشورہ دوں گا کہ وہ تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں ،تفہیم کا مطالعہ کرتے وقت میں نے یہ تاثر لیا ہے کہ مصنف مد ظلہ العالی نے انکار حدیث، انکارختم نبوت، کمیونزم،سوشلزم اور الحاد کی مدلل تردید کی ہے اور پھر پیرایہ بیان اس قدر سلجھا ہوا ہے کہ انسان ان فتنوں کی اصل حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہوجاتا ہے۔‘‘ (۱)ملا واحدی نظام المشائخ کے بقول:’’مولانا مودودی ؒسمجھنے اور سمجھانے دونوں اوصاف سے بہرہ ور ہیں سمجھنے کا وصف تو کسی نہ کسی قدر اکثر لوگوں میں ہوتاہے مگر سمجھانے کے وصف سے بہت کم لوگ نوازے جاتے ہیں ،تفہیم القرآن جدت دکھاتی ہے تاہم حدود اعتدال کو پکڑے رہتی ہے‘‘۔(۲)مولانا عامر عثمانی مرحوم رقمطراز ہیں:تفہیم القرآن مقبولیت کا ایسا ریکارڈ رکھتی ہے جو اردو کی کسی تفسیر کے حصہ میں نہیں آیا۔اس کا کمال یہ ہیکہ جتنی عوام کیلئے دلکش اور مفید ہے اتنی ہی خواص اور اہل علم کیلئے وقیع و پر کشش ہے‘‘۔(۳) اس تفسیر کی چند نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں۔
(۱)اس کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن ھدی للناس اور کتاب ہدایت ہے اور اس کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کی پیروی کر کے دنیا و آخرت کی ہولناک تباہ کاریوں سے بچ جائے اور حقیقی فلاح وسعادت سے ہمکنار ہوجائے۔صاحب تفسیر نے حسب موقع عقائد ،عبادات،اخلاق،معاشرت،معیشت،سیاست،عدالت اور جنگ وصلح وغیرہ امور پر منشائے قرآن کی توضیح کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن فرد کے تزکیہ کے ساتھ سوسائٹی کی اصلاح پر بھی بھر پور توجہ دیتا ہے۔
(۲)اس تفسیر کا دوسرا امتیازی وصف اس کا دعوتی و تحریکی انداز ہے۔مولانا قرآن و سنت کے گہرے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ نبی پاک ﷺ نے لاالہ الا اللہ کی دعوت سے کام کی ابتداکی اس دعوت میں تمام جھوٹے خداؤں کی نفی شامل ہے ، جن لوگوں نے اس پر لبیک کہا ،ان کی آپ نے فکری تطہیرکی اور عملی تزکیہ کیا ،ان کو منظم کیا اور پھر علمبرداران کفر و شرک سے ان کی کشمکش شروع ہوگئی ۔ باطل نے انہیں لالچ دیکر خریدنے کی کو شش کی ،ان پر ظلم و ستم ڈھایا گیا،ہر طرح کی آزمائشوں سے انہیں آزمایاگیالیکن ہر موقع پر انہوں نے صبر و استقامت کا ثبوت دیایہاں تک کہ وطن عزیز سے بھی اہل ایمان کو ہجرت کرنی پڑی۔ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی تحریک دوسرے مرحلہ میں داخل ہوگئی ، وہاں انہیں اہل کتاب سے سابقہ پیش آیا اور موقع پرست منافقین سے بھی نمٹنا پڑا۔ان حالات میں مسلم معاشرہ کی تشکیل بھی ہوتی رہی اور اسلامی قانون کے نفاذ کی سعی بھی ۔
یہاں تک کہ وہ مرحلہ آیا کہ مکہ فتح ہوگیا اور سارے عرب میں اسلام کا ڈنکا بج گیا ، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔پورا جزیرہ عرب ایک قانون اور ایک ضابطہ کے تحت آگیا،اللہ کا کلمہ سر بلند اور باطل سر نگوں ہوگیا۔ان سارے مراحل میں قرآن مجید مسلمانوں کی رہنمائی کرتارہا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں تعمیر و تخریب کے طریقے سکھاتا رہا۔آج بھی قرآن پاک میں وہی حرکیت موجود ہے۔تفہیم القرآن میںقرآن کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف قاری اس پس منظر سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور دوسری طرف وہ قرآنی تعلیمات کو زمانہ سے ہم آہنگ محسوس کرتا ہے ۔(۴)
