انفرادی شعور
اسلام کے ہر فرد کو باہمی تعاون پرآمادہ کرتا ہے اور یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ معاشرے کے کچھ مشترکہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو حصہ ادا کرنا چاہیے ۔ قرآن و احادیث میں تعاون کی ترغیب دی گئی ہے ۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔ (۱)
’’مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مددگار و معاون او ر) دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکاۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی بات مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت رحم فرمائے گا بے شک اللہ تعالی غلبے والا حکمت والا ہے ۔ ‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِیْ إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ ۔ (۲)
’’اے ایمان والو ! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیا ں گناہ اور ظلم و ( زیادتی ) اور نافرمانی پیغمبر ﷺ کی نہ ہوں ، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے ۔ ‘‘
حدیث نبو ﷺ ہے:
’’سب مسلمانوں کے خون آپس میں برابرہیں (حدود کے نفاذ میں بظاہر معزز اور غیر معزز کا کوئی فرق نہیں ) ان میں جو بھی کسی کافر کو امان دے دے تو ان کا ادنی فرد بھی اس کا پاس رکھے ( جیسے کہ اعلی رکھتے ہیں ) اور ان میں کا دور والا بھی امان دے سکتا ہے (جیسے مرکز میں رہنے والا ) تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہیں ۔ ان کا تنو مند اور قوی رفتار اپنے ضعیف اور سست رفتار کو بھی ساتھ ملائے اور چھوٹے دستے میں جانے والا بڑے لشکر میں رہ جانے والوں کو بھی شریک سمجھے، کسی مومن کو کافر کے بدلے یا کسی عہد والے کو جب تک اس کا عہد باقی ہے قتل کر نا روا نہیں ۔‘‘(۳)
اصول
باہمی تعاون کے متعلق اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ تعاون ہمیشہ اچھائی ، بھلائی اور نیکی کے کاموں میں ہو ۔ ظلم و زیادتی ، فتنہ و فسا د اور معاشرے میں فساد کے اسباب بننے والے کاموں میں کبھی بھی تعاون نہ کیا جائے ۔
وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔(۴)
’’نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔ ‘‘
باہمی تعاون صالح معاشرہ کی تشکیل اور قیام امن و سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ درج ذیل سطور میں باہمی تعاون کی کچھ شکلیںپیش کی جارہی ہیں۔
بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
دین اسلام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اولین فریضہ قرار دیتا ہے ، امت مسلمہ کے ہر فرد پر بحسب استطاعت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔حدیث رسول ﷺ ہے :
’’ تم میں سے جو کوئی منکر دیکھے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ،اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے ،اور یہ ادنیٰ ایمان ہے۔ ‘‘ (۵)
فرد کی بد اعمالی کا اثر صرف اس پر ہی نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے :
’’اللہ کے حدود پر قائم ہونے والے اور انہیں توڑنے والے کی مثال یو ں ہے کہ جیسے کچھ لوگ قرعہ ڈال کر ایک کشتی میں سوار ہوئے، کچھ لوگ اس کے بالائی حصے میں اور کچھ اس کے نچلے حصہ میں ، نچلے حصے کے لوگو ں کو پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے ۔ نچلے حصے میں رہنے والوں نے سوچا کہ ہم جہاز میں سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیں گے تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو ، اب اگربالائی حصے میں مقیم لوگوں نے ایسا کرنے دیا ،انہیں نہ روکا تو وہ تمام کے تمام ہلاک ہوجائیں گے ، اور اگر انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، کشتی میں سوراخ کرنے نہ دیا تو کشتی میں سوار تمام لوگ نجات پاجائیں گے ۔ ‘‘ (۶)
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔ (۷)
’’اور تم ایسے وبال سے بچو ! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔‘‘
امت محمدیہ کا امتیاز ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں ،اوربرائی سے روکتے ہیں:
کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ ۔ (۸)
’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘
سماج اور معاشرے میں قیام امن ،اور صالح معاشرہ کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب سماج کا ہر فرد اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔
اصلاح بین الناس