(۳)تفہیم القرآن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب تحریر ایک طرف نئے تعلیم یافتہ طبقہ کو متاثر کر تا ہے ۔اس کی زبان علم الکلام کی باریکیوں سے یکسر پاک ہے ۔خیالات میں ہم آہنگی ،یکسانیت اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔انداز بیان علمی اور سائنٹیفک اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تفسیر ،تفسیری اردو ادب کا شاہکار نظر آتی ہے اور یہ تمام چیزیں اپنے اندر قاری کیلئے غیر معمولی کشش رکھتی ہیں۔
(۴)اس تفسیر کا چوتھا امتیازی وصف اسکا انڈکس ہے جو دیگر تفاسیر میں منفرد مقام رکھتا ہے،ہر موضوع کے تحت سینکڑوں ذیلی عنوانات فراہم کردیئے گئے ہیںجس سے کسی بھی موضوع پر بآسانی مواد مل جاتا ہے۔اسکو دیکھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ تفہیم القران علوم اسلامیہ کا دائرۃ المعارف (Encyclopedia)ہے ۔اور ہر کس و ناکس کے لئے یہ اعتراف کرنے سے چارہ نہیں کہ مولانا اپنے عہد کے بحر العلوم تھے۔جسٹس محمد افضل کے الفاظ میں:’’ اس میں نہ صرف طرز استدلال میں نہایت معقول اور سائنٹیفک انداز اختیار کیا گیا ہے بلکہ مناسب مقامات پر فلسفہ،طبیعات،علم الکیمیا،فلکیات اور دیگر جدید سائنسی علوم کا براہ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے،جس سے ایک متجسس طالب علم کی علمی حس مطمئن ہوتی اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہوتاہے۔‘‘ ( ۵) فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں کہ : ’’تفہیم القرآن میں مولانا مودودی ؒ نے اس عہد کی زبان میں ،اس عہد کے لوگوں سے مخاطب ہیں۔میں نئی نسل کو تفہیم کے مطالعہ کا مشورہ دوں گا ۔ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تفہیم والدین کیلئے اپنی اولاد کو پیش کرنے کیلئے بہترین تحفہ ہے ،جو ایمان کو مضبوط،تہذیب اسلامی کو با آور اور صراط مستقیم کے سفر کو آسان بنا تی ہے‘‘۔ (۶)
( ۵)تفہیم القرآن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں زمانہ نزول کو بڑی اہمیت دی ہے۔کیونکہ اس کے بغیر قرآن پاک کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے،مدنی سورتوں کا زمانہ نزول تو معروف ہے ،اس دور کی روایات بڑی حد تک محفوظ ہیں لیکن مکی سورتوں کے زمانہ نزول کی تعیین میں بڑی مشکل پیش آتی ہے ۔مولانا مودودی ؒنے مکی سورتوں کو چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے اور اس تقسیم کی اساس دو اصولوں پر رکھی ہے ،ایک داخلی شہادت جو سورتوں میں پائی جاتی ہے اور دوسری خارجی شہادت جو معتبر روایات سے مستفاد ہے۔مولانا شان نزول اور تکرار نزول کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ کسی سورہ یا آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلی مرتبہ اسی موقع پر نازل ہوئی تھی بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک سورہ یا آیت پہلے نازل ہوچکی ہوتی ہے اور پھر کسی خاص واقعہ یا حالات کے پیش آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جانب دوبارہ یا بار بار نبی ﷺکو توجہ دلائی گئی ہے۔‘‘(۵)
(۶)تفہیم القران کی ایک اہم خصوصیت اسکی ترجمانی ہے ،خود صاحب تفسیر کے بقول عربی مبین کی ترجمانی اردو مبین میں کی گئی ہے پہلے مولانا نے عربی زبان کے لحاظ سے قرآنی الفاظ کی ترکیب ،عربی قواعد ،صرف ونحو کا لحاظ رکھا ہے پھر الفاظ و اصطلاحات کی ترجمانی میں قرآن کے دوسرے مقامات ،عربی لغت،کلام جاہلی اور سنت متواترہ کو پیش نظر رکھا ہے۔اس کے بعد جامعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیاق و سباق کی رعایت کی ہے کیونکہ ہر جگہ ایک ہی ترجمہ کرنے سے مطلب واضح نہیں ہوتا۔اس لئے آیت کے حدود میں رہتے ہوئے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے اور آیات کے مفہوم کو اردوئے مبین کے قالب میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ترجمانی میں شستگی،روانی اورمحاورہ کی خصوصی رعایت کی گئی ہے ،عمدہ الفاظ کے استعمال اور بعض اردو الفاظ پر اعراب تک کا اہتمام کیا گیا ہے۔عام روش سے ہٹ کر متن کے نیچے یا بالمقابل صفحہ پر مسلسل ترجمانی کی گئی ہے،اس میں پیراگراف،تشریحی بریکٹ اور رموز و اوقاف کا بھر پور اور سلیقہ سے استعمال کیا گیا ہے تاکہ خلط مبحث نہ ہونے پائے۔حواشی میں صرف ونحو اور لغت کی با ریکیوں سے بچ کر الفاظ و اصطلاحات کی دلنشین تشریح پر اکتفا کیا گیا ہے۔
اصول یہ ہے کہ پہلے قرآن کی تفسیر ،قرآن سے کی جائے۔اس سلسلہ میں مولانا ؒلکھتے ہیں: ’’قرآن مجید کی وہی تفسیر صحیح ہوسکتی ہے جو اس کے بیانات اور مجموعی نظام سے مناسبت رکھتی ہو ،کسی بھی آیت کا صرف وہی مفہوم لائق اعتنا اور درست ہوگا جو اس کے سیاق وسباق سے مطابقت رکھتا ہو ‘‘۔(۶)
اس اصول کی مولانا ؒ نے پوری رعایت کی ہے اور قرآن کی تفسیر میں اس مضمون سے متعلق تمام آیات کو سامنے رکھا ہے ، اس لئے کہ قرآن کا بیان کہیں مجمل ہے تو کہیں مفصل۔اس کے علاوہ سیاق وسباق،فحوائے کلام اور قرینہ( Context) کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔بسا اوقات ایک ہی لفظ کے دو مختلف آیتوں میں الگ الگ مفہوم ہوتے ہیں ایسی صورت میں ضروری ہو تا ہے کہ تفسیر، قرآن کے مجموعی نظام سے متصادم نہ ہو لیکن جب قرآنی صراحت موجود ہو پھر اس سے ہٹ کر تفسیر کر نا صحیح نہیں ہے۔مولانا مودودی ؒپورے قرآن کو ایک نظم اور وحدت میں جکڑا ہوا پاتے ہیں ،انکا کہنا ہے کہ :’’یہ کہیں اپنے موضوع ،مدعا اور اپنے مرکز سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔‘‘(۷)
(۶)تفسیر بالقرآن کے بعد مولانا مودودی ؒ کے نزدیک صحیح و مستند تفسیر وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے فرمادی ہے اس لئے اسے چھوڑ کر یا اس سے ہٹ کر جو تفسیر بھی کی جائے گی وہ معتبر نہیں ہوگی ۔اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد بڑا اہم ہے ،آپﷺ نے فرمایا ’’جس نے اپنے من سے قرآن کی کسی آیت کی تفسیر کی ،اس نے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔‘‘ (۴؍الف حوالہ؟) لیکن اس حوالہ سے یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ تفسیری روایات سے حتی الوسع احتراز کیا جائے۔مولانا نے اس امر کا خاص لحاظ کیا ہے اور اپنی تفسیر میں صرف انہی احادیث کو جگہ دی ہے جوصحیح و مستند ہیں اور موضوع روایات سے اپنی تفسیر کو پاک رکھا ہے۔وہ روایت پرستی میں غلو پر سخت تنقید کرتے ہیں اور تحقیق پر زور دیتے ہیں ،انکے نزدیک سند کے قوی و قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہوجاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوسکتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کی فرمائی ہوئی نہیں ہوسکتیں ،اسلئے سند کے ساتھ متن کو دیکھنا بھی انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر ہے اگر متن حدیث میں واقعی کوئی قباحت ہے تو خوامخواہ اس پر اصرار صحیح نہیں ہے۔‘‘(۸)