اصلاح کہتے ہیں افراد یا گروہوں کے درمیان بگڑے ہوئے تعلقات کو درست کرنا شرعی تقاضوں اور اصولوں کے مطابق استوار کرنا متنفردلوں کو قریب کرنا ، متصادم رایوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا فتنہ و فساد کو روکنا امن و امان کا قیام اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل ۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دیا گیا ہے ۔:
انما الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (۹)
’’(یاد رکھو )سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے بھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
ایک جگہ اصلاح کے حکم کے ساتھ مفسدین کی راہ چلنے سے منع کیا گیا ہے ۔ْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْن(۱۰)’’ اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا ۔‘‘
سورہ حجرات میں مومنین کے آپسی جھگڑے کا تصفیہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے بغاوت کرنے والے کے خلاف طاقت کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے ۔:
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِن فَاء تْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن۔ (۱۱)
’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو ۔ پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) مل کر اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘
لا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً(۱۲)
’’ان کے اکثر مصلحتی مشورے خیر سے خالی ہیں ، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یالوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑاثواب دیں گے ۔ ‘‘
احادیث مبارکہ میں اصلاح بین الناس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ارشاد ہے :
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:ہر دن سورج طلوع ہونے پر انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے ، دو آدمیوں کے درمیان اصلاح کرانا بھی صدقہ ہے ۔ ‘‘ (۱۳)
مظلوم کی داد رسی
اسلام سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ظلم کو روکا جائے ، مظلوم کی دست گیری اور مدد کی جائے ، اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ا جائے بلکہ اس کو ظلم کے پنجے سے چھڑایا جائے اور حسب استطاعت ظلم کو روکنے میں اپنی طاقت کا استعمال جائزحدود میں کیا جائے ۔:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَاوَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا(۱۵)
’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان ناتواں مردوں ، عورتوں اور بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو ؟ جو یو ں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا ۔‘‘
پس منظر کے اعتبار سے اس آیت کا اشارہ ان مظلوم بچوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ میں رہ گئے تھے اور حجرت پر قادر نہ تھے ۔ لیکن اصول یہ ہے کہ جہاں بھی لاچاروں کو مشق ستم بنا یا جارہا ہو ان کی دست گیری کی جائے اور ظلم سے نجات دلائی جائے ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا :
’’یعنی مریض کی عیادت کرنا ، جنازے کے پیچھے چلنا ، چھینک کا جواب دینا ، سلام کا جواب دینا ، مظلوم کی مدد کرنا ، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا ، قسم پورا کرنا ۔‘‘ (۱۶)
امام نووی اس حدیث کی تشریح میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ مظلوم کی مدد کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک شکل ہے ۔ یہ اس پر واجب ہے جو قادر ہواور اسے کسی ضرر اور تکلیف کا خوف نہ ہو ‘‘۔ (۱۷)
ظالم کو ظلم سے روکنا
اسلام مظلوم کی دادرسی اور دست گیر ی کو ضروری قرار دیتا ہے ۔وہیں ظالم کو ظلم سے باز آنے کی تلقین کرتا ہے گویا مظلوم کی طرح ظالم کے ساتھ بھی ہمدردی سکھانا ہے۔ اسے تباہی سے بچانے کی فکر ہونی چاہیے ، کیوں کہ ظلم سے ظالم کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
’’اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کہا مظلوم کی مدد کرنا یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا ہاتھ پکڑلو (یعنی اسے ظلم نہ کرنے دو۔ )‘‘ (۱۸)
دوسری حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں :
’’آدمی کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ، اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم کرنے سے روکو کیوں کہ یہ اس کے لیے مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرو ۔‘‘ (۱۹)
ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے اور اسے معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلانے کے لیے بے مہار چھوڑ دیا جائے تو معاشرے کا امن و سکون جاتارہے گا ، لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہوںگے ، ظلم کا پنجہ کسی پر بھی پڑنے کا خدشہ لگا رہے گا یہ ظالم عذاب اِلٰہی کا سبب بھی ہوسکتا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْد(۲۰)’’تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے ۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : اے لوگو! تم لوگ اس آیت کو پڑھتے ہو: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ عَلَیْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَااہْتَدَیْتُم ْ(المائدۃ:۱۰۵) ’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ۔‘‘ (اور اس کا مطلب نہیں جانتے۔) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
’’کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ( اسے ظلم کرنے سے نہ روکیں ) تو قریب ہے کہ اللہ سب پر اپنا عذاب نازل کردے ‘‘۔ (۲۱)
حاجت مندوں کی حاجت روائی
اسلام کمزور افراد و طبقات یہ بیماروں ، یتیموں ، مسکینوںاور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ سماج کا ہر فرد باعزت ، پرسکون اور پر لطف زندگی گزارسکے۔فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ ،وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَر (۲۲)’’ پس یتیم پر سختی نہ کر ، اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ ۔ ‘‘
اللہ تعالی مصارف زکاۃ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءوَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم (۲۳) ’’صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پر چائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور راہرومسافروں کے لیے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ ‘‘
قرآن مجید نے مسکینوں اور محتاجوں کی مدد پر ابھارا ہے اور ان سے بے توجہی برتنے سے منع کیا ہے :
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ،وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ ،فَکُّ رَقَبَۃٍ ،أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ ،یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ ،أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃ (۲۴)
’’سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔ اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا ۔ کسی گردن ( غلام ،لونڈی ) کو آزاد کرانا یا بھوک والے دن کھانا کھلانا، کسی رشتہ دار یتیم کو یا خاکسار مسکین کو ۔ ‘‘
مسکینوں اور محتاجوں کا خیال نہ رکھنے والوں اور ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی اور انہیں وعید سنائی گئی ہے ۔ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْن۔ (۲۵ِ) ’’ اور (وہ ایسے بُرے لوگ ہیںکہ) مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ۔‘‘
وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۲۶) ’’اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔‘‘
احادیث میں بھی مختلف پہلوؤں سے محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے ۔
امانت کی ادائیگی
اسلامی احکام میں سے ایک حکم امانت داری ہے ۔ سماج میں امانت بڑی اہمیت کی حامل ہے ، مضبوط معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے ، جس معاشرے میں امانت ختم ہوجائے اس سے امن و سکون جاتا رہتاہے ۔ دن بدن معاشرہ روبہ ز وال ہونے لگتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن وحدیث میں امانت کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِکُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون۔ (۲۷) ’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو ۔‘‘
امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ۔إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا۔ (۲۸) ’’اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ ۔‘‘
فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُکُم بَعْضاً فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہ۔(۲۹)
نبی ﷺ نےفرمایا : ’’جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے لوٹادو اور اُس کے ساتھ بھی خیانت نہ کروجو تمہاری امانت میں خیانت کرے ۔ ‘‘ (۳۰)
معاشرے سے امانت کا ختم ہوجانا قرب قیامت کی علامت ہے : حدیث نبوی ﷺہے : ’’ جب امانت ضائع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ،صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے سوال کیا ، امانت کیسے ضائع ہوگی ۔ آپ نے فرمایا :جب معاملہ نااہل کو سونپا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔‘‘ (۳۱)