مولانا ؒ نے اس اصول کو بھی پیش نظر رکھا ہے کہ اگر کوئی روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہو لیکن اس کا متن قرآنی مضامین سے ہم آہنگ ہو تو اسکا ضعف دور ہوجاتا ہے۔واقعہ معراج ، حضرت ابراہیم ؑ کے کذبات ثلاثہ اور حضرت سلیمان ؑکے اپنی سو بیویوں کے پاس جانے والی روایات کو اسی لحاظ سے دیکھا ہے اور ان پر اچھی جرح کی ہے۔
تفہیم القرآن میں احادیث رسولﷺ کے بعد اقوال صحابہ و تابعین کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔کیونکہ یہ حضرات نزول قرآن کے وقت یا اس سے متصل زمانہ میں موجود تھے اس لئے مطالب قرآن کا ان سے زیادہ واقف کار کوئی اور نہیں ہوسکتا۔تاہم تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں بہت سی حکایات اور اسرائیلی روایات ہمارے تفسیری ادب میں شامل ہوگئیں۔تفسیر ماثور کے سلسلہ میں مولانا مودودی ؒ کے اصول یہ تھے کہ جب احادیث نبوی میں قرآن کی تشریح و تبیین نہ مل سکے تو صحابہ و تابعین کی طرف رجوع کیا جائے کہ زمانہ نزول کی مستند روایات ان ہی سے مل سکتی ہیں۔شاذ اقوال کو نظر انداز کرکے اجماع کو قبول کیا جائے۔اختلاف کی صورت میں دونوں طرح کی روایات کے درمیان محاکمہ کیا جائے۔ان اصولوں کو مولانا نے اپنی تفسیر میں بڑی خوبی کے ساتھ برتا ہے ،معراج کی رات روئیت باری سے متعلق روایات اور حضرت اسمعیل و اسحق علیہما السلام کے ذبیح ہونے کی روایات میں محاکمہ انہی اصولوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔اس ضمن میں مولانا لکھتے ہیں کہ:’’کوئی روایت خواہ اسکی سند آفتاب سے زیادہ روشن کیوں نہ ہو ،اس صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ اس کا متن اسکے غلط ہونے کی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ،سیاق وسباق،ترتیب ،غرض ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو۔‘‘(۹)
(۷) تفہیم القرآن کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں احکام کے باب میں مسلکی تعصب سے بالا تر ہوکر فقہائے کرام سے استفادہ کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تفہیم میں فقہ حنفی،شافعی،مالکی ، حنبلی،اوزاعی اور اہل حدیث کے حوالے ساتھ ساتھ اور جابجا ملتے ہیں تاکہ قرآن کے ہر طالب علم کو اس کے مسلک کے مطابق مسئلہ کا حل مل جائے۔یہ طریقہ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ ہموار کرتا ہے اورمسالک کے مابین تشدد کے بجائے توسع پیدا کرتا ہے۔
(۸)تفہیم القرآن کی ایک خصوصیت یہ ہے اس میں کتب مقدسہ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید تورات و انجیل کا مصداق بن کر آیا ہے۔لیکن مولانا کا کہنا ہے کہ تورات عہد نامہ قدیم کے مجموعہ خمسہ(پیدائش،خروج،احبار،گنتی اور استثناء )کا نام نہیں ہے بلکہ اسمیں مندرج ہے۔اسی طرح انجیل عہد نامہ جدید کی کتب اربعہ (متی،مرقس،لوقا،اور یو حنا)کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اس میں مندرج ہے۔چنانچہ تفہیم القرآن میں بالخصوص قصص الانبیاء کے ضمن میں بائبل وغیرہ سے استفادہ توکیا گیا ہے لیکن پوری احتیاط کے ساتھ۔انبیاء کرام کی سیرتوں کے سلسلہ میں جہاں بائبل کے بیانات قرآن سے متصادم ہوئے ہیں ان کی اچھی طرح خبر لی گئی ہے۔