امانت کے وسیع مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اپنے امانتوں کے تئیں محتاط رہنا اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
ذمہ داریوں کی ادئیگی
اسلام خانگی اور معاشرتی امن و صلاح کے لیے ہر فرد پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہر فرداپنا فرض اداکرے :
’’تم میں سے ہر کوئی حاکم اور نگراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت اور ذمہ داری کے بارے میں بازپرس ہوگی ، امام اور بادشاہ اپنی رعایا کا نگراں ہے اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جا ئے گا ، آدمی اپنے اہل و عیال کے لیے نگراں اور حاکم ہے ،اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق دریافت کیا جائے گا ، غلام اور خادم اپنے آقاو مالک کے مال کامحافظ اور نگراں ہے اس کی ذمہ داری کے تعلق سے اس سے پوچھا جائے گا ۔ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دارہے اس کےتعلق سے باز پرس ہوگی ،تم میں سے ہر کوئی محافظ ، نگرا ں اور حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت و ذمہ داری اور امانت سے متعلق سوال ہوگا‘‘ ۔ (۳۲)
ذمہ داریوں کی ادائیگی میں باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے جب معاشرے کا ہر فرد اپنا فرض حقوق ادا کرے گا اور صاحب حق کو اس کا حق مل جائے گا تو معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا جہاں حقوق کی ادائیگی میں سستی و کوتاہی برتی گئی یا کسی کا حق مارا گیا تو آپسی تعلقات خراب ہوجائیں گے اور نتیجۃً فتنہ و فسادبرپا ہوگا۔
موانع کا ازالہ
اسلام نے جہاں آپسی تعلقات کو قائم کرنے اور باہمی تعاون پر بہت زور دیا ہے وہیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا سد باب کیا ہے ۔ کچھ موانع کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
سود کی ممانعت
سود معاشرہ کے لیے سم قاتل ہے اس سے معاشرے میں بغض و حسد اور نفرت و عداوت پھیلتی ہے ، یہ جہاں سودخور کو خود غرض بنا دیتا ہے وہیں سود دینے والے کے دل میں اس کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں ، لوگوں کے دل سے باہمی تعاون کا جذبہ محو ہوجاتا ہے ۔ اسلام نے اس کے خاتمے پر بہت زور دیا ہے اور باطل طریقے سے مال کھانے کو ممنوع قرار دیاہے ۔وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِل۔ (۳۳)’’ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (۳۴) ’’اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈر و تاکہ تمہیں نجات ملے ۔ ‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن(۳۵) ’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو ، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔‘‘
سود کی اسی قباحت کی وجہ سے اس میں ملوث تمام لوگوں کو آپ ﷺ نے ملعون قرار دیا ہے ۔ لعن رسول ﷺ آکل الربا ، وموکلہ ، وکاتبہ ،وشاھدیہ۔(۳۶) ’’رسول ﷺ نے سود کھانے والے ، سود دینے والے ،اس کا حساب لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے ۔‘‘
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
ذخیرہ اندوزی سے معیشت کی شفافیت ختم ہوجاتی ہے ، اشیاء ضرورت پر اجارہ داری ہونے لگتی ہے ، لوگ معاشی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی کے پیش نظر اسلام نے ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دیا ہے اس کی روک تھام کے لیے حکومت کی مداخلت کی بھی اجازت ہے ۔ نبی ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو ملعون قرار دیا اور اس عمل کو گنہگاروں کا مشغلہ بتا یا ہے ۔ عن معمر بن عبد اللہ فضلہ قال : سمعت رسول ﷺ یقول : لایحتکر الا خاطئی ۔ (۳۷) ’’حضرت معمر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ گنہگار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ۔
ناپ تول میں کمی کی ممانعت
ناپ تول میں کمی ایک سماجی برائی ہے جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے ،جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی عام ہوجائے اللہ اس سے خیر کو اٹھالیتا ہے اور تباہی اس کا مقدر ہوتی ہے اللہ تعالی نے قوم شعیب کو اس برائی کی وجہ سے قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنادیا ، وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ،الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ،وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ۔(۳۸) ’’ خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ، کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ ‘‘
آپ ﷺ نے تجارت میں دھوکہ سے منع فرمایا اور اسے بے ایمانوں کا کام قرار دیا : من غشنا فلیس منا (۳۹)’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ‘‘