(۹)تفہیم القرآن کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے متقدمین کی تفسیروں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔اور حواشی میں جگہ جگہ اپنی تشریح کے ساتھ سابقہ تفسیروں کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے حوالے بھی دیے ہیں ،عدم اتفاق کی صورت میں بعض کو بعض پر ترجیح دی ہے،اور بہت سے مقامات پر ان سے اختلاف بھی کیا ہے۔
تفہیم القرآن کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں علم تاریخ و جغرافیہ سے بھی بھر پور استفادہ کیا گیا ہے ،گذشتہ امتوں کے واقعات،اور عہد نبوی کے غزوات وغیرہ کے ضمن میں تاریخ سے استفادہ کیا ہے اور تاریخی مواد کو جمع کرنے میں ہر ممکنہ ماخذ و مصدر سے استفادہ کیا ہے کتب تاریخ،آثار قدیمہ،میدان جنگ کے نقشے وغیرہ اس تفسیر میں نظر آتے ہیں،یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ان علوم کا اس پیمانہ پر استعمال غالبا سب سے پہلے مولانا مودودیؒ نے ہی کیا ہے۔
مولانا مودودی ؒ کے نزدیک قرآن مجید کوئی فلسفہ،عمرانیات یا سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ کتاب ہدایت وموعظت ہے چنانچہ مولانا نے اپنی تفسیر میں جدید علوم سے مدد تولی ہے جیسے انسانی تخلیق کے مدارج،جیالوجی کی معلومات،علم فلکیات،اور فزیکل سائنس سے آخرت پر استدلال وغیرہ۔(۱۰)
آیات قرآنی کی تشریح کے دوران بار بار مولانا نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ قرآن پاک میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے بیان کر نے کا مقصد خدا کی توحید ، ربوبیت، تدبیر، احسان،اور آخرت کے دلائل پیش کرنا ہے تاکہ آیات کو اسی سیاق میں رکھ کر اس سے عبرت حاصل کی جائے۔(۱۱)
اسی کے ساتھ یہ عظیم تفسیر عصری تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ،جس زمانہ میں مولانا ؒ نے اس تفسیر کو لکھا ،یہ وہ زمانہ ہے جس میں ایک طرف مغربی فلسفہ و مغربی تہذیب کے زیر اثر جدید تعلیم یا فتہ طبقہ متاثر ہورہاتھا،دوسری طرف خود مسلم معاشرہ کے وہ فتنے تھے جو مسلم امت کو پرگندہ کر رہے تھے، مثلا قادیانیت،(۱۲)انکار حدیث (۱۳) وغیرہ۔
تیسری طرف اسلام کی تفہیم کا مسئلہ تھا جسے ایک مکمل نظام حیات کے بجائے محض ایک مذہب کے طور پر استعمال کیا جارہاتھا اور یہ تصور عام ہوچکا تھا کہ دین صرف انسان کی نجی زندگی سے بحث کرتا ہے ،نظام اجتماعی سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔اس کے علاوہ کیپٹلزم، سوشلزم،سیکولرزم اور لبرلزم جیسے ملحدانہ نظریات عام ہورہے تھے۔ایسے میں ضرورت تھی کہ تبحر علمی اور مغربی فلسفہ سے آگہی حاصل کرکے ان نظریات کی تہ تک پہنچ کر انکا مسکت و مدلل جواب دیا جائے،صاحب تفہیم نے یہ کام بڑی خوبی و کمال کے ساتھ انجام دیااور ثابت کیا کہ اسلام کوئی فرسودہ دین نہیں بلکہ یہ ایک زندہ ،متحرک اور انقلابی دین ہے ۔
مراجع
(۱)ہفت روزہ آئین ،لاہور۔جلد ۱۱،شمارہ،۷ ۔تفہیم القرآن نمبر ص۲۴۷،(۱۵؍دسمبر ۱۹۷۲ء)(۲) ایضا ص۲۵۶۔(۳) تفہیم القرآن علماء کی نظر میں ،ابن عبد الشکور۔ص ۴۷،اسلامی کتاب گھر ،دریا گنج ،دہلی۔ (۴)تفہیم القران ۱،ص۲۴۔(۵) ’’ ۶،دیباچہ معوذتین(۷) ’’۳،سورہ انبیاء ،حاشیہ ۹۹(۸) ’’ مقدمہ ص ۲۰(۹) ’’ ۳،انبیاء حاشیہ ۶۰(۱۰) ’’ ۳،حج، حاشیہ ۱(۱۱) ’’ ۳ ،حج،حاشیہ ۱۰۱(۱۲) ’’ ۶ ،طارق،حاشیہ ۲-۳(۱۳) ’’ ۳ ،روم حاشیہ ۶(۱۴) ’’ ۴،احزاب ، ضمیمہ ختم نبوت(۱۵) ’’ ۶؍قیامہ حاشیہ۱۳/جلد ۲، نحل حاشیہ ۴۰(۱۶) ’’۲؍ اعراف، حاشیہ ۸۷،و ایضا سورہ کہف ،حاشیہ۲۳
مشمولہ: شمارہ جولائی 2015