ایک جگہ اللہ تعالی نے وزن پورا کرنے کا حکم دیااو ر اس میں کمی کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : أَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ ،وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ، وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی ْالْأَرْضِ مُفْسِدِیْن۔(۴۰) ’’ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میںنہ ہو اور سیدھی صحیح ترازو سے تولا کرو ۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ، بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔‘‘
مقروض کے ساتھ ہمدردی
باہمی تعاون کی اہم شکل قرض کی فراہمی ہے ، قرض کے ذریعہ مساکین اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کی جاتی ہے لیکن اگر قرض وصول کرنے میں سختی کا معاملہ کیا جائے اور مقروض کو مہلت نہ دی جائے تو یہ اس کے لیے پریشان کن ثابت ہوتا ہے ، اسلام مقروض کے ساتھ ہمدردی اور فراخ دلی کی تلقین کرتا ہے اور اسے اجر عظیم قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشادہے : وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَی مَیْسَرَۃٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔(۴۱)’’ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت بہتر ہے ،اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘
حدیث نبوی ﷺ ہے :’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کسی مومن کی دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اللہ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے بچائے گا ،جو کسی مسلمان محتاج پر آسانی کرے گا اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ،جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا ،اور جب بند ہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا اللہ تعالی اس کی مدد میں لگا رہے گا‘‘۔ (۴۲)
مقروض کے ساتھ جب فراخدلی کا معاملہ کیا جائے تو اس کے اندر اپنے محسن کے تئیں الفت و محبت پیدا ہوگی ، باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ ’’جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے ۔ ‘‘ (۴۳)
حوالہ جات
(۱) قرآن مجید ،التوبہ:۷۱ (۲)قرآن مجید، المجادلۃ:۹
(۳)ابوداؤد ، کتاب الجہاد ، باب فی السریۃ ترع علی اہل العسکر:۲۷۵۱
(۴)قرآن مجید ، المائدۃ:۲ (۵)رواہ مسلم ، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان۔۔۔۔۔۔۔:۴۹
(۶)رواہ البخاری، کتاب الشرکۃ ، ھل یقرع فی القسمۃ والاستھام فیہ:۲۴۹۳
(۷)قرآن مجید ، الانفال: ۲۵ (۸)قرآن مجید ، اٰل عمران : ۱۱۰
(۹)قرآن مجید، الحجرات: ۱۰ (۱۰)قرآن مجید ، الاعراف: ۱۴۲
(۱۱)قرآن مجید، الحجرات: ۹ (۱۲)قرآن مجید ، النساء: ۱۱۴
(۱۳)رواہ البخاری، کتاب الصلح ، باب فضل الاصلاح بین الناس والعدل بنیھم :۲۷۰۷
(۱۴)رواہ البخاری، کتاب الصلح ، باب لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس : ۲۶۹۲
(۱۵)قرآن مجید ، النساء :۷۵
(۱۶)رواہ البخاری، کتاب الظالم ، باب اعن اخاک ظالما او مظلوما :۲۴۴۳
(۱۷)شرح النووی ، جلد:۷،ص:۲۸
(۱۸)رواہ البخاری ، کتاب المظالم ، اعن اخاک ظالما اومظلوما:۲۴۴۳
(۱۹)رواہ مسلم، کتاب البر و الصلۃ ، باب نصر الاخ ظالما او مظلوما:۶۵۸۲
(۲۰)قرآن مجید ، ھود: ۱۰۲
(۲۱)رواہ الترمذی، ابواب الفتن ، باب ماجاء فی نزول العذاب اذالم یغیرالمنکر:۲۱۶۸
(۲۲)قرآن مجید ، الضحیٰ: ۹-۱۰ (۲۳)قرآن مجید ، التوبۃ: ۶۰
(۲۴)قرآن مجید ، البلد: ۱۱-۱۶ (۲۵)قرآن مجید، الفجر: ۱۸
(۲۶)قرآن مجید، الماعون : ۲-۳ (۲۷)قرآن مجید، الانفال ا؛ ۲۷
(۲۸)قرآن مجید، النساء: ۵۸ (۲۹)قرآن مجید، البقرۃ: ۲۸۳
(۳۰)رواہ الترمذی، کتا ب البیوع ، باب ادالامانۃ الی من ائتمنک : ۱۲۶۴۔صححہ الالبانی رحمہ اللہ
(۳۱)رواہ البخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ : ۶۴۹۶
(۳۲)رواہ البخاری، کتاب العتق، باب العبد راع فی مال سیدہ : ۲۵۵۸
(۳۳)قرآن مجید، البقرۃ: ۱۸۸ (۳۴)قرآن مجید، اٰل عمران : ۱۳۰
(۳۵)قرآن مجید، البقرۃ: ۲۷۸
(۳۶)رواہ مسلم ، کتاب المساقاۃ ، باب لعن آکل الربا ومکلہ۔۔۔:۱۵۹۷
(۳۷)رواہ مسلم ، کتاب المساقاۃ ، باب تحریم الاحتکار فی الاقوات:۴۱۲۲
(۳۸)قرآن مجید ،المطففین : ۱-۳
(۳۹)رواہ مسلم ، کتاب الایمان ، باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا:۱۰۳
(۴۰)قرآن مجید، الشعراء :۱۸۲-۱۸۳ (۴۱)قرآن مجید، البقرۃ : ۲۸۰
(۴۲)رواہ مسلم، کتاب الذکر والدعا ء،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر: ۲۶۹۹
(۴۳)رواہ البخاری، کتاب المظالم ، لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ : ۲۴۴۲
مشمولہ: شمارہ اپریل 2018